مقالات

 

آسمان علم و ادب کا درخشاں ستارہ; مولانا علی اختر رضوی مرحوم

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

برصغیر ہند و پاک کے جن خطے کو شروع ہی علمی ، سیاسی اور ادبی فوقیت حاصل رہی ان میں ''گوپال پور'' انتہائی اہم ہے ، گوپال پور صوبۂ بہار کے سیوان ضلع کی ایک مردم خیز بستی ہے ، اس چھوٹی سی بستی میں کچھ ہستیاں ایسی پیدا ہوئی جنہوں نے اپنے علمی ، ادبی ،مذہبی ، سیاسی اور سماجی کارناموں سے اس بستی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا ، یہ بستی ہمیشہ سے علم و ادب کا مرکز رہی ہے ،ایک سے ایک استادان فن نے اپنے علم و ادب کی جلوہ سامانیاں بکھیری ہیں ، فقہ و اصول ، حدیث و تفسیر ، عرفان و فلسفہ ، شعر و ادب تقریباً ہر فن میں قیمتی جواہر پارے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔ اسی یادگار سر زمین کی ایک بے مثال اور نامور شخصیت'' ادیب عصرعالی عصر مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری'' کی ہے،جو میدان تبلیغ کا شہسوار ، دریائے تحریر کا در شہوار ، شعر و شاعری میں صاحب اشعار آبدار ، محراب عبادت میں اشکبار ، دوستوں کی بزم میں غمگسار اور ادبی محفلوں میں بذلہ سنج و خوش گفتارتھے ، جو اپنی تمام تر عظمتوں کے باوجود سرتاپا خلق مجسم کی تصویر تھے ، جو اپنی انفرادی زندگی میں انتہائی حلیم و بردبار ، بذلہ سنج اور صاف گوانسان تھے ، دین کی راہ میں زحمتیں اٹھانے والوں کی نہ صرف دل کھول کر حوصلہ افزائی فرماتے تھے بلکہ ان کاساتھ دینے کی بھی بھرپور کوشش کرتے تھے۔

ولادت اور ابتدائی حالات
حضرت ادیب عصرمولانا سید علی اختر صاحب شعور گوپال پوری کی ولادت ١٩٤٨ء میں گوپال پور ضلع سیوان بہار میں ہوئی ،جب آپ تین سال کے تھے تو شفقت پدری سے محروم ہوگئے ،اس کمی کو ماں نے پوری کرنے کی پوری کوشش کی اور ایسی تربیت دی جو باپ کے تعاون سے اولاد کی ہوتی ہے ۔ماں کی دلی خواہش تھی کہ آپ علم دین حاصل کریں ،چنانچہ ماں کی دلی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا اور استاد الاساتذہ مولانا سید رسول احمد صاحب مرحوم کے ہمراہ مدرسہ ناظمیہ لکھنو تشریف لے گئے اور مولانا کے ہمراہ مدرسہ واعظین میں قیام پذیر رہے ۔مدرسة الواعظین میں دو مہینے کے قیام کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے یتیم خانہ لکھنؤ میں داخلہ لیا اور اپنی والدہ کی خواہش اور اپنے جذبہ علم دین کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یتیم خانہ کی سختیاں برداشت کرتے رہے۔اور پھر حالات سازگار ہوتے ہی آپ مدرسہ ناظمیہ میں قیام پذیر ہوگئے۔١٩٦٤ ء میں الہ آباد بورڈ سے مولوی ،١٩٦٥ میں عالم ،اور ١٩٦٧ میں فاضل کے امتحانات دئیے اور ان سب میں امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔١٩٦٩ میں ضمیمہ ممتاز الافاضل کا امتحان دے کر وطن واپس چلے گئے ۔اور ١٩٧٢ میں مدرسہ ٔناظمیہ کی آخری سند ''ممتاز الافاضل ''حاصل کی ۔جب وطن واپسی ہوئی تو وطن سے قریب ہی محمد صالح انٹر کالج حسین گنج میں فارسی لکچرار کی ضرورت تھی کیونکہ چند مہینوں کے بعد وہاں سے مولانا نذر حسن صاحب مرحوم گوپال پوری تدریسی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے والے تھے ،چنانچہ مولانا نذر حسن صاحب کی ایماء پر ١٩٧١ میں آپ کی وہاں تقرری ہوئی اور زندگی کے آخری لمحے تک اس فریضے کو بحسن و خوبی انجام دیا ۔

