مقالات

 

جنگ خیبر کی علمداری؛ایک امتیازی فضیلت

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

انسان کی زندگی کچھ سادے اوراق پر مشتمل ایک کتاب کی مانند ہے ، گزرتے ہوئے روز و شب کے ساتھ اس پر فضائل و خصوصیات کے نقوش ابھرتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ عمر کی پختگی کے ساتھ کتاب مکمل شکل اختیار کرلیتی ہے ، اسی کو کردار کہاجاتا ہے۔ انسان جب منفرد کردار کا حامل ہوجاتاہے اور معاشرے میں اپنی ایک الگ پہچان بنالیتاہے تو پھر اس کا ہر قدم اور ہر کارنامہ فضیلت کے زمرے میں آجاتاہے ۔ فضیلت کے لغوی معنی زیادتی کے ہیں ، اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ پسندیدہ صفات و اخلاق میں کسی بھی حیثیت سے اگر کسی شخص میں زیادتی ہے تو اس کے لئے کہاجاتاہے کہ اسے فضیلت حاصل ہے ۔ ظاہر ہے کہ پسندیدہ صفات بہت سے لوگوں میں موجود ہونے کا امکان ہے ، کسی میں کم کسی میں زیادہ ، جس میں زیادہ ہے وہ کم صفتوں والے انسان کے مقابلے میں فضیلت کا حامل ہے لیکن خصوصیت کا مفہوم بڑا محدود ہے ، کسی انسان کے اندر خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ صفت اس کے علاوہ کسی دوسرے میں پائی ہی نہیں جاتی ۔ خصوصیت اچھی بھی ہوتی ہے بری بھی،لیکن فضیلت صرف اچھے ہی صفات کے لئے بولی جاتی ہے ۔عام طور سے فضیلت و خصوصیت کو ایک ہی مطلب سمجھ لیاجاتاہے حالانکہ دونوں کے مفہوم میں بڑا فرق ہے ، فضیلت عام ہے لیکن خصوصیت خاص ہے اس کے باوجود کسی نہ کسی حیثیت سے دونوں کا آپس میں تعلق ہے یعنی ایسا ممکن ہے کہ کوئی فضیلت کسی انسان کی خصوصیت بن جائے جیسے سب سے پہلے شخص حضرت علی ہیں جنہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیچھے نماز پڑھی ، یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس کی مدح سرائی خود قرآن مجید نے کی ہے ۔
جنگ خیبر میں علم داری بھی ایسی فضیلت بلکہ ایسی خصوصیت ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کا کوئی شریک نہیں ، اس امتیازی فضیلت کی وجہ سے صحابۂ کرام حضرت علی علیہ السلام پر رشک کرتے تھے اور اپنی بزم میں اس کا برملا اظہار کرتے تھے ، علمائے اسلام نے بھی اپنی کتابوںمیں بعض صحابہ کے اقوال نقل کئے ہیں جن سے اس فضیلت کی اہمیت واضح و آشکار ہوتی ہے ؛چنانچہ حاکم نیشاپوری اپنی کتاب مستدرک میں لکھتے ہیں:
ابوہریرہ سے منقول ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا:
لقد اعطی علی بن ابی طالب ثلاث خصال ،لان تکون لی خصلة منھا احب الی من ان اعطی حمر النعم ،قیل و ما ھن یا امیرالمومنین ؟قال: تزوجہ فاطمة بنت رسول اللہ ، و سکناہ المسجد مع رسول اللہ یحل لہ فیہ ما یحل لہ والرایة یوم خیبر '' علی بن ابی طالب کوتین ایسی خصلتیں عطا ہوئیں کہ اگر ان میں ایک بھی مجھے ملتی تو میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ۔ان سے سوال کیاگیا : یاامیر المومنین ! وہ کون سی خصلتیں ہیں ؟انہوں نے کہا : فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے شادی ،رسول کے ہمراہ مسجد میں سکونت،اس میں رسول کے لئے جو کچھ حلال تھا وہ سب علی کے لئے بھی حلال تھا اورخیبر کے دن علم کا حصول ''۔(١)
اسی طرح احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں لکھتے ہیں کہ اپنے باپ کی پیروی کرتے ہوئے عبد اللہ بن عمر نے بھی حضرت علی (ع)کے متذکرہ فضائل و مناقب کے متعلق اپنی شدید خواہش کا اظہار کیا ، وہ کہتے ہیں :
