مقالات

 

عقیدۂ بَدَاء

سید عابد رضا نوشاد رضوی

مسئلہ بداء شیعہ عقائد میں ایک اہم حیثیت کا حامل ہے۔بداء ایک ایسا پیچیدہ اور مشکل توحیدی عقیدہ ہے جس کے بارے میں شیعوں کی تقریباً تمام چھوٹی بڑی کلامی و فلسفی کتابوں میں مفصل یا مختصر طور پر بحث کی گئی ہے ۔
بزرگ عالم دین و فلسفی کبیر صدر المتأ لھین ملا صدرا شیرازی بداء کو ایک دشوار اور قابل غور و خوض بحث جانتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' اعلم انّ مسالة البداء من غوامض المسائل الالہیة و عویصات المعارف الربانیة التی لا یعرفھا الّا عارف موحد افنی عمرہ فی علم التوحید و صرف فکرہ فی قطع مناھج الواصلة الی عالم التجرید۔''
آگاہ ہو جاؤ کہ مسئلہ بداء الھٰیات کی سنگین بحثوں اور ربانی علوم کے سخت مباحث میں سے ہے اس مسئلہ کو موحد عارف کے علاوہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا ، ایسا عارف جس نے اپنی زندگی علم توحید میں ہی فنا کر دی ہو اور جس نے اپنی فکر عالم تجرد تک جانے والے راستوں کو کاٹنے میں مصروف کر دی ہو ۔ (۱)

بداء کی تعریف
لغت میں لفظ بداء کے معنی خفاء اور پوشیدگی کے بعد کسی چیز کا ظاہر ہونا ہیں۔ یعنی کوئی شے پہلے انسان سے پوشیدہ تھی لیکن اس کے بعد وہ اس پر ظاہر و آشکار ہو جائے ۔
قرآن میں بھی بداء اس معنی میں استعمال ہوا ہے مثلاً :
''بلکہ ان کے لئے وہ سب واضح ہوگیا جسے پہلے سے چھپا رہے تھے''۔(۲)
'' اس وقت ان پر ان کے برے اعمال آشکار ہوں گے''۔(۳)
'' ( قیامت میں ) ان کے لئے خدا کی طرف سے ایسا عذاب ظاہر ہوگا جس کا انھیں گمان تک نہ تھا ''۔(۴)
بداء اپنے اس معنی میں جہل اور نادانی کا نتیجہ ہے لہٰذا یہ لفظ اس معنی میں خدا وند عالم کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا اس لئے کہ یہ ایک محال عقلی ہے اور خداوندعالم ، عالم مطلق اور علم ازلی کا مالک ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
'' زمین اور آسمانوں کی کوئی چیز خدا وند عالم پر پوشیدہ نہیں ہے ''۔(۵)
''کوئی ایک پتّہ بھی کسی ایک درخت سے جدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ خدا اس سے آگاہ ہے اور کوئی ایک دانہ بھی زمین کی تاریکیوں میں اور کوئی تر و خشکی دنیا میں نہیں ہے مگر یہ کہ وہ کتاب مبین میں موجود ہے ''۔(۶)
یہی مفہوم شیعہ روایتوں میں بھی ہے۔ حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں :
''یعنی خدا وند عالم جنگلوں میں حیوانات کی چیخوں اور دہاڑوں سے اور خلوتوں میں بندوں کے گناہوں سے آگاہ ہے ''۔(۷)
اسی طرح امیر المومنین اللہ تعالیٰ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
'' کل سرٍ عندک علانیة و کل غیبٍ عندک شہادة ''
'' یعنی ہر راز تیرے لئے آشکار ہے اور ہر غیب تیرے لئے ظاہر ہے ۔''(۸)
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
'' کان اللہ ولا شئی غیرہ ولم یزل اللہ عالماً بما کوّن فعلمہ بہ قبل کونہ کعلمہ بعد ماکوّنہ ''
خدا وند عالم اس وقت بھی تھا جب اس کے علاوہ کچھ نہ تھا اور خدا ہمیشہ سے اپنی مخلوقات کا علم رکھتا تھا لہٰذا اس کو خلق کرنے سے پہلے اس کے بارے میں خدا کا علم بالکل خلق کرنے کے بعد کے علم کی طرح ہے ۔(۹)
