مقالات

 

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور فدک

سید غافر حسن رضوی

جو انسان آفتاب موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی روشنی کو نہیں دیکھ پائے اس کو نا بینا کہا جاتا ہے اور جو اسکی تابناک کرنوں سے انکار کرے اسے احمق اور بے وقوف کہا جاتا ہے، کیونکہ دھوپ میں کھڑا ہوکر بھی وجودِ آفتاب کا منکر ہے ۔
جب آفتاب کے منکر کو عقلاء کی نظر میں بے وقوف کہا جاتا ہے تو جو چیز ''اظھر من الشمس" ہو ...اگر کوئی انسان اس کا انکار کر بیٹھے تو اس کو کیا کہیں گے؟۔
اسی طرح کا سلوک فاطمہ زہراؑکے ساتھ کیا گیا ،''فدک" شہزادی ؑکا حق مسلم تھا جس سے کوئی انسان بھی نا واقف نہیں ہے، اس کے باوجود بھی شہزادیؑ کو فدک سے محروم کیا گیا ...
عزیزو!یہ کوئی ہوائی فائرنگ نہیں ہے، بلکہ کتب تواریخ بھری پڑی ہیں کہ ''فدک"فاطمہ زہراؑ کا حق تھا اور حکم خدا کے تحت رسول اسلامؐ نے آپؑ کو عطا فرمایا تھا۔
جب رسول اسلامؐ اور علی مرتضیٰؑ نے فدک کو فتح کرلیا.(١) تو جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے...وأت ذالقربیٰ حقہ.(٢)
یعنی! اے رسول! اپنے قرابت داروں کو ان کا حق دے دیجئے....رسول اسلامؐ نے جبرئیل سے دریافت کیا، جبرئیل! قرابتداروں سے مراد کون لوگ ہیں؟ اور تم کس حق کی بات کر رہے ہو، وہ کون سا حق ہے جو مجھے ادا کرنا ہے؟۔
جبرئیل نے جواب دیا !''فدک" فاطمہ زہراؑ کے حوالہ کر دیجئے۔(٣)
رسول اسلامؐ نے فاطمہ زہراؑ کو طلب کیا اور فرمایا: اے فاطمہ!خدا وند عالم نے فدک تمہارے باپ کے لئے فتح کیا اور یہ مجھ سے ہی مخصوص ہے اور اس سے مسلمانوں کاکوئی تعلق نہیں ہے، بس جس طرح میں چاہوں اس کا استعمال کروں، اور خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ یہ فدک میں تمہیں عطاکروں، اے بیٹی!تمہارا باپ یہ فدک تمہاری ماں (خدیجة الکبریٰ)کے مہر کے طور پر اور خدا وند عالم کے حکم سے تمہیں عطا کرتا ہے۔(٤)
شہزادیؑ نے جواب دیا : بابا ! جب تک آپ حیات ہیں میں نہیں چاہتی کہ فدک اپنے اختیار میں لوں، آپ میری جان اور میرے مال پر کل اختیار رکھتے ہیں ۔
رسول اسلامؐ نے فرمایا: اے بیٹی! میں ڈر رہا ہوں کہ... میری وفات کے بعد، نا اہل لوگ، اس کو بہانہ بنالیں کہ فاطمہؑ نے حیات رسولؐ میں، فدک میں تصرف نہیں کیا، اور اسی بہانہ کو لیکر ،تمہیں تمہارے حق سے محروم کر دیں! ۔
فاطمہؑ نے عرض کی : بابا! جو بھی آپ مناسب سمجھیں اسی پر عمل کیجئے۔

فدک کی سند اور گواہی
رسول اسلامؐ نے قلم دوات طلب کیا، اور علیؑ کو اپنے قریب بلاکر فرمایا : علیؑ! ایک سند کے طور پر لکھ دو کہ....پیغمبرؐ یہ فدک فاطمہ زہرا ؑ کو عطا کر رہے ہیں، علیؑ نے لکھ دیا اور امِّ ایمن نے بھی گواہی دی۔