لقد اوتی ابن ابی طالب ثلاث خصال لان تکون لی واحدة منھن احب الی من حمر النعم :زوجہ رسول اللہ ابنتہ فولدت لہ و سد الابواب الا بابہ فی المسجد و اعطاہ الرایة یوم خیبر ''علی کو تین ایسی خصوصیتوں سے نوازا گیا کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھے دی جاتی تو میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی :اول :رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی بیٹی سے ان کی شادی کی اور وہ ان کے فرزندوں کی ماں ہوئیں،دوم :مسجد کی طرف علی کے علاوہ تمام گھروں کے دروازے بند کر دئیے گئے ،سوم :جنگ خیبر میں ان کے حوالے علم کیاگیا ''۔(٢)
حضرت علی علیہ السلام کی اس امتیازی فضیلت کی وجہ سے بعض صحابہ نے اپنے اہداف و مقاصد میں حضرت کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے بھی آپ کے احترام و اکرام کا خصوصی خیال رکھا ، چنانچہ نسائی اور بیہقی جیسے بزرگ علمائے اہل سنت نے اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں نقل کیاہے کہ ایک دن سعد بن ابی وقاص ، معاویہ بن ابی سفیان سے ملاقات کرنے گئے ، معاویہ نے سعد سے کہا کہ تم علی بن ابی طالب پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ، سعد نے کہا : واللہ لان یکون لی واحدة من خلال ثلاث احب الی من ان یکون لی ما طلعت علیہ الشمس ...' ' خدا کی قسم !اگر ان تین فضیلتوں میں سے جو علی کے پاس تھیں ایک بھی فضیلت میرے پاس ہوتی تو اس سے بہتر ہوتی کہ وہ ساری چیزیں جن پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں میری ملکیت میں ہوتیں ''۔
یہ جواب سن کر معاویہ کو تعجب ہوا ، اس نے اپنے اشتیاق کا اظہار کرتے ہوئے سعد سے کہا : وہ تین فضیلتیں کیا ہیں ؟
سعد نے جواب دیا :وہ تین فضیلتیں یہ ہیں :
١۔ جس دن پیغمبر اسلام نے مدینہ میں ان کو اپنا جانشین بنایا اور خود جنگ تبوک کے لئے روانہ ہونے لگے تو لوگوں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ رسول علی کو دوست نہیں رکھتے اس وقت رسول خداۖنے فرمایا : تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسے ہارون کو موسیٰ سے تھی سوائے اس کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔
٢۔ جس دن نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ تھا تو پیغمبر اسلام نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا کر فرمایا : خدایا!یہی میرے اہل بیت ہیں ۔
٣۔ جس دن مسلمانوں نے یہودیوں کے اہم ترین قلعہ خیبر کے بعض حصوں کو فتح کیا تھا لیکن قلعہ ''قموص '' جو سب سے بڑا قلعہ اور یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا ، آٹھ دن تک اسلامی فوج کے محاصرے میں تھا اور اسلام کے مجاہدین میں اسے فتح کرنے اور کھولنے کی سالاری اپنے ہاتھوں میں لیتے ، روزانہ آنحضرت علم لے کر فوج کے بزرگوں کو دیتے تھے اور وہ سب کے سب بغیر نتیجہ کے واپس آجاتے تھے ، جب کئی دنوں تک ناکامی نظر آئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے ایک دن سب کو جمع کرکے فرمایا : کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو ہرگز جنگ کرنے سے فرار نہیں کرے گا اور دشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہوںگے اور خداوندعالم اس قلعہ کو اس کے ہاتھوں سے فتح کرائے گا ۔
