مقالات

 

مولود کعبہ

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

ائمہ طاہرین علیہم السلام کی حیات طیبہ کا ہر قدم بلکہ ہر لمحہ جہاں انفرادی حیثیت کا حامل ہے وہیں بنی نوع انسان کے لئے درس کی حیثیت بھی رکھتاہے ، آپ حضرات کی زندگی و بندگی کے ہر لمحے پر خداوندعالم نے عصمت و طہارت کی مہر لگا کر پورے عالم انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیاہے ، اس لئے کہ آپ حضرات کی زندگی کا ہر قدم لائق تقلید اور منفرد ہے ، جینے کا انداز منفرد ہے ، یہاں تک کہ آپ حضرات کی ولادت و شہادت کا طریقہ بھی انفرادی حیثیت کا حامل ہے ۔
ابو الائمہ حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی زندگی میں انفرادیت پوری طرح نمایاں نظر آتی ہے ، آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ منفرد حیثیت کا حامل ہے ، یہاں تک کہ آپ کی ولادت کے سلسلے میں بھی خداوندعالم نے انفرادیت کی مہر ثبت فرمائی ہے ، جس کا اعتراف بلا تفریق مذہب و ملت ، تمام علمائے اسلام نے کیاہے ۔
امیر المومنین حضرت علی کی نوری تخلیق ، خلقت سرورکائنات کے ساتھ ساتھ عالم و آدم کی پیدائش سے بہت پہلے ہوچکی تھی لیکن انسانی شکل و صورت میں آپ کا ظہور ١٣ رجب المرجب ٣٠ عام الفیل بمطابق ٦٠٠ئ بروز جمعہ خانۂ کعبہ میں ہوا ۔
تاریخ اسلام میں امیر المومنین کے واقعۂ ولادت کو اس طرح نقل کیاجاتاہے : حضرت فاطمہ بنت اسد (س)نے جب دردزہ محسوس کیا تو اس سلسلے میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ سے مشورہ کیا ، آنحضرت نے اپنے جانشین کی آمد پر بے پناہ مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے خانۂ کعبہ کے نزدیک جانے کا مشورہ دیا ، آپ حکم رسول کی تعمیل کرتے ہوئے خانۂ کعبہ کے قریب آئیںاور پورے گھر کا طواف کرنے کے بعد ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئیں۔
یزید بن قعنب کا بیان ہے کہ ہم ، ابن عباس اور دوسرے لوگ خانۂ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، تھوڑی دیر بعد فاطمہ بنت اسد تشریف لائیں ، آپ پر آثار زچگی طاری تھے ، آپ نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی : '' خدایا!تیرے اوپر میرا ایمان ہے اور ان تمام چیزوں پر جو تیری طرف سے تیرے رسول لائے اور ہر پیغمبر لایا اور ہر کتاب پر ایمان ہے جسے تونے نازل کیا ، میں کلام ابراہیم خلیل کی تصدیق کرتی ہوں اور اس بات کی بھی کہ انہوں نے تیرا بیت عتیق تعمیر کیا ۔ پس میں تجھ سے سوال کرتی ہوں اس گھر کے حق کا واسطہ دے کر اور اس کے بنانے والے کا واسطہ دے کر اور اس مولود کا واسطہ دے کر جو میرے بطن میں ہے اور جو مجھ سے باتیں کرتاہے ، مجھے اپنی باتوں سے مانوس کرتاہے اور میں اس بات کا یقین رکھتی ہوں کہ یہ تیری ایک نشانی ہے ،لہذا میرے اوپر اس کی ولادت کو آسان کردے ''۔(١)
یزید بن قعنب کہتاہے کہ میں نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد اس میں داخل ہوئیں اور ہماری نظروں سے غائب ہوگئیں ، اس کے فوراًبعد دیوار کعبہ جو شق ہوئی تھی ، باہم مل گئی ۔ ہم نے قفل کھولنے کی بڑی کوشش کی لیکن ہمیں کامیابی نہ ملی لہذا ہم نے سمجھ لیاکہ یہ سب کچھ خداوندعالم کی طرف سے ہوا ہے ۔
آپ چوتھے دن خانۂ کعبہ سے باہر آئیں اور آپ کی آغوش میں امیر المومنین علی بن ابی طالب تھے ، اس وقت فاطمہ بنت اسد نے فرمایا کہ خداوندعالم نے مجھے گزشتہ تمام خواتین پر فضیلت عطا فرمائی ہے ، آسیہ بنت مزاحم نے پوشیدہ طریقے پر عبادت خدا کی ، مریم بنت عمران نے خشک درخت خرما ہلایا تو تازہ رطب گرے اور میں جس وقت خانۂ کعبہ میں داخل ہوئی تو خدا نے مجھے جنتی میوے کھلائے جس وقت باہر آنا چاہتی تھی تو ہاتف نے آواز دی کہ اس مولود کا نام علی رکھو ، خداوندعالم فرماتاہے کہ میں نے اپنے نام سے اس کا نام مشتق فرمایا ہے ، اپنے علم کا امین قرار دیاہے ، اپنے ادب و اخلاق سے آراستہ کیاہے ، یہی میرے گھر سے بتوں کو پاک کرے گا ، بام کعبہ سے اذان دے گا ۔(٢)
تفصیل و اجمال کے ساتھ یہ روایت علل الشرائع ، معانی الاخبار ، امالی الصدوق ، مدینة المعاجز ، بشارة المصطفیٰ ، کشف الحق و نہج الصدق اور احقاق الحق وغیرہ میں موجود ہے ۔
