مقالات

 

مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب ؛ پہلی قسط

سید عابد رضا نوشاد رضوی

مسلمانوں کا تابناک ماضی
اسلام مصطفوی کی درخشاں تاریخ ہر صاحب فکر و نظر پر آشکار ہے ۔صدر اسلام میں حضرت ختمی مرتبت ؐ کی بے پناہ زحمتوں ، حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السلام کی بے نظیر جانفشا نیو ں اور سچےمسلمانوں کی گراں قیمت قربانیوں کے بموجب دین مبین محمدی نے حیرت انگیز ترقیاتی مراحل طے کئے اور اہل امّت میں بھی ایک عظیم فکری ،سیاسی، دینی ،علمی ،اجتماعی ، اقتصادی اور ثقافتی بیداری پیدا ہو ئی۔
اسلام ومسلمین کا یہ پر شکوہ قافلہ اپنی تمام تر اندرونی و بیرونی مشکلات کے با وجود صحرائے صعو بت سے نکل کر سعادت و سرفرازی کی شا ہراہ پر گامزن ہو گیا ، مختلف میا دین میں قلۂ عظمت تک رسا ئی حا صل کی ، کا میا بیاں قدم چو منے لگیں، رفعتیں سلام کر نے لگیں... یہاں تک کہ اسلامی ثقافت کائنات بود و باش پر محیط ہو گئی اور پھر اسلامی تمدن کے طلا ئی عصر کا آغاز ہو ا ۔
فرانسوی دانشور گوسٹاولبن لکھتے ہیں : '' پانچ سو سال کے عرصۀ دراز تک یوروپ کے اسکول مسلمان مصنفین کی کتا بوں کی بنیاد پر قا ئم ودائم رہے اور وہی لوگ تھے جنہوں نے یوروپ کو علم اور اخلاق کے لحاظ سے پروان چڑھا یا اور راہ تمدن پر گامزن کیا ،ہم جب مسلمانوں کی علمی کا وشوں اور گراں بہا اکتشافات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ کسی بھی ملت نے ان کی طرح اتنی قلیل مدت میں ترقیاتی منازل کو طے نہیں کیا ہے... بعض لوگ اس اقرار کو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں کہ ایک کافر و ملحد قوم (مسلمان ) اس بات کا سبب بنی ہے کہ نصرانی یوروپ وحشی گری ،اور جہالت کی دنیا سے خارج ہو ، لہٰذا اس حقیقت سے چشم پو شی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ نظر یہ اس قدر بے بنیاد ہے کہ اس کی بآسانی تردید کی جا سکتی ہے .. . انہی فرزندان اسلام نے یوروپ کی ان وحشی قوموں کو آدمیت کی راہ پر گامزن کیا نیز ان کے فکری نفوذ نے ان کے اوپر علوم و فنون اور فلسفہ کے دروازوں کو کھولا جن سے وہ بالکل بے خبر تھے وہ لوگ ٦٠٠سال تک ہم یوروپ والوں کے استاد رہے ۔ [تاریخ تمدن ولڈورنٹ ،ج١١،ص٣٠٧۔ ٢٢٠]
عظیم مغربی دانشور ول ڈورینٹ لکھتے ہیں ''... دنیا ئے اسلام ، مختلف جہتوں سے دنیا ئے مسیحیت میں نفوذرکھتی تھی ، یوروپ نے دیاراسلام سے ہی آب و غذا ، دواء و درماں ، اسلحہ، خاندانی نشانیاں،ہنری سلیقہ و ذوق ، تجارتی و صنعتی وسائل و رسومات اور دریانوردی کے قوانین و طرق کو اخذ کیا ہے اور ان میدانوں میں استعمال ہو نے والی بیشترلغات کو بھی مسلمانوں سے ہی اقتباس کیا ہے ... علمائے عرب (اسلام)نے ریاضیات ، طبیعیات ،علم کیمیا ، ہندسہ اور یونا نی طب کو محفوظ رکھا اور انہیں کمال تک پہنچایا اور پھر یوروپ کی طرف منتقل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عربی اصطلاحات یوروپ کی زبانوں میں قابل توجہ مقدار میں پا ئی جا تی ہیں ۔ اطبائے عرب (اسلام) پورے ٥٠٠سال تک دنیا میں علم طب کے علمبردار رہے ۔ فیلسوفان عرب (اسلام ) نے ارسطو کی تا لیفات کو محفوظ رکھا جو یوروپ تک منتقل ہو ئیں ، مشرق کی ابن رشد اور ابن سینا جیسی شخصیتوں نے یوروپ کے فلسفیوں کو تحت الشعاع قرار دیا ... [تاریخ تمدن، ول ڈورینٹ ،ج١١،ص٣٠٧۔ ٢٢٠]
