|
صنف نازک ؛ اسلامی تصور کائنات میں؛ دوسری قسط |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
اسلام میں عورت کی حیثیت عورت اور اس کے انسانی حقو ق کے بارے میں اسلامی نظریہ اور طرز فکر دنیاوی نظریات سے قطعی مختلف ہے کیونکہ اسلامی تصور کائنات میں عورت کو جو درجہ دیاگیاہے اس نے تمام حقارت آمیز باطل تصورات و خیالات اور جاہلانہ نظریات کو ایک دم سے مسترد کرتے ہوئے اس کی جگہ عوام کے سامنے معاشرتی تعلقات کے سلسلے میں بالکل نئے اور حیات آفریں نمونے پیش کئے ہیں۔ اسلام نے معاشرتی زندگی کی بنیاد کو مرد و عورت دونوں کے باہمی ارتباط پر قائم رکھاہے ، اسلام کی نظر میں نہ مرد کے بغیر ایک اچھا معاشرہ قائم کیاجاسکتاہے اور نہ ہی عورت کے بغیر اس کی ترقی ممکن ہے ، احترام و قانون میں دونوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے ؛ قرآن کا ارشاد ہے : ''اے لوگو!اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اس نفس سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو زمین پر پھیلادئیے ''۔(٧) ایک دوسری آیت میں خداوندعالم کا ارشاد ہے : ''مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، صاحب ایمان مرد اور صاحب ایمان عورتیں ، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں ، سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، تواضع سے کام لینے والے مرد اور تواضع سے کام لینے والی عورتیں ، خیر و خیرات کرنے والے مرد اور خیر و خیرات کرنے والی عورتیں ، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی عفت کی حفاظت کرنے والی عورتیں ، خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں ،اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیا کررکھاہے ''۔(٨) معاشرتی زندگی کے متذکرہ اہم ترین ارکان میں مرد و عورت دونوں کو مساوی حیثیت دے کر یہ بتایاگیا ہے کہ عورت کسی اعتبار سے مردوں سے کم نہیں ہے اور پھر (ِنَّ َکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ َتْقَاکُمْ )(٩)کے ذریعہ یہ باور کرایا گیاہے کہ خداوندعالم کے معنوی قرب کے لئے ایک خاص صنف کی نہیں بلکہ تقویٰ ، ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہوتی ہے جس میں مرد و عورت دونوں یکساں اور مساوی ہیں۔ خداوندعالم کا ارشاد ہے : ''جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو تو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزادیں دے جو وہ زندگی میں انجام دیتے تھے ''۔(١٠) اصل میں اس منفرد نظریۂ حیات کے ذریعہ اسلام نے تمام نوع انسان کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر یہ پیغام دیاہے کہ : نہیں مکر و فریب کی بیٹی
بنت حوا ہے پیکر عصمت یہاں اسلام کی نظر میں عورت کی مجموعی حیثیت پر اختصار سے روشنی ڈالی جارہی ہے:
الف: بیٹی صاحب اولاد ہونا انسان کی فطری خواہش ہے اس لئے کہ اولاد گلشن زندگی کی زینت اور مایۂ سکون و اطمینان ہوتی ہے؛ خداوندعالم کا ارشاد ہے : ''مال اور اولاد زندگانی زندیا کی زینت ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیان پروردگار کے نزدیک ثواب اور امید دونوں کے اعتبار سے بہتر ہیں''۔(١١) انسان کی یہ خواہش جب عملی صورت اختیار کرتی ہے تو اس کی مسرت قابل دید ہوتی ہے ، وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا ۔ لیکن جب اسے بیٹی کی پیدائش کی نوید دی جاتی ہے تو چہرے کا رنگ اڑ جاتاہے اور اس کی مسرتیں پھیکی پڑ جاتی ہیں ؛ اس لئے کہ اسے بیٹی نہیں بیٹے کی خواہش تھی ۔یہ صرف ایک دور سے مخصوص نہیں ہے ، کل کا عرب بدو اپنی بیٹی کو اس لئے زندہ درگور کردیتاتھا کیونکہ وہ جنگ میں شرکت نہیں کرسکتی تھی اور مال غنیمت کو لوٹ کر اپنے گھر میں نہیں لاسکتی تھی اور آج بھی جہیز ، شادی اور دوسرے اخراجات کی وجہ سے اسے بوجھ سمجھا جاتاہے ۔ اسلام کی نظر میں لڑکی بوجھ نہیں بلکہ انسانی زندگی میں اس پھول کی مانند ہے جسے سونگھ کر انسان خوشیوں کا احساس کرتاہے؛ باقر العلوم امام محمد باقرعلیہ السلام سے مروی ہے : بشر النبی بابنة نظر فی وجوہ اصحابہ فرأی الکراھة فیھم فقال مالکم ریحانة اشمھا و رزقھا علی اللہ عزوجل ''رسول خدا کو بشارت دی گئی کہ آپ کے یہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے ، یہ خبر سن کر اصحاب کے چہرے کا رنگ بدل گیا ، ان کے چہرے سے کراہیت ظاہر ہونے لگی ، آپ نے فرمایا : تمہیں کیاہوگیاہے ؟ لڑکی ایک پھول ہے جسے ہم سونگھتے ہیں اور اس کے رزق کی ذمہ داری خدا کے اوپر ہے''۔(١٢) اسلام کی نظر میں بیٹیوں کو بیٹوں پر تقدم حاصل ہے ؛ حذیفہ بن یمان سے مروی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : خیرُ اولادِکم البناتُ '' لڑکیاں تمہاری بہترین اولاد ہیں''۔(١٣) اگر کسی کے یہاں لڑکی نہیں ہے تو مستحب ہے کہ وہ خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا کر بیٹی کی دعا کرے ،حضرت ابراہیم نے اسماعیل و اسحاق جیسے بیٹوں کے ہوتے ہوئے خداسے بیٹی کی دعا کی ۔ حضرت صادق آل محمد(ص)نے اس اہم دعا کو اس طرح نقل کیاہے: ان ابراہیم سال ربہ یرزقہ ابنة تبکیہ و تندیہ بعد موتہ ''بے شک ابراہیم نے خدا سے بیٹی کے لئے دعا کی تاکہ وہ ان کے مرنے کے بعد ان پر گریہ و زاری کرے ''۔(١٤) یہ سچ ہے کہ مہربانی اور رحم و عطوفت کے جو جذبے لڑکیوں کے وجود میں پائے جاتے ہیں ، ان سے لڑکے قطعی طور پر محروم ہیں ؛ رسول خدا(ص)نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: نعم الولد البنات ملطفات مجھزات مونسات مبارکات مفلیات''لڑکیاں کتنی اچھی ہوتی ہیں ، مہربان ، نرم مزاج ، مددگار ، کام کرنے کے لئے تیار ، انسان کی انیس ، بابرکت اور پاکیزگی کو دوست رکھنے والی ہوتی ہیں''۔(١٥) اصل میں اسلام نے بے پناہ تاکید کے ذریعہ لڑکیوں کے ان حقوق کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے جن سے وہ ہمیشہ محروم رہی ہے حتی کبھی کبھی گھر میں باپ بھائی کے ناروا سلوک کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوکر پوری زندگی انہیں کا محکوم خیال کرتی ہے ، اگر بغور دیکھاجائے تو کل کے عرب ماحول اور آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ، ہاں ! انداز ستم بدلا ہوا ہے : رات دن بس ترستی رہیں بیٹیاں آنسوؤں سی برستی رہیں بیٹیاں
سامنے مسکراتی ، لجاتی رہیں اور چھپ کر سسکتی رہیں بیٹیاں
ماں کی ممتا ، کبھی پیار بیوی کادیں پھر بھی دل میں کسکتی رہیں بیٹیاں
کوئی موسم ہو ان کے لئے ہے خزاں بارشوں میں جھلستی رہیں بیٹیاں
آگ گھر میں کسی طرح سے بھی لگی ہر دفعہ اس میں جلتی رہیں بیٹیاں
ب:زوجہ عورت کی اجتماعی زندگی میں ایک مرحلہ اس وقت آتا ہے جب وہ زوجہ کی حیثیت سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے ، جن حالات میں وہ دوسرے ماحول میں جاکر زندگی شروع کرتی ہے اس کا تجزیہ کرنے سے یہ بات ہر شخص کے لئے آشکار ہوجاتی ہے کہ اس وقت اسے حوصلہ ، مہرو محبت اور اپنائیت کی شدید ضرورت ہوتی ہے ، اپنوں کو چھوڑ کر غیروں اور نا آشنا افراد کے درمیان زندگی بسر کرنا یقیناایک سخت مرحلہ ہے جسے مہر و محبت اور اپنائیت کے بغیر آسان نہیں بنایاجاسکتا ۔لیکن طول تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت کو سب سے زیادہ ظلم و ستم زندگی کے اسی مرحلہ میں جھیلنا پڑے اور ایسے نازک اور سخت مرحلہ میں اسے زر خرید غلام کی حیثیت دے کر اس کی شخصیت کے ساتھ کھلواڑ کیاگیا۔ لیکن اسلامی آئین کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اس نے عورت کے حوالے سے سب سے زیادہ عزت و احترام کی تاکید اسی مرحلۂ زندگی میں کی ہے اور بتایاہے کہ بیوی زرخرید غلام کی طرح نہیں ہے بلکہ سکون زندگی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ؛ خداوندعالم کا ارشاد ہے : "اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری شریک حیات کو پیدا کیا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرسکو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و الفت قرار دی کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں''۔(١٦) اسلام کی نظر میں بیویاں اس لباس کی طرح ہیں جس کا استعمال ہر شخص کی اولین ضرورتوں میں شامل ہے ؛ خداوندعالم فرماتاہے : ''تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو''۔