فاطمہ ؑنے وہ نوشتہ لیکر اپنے پاس حفاظت سے رکھ لیا (تاکہ اگر کوئی غاصب قدم اٹھائے تو یہ سند کام آئے).(٥)

رسول اسلامؐ نے لوگوں کو بھی گواہ بنایا
رسول اسلامؐ نے لوگوں کو فاطمہؑ کے بیت الشرف میں جمع کیا اور فرمایا: ''فدک" فاطمہ زہراؑ کی ملکیت ہے، اور اسی وقت فدک کی آمدنی و در آمد کو عطائے فاطمہؑ کے عنوان سے لوگوں میں تقسیم کیا او ر ان کے سامنے یہ ثابت کیا کہ اگر میرے بعدفدک کا کوئی مالک ہے تووہ فاطمہ زہراؑ ہیں .(٦)
فاطمہؑ نے سر زمین فدک پر اپنا ایک نمائندہ منتخب کیا اور تمام مامورین فدک کو اسی نمائندہ کے ما تحت قرار دیا کہ جو سالانہ حساب کر نے کے بعد اس کی منفعت کو شہزادیؑ کی خدمت میں پیش کر تا تھا ۔
مور خین نے فدک کی آمدنی و منفعت ''ستر ہزار سے لیکر ایک لاکھ بیس ہزار سونے کے سکے تک" لکھی ہے ۔(٧)
ان سکوں میں سے شہزادی اپنا سالا نہ خرچ نکال لیتی تھیں، اور باقی سکے ؟فقیروں میں تقسیم کر دیتی تھیں، اور یہ سلسلہ اسی طرح وفات رسول اسلامؐ تک قائم رہا(٨)
فقراء و مساکین کی نظریں شہزادیؑ کی ڈیوڑھی پر لگی رہتی تھیں، تاکہ آپ کچھ عطا کریں اور ہم سامان زندگی مہیا کریں.(٩)

غصب فدک
لیکن افسوس! اتنا کچھ ہو نے کے با وجودبھی، ابھی وفات رسولؐ کو صرف دس دن گذرے تھے کہ ابو بکرکے مامور، فدک پہونچے اور فاطمہ زہراؑ کے نمائندہ کو وہاں سے نکال دیا، اور فدک کو غصب کر لیا اور اس کی منفعت کو اپنی غاصبانہ خلافت پر خرچ کر نے لگے(١٠)
(فدک کے بارے میں امیر المومنینؑ کا نظریہ)
وفات رسولؐ کے بعد، ابو بکر و عمر ، امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ کی خدمت میں پہونچے اور پوچھا: اے علی! وہ مال جو پیغمبر اکرمؐ چھوڑ گئے ہیں، اس کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ علیؑ نے جواب دیا: اس مال کے ہم زیادہ حقدار ہیں ۔
عمر نے پوچھا: وہ مال جو خیبر میں ہے؟
فر مایا : وہ بھی ہمارا ہے۔
عمر نے پوچھا: وہ مال جو فدک میں ہے؟
فرمایا : وہ بھی ہمارا ہے ۔
عمر نے کہا:۔میں ایسا ہر گز نہیں ہو نے دوں گا ( کہ سب مال تمہارا ہو جائے )چاہے میری گردن آرہ سے کاٹ دی جائے (١١)

سند فدک اور خلیفہ کا دربار
عمر نے حضرت فاطمہ زہراؑ سے کہا کہ جو نوشتہ آپ کے بابا نے فدک کے بارے میں آپ کے لئے لکھا ہے وہ لیکر آئیئے ۔