واشنگٹن ارومنگ لکھتے ہیں: '' ہما رے کاخ تمدن کو علم و فن میں ما ہر مسلمانوں کے قدرت مند ہا تھوں نے تعمیر کیا ہے اور یوروپ اور عیسائی قومیں جہاں بھی ہوں مسلمانوں کی مرہون منت ہیں '' [جہان اسلام ،ص ٧٧]
ایک اور مغربی دا نشور ڈاکٹر میکس میر ہوف لکھتے ہیں: اسلامی حکومتوں کے علمی ذخائر اب آہستہ آہستہ ظا ہر ہو رہے ہیں ... البتہ ان آخری چند سالوں میں جو کچھ کشف ہوا ہے وہ دنیا ئے اسلام کی علمی تا ریخ پر ایک نئی روشنی ضرور ہے لیکن یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ دنیامستقبل میں اسلامی علوم کی اہمیت کی طرف بہتر طور پر متوجہ ہو گی۔[ میراث اسلام ،ص١٠١ و ١٣٢ ،بحوالہ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین]
یہ بعض مغربی دا نشوروں کے چند اعترافات ہیں جو مسلمانوں کے تا بناک و درخشان ماضی کے عکّاس ہیں ۔

مگر افسوس اس دور ستم پرور کے مسلم پر
کہاں ماضی کا وہ سنہری دور اور کہاں عصرحاضر کی پسماندگی ، کہاں تقدیر مسلماں کا وہ حیرت انگیز عروج اور کہاں یہ دردناک نزول ، کہاں وہ قلۂ کمال اور کہاں یہ پستی زوال ، کہاں وہ ہمہ گیر عزت و اقتدار اور کہاں یہ ننگ و عار ، کہاں وہ عظمت و سر بلندی اور کہاں یہ ذلت ورسوائی ... کیا دنیا ئے ہست و بود میں زمین و آسمان کے فرق کا اس سے زیادہ واضح نمونہ مل سکتا ہے جو مسلمانوں کے ما ضی و حال میں پایا جا رہا ہے ؟!کیایہ مقام افسوس نہیں ؟ کیا ملت اسلامیہ کے لئے یہ لمحۂ فکریہ نہیں ؟؟
عظیم مفکر اسلام اور درد آشنا ئے دین علامہ اقبال لاہو ری فارسی اشعار کے پیکر میں مسلمانان عالم اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو بیدار اور ان کی غیرت و حمیت کو زندہ کر نے کی غرض سے مسلمانوں کے ما ضیِ تا بناک اور حالِ دردناک کاموازنہ کر گئئی ہے:
دیروز مسلم آیت اقبا ل مکرمت امروز گو چہ شد کہ چنین نامکرم ا ست ؟
دیروز مسلم از شرف علم سر بلند امروز پشت مسلم و اسلامیان خم است
دیروز محرم حرم غیر مسلمین امروز بین چہ در حرم خود نہ محرم است؟
آن اقتدار خود چہ شد و ین انکسارچیست ؟ آنرا چگونہ مبدا و اینش چہ مختم است ؟
سوالات کی شکل میں علامہ اقبال کی یہ فکر ملت اسلامیہ کی ہر ذمہ دار اورفرض شناس فرد پر واجب قراردیتی ہے کہ وہ اس افسوس ناک زوال کے اسباب تلاش کرے اور اس سلسلہ میں چارہ اندیشی کرے ،اس لئے کہ اگر اس نے اس امر میں تساہلی و بے توجہی کا مظاہرہ کیا تو اسے اپنے اسلام کو مشکوک نگا ہوں سے دیکھنا ہو گا کیونکہ حضور اکرم ۖ کا یہ فرمان عام ہے کہ '' من اصبح و لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم'' جو شخص اس طرح ایام گذارے کہ مسلمانوں کی مشکلات کے سلسلے میں چارہ اندیشی نہ کرے، وہ مسلمان ہی نہیں ہے ۔
مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب
وہ بنیادی مشکلیں جو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بنی ہیں انہیں دو اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :١۔ سیاسی مشکلات ؛٢۔اخلاقی و ثقافتی مشکلات

١۔ سیاسی مشکلات
مسلمانان عالم مختلف اندرونی اور بیرونی سیاسی مشکلات سے ہمیشہ دو چار رہے ہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم الثبوت ہے کہ جس فرد یا معا شرہ میں سیاسی تدبر کا فقدان ہو یا مختلف اسباب کی بنا پر اس کے سیاسی تدبر پر پردہ پڑ گیا ہو وہ فرد یا معاشرہ کسی صورت سرفراز نہیں ہو سکتا بلکہ ہمیشہ اسے ذلت و رسوائی اور پسماندگی کی تاریکی میں رہناہو گا ۔
مجموعی طور پر سیاسی مشکلات کبھی ملتوں سے مربوط ہو تی ہیں تو کبھی حکومتوں سے اور دونوں ہی سطحوں پر سیاسی مشکلات کا وجود نہایت ہی مہلک اور خطرناک ہے ۔ مجموعی طور پرمسلمانوں کی چند اہم اندرونی و بیرونی سیاسی مشکلات مندرجہ ذیل ہیں :

(الف)آراء و اقوال میں علماء کا اختلاف
علماء و دانشوران قوم کے اختلافات، اس پسماندگی کا اہم ترین سبب ہیں۔ علماء کا احکام و عبادات میں اختلاف اتنا مشکل آفریں نہیں ہے جتنا اجتماعی و سیاسی میدان میں ہے ۔ اس میدان میں علماء کا اختلاف معاشرے کی شدید پستی و تنزلی کا سبب بنتا ہے ۔ خالق نہج البلاغہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس مشکل کو اہم جا نتے ہو ئے فر ماتے ہیں :''ترد علی احد ھم القضیة فی حکم من الاحکام فیحکم فیھا برأیہ ثم ترد تلک القضیة بعینھا علی غیرہ فیحکم فیھا بخلاف قولہ ثم یجمع القضاة بذلک عند الامام الذی استقضاھم فیصوب آرائھم جمیعا و الٰھھم واحد و نبیھم واحد و کتا بھم واحد افامر ھم اللہ سبحانہ بالاختلاف فاطاعوہ ام نہاھم عنہ فعصوہ ؟..'' [٥۔ نہج البلاغہ ،خ ١٨]
'' ان لوگوں کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی مسئلہ کا فیصلہ آتا ہے تو وہ اپنی رائے سے فیصلہ کر دیتاہے اور پھر یہی قضیہ بعینہ کسی دوسرے کے پاس جا تا ہے تو اس کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے اس کے بعد تمام قضات (اگر چہ حضرت امیر نے اس خطبہ میں قضات کی لفظ استعمال کی ہے لیکن یہ مسئلہ دیگر علماء اور دانشوروں کے بھی دامنگیر ہے )اس حاکم کے پاس جمع ہو تے ہیں جس نے انہیں قاضی بنایا ہے تو وہ سب کی را ئے کی تائید کر دیتا ہے جب کہ سب کا خدا ایک ہے ، نبی ایک اور کتاب ایک ہے ، تو کیا خدا نے انہیں اختلاف کا حکم دیا ہے اور یہ اس کی اطاعت کررہے ہیں یا خدا نے انہیں اختلاف سے منع کیا ہے مگر پھر بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں ؟.. ''