مذکورہ آیات و روایات گواہ ہیں کہ شیعوں کا عقیدہ یہی ہے کہ خدا، عالم مطلق ہے اور اس کا علم لامحدود ہے ۔ وہ عالم الغیب و الشہادة اور عالم السر والعلانیة ہے لہٰذا شیعہ خدا کے بارے میں اس معنی میں بداء کے قائل نہیں ہیں کہ معاذ اللہ کوئی شئے خدا سے پہلے تو مخفی تھی لیکن بعد میں اس کے لئے آشکار ہوئی ۔ شیعہ روایات میں اس مسئلہ کی سخت مذمت ہوئی ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا کو اس چیز میں بداء ہوتا ہے جس کو وہ پہلے نہیں جانتا تھا تو اس شخص سے دوری اختیار کر لو '' ۔(۱۰)
ان وضاحتوں کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر خدا وند عالم کے بارے میں بداء کس معنی میں استعمال ہوتا ہے اور شیعوں کا اس مسئلہ میں کیا عقیدہ ہے ؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اب ہم اس مسئلہ کو واضح کریں۔

عقیدہ ٔبداء; قرآن کی رو سے
خدا وند عالم کے بارے میں بداء 'ظہور' کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ 'اظہار' بر وزن 'افعال ' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی بداء در حقیقت ''ابدائ''ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم ایسی چیز کو ظاہر و آشکار کرتا ہے جس کو وہ پہلے جانتا تھا لیکن وہ چیز دوسروں پر پوشیدہ تھی۔
ہر قضا و قدر میں خدا کو بداء نہیں ہوتا بلکہ صرف ان قضا و قدر میں بداء ہوتا ہے جو یقینی و حتمی نہیں ہیں بلکہ مشروط ہیں مثال کے طور پر خدا یہ جانتا تھا کہ فلاں شخص کل شدید طور پر مریض ہو جائے گا اور جانتا تھا کہ اگر اس نے صدقہ نہ دیا تو قطعی طور پر مریض ہو جائے گا اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ شخص کل صدقہ دے گا لہٰذا مریض نہ ہوگا اور جب وہ شخص صدقہ دے دیتا ہے تو خدا اس کو مریض نہیں کرتا ۔ یہاںجو خدا نے اپنے علم کا اظہار کیا یہی بداء ہے ۔
اس مثال میں قضا و قدر الٰہی موجود ہے لیکن مشروط ہے یعنی اگر وہ شخص صدقہ نہیں دیتا تو اس کا مریض ہونا لازمی تھا لیکن جب اس نے صدقہ دے دیا تو خدا نے اپنے علم کا اظہار کیا اور اسے مرض سے بچا لیا۔
یہ تو افہام و تفہیم اور تقریب ذہن کے لئے ایک مثال تھی لیکن اب ہم بداء کو قرآنی آیات اور قرآنی مثالوں کے ذریعہ ثابت کر رہے ہیں۔
١۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
'' خدا جس چیز کو چاہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہے ایجاد کرتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے ''۔(۱۱)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ خدا وند عالم مختار کل ہے جس چیز کو چاہے مقدم یا مؤخر کرے اور جس کو چاہے محو یا اثبات کرے ۔ مذکورہ آیت میں دنیا کے حادثات کے دو مرحلے بیان ہوئے ہیں پہلا وہ مرحلہ جوثابت و استوار ہے، اس میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں ہے یعنی ام الکتاب ( وَ عِنْدَہُ اُمُّ الْکِتَاب)اس کو لوح محفوظ بھی کہا جاتا ہے ۔ جو چیزیں لوح محفوظ میں ثبت ہیں انھیں قطعی طور پر واقع ہونا ہے اور ان میں کسی طرح کی تبدیلی یا رکاوٹ کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