کتاب و کتابخانے سے دلچسپی
کتاب اور کتب خانہ سے آپ کی گہری دلچسپی تھی ، اسی ذوق کی وجہ سے راجہ محمود آباد کے خصوصی کتب خانہ کو اس سلیقہ سے مرتب کیا کہ راجہ صاحب نے وہاں مستقل قیام کی آپ سے پیشنہاد کی ۔مگر دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کیا ۔ کتاب سے دلچسپی صرف جمع آوری کی حد تک نہیں تھی بلکہ آپ کی دلچسپی مطالعے کی خاطر تھی ،مطالعہ سے جو بھی حاصل ہوتا تھا اس کو زبان و قلم سے دوسروں تک منتقل کر دیتے تھے ،چنانچہ ہندوستان میں ایک عرصے سے یہ پروپگنڈہ کیا جارہاتھا کہ شیعوں کا چالیس پاروں'کا قرآن ہے اور وہ پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں موجود ہے ،ظاہر سی بات ہے کہ حضرت ادیب عصرجیسے مدافع مذہب کے لئے بہت سخت تھا کہ اس کو دیکھیں اور لوگوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ نہ کریں ۔حقیقت جاننے کے لئے خدا بخش لائبریری گئے اور اس کو دیکھ کر ایک مقالہ لکھا اور ایرانی کلچر ہائوس میں اس کی قرائت کی جس کو سن کر سامعین نے دل کھول کر داد دی ۔جب یہ مقالہ پاکستان کے کسی جریدہ میں شائع ہوا تو وہاں سے ہر طرح کے خطوط آنے لگے ،بعض لوگوں کے خطوط میں پنہاں تیور کو دیکھ کر ایک مستقل کتاب لکھنی شروع کی ،مگر ایک سفر میں وہ اٹیچی چوری ہوگئی جس میں وہ کتاب اور الغدیر کی چھٹی اور گیارہویں جلد کا ترجمہ تھاجس کا قلق حضرت ادیب عصر کو آخری عمر تک تھا۔ کتاب خانے سے خصوصی دلچسپی کے تحت آپ نے اپنے وطن گوپال پور میں ایک مختصر مگر نفیس کتابخانہ کی تاسیس کی جس میں مذہبی اور ڈھیروں ادبی کتابوں کے علاوہ بعض قدیمی خطی نسخے بھی ہیں، در حقیقت اس کتابخانہ کی بنیاد رکھ آپ نے قوم و ملت کو ایک عطیم سرمایہ فراہم کیاہے ۔

غدیر و ولایت سے شدید وابستگی
حضرت ادیب عصر ؒ کی اہل بیت کرام سے ارادت و عقیدت بڑی شدید ، والہانہ اور فطری ہے ، توارث و ماحول کے علاوہ ان کی اپنی تحقیق و کاوش بہت وقیع ہے ، پھر یہ کہ وہ وکیل آل محمدؐ کی کی حیثیت سے تقریر و تحریر دونوں میدانوں میں سرگرم عمل رہے ہیں ، آپ نے فضائل اہل بیت اور ولایت کو اپنی تحریر و تقریر میں بڑی شدت سے پیش کیاہے ، آپ ہمیشہ کوشاں رہتے کہ اردوداں طبقہ حقیقی ولایت اور فضائل اہل بیت ؑسے آشنا ہو ، چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں متعدد مضامین قلمبند کئے ، کچھ کتابیں بھی لکھ رہے تھے لیکن ادھوری رہ گئیں ، اسی دوران آپ کی نگاہ " الغدیر "جیسی عظیم کتاب پر پڑی ، آپ تمام اہم کام چھوڑ کر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی کی فرمائش پر اس کے ترجمہ میں لگ گئے ، اس سلسلے میں ان کو جو زحمت ہوئی ہے ، اس کا کسی حد تک عینی شاہد ہم بھی ہیں ،دیہات کی زندگی میں وسائل کی کمی کے باوجود الغدیر کی تمام جلدوں کا ترجمہ لینا ، یقینا دل گردے کا کام ہے ، خدا آپ کے اس خلوص کی جزا عنایت فرمائے ۔
آپ نے غدیر و ولایت سے متعلق جو کتابیں لکھی ہیں یا جن بعض کتابوں کا ترجمہ کیا ہے ان کے علاوہ اس موضوع سے متعلق بے شمار طویل مضامین بھی قلمبند بھی کئے ہیں ، جن میں بعض اہم ترین مضامین کے عناوین مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ خطبہ غدیر ( رسول خداؐ نے اعلان ولایت علی ؑ کے موقع پر جو طویل خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس کا سلیس اردو ترجمہ کیا )۔
۲۔ ولایت علی ؑ قرآن میں( یہ مضمون تقریباً۲۰ / صفحات پر مشتمل ہے جس میں آیات ولایت کو انتہائی مفید تشریح کی ہے اور ان آیات کے مصداق کو فریقین کی تفاسیر سے ثابت کیاہے )۔
۳۔ کلمۂ انما ، قرآن کے تناظر میں ( ۸/ صفحات)۔
۴۔ غدیر اور قرآن ( ۸/ صفحات )۔
۵۔ ولایت علی ؑکی معاون احادیث ( حصہ اول و دوم ؛ اس موضوع پر غالباً کتاب تحریر کررہے ہیں ، افسوس مکمل نہ ہوسکی ورنہ اس موضوع پر ایک قابل قدر کارنامہ محسوب ہوتاہے ، یہ طویل مضمون تقریباً ۳۲ / صفحات پر مشتمل ہے )۔
۶۔ ولایت علی کے دنیاوی و اخروی فوائد ؛
۷۔ عربی ادب میں غدیر کی صدائے بازگشت ؛
۸۔غدیر کے چار علامتی شاعر ( یہ مضمون ایک کتابچہ کی شکل میں بھی شائع ہوئی ہے )۔
۹۔غدیر پر صحابہ کی حاسدانہ نظر ؛
۱۰۔غدیر دامن کی دھجیاں ؛
۱۱۔ عید غدیر ؛
متذکرہ مضامین کے علاوہ بھی بعض دوسرے مختصر مضامین ہیں جنہیں "شعور ولایت " نامی کتاب میں جمع کیاگیاہے ۔