علامہ محمد تقی اس جملہ کی شرح میں فرما تے ہیں : واقعات کا ادراک اور ان کی حیا ت انسانی پر تطبیق ، دو طرح کے اختلافات کی حامل ہو سکتی ہے۔تعمیری اختلاف اور تخریبی اختلاف ۔ ہر وہ اختلاف جس کا تعلق مواقع کے تنوع ، انسانی زندگی کے قوانین کے نفاذ اورفہم و قضا وت کے تفاوت سے ہو اوراس کے علاوہ اس میں خود پسندی و خود غرضی کی بو تک نہ آئے ، تعمیری اختلاف ہے اور اس خطبہ میں امام کی مراد اس طرح کا اختلاف نہیں ہے بلکہ وہ تخریبی اختلاف ہے جس کا منشا لا علمی ، بے بنیاد زعم و گمان ، اظہار نظر میں عدم لیاقت اور خود خوا ہی وغیرہ ہے ...[شر ح نہج البلاغہ ، ج٤،ص٢٥٢]
مقام افسوس ہے کہ بہت سے مقامات پر ہمارے علماء اور دانشوروں کا اختلاف تخریبی ہو تا ہے خواہ وہ اس بات کی طرف متوجہ ہوں یا نہ ہوں ۔ تخریبی اختلافات کے مظاہر کو بر صغیرکے حلقہ علم و دا نش میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جو برسوں سے ایک سماجی سرطان کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے ۔ ایسی صورتحال کے پیش نظر ہر صاحب فکر و نظریہ پیشنگو ئیکر سکتا ہے کہ اگر یہ بحران یونہی بر قرار رہا تو وہ دن دور نہیں جب بالخصوص سر زمین ہند پر تا ریخ اند لس دہرا ئی جا ئے گی اور مسلمان اپنی تبا ہی کا تما شہ آپ دیکھیں گے اور فی الوقت تو اس تماشہ کا زور دار آغاز ہو بھی چکا ہے۔

(ب)وہی رہبر وہی رہزن
مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک اہم وجہ دور گذشتہ اور عصر حاضر میں موجود وہ بعض نام نہاد رہبران قوم ہیں جو اسلامی مملکتوں کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں جن کی رہبری در حقیقت رہزنی اور ہدایت گمرہی ہے ۔
چونکہ ہر کمزور کسی صاحب تمکنت کا تابع ہو تا ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر رہبر اپنی قوم کو اپنی سیاست کے اعتبار سے یا تو فلاح و بہبودی کی شاہ راہ پر گامزن کر سکتا ہے یا پھر پسماندگی کی خطرناک کھا ئی میں ڈھکیل سکتا ہے ۔اس بات پر مختلف اقوام و ملل کی تاریخیں بھی گواہ ہیں لیکن کتنا بد قسمت ہے یہ مسلمان جسے اکثر و بیشتر دوسری قسم کی قیادت میں ہی زندگی گذارنا میسر آ پا ئی ہے مگر اسلامی نقطۂ نظر سے ایسے رہبروں کے زیر سا یہ رہنا مذموم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روا یات میں وارد ہوا ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیر موجود گی میں اسلامی معاشرے کو ایسے عالی مقام فقہا ء کا اتباع کر نا چا ہیئے جن میں تمام جہتوں سے علمی و اخلاقی شا ئستگی پا ئی جا تی ہو اور تمام لوگوںکی بنسبت اسلامی قوانین سے زیادہ آشنا ہو ۔ [وسائل الشیعہ ،ج ١٨ ،ص٩٩ ،الاحتجاج ،ج٢،ص٢٦٣ میں اس مضمون کی روایات پا ئی جا تی ہیں]۔
اس کے علاوہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ در پیش حوادث میں بھی ان کی طرف رجوع کیا جا ئے '' و اما الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا الی رواة حدیثنا…''[وسائل الشیعہ ،ج ١٨ ،ص ١٠١]