جب پیغمبر کے ارشاد کو علی سے نقل کیاگیا تو آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کی :
اللھم لا معطی لما منعت و لا مانع لما اعطیت یعنی خدایا !جو کچھ عطا کرے گا اسے کوئی لینے ولا نہیں ہے اور جو کچھ تو نہیں دے گا اس کا دینے والا کوئی نہ ہوگا ۔
(سعد کا بیان ہے :)جب سورج نکلا تو اصحاب پیغمبر آپ کے خیمہ کے اطراف میں جمع ہوگئے تاکہ دیکھیں کہ یہ افتخار رسول کے کس صحابی کو نصیب ہوتاہے ، جب آنحضرت خیمے سے باہر آئے ، سب سر اٹھا اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے ، میں (سعد ) پیغمبر کے پہلو میں کھڑا ہوا تھا کہ شاید اس افتخار کا مصداق میں بن جاؤ اور شیخین سب سے زیادہ خواہش مند تھے کہ یہ افتخار ان کو نصیب ہوجائے ، اسی اثنا میں پیغمبر نے پوچھا : علی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے حضرت سے کہا : وہ آشوب چشم کی وجہ سے آرام کررہے ہیں ۔ آنحضرت کے حکم سے سلمہ بن اکوع حضرت علی کے خیمہ میں گئے اور ان کے ہاتھ کو پکڑ کر رسول کی خدمت میں لائے ۔ آنحضرت نے ان کے حق میں دعا کی اور آپ کی دعا ان کے حق میں مستجاب ہوئی ، اس وقت آنحضرت نے اپنی زرہ حضرت علی علیہ السلام کو پہنائی ، ذوالفقار ان کی کمر میں باندھا اور علم ان کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے فرمایا : جنگ کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا اور اگر یہ قبول نہ کریں تو ان تک یہ پیغام دینا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کے پرچم تلے جزیہ دیں اور اسلحہ اتار کر آزادانہ زندگی بسر کریں اور اپنے مذہب پر باقی رہیں اور اگر کسی چیز کو قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرنا ۔اور جان لو کہ جب بھی خداوندعالم تمہارے ذریعہ کسی کی راہنمائی کرے ، اس سے بہتر یہ ہے کہ سرخ بالوں والے اونٹ تمہاری دولت ہوں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ کردو ۔(٣)
حضرت علی علیہ السلام نے اس جنگ میں جس طرح اپنی شجاعت و جوانمردی کا مظاہرہ فرمایا وہ پوری تاریخ اسلام میں منفرد اور مثالی ہے ، آپ نے سب سے پہلے یہودی فوج کے سردار مرحب کو دو ٹکڑوں میں تبدیل کیا ، یہ دیکھ کر یہودی اپنے قلعہ میں منحصر ہوگئے اور قلعہ کا دروازہ بند کرلیا ۔ حضرت علی(ع) دروازے کے قریب آئے اور وہ درازہ جسے بیس افراد بند کرتے تھے اسے تنہا کھول دیا اور اسے اکھاڑ کر خندق پر پل بنادیا۔ جس کی وجہ سے مسلمان اس پل سے ہوتے ہوئے قلعہ میں داخل ہوگئے اور تاریخ اسلام کی دوسری جنگوں کی طرح یہ جنگ بھی حضرت علی کی بدولت فتح ہوئی ۔(٤)
ظاہر ہے ایسی منفرد اور امتیازی فضیلت پر صحابۂ کرام کو رشک و حسد ہوتو بے جا نہیں ہے ، اسی لئے وہ اس امتیازی فضیلت و خصوصیت کو سرخ اونٹوں کے حصول پر فوقیت دیتے تھے اور دنیا جہاں کی دولت و ثروت کو اپنی ٹھوکروں میں رکھنے کے لئے تیار تھے ۔امیر المومنین حضرت علی کی اس فضیلت کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ :تاریخ میں ایسی شخصیت صرف ایک ہی مرتبہ نمودار ہوتی ہے :
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

منابع و مآخذ
١۔مستدرک حاکم، طبع اول بیروت ج٣ ص ١٣٥ ح٤٦٣٢
٢۔مسند احمد ج٢ ص ٢٦ (ج٢ ص ١٠٤ ح٤٧٨٢)
٣۔ اس واقعہ کی تفصیل ملاحظہ ہو: خصائص نسائی ص٣٧حدیث ١١؛ سنن کبریٰ بیہقی ج٥ ص ١٠٧ حدیث٨٣٩٩؛ مروج الذہب مسعودی ج٣ ص ٢٤
٤۔ ارشاد شیخ مفید ص٥٨۔٥٧
مقالات کی طرف جائیے