آثار و کارنامے
طالبعلمی کے بعد کی زندگی پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو جو نمایاںکارنامے آپ نے ا نجام دئیے ،وہ مندرجہ ذیل ہیں
الف) مذہبی سرگرمیاں
١۔ آپ نے وقت کی اہم ترین ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض جگہوں پر مساجد و امامباڑے کی تعمیر و تاسیس میں سرگرمی دکھائی اور اپنے دست تعاون کے ذریعہ اسے پایۂ تکمیل تک پہونچایا جن میں سر فہرست بھاگلپور کی مسجد ہے ۔
٢۔ اپنے کتاب دوستی کے جذبے کے تحت متعدد جگہوں سے کتابیں جمع کیں اور اپنی واجبی ضرورتوں سے صرف نظر کرکے بہت سی کتابیں خریدیں اورپھر وقت کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے ایک کتابخانے کی شکل دے دی ۔الحمد للہ آج اس کتابخانہ میں سیکڑوں کتابیں موجود ہیں جن میں مذہبی اور ادبی کتابوں کے علاوہ بہت سے قدیمی اور خطی نسخے بھی موجود ہیں۔
٣۔ بہت سی مذہبی اور ادبی کانفرنسوںکو اپنی محنت شاقہ سے کامیاب بنایا جن میں مجلس علماء و واعظین کی کانفرسیں شامل ہیں۔
٤۔ ہندوستان کے مختلف اور متعدد علاقوں میں مجالس عزا خطاب کیں ، برسوںمیرٹھ کا عشرۂ اولیٰ اور شیخ پورہ حسین آباد کے اربعین کا عشرہ خطاب کیا۔آپ کی خطابت عام فہم ہوتی تھی ، مذہبی باتوں کو اتنے سلیقے سے بیان کرتے تھے کہ نو جوان نسل بھی انہیں بہت پسندکرتی تھی۔
:ب) ادبی سرگرمیاں
طالب علمی ہی کے زمانے سے ادب سے آپ کو کافی دلچسپی تھی ،ادبی کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے کئی کلو میٹر کے فاصلے پر امین الدولہ لائبریری لکھنؤ میں جاکر کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے ۔ افسانے اور انشائیے ایک طویل مدت تک ہفتہ نامہ سرفراز لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے ،آپ نے شاعری کی تقریباً ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے ،قصیدے ہوں یا نوحے یا غزل سبھی کی تعداد زیادہ ہے ،قطعات و رباعیات بھی کم نہیں ہیں ،ان میں سے کچھ کلام معتبر جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔ الحمد للہ آپ کا مجموعہ ٔ کلام مرتب ہوچکا ہے نام '' کلیات شعور '' ہے جو تقریباً٤٠٠ صفحات پر مشتمل ہے۔آپ کے افسانے اور انشائیے بھی زیر ترتیب ہیں۔
ج۔تصانیف و تراجم
١۔ترجمہ رسالۂ عملیہ امام خمینی :مذہبی کتابوں کے ترجمے کا آغاز غالباً امام خمینی کے رسالہ ٔ عملیہ سے کیا، جو اسلامی انقلاب سے پہلے دو جلدوں میں شائع ہوا ۔
٢۔۔علامہ امینیؒ کی معرکة الآراء کتاب ''الغدیر فی الکتاب و السنة والادب ''کا ترجمہ ''غدیر قرآن ،حدیث اور ادب میں ''۔ حضرت ادیب عصر نے آج سے تقریباًبیس سال قبل آیة اللہ ناصر مکارم شیرازی مدظلہ کی فرمائش پر اس کا ترجمہ شروع کیا اور اپنے جذبۂ ولایت سے مجبور ہوکر بہت کم مدت میں ساری جلدوں کا ترجمہ مکمل کرڈالاجس کی پہلی جلد ١٩٩٢ءمیں منظر عام پر آئی لیکن پھر حالات کی وجہ سے اس اہم کتاب کی اشاعت رک گئی ۔ الحمد للہ ان کے فرزند سید شاہد جمال رضوی نے کم عمری کے باوجود اپنے کمزور کاندھے پر اس عظیم کام کا بوجھ اٹھایا اور ایک سفر میں غائب ہوجانے والی دو ( ٦،١١) جلدوں کا ترجمہ مکمل کرکے اسے شائع کیا ۔اس کتاب میں یادگار ادیب عصر نے حوالوں اور ترتیب و تحقیق کا کام بھی بحسن و خوبی انجام دیاہے۔یہ کتاب ٢٠١٠ ءمیں منظر عام پر آچکی ہے۔
٣۔ مصائب آل محمد ترجمہ سوگنامۂ آل محمد ۔
(٤۔ ترجمہ ''الحیات ''۔( ٣ جلدیں)
٥۔ ترجمہ امام مہدی (عج) حدیث کی روشنی میں ۔
٦۔ آیہ اللہ شیرازی کی کربلا شناسی سے متعلق کتاب کا ترجمہ ''شہر شہادت ''۔
٧۔ سید نعمة اللہ جزائری کی کتاب ''الزھر الربیع ''کا ترجمہ ''خوشبو بہار کی ''۔ جو ماہنامہ الواعظ لکھنؤ میں قسط وار تقریبا ً دو سال شائع ہوا ۔
٨۔علامہ مرتضی عسکری مرحوم کی معرکة الآراء کتاب ''نقش عائشہ در تاریخ اسلام ''کی تین جلدوں کا ترجمہ بنام ''تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار ''شائع ہوا ۔
٩۔ علا مہ مرتضی عسکری مرحوم کے کتابچہ کا ترجمہ ''میت پر گریہ سنت رسول ۖ ''
١٠ ۔ مولانا مرحوم کی تصنیف حیات شیرازی ۔
١١۔ تحفہ اثنا عشریہ کے معیار تہذیب پر ایک کتاب لکھی جس کی اکثر قسطیں ماہنامہ اصلاح لکھنؤ سے شائع ہوئیں ۔
١٢ ۔غدیر کے چار علامتی شاعر
۱۳۔خانوادہ شیرازی بیسویں صدی میں
:بعض آمادہ طباعت کتابیں
( ١۔شعور شہادت (کربلا اور شہادت امام حسین سے متعلق مضامین)
٢۔ شعور ولایت ( ولایت اور غدیر سے متعلق مضامین)
٣۔ خوشبو بہار کی(ترجمہ زہر الربیع ، کتابی شکل میں)
٤۔کلیات شعور( مجموعہ کلام) ان کے علاوہ اور بھی کتاب اور کتابچہ لکھے جو غیر مطبوعہ ہیں جن کی ترتیب اور تکمیل کا کام ان کے فرزند '' سید شاہد جمال رضوی بڑے تند ہی سے انجام دے رہے ہیں۔