غصب خلافت کے بعد یہ شہزادیؑ کا پہلا قدم اٹھ رہا ہے، نوشتہ لیکر دربار میں پہنچیں اور ابو بکر کو وہ نوشتہ دکھاکر فرمایا: یہ نوشتہ ہے جو میرے بابا نے میرے اور میرے بیٹوں کے بارے میں تحریر فرمایا ہے اور یہ نوشتہ بابا نے خود ہی تحریر نہیں کیا بلکہ حکم خدا تھا کہ وہ فدک میرے حوالہ کریں، اور دیکھو اس پر امیر المومنین علیؑ کے دستخط بھی ہیں، امِّ ایمن نے اس بات پر گواہی دی ہے (١٢)
بجائے اس کے کہ رسول کی بیٹی کی شنوائی ہو تی، حدیث گڑھی جانے لگی کہ رسولؐ نے فرمایا ہے: نحن معاشر الا نبیاء لا نورث ولا نورث؛ ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کو وارث بناتے ہیں اور نہ کسی کے وارث بنتے ہیں،شہزادیؑ نے قرآن کی آیتوں سے استدلال کیا لیکن وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا،ستم بالائے ستم یہ کہ شہزادیؑ کے ہاتھ سے وہ نوشتہ لیا اور اسکی تحریر کو آب دہن سے مٹانے کے بعد اسے پارہ پارہ کر دیا، جو ببانگ دہل اعلان تھا کہ ہم پیغمبرؐ کے موافق نہیں ہیں (١٣)

فاطمہ زہراؑ کا احتجاج
امیر المومنینؑ کے حکم سے فاطمہؑ دوبارہ دربار میں پہنچیں اور فرمایا : تم نے میرے نمائندہ کو فدک سے کیوں نکالا؟ حالانکہ فدک میرے بابا نے مجھے حکم خدا سے عطا کیا تھا، ''کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جو زمین میرے بابا نے مجھے عطا کی ہے اور اس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے" وہ مجھ سے چھین لو؟ کیا پیمبرؐ نے یہ نہیں فرمایا ہے: ہر شخص کی وفات کے بعد اس کی اولاد پر توجہ رکھنی چاہیئے؟۔
تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ پیمبرؐکی اولادکے لئے آپؐ کی یاد گار صرف فدک ہے۔
ابو بکر نے کہا : عائشہ اور عمر گواہی دیتے ہیں کہ پیمبرؐ نے فرمایا: النبی لا یورث؛ یعنی نبی میراث نہیں چھوڑتا۔
شہزادیؑ نے فرمایا : یہ پہلی نا انصاف گواہی ہے جو انہوں نے دی ہے،فدک کے بارے میں میرے پاس گواہ موجود ہیں کہ جو گواہی دیں گے کہ پیمبرؐ نے فدک مجھے بخشا ہے۔
ابوبکر نے کہا: دلیل لیکر آؤ۔
شہزادی ؑنے فرمایا : کیا حیات رسولؐ میں فدک میرے اختیار میں نہیں تھا؟۔
کہا: ہاں! تمہارے اختیار میں تھا۔
شہزادیؑ نے فرمایا : جب تم اس کے قائل ہو کہ فدک میرے اختیار میں تھا توجوچیزمیری ہے اس کے بارے میں مجھ سے گواہ کیوں طلب کر رہے؟۔
ابو بکر نے کہا: کیونکہ فدک مال غنیمت ہے جو مسلمانوں کا حق ہے، اگر دلیل نہیں لاؤ گی تو میں دستخط نہیں کروں گا۔
شہزادیؑ نے فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ حکم پیغمبرؐ کی تردید کرو اور ہمارے بارے میں وہ فیصلہ کرو جو دوسرے مسلمانوں کے بارے میں نہیں کرتے؟۔
اس کے بعد دختر رسولؐ دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں او ر سوال کیا...