ہمارے الہی رہبروں نے ایک طرف تو فقہا اور علماء کی حکومت کا اعلان کیا اور دوسری طرف اپنی سیرت کے ذریعہ یہ بھی بتادیا کہ ایسے نام نہاد رہنماؤں کو بر سر اقتدار نہیں رہنے دینا چا ہیئے جو در حقیقت رہزن ہیں ۔چنا نچہ امام حسین علیہ السلام یزید ملعون جیسے فا سد خلیفۂ و رہبر کی خلافت و قیادت پر خط بطلان کھینچتے ہو ئے فرما تے ہیں '' انا للہ و انا الیہ راجعون و علی الاسلام السلام اذقدبلیت الامة براعِِ مثل یزید '' اگر امت یزید جیسے کی قیادت میں رہے تو پھر اسلام کو خیرباد کہہ دینا ہوگا ۔[لہوف ،ص١١] امام عالی مقام ایسے حاکم وجا ئر کی کجروی کے مقا بلے میں سکوت اختیار کرنے کو عظیم گنا ہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔[ تاریخ طبری ،ج ٧،ص ٣٠٠ ]
فوق الذکر با توں کے پیش نظر ملت اسلامیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی قیادت اپنا منبر و محراب اور اپنی سیاسی زمام ایسے نا م نہاد حاکموں اور رہبروں کے حوالے نہ کریں جن پر رہنما سے زیادہ رہزن کا لقب صادق آئے ۔ ایسے ہی پیشواؤ ں کے سلسلے میں علامہ اقبال فرما تے ہیں :
امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے یہ خاک باز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی جہاں میں ہے صفت عنکبوت ان کی کمند
پھر اس قوم کے نصیب کو داد دیتے ہیں جس کا رہبر لیاقت و شا ئستگی کا حامل ہو:
خوشا وہ قافلہ جس کے امیر کی ہے متاع
تخیل ملکوتی و جذبہ ہا ئے بلند [کلیات اقبال ،ص١٥٧]

(ج) تفرقہ
جتنا نقصان ملت اسلامیہ کو فرقہ واریت کے ذریعہ پہو نچا ہے اتنا شایدکسی سبب نہ پہنچا ہو۔ تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار حادثات ثبت و ضبط ہیں جو فرقہ واریت اور تفرقہ اندازی کا سبب بنے اور کتنے ہی نا حق خون بہا ئے گئے ، کو کھیں سونی کی گئیں، سہاگ اجاڑے گئے ، خاندان کے خاندان تاراج ہو ئے، مسلمان سیاسی ، فکری اور عقیدتی اختلافات کی بنیاد پر مختلف فرقوں میں تقسیم ہو تے گئے جس کی پیشنگو ئی خود رسول مقبولۖ فرما گئے تھے کہ میری امت میرے بعد ٧٣فرقوں میں تقسیم ہو جا ئے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ نجات پا نے وا لا ہو گا ۔[ بغدادی، الفَرق بین الفِرَق ،ص٥]
مذکورہ حدیث کے آخری جملہ کی بنیاد پر جتنے بھی فرقہ وجود میں آئے ہیں یا آرہے ہیں سبھی خود کو فرقہ نا جیہ جا نتے ہیں اور ان میں سے بعض فرقے بالخصوص تکفیری سلفی تو اپنے علاوہ دوسرے کو مسلمان تک ماننے کو تیار نہیں ہے ۔ ایسے ہی خرافاتی عقا ئد کا حامل ہو نے کی وجہ سے اسلام کو جتنا نقصان تاکیلےوہابیت نے پہنچایا ہے اتنا تمام فرقوں نے مل کر نہیں پہنچایا اور آج تک یہ فرقہ عالمی استکبار اور سامراجیت کا ہتھکنڈہ بنا ہو ا ہے ، اسرائیل امریکہ اور برطانیہ جیسی سامراجی طاقتوں اور سلفی افکار کو فروغ دینے والے عناصر اور حکومتوں کی ملی بھگت سے ہی عالم اسلام میں پہلے طالبان پھر القاعدہ اور اب داعش ، جبہۃ النصرہ ، بوکو حرام اور نہ جانیں کون کون سے حرام الدہر دہشتگرد گروہ وجود میں لائے گئے جو ہمیشہ پرچم اسلام کو اٹھائے ہوئے نعرۀ تکبیر کے ساتھ صرف مظلوم ب و ے گناہ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلا کرتے ہیں۔