مقالات

 

غدیری ایام کی مناسبتیں

سید غافر حسن رضوی چھولسی

مناسبتوں کی اشاعت کے پیش نظر ان کی تبلیغ نہایت مؤثر ثابت ہوتی ہے، جیسے کہ گذشتہ زمانوں میں عشرۂ مہدویت، عشرۂ کرامت اور ایام فاطمیہ جیسی مناسبتوں سے لوگ ناواقف تھے لیکن ان تمام چیزوں کی ترویج نے ان کو مشہور کردیا، اسی طرح ماہ ذی الحجہ کی مناسبتوں کی بھی ترویج و اشاعت ضروری ہے کیونکہ یہ مہینہ مولائے کائنات علی ابن ابیطالب سے منسوب ہے اور اس مبارک مہینہ میں آپ کی ولایت کو بیان کیا گیا ہے۔
اس مہینہ میں واقع ہونے والی عید ''عید غدیر'' کی پرزور اشاعت و ترویج ہونی چاہئے کیونکہ امت مسلمہ کی سب سے بڑی عید ''عید غدیر'' ہی ہے اور عید غدیر کے علاوہ بھی اس مہینہ میں بہت سی مناسبتیں پائی جاتی ہیں جن کا جاننا نہایت ضروری ہے کیونکہ وہ مناسبتیں بھی ولایت و امامت سے مربوط ہیں لہٰذا ان کی ترویج ہونی چاہئے۔ اس بات پر خاص توجہ دینی چاہئے کہ عید غدیر کو صرف چند ایام سے ہی مخصوص نہ کردیں بلکہ عید قرباں سے عید غدیر اور پھر عید غدیر سے عید مباہلہ تک اس امر کی ترویج و اشاعت میں محو رہنا چاہئے تاکہ عید قرباں کے ساتھ ساتھ ان دونوں عیدوں ''عید غدیر اور عید مباہلہ '' کا پیغام بھی لوگوں تک مستقل پہنچتا رہے۔
دین کی حقانیت، ولایت و امامت کے زیر سایہ قائم ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اگر ولایت و امامت کا اعتقاد سالم ہے تو پھر توحید،نبوت اور معاد کے عقائد بھی سالم رہیں گے۔ جتنی تاکید ولایت وامامت کے لئے ہوئی ہے اتنی تاکید کسی دوسرے عقیدہ کے لئے نہیں ملتی۔ حقیر کا ارادہ ہے کہ ماہ ذی الحجہ میں واقع ہونے والی مناسبتوں کا بالترتیب تذکرہ کروں اور صنف روحانیت سے التجا کروں کہ ان مناسبتوں کا خاص خیال رکھیں اور ان کی ترویج و اشاعت میں کوشاں رہیں۔
ان مناسبتوں کی ترویج کا ایک طریقۂ کار یہ ہے کہ ہر مناسبت پر جشن مسرت منعقد کیا جائے، ماہ ذی الحجہ بہت اہم اور مبارک مہینہ ہے، اس مہینہ کے متعلق قرآن میں متعدد آیات موجود ہیں۔
ذی الحجہ کا پہلا عشرہ: یعنی شروع کے دس روز اتنے اہم ہیں کہ ان ایام میں خداوندعالم نے کوہ طور پرجناب موسیٰ کو اپنا نور دکھایا۔ پہلی ذی الحجہ میں امیر المومنین علی اور جناب فاطمہ زہرا کا عقد مسنون واقع ہوا، یہ ایسا عقد تھا کہ تاریخ بشریت میں نہ تو ا س سے پہلے دیکھا گیا اور نہ اس کے بعد دیکھا گیا کہ جس عقد کے بعد گیارہ ائمۂ معصومین دنیا میں آئے ہوں، یہ شادی اتنی سادگی کے ساتھ طے پائی کہ بشریت کو نمونہ قرار دینا چاہئے۔