اے لوگو! کیاتم نے پیغمبرؐ کو فرماتے سنا ہے کہ میری بیٹی زنان بہشت کی سردار ہے؟۔
سب نے کہا: ہاں! قسم خدا کی ہم نے یہ سنا ہے ۔
فرمایا : کیا سیدہ زنان بہشت جھوٹا دعویٰ کر سکتی ہے اورجو اس کی ملکیت نہیں ہے اسے اپنے اختیار میں لے سکتی ہے؟ ۔ اگر دو لوگ گواہی دیں کہ میں چور ہوں تو کیا تم ان دونوں کی بات کی تصدیق کروگے؟۔
پورے مجمع پر خاموشی حاکم ہو گئی، اتنی خاموشی کہ سوئی گرنے کی بھی آواز سنائی دے، ابو بکر بھی خاموش ہو گیا،لیکن عمر بولا: ہاں! میں ان کی بات کی تصدیق کروں گا اور تمہیں سزا دوں گا ۔
شہزادیؑ نے فرمایا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو مجھے اسی وقت سزا دے سکتا ہے جب یہ اقرار کرے کہ تو دین محمدی سے خارج ہوچکا ہے، جو بھی سیدہ زنان بہشت کے خلاف کوئی گواہی قبول کرے یا اس کو سزا دے وہ ملعون ہے، کیونکہ خدا نے جن ہستیوں سے نجاستوں کو دور رکھا اور ان پر پاکیزگیوں کا نزول کیا ان کے خلاف گواہی دینا جائز نہیں ہے۔
کیونکہ وہ معصوم ہیں اور ہر نجاست و برائی سے پاک ہیں، اے عمرجو آیۂ تطہیر کے مصداق ہوں اگر کوئی ان کے خلاف گواہی دے کہ وہ مشرک ہیں یا کافر ہیں تو کیا مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ اہلبیتؑ سے نفرت کرنے لگیں اور ان کو سزا دیں؟۔
عمر نے کہا: ہاں!اہلبیتؑ بھی باقی لوگوں کی طرح ہیں ۔
شہزادیؑ نے فرمایا: تونے پھر جھوٹ بولا اور کافر ہو گیا، اہلبیتؑ باقی لوگوں کی طرح نہیں ہیں،کیونکہ خدا نے ان کو معصوم بنایا ہے، اور ان کی عصمت و طہارت پر آیۂ تطہیر گواہ ہے، جو بھی ان کے خلاف گواہی دے یا گواہی قبول کرے، وہ حقیقت میں خدا و رسول کو جھٹلا رہا ہے ۔
ابو بکر نے کہا : اے عمر! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ خاموش ہوجا۔
اس کے بعد ابو بکر نے جناب فاطمہؑ سے کہا: فدک کے بارے میں دلیل لاؤ...
شہزادیؑ نے فرمایا: خدا وند عالم نے ایک آیت نازل فرمائی تھی جس میں پیغمبر اکرمؐ کو حکم دیا تھا کہ وہ میرا اور میری اولاد کا حق مجھے دیدیں ''فأ ت ذالقربیٰ حقہ،،میں اور میری اولاد اوروں کی بہ نسبت پیغمبر اکرمؐ سے زیادہ نزدیک تھے، اسی لئے فدک آنحضرتؐ نے مجھے عطا کیا، جس وقت جبرئیل نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا ''والمسکین و ابن السبیل(١٤)
تو پیغمبرؐ نے سوال کیا: یہ مسکین اور ابن سبیل کیا ہے؟ تو خدا وندعالم نے یہ آیت نازل فرمائی ''واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل۔(١٥)
