عورت نصف انسانیت ہے ، مرد انسانیت کے ایک حصہ کی ترجمانی کرتاہے تو عورت انسانیت کے دوسرے حصے کی ترجمان ہوتی ہے ، عورت کو نظر انداز کرکے بنی نوع انسان کے لئے جو بھی پروگرام بنے گا وہ ناقص اور ادھورا ہوگا ،ہم ایسے کسی سماج اور معاشرے کا تصور نہیں کرسکتے جو تنہا مردوں پر مشتمل ہو اور جس میں کسی عورت کی ضرورت نہ ہو ، دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہیں ، نہ عورت مرد سے مستغنی ہے اور نہ ہی مرد عورت سے بے نیاز ۔
اس بنیادی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت اور اس کے انسانی حقو ق کے بارے میں اسلامی نظریہ اور طرز فکر دنیاکے دوسرے ادیان و مذاہب کے نظریات سے قطعی مختلف ہے ،اسلام نے معاشرتی زندگی کی بنیاد کو مرد و عورت دونوں کے باہمی ارتباط پر قائم رکھاہے ، اسلام کی نظر میں نہ مرد کے بغیر ایک اچھا معاشرہ قائم کیاجاسکتاہے اور نہ ہی عورت کے بغیر اس کی ترقی ممکن ہے ، احترام و قانون میں دونوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔
اسی لئے اسلام نے جہاں مردوں کے لئے قوانین پیش کئے ہیں وہیں عورتوں کے لئے قوانین مرتب کئے ہیں ، دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ فقہی کتابوں میں بھی عورتوں کے مخصوص احکام و مسائل بیان کئے ہیں تاکہ وہ بھی ان مسائل پر عمل کرکے اسی طرح خدا کا تقرب حاصل کریں جس طرح ایک مرد اپنے مخصوص مسائل پر عمل کرکے خدا کا تقرب حاصل کرتا ہے ۔