مقالات

 

مامتا، ماں کی حسین تصویر

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

"مامتا "حقیقی محبت کا نام ہے جو ایک ناقابل بیان احساس سے آشنا کراتی ہے ، ایسا احساس جو راحت و آرام اور لذت آفرینی سے مملو اور بھرپور ہوتاہے ، یہ ایک طرح کی محبت ہے لیکن ان عام محبتوں سے بالکل منفرد جو اس خود غرض دنیا میں اپنے مطلوبات کی برآوری کے لئے کی جاتی ہے ، اس محبت میں سچائی کا سورج اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور روشن رہتاہے ، یہ سچی محبت ایک مستقل حقیقت ہے ۔
دنیا کی عام محبتوں اور اس انوکھی محبت میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ دنیاوی محبت میں خودغرضی کا لیبل چسپاں کرکے اسے حسین بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن چونکہ اس محبت کا تعلق روح کی گہرائیوں سے ہے اس لئے اس میں خود غرضی جیسے لچر اور پوچ احساسات کا قطعی دخل نہیں ہوتا، بالکل بے غرض اور بے لوث ہوتی ہے یہ محبت ..۔
ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے:''ہر عورت کی فطرت میں مامتا کا کچھ نہ کچھ ضرور اثر ہوتاہے اور یہ مامتا اس وقت بڑی شدت سے جاگ اٹھتی ہے جب وہ کسی ایسے کو تکلیف میں مبتلا دیکھتی ہے جس کااس سے کچھ تعلق ہو''۔
''ماں'' مامتا کی منھ بولتی حسین تصویر ہے ، اس کی زندگی کا ہر قدم اسی محبت کا احساس دلاتا ہے جوبالکل بے غرض اور بے لوث ہوتی ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک بچہ سے اس کا تعلق بڑا گہرا،والہانہ اور اٹوٹ ہوتاہے اسی لئے جب اسے معمولی سی پریشانی میں دیکھتی ہے تو بے دھڑک جاگ کر خود بھی پریشان ہوجاتی ہے جو صرف اسی سے مخصوص ہے یعنی کائنات میں کوئی ایسا نہیں جو ماں کی اس انوکھی اور بے لوث محبت کی نظیر پیش کرسکے ۔رات بھر آنکھوں میں نیند لئے جاگ کر بچے کی حفاظت کرنا ، اپنی ذات سے زیادہ اسکی صفائی کا خیال رکھنا ، اس کی موہوم زبان کو افہام و تفہیم کے سخت ترین مراحل سے گزار کراس کی وقتی اور اہم ضرورتیں پوری کرنا ، اسے مصیبتوں میں دیکھ کر آنکھوں سے سیلان اشک رواں رکھنا ...یہ وہ باتیں ہیں جو صرف چشمۂ مامتا سے پھوٹتی اور نکلتی ہیں۔
چونکہ یہ سچی محبت عورت کی روح میں پیوست ہوتی ہے اسی لئے اگر اس دبی ہوئی حقیقت کو ابھار دیاجائے تو پیچیدہ گرہیں کھولی جاسکتی ہیں ، بڑے بڑے اور عجیب و غریب فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی کی ظاہری خلافت کے زمانے میں دو عورتیں ایک ہی گھر میں زندگی بسر کررہی تھیں ، ایک دن ان دونوں کے درمیان اختلاف ہوگیا کہ گھر میں موجود بچہ کس کا ہے ...؟ ایک کہتی: میرا ہے ، دوسری کہتی : میرا ہے ۔ حضرت علی مسند خلافت پر بیٹھے ہوئے تھے ، ان دونوں عورتوں نے اپنا مسئلہ حضرت کے سامنے پیش کیا اور بچے کو فرش مسجد پر لٹادیا ،دونوں ایک ہی دعویٰ کرتیں کہ یہ بچہ میرا ہے ، یہ بچہ میرے بطن سے پیدا ہواہے۔ دونوں اپنے دعویٰ پر دلائل و براہین بھی پیش کررہی تھیں ، مسئلہ کافی پیچیدہ اور مشکل تھا ،گواہ نہ اس کے پاس اور نہ اس کے پاس۔ اس مسئلہ میں قسم کے ذریعہ بھی فیصلہ نہیں کیاجاسکتا ، دونوں قسم کھالیں ۔