اس کے بعد شہزادیؑ نے فرمایا: جو کچھ خدا کے لئے ہے وہ رسولؐ کے لئے ہے اور جو کچھ رسولؐ کے لئے ہے وہ ذوی القربیٰ کے لئے ہے اور ذوی القربیٰ ہم لوگ ہیں، خداوند عالم فرماتا ہے: ''قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربیٰ۔(١٦)
ابو بکر نے عمر کی طرف دیکھا اور پوچھا: تو اس بارے میں کیا کہتا ہے؟۔
عمر نے کہا : خدا و رسول اور ذوی القربیٰ کا تو پتہ چل گیا، لیکن یہ یتیم ،مسکین اور ابن سبیل کون لوگ ہیں؟ شہزادیؑ نے فرمایا : یتیم ایسے ہونے چاہیئیں کہ خدا ورسولؐ اور ذوی القربیٰ پر ایمان رکھتے ہوں، مسکین بھی وہ ہوں جو دنیا و آخرت میں خدا ورسول اور ذوی القربیٰ کے ساتھ ہوں، ابن سبیل بھی ایسے ہوں جو ان کی راہ پر گامزن ہوں ۔
عمر نے کہا : تمہارے اس بیان کی بنیاد پر ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ تمام خمس اور مال غنیمت،تمہارے لئے اور تمہارے دوستوں اور شیعوں کے لئے ہے؟۔
شہزادیؑ نے فرمایا: فدک کو خداوند عالم نے میرے لئے اور میری اولاد کے لئے مقرر فرمایا ہے اور ہمارے چاہنے والوں اور شیعوں کے لئے مقرر نہیں کیا ہے، لیکن خمس کو ہمارے اور ہمارے دوستوں اور شیعوں کے درمیان تقسیم کیا ہے۔
عمر نے کہا: مہاجرین و انصار اور تابعین کے لئے کیا باقی رہا؟۔
شہزادیؑ نے جواب دیا: اگر وہ بھی ہمارے دوست اور شیعہ ہوں، تو زکات اور صدقہ جو خدا نے قرآن میں واجب قرار دیا ہے، ان تک بھی پہنچے گا ''انما الصدقات للفقراء و المساکین والعاملین علیھا والمؤلفة قلوبھم وفی الرقاب۔(١٧)
اس طولانی مناظرہ کے بعد بھی عمر نے کہا: فاطمہ! اپنے دعوے پر دلیل لاؤ۔
شہزادیؑ خود تو وہیں ٹھہریں اور کسی کو بیت الشرف کی جانب بھیجا تاکہ مولا علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ، اُمِّ ایمن اور اسماء بنت عمیس کو لیکر آئے ۔
سب آگئے ،شہزادی نے ان کو پیش کیا ،اور سب نے شہزادی کی تصدیق فرمائی۔لیکن...
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
گواہی سننے کے بعد عمر نے کہا: علیؑ، فاطمہ کے شوہر ہیں، حسنؑ و حسینؑ ان کے بیٹے ہیں، اُمِّ ایمن ان کی کنیز ہے اور اسماء بنت عمیس بھی پہلے جعفرابن ابی طالبؑ کی زوجہ تھی اور فاطمہؑ کی کنیز تھی، اس لئے یہ بھی ان کے موافق ہی گواہی دے گی۔
اس مناظرہ اور مباحثہ کے بعد علیؑ نے اتمام حجت کیا اور فاطمہؑ کو بیت الشرف کی جانب روانہ کیا۔
پھرتیسری مرتبہ علیؑ نے فاطمہؑ کو دربار خلافت میں بھیجا،شہزادیؑ ابو بکر کے پاس پہنچیں اور دلیل دے کر قائل کیا، ابوبکر نے کہا: صدقت یا فاطمة، اے فاطمہ تم صحیح کہہ رہی ہو! اس کے بعد ایک کاغذ طلب کیا اور اس پر تحریر کیا کہ...فدک فاطمہؑ کا حق ہے، وہ انہیں واپس کر دیا جائے ۔