آیت میں جو دوسرا مرحلہ بیان ہوا ہے وہ ہے '' محو و اثبات '' (یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت)جس کو دوسری تعبیر میں ''لوح محوو اثبات'' بھی کہا جاتا ہے ۔ لوح محوو اثبات میں ممکن ہے کہ کوئی چیز لکھی جائے لیکن پھر مٹا دی جائے یا اس کی جگہ کوئی اور چیز لکھ دی جائے ۔ انسان کی تقدیر کا بدلنا یا نصیب کا پلٹنا اسی لوح محو واثبات سے تعلق رکھتا ہے۔ بداء کاتعلق بھی صرف اسی دوسری قسم یعنی لوح محوو اثبات سے ہے قرآن کی دیگر آیات بھی تبدیلی تقدیرپر گواہ ہیں مثال کے طور پر ارشاد ہوتا ہے :
'' خدا وند عالم کبھی کسی قوم کے حالات کو نہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ قوم خود اپنے حالات متغیر کر لے''۔(۱۲)
یعنی لوح محوو اثبات میں ہر انسان کی جو تقدیر لکھ دی جاتی ہے وہ اس وقت تک نہیں بدلتی جب تک انسان کوئی ایسا عمل انجام نہ دے جس کی وجہ سے اس کا مقدر سنور جائے یا بگڑ جائے یعنی ادھر انسان اپنے اعمال، افعال و کردار میں تبدیلی لاتا رہتا ہے ادھر خدا وند عالم اسی اعتبار سے اس کی تقدیر
بدلتا رہتا ہے جب کہ خدا اس کے مستقبل کے ہر عمل سے آگاہ بھی ہوتا ہے اور بداء کامطلب بھی یہی ہے۔
٢۔ ارشاد ہوتا ہے :( وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی َسْتَجِبْ لَکُم)'' تمہارا رب کہتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا ''۔(۱۳)
یہ آیۂ کریمہ دعا کی حقیقت و واقعیت کو بیان کر رہی ہے ۔ بارگاہ ایزدی میں دعا کاقبول ہوجانا بھی بداء کی حقیقت کو ثابت کر رہا ہے ۔ اس کی وضاحت یوں کی جائے کہ خدا وند عالم کسی انسان کی قسمت میں کوئی بلا لکھ دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ مصیبت سے امان میں رہنے کی دعا نہ کرے اور خدا یہ بھی جانتا ہے کہ یہ شخص دعا کرے گا اور وہ بلا اس سے ٹل جائے گی لہٰذا جب وہ دعا کرتا ہے تو خداوند عالم اس کی بلا ٹال دیتا ہے اور اپنے اس ارادہ کا اظہار کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے روایات میں شب قدر کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ اس مبارک رات میں دعا کرناچاہیے کیوں کہ اس شب میں انسانوں کی تقدیر نئے سرے سے لکھی جاتی ہے ۔
لہذا واضح ہو جاتا ہے کہ دعا کی حقیقت کو قبول کرنا عقیدہ ٔبداء کو قبول کرنے کے مساوی ہے ۔ اس اعتبار سے ہر مسلمان بداء کا ماننے والا ہے اگر چہ وہ اس حقیقت کو نہ جانتا ہو۔ روایتوں کے مطابق صلہ ٔرحم کے ذریعہ عمر کا بڑھنا ، قطع رحم کے ذریعہ عمر کا گھٹنا ، صدقہ کے ذریعہ برے حوادث حتی موت کا ٹل جانا اور عاق والدین کی وجہ سے عمر کا گھٹ جانا یہ سب کچھ بداء کے ہی نمونے ہیں ۔
٣۔ قرآن مجید میں خدا وند عالم خواب ابراہیم علیہ السلام اور ذبح اسماعیل علیہ السلام کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :
''جب (خواب بیان کرنے کے بعد ) دونوں تسلیم ہو گئے اور ذبح کرنے کے لئے ان کو پیشانی کے بل لٹا دیا تو ہم نے ان کو آواز دی کہ اے ابراہیم ! تم نے خواب کے فریضہ کو انجام دے دیا ، ہم نیکی کرنے والے کو اسی طرح جزا دیتے ہیں، یہ وہی امتحان ہے جو مومنوں کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے اور ہم نے اس کے بدلے عظیم قربانی کو قرار دے دیاہے''۔(۱۴)