ایسے پیچیدہ اور مشکل مسئلے میں مشکل کشاء حضرت علیؑ نے ان دونوں کے لچر دلائل سننے کے بعد قنبر سے فرمایا: اٹھو اور میری تلوار لے آؤ۔ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے خوف و ہراس اور حیرت کے عالم میں کہا: یا علی !تلوار کس لئے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا: اس لئے کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس بچے کے دو ٹکڑے کرو ںاور ایک ایک حصہ دونوں میں تقسیم کردوں ، کیا رفع اختلاف کے لئے یہ فیصلہ بہترنہیں ...؟ ان میں سے ایک نے چند لمحہ سوچنے کے بعد کہا: ہاں !میں راضی ہوں۔ لیکن دوسری عورت چیخ پڑی : نہیں یا امیر المومنین !میں نے اس بچہ سے اپنا حق واپس لیا ، آپ شمشیر نہ چلائیں ، میں اس کی ماں نہیں ہوں ، اس کی ماں یہ عورت ہے، اس بچہ کو اس کے حوالے کردیں۔ حضرت علی متبسم ہوئے اور فرمایا: نہیں !تو ہی اس بچہ کی حقیقی ماں ہے کیونکہ تو نے اس بچے کی حفاظت کے لئے حق مادری سے بھی چشم پوشی کرلی۔(١)
دنیا کی کسی عدالت سے پوچھئے کہ اس بچہ کو دو ٹکڑے کرنے کا فیصلہ صحیح ہے ..؟! اصل میں حضرت علی اس انوکھے فیصلے کے ذریعہ اس سچائی کو ابھار رہے تھے جسے ''مامتا'' کہتے ہیں۔
لیکن اس واقعہ کا اس سے زیادہ اہم پہلو اس بچہ کی حفاظت کامسئلہ تھا جو ایک ماں اپنی مامتا کا گلا گھونٹ کر واضح کرنا چاہتی تھی ، اصل میں حقیقی مامتا خود غرض نہیں ہوتی اس کا مطمع نظر صرف یہ نہیں ہوتا کہ اس کا بچہ اسے مل جائے تاکہ اپنے سینے سے لگاکر چند لمحوں کے لئے تسکین قلب حاصل کرلے بلکہ اس کا واقعی ہدف اس بچہ کی حفاظت ہوتی ہے ، اس کا بچہ جہاں رہے صحیح و سالم اور خوش و خرم رہے ، اس پر مصیبت کی آنچ بھی نہ آنے پائے ۔
یہ جذبۂ حفاظت کبھی اپنے دلی جذبات و احساسات کو پس پشت ڈال کر ظاہر ہوتاہے تو کبھی بچہ کی حفاظت کے لئے اسکی کوشش رہتی ہے کہ ہر آن اس پر نگاہ مامتا مرکوز رکھے تاکہ اگر اس پر کوئی مصیبت آنی بھی چاہے تو اپنے اوپر لے کر بچہ کو محفوظ رکھے ،اسی لئے جب کوئی بچہ اپنی ماں سے کچھ دنوں کے لئے جدا ہوتاہے تو وہ ماں اپنی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب بہاکر اسے رخصت کرتی ہے لیکن اس کے ظرف حیات میں اپنی مامتا کی بے پناہ دعائیں ڈال کر ہر آن اس کی حفاظت کا سامان فراہم کرتی ہے ۔
امام حسین سے جناب فاطمہ زہرا (س) کی محبت محتاج بیان نہیں ہے ، آپ نے اپنی زندگی میں اپنے بچوں پر مامتا کے حسین پھول نچھاور کئے جو تاریخ عالم و آدم میں بے مثال ہیں، آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے مواقع پر امام حسن و حسین کی ضرورتوں کا خیال رکھا ، ان کے لب کھولنے سے پہلے ہی ان کی ضرورت پوری کردی لیکن اس مثالی مامتا کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ آپ نے موت کے بعد بھی اپنی مامتا کا ثبوت فراہم کیا ۔