نوذی الحجہ: ذی الحجہ کی نویں تاریخ میں سدّ الابواب کا واقعہ پیش آیا، جب پیغمبراکرمؐ نے مسجد نبویتعمیر کرائی تو تمام اصحاب نے مسجد کے اردگرد اپنے گھر بنالئے اور تمام لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے مسجد میں کھول لئے، خداوند عالم نے اپنے نبیؐ کی جانب جبرئیل کو یہ حکم دیکر نازل فرمایاکہ مسجد میں کھلے ہوئے تمام دروازوں کو بند کرادو، صرف تمہارا اور علی کا دروازہ ایسا ہوجو مسجد میں کھلتا رہے کیونکہ آیۂ تطہیر بھی انہی شخصیتوں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے اس بات کی جانب کہ خداتک پہنچنے کے تمام راستے بند ہیں سوائے راہِ اہل بیت کے۔ اس مطلب کو رسول اسلامۖ کی حدیث بیان کررہی ہے: ''انا مدینة العلم و علی بابھا ولا تدخلوا المدینة الا من بابھا'' میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ، شہر میں دروازہ کے علاوہ کسی اور راہ سے داخل نہ ہونا۔ جب خداکی جانب سے پیغمبر اسلامؐ کو سدّ ابواب کا حکم ملا تو بعض اصحاب اپنی اپنی سفارش لیکر پیغمبراکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ یارسول اللہ! کم سے کم مسجد کی جانب ایک دریچہ یا کھڑکی کھولنے کی ہی اجازت دے دیجئے! لیکن رسول اسلامؐ نے حکم خداوندی کے تحت ایک سوراخ کی بھی اجازت نہیں دی۔
دس ذی الحجہ: مسلمانوں کا عظیم تہوار جس کو امت مسلمہ عید قرباں یا عیداضحی کے نام سے موسوم کرتی ہے، یہ ایسا مبارک روز ہے جس میں پیغمبراسلام ؐنے لوگوں کو میدان منیٰ میں جمع کیا اور حدیث ثقلین ارشاد فرمائی: ''انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی ابدا'' میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت اہل بیت ، جب تک تم ان دونوں کا دامن تھامے رہوگے تب تک ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ حدیث ثقلین، حدیث غدیر اور ان کے جیسی احادیث اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ راہ ہدایت صرف ایک ہی ہے اور وہ راہ ''قرآن و اہل بیت '' سے تمسک اختیار کرنا ہے نہ کہ صرف ایک کا دامن تھام لیا جائے اور دوسرے کو ترک کردیا جائے۔ اس روز میں دوسری مناسبت یہ ہے کہ ٩ہجری میں حضوراکرمؐ نے علیؑ کو پیغام برائت کے ہمراہ کفارمکہ کی جانب روانہ کیاتھا جو کہ امیر المومنین علیؑ کے خاص فضائل میں شمار ہوتا ہے۔
تیرہ ذی الحجہ: ایام حجة البلاغ ''حجة الوداع'' کے درمیان جبرئیل پیغام لیکر نازل ہوئے کہ یارسول اللہؐ! خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ مسلمانوں سے کہئے کہ وہ علیؑ کو امیر المومنین کے خطاب کے ذریعہ سلام کریں، یہ مطالب شیعہ و سنی دونوں فرقوں کی معتبر کتب میں موجود ہیں۔
پندرہ ذی الحجہ: اس روز دسویں امام ''امام علی نقی ہادی ''کی ولادت باسعادت ہے، امام نقی کی دو یادگار چیزیں زیارت جامعہ کبیرہ اور زیارت غدیریہ ہیں، زیارت جامعہ کبیرہ امام شناسی کا شاہکار ہے اور زیارت غدیریہ ولایت شناسی کا محور ہے۔
سترہ ذی الحجہ: اس روز امیر المومنین علی کی شان میں آیۂ محبت نازل ہوئی: ''بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں ان کے لئے خداوند عالم نے ان کے لئے محبت قرار دی ہے''(سورۂ مریم٩٦)؛