خانۂ کعبہ میں حضرت علی کی ولادت کا اقرار فریقین نے اپنی کتابوں میں تواتر کے ساتھ کیاہے ، ان کا احصاء کرنے کے لئے دفتر چاہئے ؛علامہ عبد الحسین الامینی نے اپنی گرانقدر کتاب ''الغدیر '' کی چھٹی جلد کے اوائل میں اکثر علمائے اسلام کا تذکرہ کیاہے ، یہاں ان میں سے صرف ایک نمونہ پیش کیاجارہاہے :
اہل سنت کے جید عالم حاکم نیشاپوری اپنی کتاب مستدرک میں لکھتے ہیں : ''یہ تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد کے بطن سے امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ عین جوف کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔(٣)
خانۂ کعبہ میں حضرت کی ولادت انفرادی حیثیت کی حامل ہے ، خداوندعالم نے اس فضیلت کو صرف آپ کی ذات سے مخصوص فرمایاہے ، آپ سے پہلے بھی کسی کی ولادت خانۂ کعبہ میں نہیں ہوئی اور نہ ہی آپ کے بعد کسی کو یہ فضیلت نصیب ہوئی ۔حضرت کی یہ امتیازی فضیلت اس قدر نمایاں اور واضح و آشکار ہے کہ تمام علمائے اسلام نے اس کا اعتراف کیا ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ حضرت کے قبل و بعد خانۂ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی ہے ؛ لیجئے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیے :
صاحب تحفہ اثنا عشریہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :تواترت الاخبار ان فاطمة بنت اسد ولدت امیر المومنین فی جوف الکعبة فانہ فی یوم الجمعة ثالث عشر من شھر رجب بعد عام الفیل مثلین سنة فی الکعبة و لم یولد فیھا احد سواہ قبلہ و لا بعدہ ''یہ تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد کے بطن سے امیر المومنین علی بن ابی طالب کی ولادت عین جوف کعبہ میں ہوئی ، وہ جمعہ کا دن تھا ، رجب کی تیرہ تاریخ تھی ، واقعہ فیل کو تیس سال گزر چکے تھے ، آپ عین کعبہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے سوا ہرگز کوئی شخص کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ، نہ آپ سے پہلے نہ آپ کے بعد''۔(٤)
حافظ گنجی شافعی '' کفایة الطالب '' میں ابن نجار کے طریق سے حاکم نیشاپوری سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: ''حضرت امیر المومنین ١٣رجب المرجب ٣٠ عام الفیل شب جمعہ بیت اللہ الحرام میں پیدا ہوئے ، ان سے قبل یا بعد کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ، یہ شرف آپ ہی سے مخصوص ہے ''۔(٥)
شہاب الدین سید محمود آلوسی صاحب تفسیر لکھتے ہیں :جوف کعبہ میں حضرت امیر المومنین کی ولادت باسعادت عالم فانی کا مشہور واقعہ ہے ، شیعہ و سنی دونوں نے اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ کیاہے ۔
نیز وہ یہ بھی لکھتے ہیں :'' آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے متعلق یہ بات مشہور نہیں ہوئی ، اگر کسی نے بے سر کی اڑائی بھی ہے تو اس کی بات پر اتفاق نہیں ہواہے ، ہاں !اماموں کے امام اور رہبروں کے رہبر کے لئے کتنا مناسب ہے کہ اس کی ولادت ایسی جگہ ہو جو مومنین کا قبلہ قرار پائے ، پاک و پاکیزہ ہے وہ خدا جس نے ہر شئی کو اس کی واقعی جگہ قرار دیاہے اور وہی احکم الحاکمین ہے ''۔(٦)
خانۂ کعبہ میں امیر المومنین کے واقعۂ ولادت کے تواتر و شہرت کا اندازہ اس جہت سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ طول تاریخ میں بے شمار شعراء نے اس واقعہ کو نظم کے پیرائے میں بیان کیاہے ؛ یہاں آخر کلام میں نمونے کے طور پر صرف ایک قصیدے کے بعض اشعار نقل کئے جارہے ہیں ، شیخ حسین نجفی نغمہ سرا ہیں:
اشعار کا ملخص ترجمہ:
''خداوندعالم نے اپنے گھر کو علی کے لئے جائے ولادت قراردیا ، اس فضیلت میں کوئی ان کا مثل و نظیر نہیں ، خانۂ کعبہ میں ولادت کی اس عظیم فضیلت میں سید المرسلین اور انبیائے کرام بھی شریک نہیں ہیں، خداوندعالم حضرت علی کے سلسلے میں بیت معمور کے اشتیاق اور والہانہ پن سے واقف ہے ، جو شخص اس گھر سے عشق و وابستگی رکھتاہے خدا اس سے خوف واقف ہے ''۔

منابع و مآخذ
١۔مدینة المعاجز ص ٥
٢۔ ریاحین الشریعة ج٣ ص ٧؛ بحار الانوار
٣۔ مستدرک علی الصحیحین ج٣ ص ٤٨٣
٤۔ ازالة الخفا ج٢ ص ٢٥١
٥۔کفایة الطالب ص٤٩٧
٦۔ شرح الخریدة فی شرح القصیدة العینیہ ص١٥،٧٥
مقالات کی طرف جائیے