شب کی تاریکی چھار سو چھائی ہوئی تھی ، مدینہ کی گلیاں سناٹے اور تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں ، امام حسین بستر استراحت پر آرام فرمارہے تھے کہ اچانک انہیں شدید پیاس محسوس ہوئی ، آپ نے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھا کچھ نظر نہیں آیا ، پھر آواز کے ذریعہ دوسروں سے مددحاصل کرنے کی کوشش کی لیکن شاید سب بے خبر سورہے تھے ، اسی وقت شاید مہربان ماں کی یاد یا پیاس کی شدت کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ ادھر امام حسین علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسو نکلے اور ادھر ایک ماں کی مامتا تڑپ اٹھی ۔
اس وقت حضرت علی قبر زہراء پر قرآن خوانی فرمارہے تھے ، اچانک قبرمیں جنبش ہوئی اور اندر سے لرزتی ہوئی آواز آئی : میرے والی و وارث !قرآن خوانی بعد میں کیجئے گا پہلے میرے حسین کی خبر لیجئے ، میرا حسین بہت پیاسا ہے''۔
آواز میں مامتا کی تڑپ اور لہجے میں التجا صاف محسوس کی جاسکتی ہے ، اصل میں جناب زہراء (س)یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ دنیا میں جسم و روح کا رابطہ منقطع ہوسکتاہے لیکن ایک ماں کی مامتا سے اس کے بچہ کا تعلق ختم نہیں ہوسکتا ۔
اس کا واضح ترین ثبوت اسی مدینہ میں فراہم کیاجاسکتاہے زمانے کے جابر و ظالم حکمرانوں کی نجس اور گندی سیاست سے مجبور ہوکر امام حسین نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا لیکن اس وقت امام حسین علیہ السلام اضطراب و اضمحلال کی جس کیفیت سے دوچار تھے اسے قید تحریر میں نہیں لایاجاسکتا ، آپ سے نہ صرف نانا اور بھیا کی لحد چھوٹ رہی تھی بلکہ اس ماں کی قبر بھی نظروں سے اوجھل ہورہی تھی جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز تھیں ، اب تک معمول تھا کہ دن میں ایک مرتبہ صحیح قبر کی زیارت کے ذریعہ دل کو تسلی پہونچا لیاکرتے تھے لیکن اب تو اس زیارت سے بھی محروم ہورہے تھے ۔
چنانچہ امام حسین مدینہ سے رخصت ہونے سے پہلے اماں کی لحد کے پائتیں کھڑے ہوئے ، آنکھوں میں سیل اشک لئے ، مضطرب دل ک ساتھ در د بھری آواز میں کہا: اماں!آپ کا حسین آپ سے رخصت ہورہاہے ، اماں !قوم جفا کار نے مدینہ کو اس قابل نہیں رکھا کہ آپ کا حسین اس میں زندگی گزار سکے اور دن میں ایک ہی مرتبہ صحیح آپ کی قبر کی زیارت سے مشرف ہوسکے ، اماں!آپ کا حسین جارہاہے اسے دعائیں دیجئے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے ۔خدا حافظ
جس ماں کی یہ کیفیت ہوکہ لب کھولنے سے پہلے ہی اس کی ضرورتیں پوری کردے اس کے سامنے جب امام حسین نے روداد غم بیان کی ہوگی تو اس کے ممتا بھرے دل پر کیا گزری ہوگی ، مجھے نہیں معلوم لیکن تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ جب امام حسین اپنی بات ختم کرچکے تو اچانک قبر میں لرزش ہوئی اور ایک نحیف سی آواز آئی : میرے لال !اس سفر میں خود کو تنہا محسوس نہ کرنا ، تیری دکھیاری ماں تیرے ساتھ ساتھ ہوگی ۔