اٹھارہ ذی الحجہ: عید غدیر کی تاریخ ہے، اس تاریخ میں حضوراکرمؐ نے حجة الوداع کے موقع پرغدیر خم نامی مقام پر سوالاکھ لوگوں کے مجمع میں علیؑ کی ولایت کا اعلان کیا اور مسلمانوں سے علیؑ کے لئے بیعت لی۔
چوبیس ذی الحجہ: اس روز آیۂ مباہلہ نازل ہوئی جو صدق و صفا کی فتح کا منھ بولتا شاہکا رہے، اسی روز حدیث کساء کا واقعہ بھی پیش آیاجو اہل بیت اطہارعلیہم السلام کے فضائل سے مملو ہے ، اسی روز آیۂ تطہیر نازل ہوئی، اسی روز امام علیؑ نے حالت نماز میں سائل اپنی انگشتری کی صورت میں زکات دی، آیۂ ولایت بھی اسی روز نازل ہوئی۔
پچیس ذی الحجہ: اہل بیت کی شان میں سورۂ ہل اتیٰ نازل ہوا : ''یہ لوگ وہ ہیں جو خدا کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں''۔ ہم نے ماہِ ذی الحجہ کی تقریباً تمام مناسبتوں کے گوشے بیان کردیئے ہیں، ان مناسبتوں کی نشرواشاعت میں کوشاں رہنا چاہئے تاکہ بحرِ ولایت کی امواج میں غوطہ زن ہوکر زیادہ سے زیادہ شراب مودت سے لطف اندوز ہوسکیں۔
(خلاصہ تقریر استاد فرحزاد، سمت خدا، 18/6/94)

عید غدیر میں کھانا کھلانے(یا ولیمہ دینے) کی فضیلت: دور حاضر کا یہ ماحول ہے کہ ایام غم مثلاً محرم کے ایام میں، ایام فاطمیہ میں، مولا کے چہلم پر اور عاشور کے موقع پر عزاداروں کو کھانا کھلانا کافی حد تک رائج ہے اور غیرمسلم افراد بھی اس نذر میں بڑھ کرچڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور روز بروز اس کی شان وشوکت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ اہل بیت کی خوشیوں میں بھی کھاناکھلانے کی بہت زیادہ فضیلت ہے مثلاً ماہ شعبان میں، ماہ رجب میں اور ماہ ذی الحجہ میں، بہتر ہے کہ ان تاریخوں میں اس سنت حسنہ کو رائج کیا جائے۔ کھانا کھلانے کی فضیلت میں یہی کہنا کافی ہے کہ نہ صرف یہ کہ خدا نے اس کی مدح وثنا کی ہے بلکہ اس کام کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور پیغمبران الٰہی کی سیرت شمار کیا ہے، خداوند عالم نے اہل بیت اطہار کی اس امر میں مدح و ثنا کرتے ہوئے ہل اتیٰ نازل فرمایاہے۔
شب عید غدیر، ولیمہ کی فضیلت: امام رضاؑ امام علیؑ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ امام علیؑ نے فرمایا: جو شخص عید غدیر کی شب میں مومن کو افطار کرائے گویا اس نے فئامی فئامی فئامی فئامی فئامی فئامی فئامی کو افطار کرایا، کسی شخص نے مولا سے سوال کیا: اے امیر المومنین! فئام کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے جواب دیا: ایک لاکھ پیغمبران الٰہی اور صدیق و شہید افراد؛ لہٰذا کتنا اچھا ہے کہ کوئی شخص مومنین کے ایک گروہ کی کفالت کرے، اسے کھانا کھلائے! ایسی صورت میں میں خود ضمانت لیتا ہوں کہ خدا اس بندۂ مومن سے ہر قسم کے کفر اور فقر کو دور کرے گا۔(بحار الانوار: ج٩٧، ص١١٢، ح٨)؛