صرف خود کو مسلمان کہنے والے یہ خونخوار بھیڑئے دشمنان اسلام کے گھر کی ایک مکھی بھی نہیں مارتے۔ انہیں سارے دشمنان دین صرف مسجدوں، عبادتگاہوں اور امام بارگاہوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دہشتگرد ٹولے اپنے انہی اعمال و کردار سے واضح کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں نہ دردِ دین ہے نہ فکرِ اسلام بلکہ ہم تو صرف استعماری طاقتوں کے ہتھکنڈے ہیں، ہمیں اسلحہ اور فکر امریکہ و اسرائیل فراہم کرتے ہیں اور ریال ، درہم، دینار اور لیر بعض اسلامی و عربی حکومتوں سے ملا کرتے ہیں۔
یہی فرقہ واریت ، اختلافات اور آپسی دشمنیاں اس بات کا سب سے بڑا سبب بنی ہیں کہ اسلامی مملکتیں چند حصوں میں تقسیم ہو جائیں۔ استکبار ی طاقتیں، ان ممالک کو ہمیشہ اپنا غلام بنا ئے رکھیں اور ان عظیم المنفعت ممالک سے خاطر خواہ فا ئدہ اٹھا سکیں۔ امت واحدہ نے خود کو خدا کے بجا ئے مختلف فریبی پناہ گاہوں کے حوا لے کر دیا ہے ،ہر طرف سے نا ہم آہنگ صدا ئیں بلند ہیں اور طبل افتراق کے شورو غل سے امت کے کان بہرے اور دل مردہ ہو گئے ہیں ۔
مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور جدا ئی کا بیج بو کر دنیا ئے اسلام کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہےاور یہ مسئلہ ایک صعب العلاج مشکل کی شکل اختیار کر چکاہے اور پورا عالم اسلام اس آتش فتنہ میں سلگ رہا ہے ۔یمن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ، شامات میں چند حکومتیں قائم ہو گئیں ، افریقہ کے اسلامی ممالک آپسی جنگ میں گرفتار ہیں ،ترک نشین عالم اسلام بھی کافر طاقتوں کے چنگل میں ہے ،مشرقی وسطیٰ امریکی اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور ان تمام مشکلوں کے علاوہ سب سے بڑی مصیبت یہ کہ وہا بیت ، بہائیت ، قادیانیت ،وغیرہ جیسے ادیان ِخلق الساعة اور مذاہبِ استعمار اس سلگتی آگ میں تیل کا کام کر رہے ہیں۔ [رسا لہ حوزہ شمارہ ٢٦،ص٩]
مقام تعجب تو یہ ہے کہ تمام فرقے خود کو پیرو قرآن جا نتے ہیں اور اس کے با وجود فرقہ واریت سے پرہیز نہیں کرتے جب کہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے کہ (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ...)[ سورۂ آل عمران ١٠٣] '' خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔ ''
پوری امت مسلمہ اور بالخصوص علمائے اسلام کو علامہ اقبال کے اس پیغام پر غور کر نا چا ہیئے جسے وہ یوں بیان کر گئے ہیں :
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی با تیں ہیں؟
مقالات کی طرف جائیے