جناب فاطمہ بتانا چاہتی ہیں کہ ایک بیٹا حالات و ماحول کی وجہ سے ماں سے دور ہوسکتا ہے لیکن ماں کی مامتا ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے ۔
اپنی اولاد کے لئے دل میں حفاظت و سلامتی کا جذبہ رکھنا صرف ذی شعور انسانوں کی زندگی کا خاصہ نہیں ہے بلکہ حیوانوں کے اندر بھی یہ جذبۂ حفاظت بدرجۂ اتم پایاجاتاہے ، ایک واقعہ تمام انسانوں کو دعوت فکر دے رہاہے:
'' ایک دن ایک شخص صحرا کے راستے سے مدینہ جارہاتھا ، راستے میں اس کی نگاہ ایک گھونسلے پر پڑی، وہ اس کے پاس آیا اور خوبصورت پرندے کو دیکھ کر خود سے کہنے لگا: اس خوبصورت پرندے کو رسول خدا (ص ) کی خدمت میں تحفةًپیش کروں گا ، آنحضرت خوش ہوجائیں گے ۔یہ سوچ کر اس نے پرندہ لیا اور رسول خدا(ص ) کی بارگاہ میں پہونچا ، اس وقت بہت سے اصحاب و انصار آنحضرت کی خدمت میں موجود تھے ، اچانک سب نے دیکھا کہ ایک پرندہ دروازے سے اڑتاہوا اندر آیا اورلوگوں سے خوف زدہ ہوئے بغیر اپنے آپ کو اس معصوم چھوٹے پرندے پر ڈال دیا ۔معلوم ہوا کہ یہ پرندہ اپنی مامتا سے مجبور ہو کر اس بچہ کی تلاش میں یہاں تک آئی ہے اورلوگوں کے ہجوم کے باوجود اپنے آپ کو اس بچے پر ڈال کر اس محبت کا اعلان کررہی ہے جو ایک ماں اپنے بچہ سے کرتی ہے ، بالکل اٹوٹ اور بے لوث محبت ۔
رسول خداۖ نے لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: تم لوگوں نے ایک ماں کی محبت کو اپنے بچے کے سلسلے میں محسوس کیا لیکن جان لو کہ خداوندعالم اس سے ہزار گنا زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتاہے ''۔(٢)
لیکن کبھی کبھی یہ واقعی الفت اور سچی محبت یعنی مامتا بھی مصلحتوں اور خواہشوں کے حجاب میں چھپ جاتی ہے ؛ ذرا مندرجہ ذیل واقعہ ملاحظہ فرمائیے :
'' ایک عورت کے تین بھائی تھے ، جائداد بہت زیادہ تھی ، اس عورت کا بچہ بڑا ہوا تو اپنے ماموئوں سے اپنا حق مانگنے لگا ، ایسے وقت میں عورت نے اپنا فرزند ہونے سے صاف انکار کردیا ، لڑکا کہتا ہے : یہ میری ماں ہے اور عورت کہتی ہے : ابھی تومیں کنواری ہوں ، میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے ۔حضرت علی نے اس مصلحت اور خواہش کے رنگ کو چھڑانے کے لئے فرمایا: میں اس جوان سے تیری شادی کرتاہوں ، مہر کی رقم بیت المال سے منگوائی اورجوان سے فرمایا: کل نہادھو کر میرے پاس آنا ۔ یہ سنتے ہی وہ عورت چیخ پڑی : النار النار یا علی !آپ ماں سے بیٹے کی شادی کرارہے ہیں اور پھر اس نے ساری مصلحت اگل دی۔
ایسے ہی ہوس اورخواہشات میں دبی ہوئی ایک عورت کے واقعہ کو جوش ملیح آبادی نے نظم کیاہے:
راہ میں اک غریب عورت کے
عشق نے بڑھ کے تیر مار دیا

ایک رہرو نے اس کے سینے میں
جذبۂ دل بری ابھار دیا

قلب نازک کو آن واحد میں
شوق نے مژدۂ بہار دیا

عشق نے حسن کی نگاہوں کو
جلوۂ تیغ آب دار دیا

اور عورت نے ایک لوچ کے ساتھ
طفل کو گود سے اتار دیا(٣)

حوالہ جات :
١۔معصوم دوم ص١٧١؛ ١٠٠١ داستان از زندگانی امام علی ص٤٢٩
٢۔قصہ ہای حیوانات در قرآن و حدیث ص ١٧٥
٣۔حرف و حکایت مامتا اور محبت ص١٢٣
مقالات کی طرف جائیے