شہزادیؑ نے وہ کاغذ لیا اور باہر تشریف لائیں،عمر آپؑ کے نزدیک آیا اورپوچھا: اے بنت رسول! یہ کاغذ کیسا ہے اور اس میں کیا لکھا ہے؟۔
شہزادیؑ نے فرمایا: یہ ابو بکر کا نوشتہ ہے، جس میں فدک واپس کر نے کے لئے لکھا ہے ۔
عمر نے کہا: یہ کاغذ ذرا مجھے دیجئے،شہزادیؑ نے انکار کر دیا اور عمر کو وہ کاغذ نہیں دیا ۔
یہاں اس ملعون نے شہزادی کی شان میں وہ گستاخی کی کہ...قلم تحریر سے قاصر ہے اور زبان بیان کرنے سے گنگ ہے(١٨)
اس کے بعد ملعون نے وہ کاغذ شہزادیؑ کے ہاتھ سے چھینا، اسکی تحریر آب دہن سے مٹائی اور اسے پارہ پارہ کردیا(١٩)
نتیجہ یہ ہواکہ نہ تو فد ک واپس کرنا تھا اور نہ ہی واپس کیا ،یہا ں آکر مجھے اپنا ایک قطعہ یاد آگیا:
سخی ابن سخی کی زوجہ ہے بنت نبی، غاؔفر
لباس فاخرہ بھی اپنا یہ تحفہ میں دیتی ہیں
علی کے نام پر زہراؑ سے تم نے مانگا تو ہوتا
فدک کیا چیز ہے، جنت کوبھی صدقہ میں دیتی ہیں
لیکن جب حرام مال کھانے کی عادت ہوجا تی ہے تو پھر رزق حلال میں مزہ نہیں آتا ۔
اور قارئین کرام! یہ بھی ایک نازک نکتہ ہے کہ...یہ جو آج کل ہمارے معاشرہ میں غصب کی رسم رائج ہے یہ کوئی نئی رسم نہیں ہے بلکہ یہ بہت پرانی ''سنة السیئة"ہے جو کچھ بزرگانِ اسلام کی مرہون منت ہے۔
پروردگار! ہمیں اس سنت سیئہ سے دامن بچانے کی توفیق عطا فرما اور اس پر عمل پیرا ہونے والوں سے زیادہ سے زیادہ نفرت و بیزاری کا جذبہ عنایت فرما۔ آمین۔ "والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ"

حوالہ جات
(١)بحار الانوار:ج٢١ ،ص٢٢۔تہذیب الاحکام: ج١،ص٤٢٤۔الخرائج: ج١،ص١١٣۔ اسرار فدک: ص١٨۔
(٢)سورہ ٔاسراء/٢٦۔
(٣)اسرارفدک:ص٢١۔بحارالانوار:ج٢١،ص٢٢۔
(٤)اسرار فدک:ص٢١۔بحار الانوار:ج٢٩، ص١٠٥،١١٠،١١٥،١١٨،١٢١۔
(٥)بحار الانوار:ج٢١،ص٢٣۔اسرارفدک: ص٢٢۔
(٦)اسرارفدک: ص٢٢۔
(٧)بحارالانوار:ج٢٩،ص١١٨۔اسرارفدک: ص٢٢۔
(٨)بحارالانوار:ج٢٩،ص١٢٣،ح٢٥۔ اسرارفدک: ص٢٢۔
(٩)اسرارفدک: ص٢٢۔
(١٠)شرح ابن ابی الحدید معتزلی: ج١٦،ص١٦٣۔اسرار فدک:ص٢٣۔
(١١)مجمع الزوائد: ج٩،ص٣٩۔ اسرار فدک: ص٢٨۔
(١٢)بحار الانوار: ج٢١،ص٢٣۔ نوائب الدہور:ج٣،ص١٤٨۔عوالم العلوم: ج١١، ص٥٧٤۔مجمع النورین: ص٣٧۔ اسرار فدک: ص٢٨۔
(١٣)اسرار فدک: ص٢٩۔
(١٤)سورہ ٔروم/٣٨۔
(١٥)سورہ ٔانفال/٤١۔
(١٦)سورۂ شوریٰ/٢٣۔
(١٧)سور ۂ توبہ/٦٠۔
(١٨)بحار الانوار:ج٢٩،ص١٣٤۔کتاب سلیم: ج٢،ص٨٦٨۔ اسرارفدک: ص٤١۔
(١٩)بحارالانوار:ج٢٩،ص١٩٢۔ اسرارفدک: ص٤١۔
مقالات کی طرف جائیے