یہ آیات اس واقعہ سے متعلق ہیںکہ جب حضرت ابراہیم ـ کو خواب میں حکم ہواکہ اسماعیل کو ذبح کرو ۔ ظاہر ہے کہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے لہٰذا حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کوا ن کی رضامندی کے ساتھ لے کر پوری طرح تیاری اور یقین کامل کے ساتھ قربان گاہ کی طرف چل پڑے ، چونکہ یہ ایک امتحان تھا لہٰذا ان کو اس کا کوئی علم نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کے گلے پر چھری رکھی تو حضرت جبرئیل ـنے اسماعیل ـکو ہٹا کر ان کی جگہ ایک دنبہ رکھ دیا اور حضرت ابراہیم نے صلابت ایمان اور اطمینان قلب کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے چھری پھیر دی کہ میں اپنے پارۂ جگر کو ذبح کر رہا ہوں لیکن جب آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو ایک ذبح شدہ دنبہ پر نظرپڑی ۔
اب سوال یہ ہے کہ دنبہ کیوں آیا ؟ تو جواب یہ ہوگا کہ خدا وند عالم کا ارادہ اسماعیل ـکا ذبح ہونا نہیں تھا بلکہ صرف ابراہیم ـ کا امتحان لینا تھا لہٰذا پروردگار نے دنبہ کو بھیج کر اسماعیل ـ کو بچا لیا ۔
اس واقعہ میں رب العزت نے امتحان کی وجہ سے آخری مرحلہ کو ابراہیم اور اسماعیل سے چھپائے رکھا اور بعد میں ان لوگوں کے لئے اس کا اظہار کیا یعنی خلاف امید نتیجہ سامنے آیا ۔
٤۔ حضرت یونس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :
'' تو اگر( یونس ) تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو تا قیامت اس ( مچھلی ) کے پیٹ میں باقی رہتے ''۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے لیکن ان کی تسبیحات ، ان کی تقدیر کی تبدیلی کا سبب بنیںیعنی بداء واقع ہوا جس کے نتیجہ میں ان کو نجات حاصل ہوئی ۔
٥۔ بداء کا ایک قرآنی نمونہ حضرت موسیٰ سے مربوط ہے کہ جب خدا وند عالم نے توریت عطا کرنے کے لئے کوہ طور پر بلایا ۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے :
''ہم نے موسی سے تیس راتوں کا وعدہ کیاجب تیس راتیں گذرگئیں تو دس راتوں کا اس میں اور اضافہ کر دیا لہٰذا وعدے کا وقت چالیس راتوں پر ختم ہوا ''۔(۱۶)
مذکورہ آیت میں واضح طور پر ذکر ہوا ہے کہ خدا کا وعدہ چالیس راتوں کا تھا ایک جگہ اور اس بات کا ذکر ہوا ہے : (ووَاعَدْنَا مُوسَی َرْبَعِینَ لَیْلَة ) ''ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا ''۔(۱۷)
لیکن اس کے باوجود خدا نے پہلے مرحلے میں موسیٰ کو یہ نہیں بتایا کہ چالیس راتوں کا وعدہ ہے بلکہ پہلے مرحلہ میں صرف تیس راتوں کا ذکر کیا ۔
آیت نے جب موسی کے بارے میں بتایا تو کہا'' ثلاثین لیلة''یعنی تیس راتیں اور جب خداوند عالم کے علم کی طرف اشارہ کیا تو کہا ''اربعین لیلة''یعنی چالیس راتیں۔
مذکورہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو تیس راتوں کے وعدہ کا ہی علم تھا لیکن بداء واقع ہوا اور آخر میں خدائے کریم نے اس میں دس راتوں کامزید اضافہ کر کے موسیٰ کو آگاہ کیا ۔