روز غدیر، ولیمہ کی فضیلت: کشاف الحقائق مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوٰاة و السلام کا ارشاد گرامی ہے: ''من فطر فیہ مومنا کان کمن اطعم فئاما و فئاما و فئاما فلم یزل یعدّ الیٰ ان عقد بیدہ ثم قال أتدری کم الفئام قلت لا قال مائة الف کل فئام کان لہ ثواب من اطعمم بعددھا من النبیین والصدیقین والشھداء فی حرم اللہ عز وجل و سقاھم فی یوم ذی مسبغة'' جو شخص کسی ایک مومن کو اس روز (روز غدیر) افطار کرائے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے ایک لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا ہو اور اس کا ثواب ایسا ہے کہ اس نے قحط کے عالم میں حرم الٰہی میں ایک لاکھ انبیاء، صالحین اور شہداء کو سیر و سیراب کیا ہو۔
عید غدیر کے ولیمہ کی خصوصیت: امام علی رضا علیہ السلام کا ارشادگرامی ہے: ''من اطعم مومناً کان کمن اطعم جمیع الانبیاء والصدیقین'' اس روز کے ولیمہ کی اتنی زیادہ فضیلت ہے کہ اگر کوئی شخص اس روز ایک بندۂ مومن کو کھانا کھلادے تو گویا اس نے تمام انبیاء و صدیقین کو سیراب کیا ہو۔(اقبال الاعمال: سید ابن طاؤوس، ج١، ص٤٦٥)؛
ان تمام فضائل کے پیش نظر بہتر ہے کہ ہر مومن اپنی حیثیت کے مطابق اس مبارک روز میں مومنین کو ولیمہ دے اور مولائے موحدین کی خوشی میں غریبوں کو بھی شریک کرے، اگر استطاعت موجود ہو تو مسجد میں نمازیوں کو یا عام مقامات مثلاً امامبارگاہ یا چوراہوں پر شربت اور کھانے کا انتظام کیا جائے، اس روز اعلیٰ پیمانہ پر جشن کا انعقاد کیا جائے، اگر روز جمعہ ہو تو سونے پہ سہاگا اس پروگرام کو چار چاند لگ جائیں گے، مسجد میں ہی محفل کا انتظام کیا جائے اور تبرک کے عنوان سے نمازیوں میں کھانا تقسیم کیا جائے۔
نماز عید غدیر: نماز عید غدیر کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص عید غدیر کے روز نماز عید غدیر بجالائے اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ گویا اس نے غدیر خم میں پیغمبراکرمؐ کے دست مبارک پر بیعت کی ہو۔(اقبال الاعمال: ج٢، ص٢٧٩)؛
نماز عیدغدیر پڑھنے کا طریقہ: شیخ حرعاملی نے اس نماز کے متعلق وسائل الشیعہ میں نقل کیا ہے کہ نماز عید غدیر دورکعت ہے، حمد کے بعد اپنی مرضی کے مطابق کوئی سا بھی سورہ پڑھا جاسکتا ہے؛ نماز تمام کرکے سجدہ میں جائے اور سومرتبہ شکر خدا بجالائے، سجدہ سے سراٹھانے کے بعد دعائے روز عید غدیر پڑھے اور دوبارہ سجدہ میں جاکرسو مرتبہ الحمد للہ اور سومرتبہ شکراًللہ پڑھے۔ روایت میں آیا ہے کہ اس نماز کو زوال کے نزدیک پڑھا جائے ۔(وسائل الشیعہ:ج٨، ص٩٠)۔
پروردگار عالم! اس سال کی عید اکبر(عید غدیر) کو ظہورِ وارثِ غدیر، امام زمانہ عج سے متصل کردے۔ "آمین"
"والسلام علی من اتبع الھدیٰ"۔
مقالات کی طرف جائیے