توجہ طلب :
ان کتابوں کے علاوہ حضرت ادیب عصر نے بہت سی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترجمے بھرپور تعاون فرمایاہے جن میں سے بعض یہ ہیں :
۱۔ علی فی القرآن
۲۔ اھل بیت فی القرآن
۳۔ افتحار العلماء
د۔مضامین اور مقالے
آ پ کے کارناموں میں سینکڑوںدندان شکن مقالے اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہند و پاک کے مختلف دینی و ادبی جرائد میں شائع ہوئے ۔جن میں توحید،ثقلین ،الواعظ ،الجواد اور اصلاح ، سرفراز اور ادراک سر فہرست ہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ الحمد للہ تمام مقالات و مضامین کو کتابی شکل میں جمع کیاجارہاہے،بعض کتابیں آمادۂ طباعت ہیں۔

اولاد
آپ نے چھ بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ،آپ کے بڑے فرزند سید محمد اختر رضوی نجم دبئی میں مقیم ہیں اور دوسرے فرزندسرزمین قم پر علم دین کی تحصیل میں مشغول ہیں اور مولانا مرحوم کے کارناموں کو منظر عام پر لا نے کی کوشش کی میں لگے ہوئے ہیں ، خو د بھی بہت سی کتابوں کے مالک ہیں بعض زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔

وفات
٢٦ ذیقعدہ ١٤٢٢ ھ بمطابق ١٠فروری ٢٠٠٢ ء میں وفات ہوئی ،وقت انتقال آپ کی عمر ٥٤سال تھی ۔شہر خموشاں گوپال پور میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
مقالات کی طرف جائیے