ہمارا سوال :کیا عقیدہ ٔبداء کے مخالفین مذکورہ تمام آیات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو اپنی زبان پر لانے کی جرأت کریں گے کہ خدا کا کسی شئے کو محو کرنایااسکو ثابت کرنا ، دعا قبول کر کے تقدیروں کو بدلنا ، اسماعیل کی جگہ دنبہ کو ذبح کروانا ، یونس کو ان کی تسبیحات کی وجہ سے شکم ماہی سے نجات دینا جب کہ قیامت تک ان کو اسی شکم میں قید رہنا تھا یا خدا کا موسیٰ سے پہلے تیس راتوں اور آخر میں دس راتوں کا اضافہ کر کے چالیس راتوں کا وعدہ کرنا،( معاذ اللہ، خاکم بدہن) خدا کے جہل کی دلیلیں ہیں ؟؟
اگر انہوں نے یہ جرأت کی تو اپنے کفر کا اعلان کیا اور اگر اس کا انکار کیا تو گویا انہوں نے عقیدۂ بد ا ء کا اقرار کیا اور کوئی راہ فرار ان کے لئے باقی نہیں رہ جاتی۔

روایات اہل سنت میں عقیدۂ بداء
شیعہ کتابوں میں تو بداء کے سلسلہ میں بے شمار روایتیں موجود ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ معتبر سنی کتابوں میں بھی عقیدہ بداء کو ثابت کرنے والی روایات موجود ہیں ۔ ہم یہاں صرف بداء پر صراحتاً دلالت کرنے والی بعض ایسی سنی روایات نقل کر رہے ہیں جن میں لفظ ''بداء''وارد ہوا ہے :
١۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے روایت ہے :
''انّ ثلاثة فی بنی اسرائیل ابرص و اقرع و اعمی بدا للہ ان یبتلیھم'' بنی اسرائیل میں تین قسم کے لوگ تھے:برص کے مریض ، گنجے اور اندھے۔خدا کو بداء ہوا کہ انھیں ان امراض میں مبتلا کر دے۔(۱۸)
٢۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ :'' یجمع اللہ عز وجل الامم فی صعید یوم القیامة فاذا بداللہ عز و جل ان یصدع بین خلقہ مثّل لکل قوم ماکانوا یعبدون فیتبعونھم حتی یقحمونھم النار'' رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ خدا وند عالم قیامت کے دن امتوں کو اکھٹا کرے گا اور جب خدا کو بداء ہوگا تو اپنی مخلوقات کے درمیان ہر قوم کے لئے ان کے معبودوں کو مجسم کرے گا پھر ہر قوم اپنے معبود کی پیروی کرے گی یہاں تک کہ ان کے معبود انھیں جہنم میں جھونک دیں گے ۔(۱۹)
اسی طرح کی روایات کا معتبر سنی کتابوں میں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اہل سنت کے بزرگ قدیم علماء عقیدہ ٔبداء کے قائل تھے ۔ محترم سنی علماء سے یہ گزارش ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں بداء سے متعلق روایات کا مطالعہ فرمائیں تاکہ اس قرآنی و اسلامی حقیقت کو قبول کرنے میں ان کی مدد ہو سکے ۔

حوالہ جات
۱۔شرح اصول کافی ، ص: ٣٧٨
۲۔سورہ انعام ، آیت: ٢٨
۳۔ سورہ جاثیہ ، آیت: ٣٣
۴۔سورہ زمر ، آیت: ٤٧
۵۔ سورہ ابراہیم ، آیت: ٣٨
۶۔سورہ انعام ، آیت: ٥٩
۷۔ نہج البلاغہ ، خطبہ : ١٩٨
۸۔ نہج البلاغہ، خطبہ : ١٠٥
۹۔ بحار الانوار، ج: ٤ ص: ٨٦، باب العلم
۱۰۔ بحار الانوار ، ج: ٤ ص: ١٠٦ حدیث: ٣٠
۱۱۔سورہ رعد ، آیت: ٣٩
۱۲۔ سورہ رعد ، آیت:١١
۱۳۔ سورہ غافر ِ آیت: ٦٠
۱۴۔سورہ صافات ، آیت: ١٠٣۔١٠٧
۱۵۔سورہ صافات ، آیت: ١٤٣۔١٤٤
۱۶۔ سورہ اعراف ،آیت: ١٤٢
۱۷۔ سورہ بقرہ ، آیت: ٥١
۱۸۔ صحیح بخاری باب ،٥١،حدیث ٣٢٧٧ و النہایة ابن محمد جزری، ج١، ص١٠٩۔
۱۹۔ مسند احمد بن حنبل ، ج٤، ص٤٠٧، بیروت۔
مقالات کی طرف جائیے