(١٧) معاشرتی زندگی میں عورت کی عزت و اہمیت بحال کرنے کے لئے اسلام نے مرد و عورت دونوں کے حقوق کو مساوی حیثیت دی ہے ، ایک جگہ قرآن مجید کا ارشاد ہے : ''اور عورتوں کا مردوں پر وہی حق ہے جو مردوں کا عورتوں پرہے''۔(١٨) احادیث و روایات میں بھی کثرت سے شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے ؛ ایک حدیث میں رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: خیر کم خیرکم لاھلہ و انا خیر کم لاھلی '' تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سب سے اچھا برتائو کرتاہے اور میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ تم سب سے بہتر سلوک کرتاہوں ''۔(١٩) ایک دوسری جگہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقا والطفھم باھلہ خیارکم خیارکم لنسائہ استوصوا بالنساء خیرا''مومنین میں کامل الایمان وہ افراد ہیں جو خلق خدا کے ساتھ نیکی اور اہل و عیال کے ساتھ لفط و محبت کرتے ہیں ، تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جوانی بیوی کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتاہے ''۔(٢٠) اسلام نے زوجہ کے حقوق اور اس کی عزت و عظمت کے متعلق اپنی حساسیت کا مظاہرہ کرکے ان اقوام و ملل اور ادیان عالم کے لئے لمحۂ فکریہ دیاہے جو نفاذ قانون میں جانبدارانہ رویہ اختیار کرکے صنف نازک کی ہتک حرمت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
ج: ماں عورت کی عظمت و اہمیت کا ایک اعلی ترین مظہر اس کا ماں ہونا اور ماں بننا قرار دیاجاسکتاہے ۔ ماں کی عظمت و رفعت کی اختصاصی شان یہ ہے کہ اس نے تمام متمدن اور غیر متمدن تہذیب و ثقافت میں اپنی عظمت کا لوہا منوایاہے اور قومی تعصب و عناد سے ہٹ کر تاریخ انسانیت کے ہر دور میں کسی نہ کسی حد تک ضرور مورد احترام رہی ہے ۔ اسلام کی نظرمیں بھی '' ماں '' اپنی عظمت و بلندی کی معراج پر نظر آتی ہے ؛ قرآن و حدیث میں ماں کا خصوصی تذکرہ کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر کیاگیاہے ، خداوندعالم کا ارشاد ہے : ''اور ہم نے انسان کو ماں کے سلسلے میں نیک برتائوکرنے کی وصیت کی ، اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور پھر (ولادت کے ) دوسال بعد جاکر اس کی دودھ بڑھائی کی (لہذا ) میرا شکریہ اداکرو اور اپنے والدین کا بھی شکریہ اداکرو''۔(٢١) ایسی سخت اور اہم ذمہ داری کی متحمل ہونے کی وجہ سے اسلام نے ماں کی اطاعت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کو باپ کے حقوق پرمقدم قرار دیاہے جسے متواتر احادیث میں ملاحظہ کیاجاسکتاہے : حکم بن خرام نے رسول خدا(ص) سے سوال کیا : یا رسول اللہ !میں کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو ۔انہوں نے پھر پوچھا: پھر کس کے ساتھ نیکی کروں ؟ آپ نے وہی جواب دیا: ماں کے ساتھ بھلائی کرو۔ انہوں نے پھر جرائت کی کی : اس کے بعد کون حسن سلوک کا مستحق ہے ؟ جواب ملا: تمہاری ماں حسن سلوک کی مستحق ہے۔چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا: اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو۔ (٢٢)
حوالے: ٧۔نسا١ ٨۔احزاب ٣٥ ٩۔حجرات ١٣؛ ترجمہ آیت : بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ۔ ١٠۔نحل ٩٧ ١١۔کہف ٤٦ ١٢۔وسائل الشیعہ ج٢١ ص ٣٦٥ ؛ بحار الانوار ج٢٠ ص ٨٥؛ شیخ صدوق علیہ الرحمة کی کتاب '' ثواب الاعمال '' میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ واقعہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت کے وقت رونماہوا ۔( ملاحظہ ہو: ثواب الاعمال ص٢٠٢؛ الارشاد شیخ مفید ج١ ص ٨٥) ١٣۔بحار الانوار ج١٠١ص ٩١؛ مکارم الاخلاق ص ٢١٩ ١٤۔وسائل الشیعة ج١٢ ص ٣٦١ ١٥۔اصول کافی ج٦ ص ٥؛ وسائل الشیعة ج٢١ ص ٣٦٢؛ بحار الانوار ج١٠١ص ٩٨ ١٦۔روم ٢١ ١٧۔بقرہ ١٨٧ ١٨۔بقرہ ٢٢٨ ١٩۔وسائل الشیعة ج٢٠ ص ١٧١؛ مکارم الاخلاق ص٢١٦؛ بعض روایتوں میں '' اھل '' کی جگہ '' نساء '' کی لفظ استعمال کی گئی ہے ۔( ملاحظہ ہو: وسائل الشیعة ج٢٠ ص ١٧١؛ من لا یحضرہ الفقیہ ج٣ ص ٥٥٥) ٢٠۔وسائل الشیعة ج١٢ ص ١٥٦ ٢١۔لقمان ١٤ ٢٢۔اصول کافی ج٢ ص ١٥١؛ بحار الانوار ج٧٤ص ٤٩؛
|
مقالات کی طرف جائیے |
|