مقالات

 

غدیر کی ضرورت

مولانا سید محمد باقر باقری جوراسی

آج جب کہ اعلان غدیرکوچودہ سوسال پورے ہورہے ہیں اوراسلامی تبلیغات کے اس حرف آخرمہتم بالشان چہاردہ صدسالہ یادگارمنانے کابجاطورپراہتمام ہورہاہے توذہنوں میں یہ سوال پیداہوسکتاہے کہ جیسافریقین کی معتبرکتب اورروایات سے ثابت ہے جب رسول اسلام حضرت محمدؐنے اپنے پہلے ہی تبلیغی مرحلے میں یعنی دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پرصاف الفاظ میں امیرالمومنین حضرت علیؑ کی خلافت وامامت کااعلان فرمادیاتھا(۱)اوراس کے بعداپنی ساری تبلیغی زندگی میں بارباراورہرمناسب موقع پراسے مختلف الفاظ میں دہراتے رہے چنانچہ کبھی بارگاہ خداوندی میں حضرت موسیٰ کے مانندحضرت علی کی وزارت وخلافت کے لئے دعافرماتے ہیں اورخدائے تعالیٰ بھی آیت:’’ انماولیکم اللہ…‘‘ نازل فرماکے آنحضرتؐ کی دعاکوسندقبولت عطافرماتے ہوئے حضرت امیرالمومنین کومومنین کاولی اورحاکم قراردیتاہے۔(۲)
کبھی حدیث ولایت میں حضرت کواپنے بعدمومن کاولی قراردیتے ہیں(۳)اورکبھی حدیث منزلت کے ذریعہ (کم ازکم گیارہ مواقع پر) حضرت کواپناخلیفہ اورجانشین نامزدفرماتے ہیں۔ اوریہ حدیث فریقین کے نزدیک اتنی معتبراورمتفق علیہ ہے کہ اس کی صحت پرامت کااجماع ہوچکاہے(۴)
تواب اس کی کیاضرورت لاحق ہوئی کہ حجة الوداع کے بعدمیدان غدیرخم کے صبرآزماماحول میں اتنے شدومداورخصوصی اہتمام کے ساتھ اسے پھرسے دہرایاجائے کہ یہاں سے مختلف راستوں پرتقسیم ہونے والا، آگے بڑھ جانے والااورپیچھے رہ جانے والاسارامجمع سمیٹاجائے؟
ا س سلسلہ میں پہلی بات یہ کہ عام طورپرجس عمل اورجس مقصدکے حصول کے لئے جس قدراہتمام کیاجاتاہے اس قدرعمل اورمقصد کی ضرورت اوراہمیت پرروشنی پڑتی ہے لہذادیکھناہوگاکہ اعلان غدیرکے لئے خدااوررسولؐ کی طرف سے جوبے مثال اہتمام عمل میں آیاوہ اس کے اشدضروری ہونے کابین ثبوت ہے یانہیں؟ ظاہرہے کہ کوئی حکم خدااورعمل رسولؐ بے ضرورت اور بے عمل نہیں ہوسکتا، رسول خداؐنے اس خاص موقع پرجواہم ترین اقدامات فرمائے اوراعلان ولایت سے قبل جوطویل ومفصل اورجامع اورمانع خطبہ ارشادفرمایا(جس کے بعض اجزابرادران اہل سنت نے بھی اپنی معتبرکتابوں میں نقل کیئے ہیں) اس سے اعلان کی شدیدترین ضرورت کااندازہ توہوتاہی ہے ساتھ ہی ساتھ یہ چیزبھی غورطلب ہے کہ جب آنحضرتؐ کاہرقول وفعل قرآنی تصدیقات کے مطابق خداکی مرضی اورحکم الہی کاپابندتھاتھاتویہاں بھی پیغمبر ؐکے اقوال وافعال مشیت الہی کے تابع تھے اورخداکے نزدیک یہ اعلان اتناضروری تھاکہ ارشاد(ان لم تفعل فمابلغت رسالتہ’’ یعنی اگرآپ نے اس کی تبلیغ نہ کی توگویاپوری رسالت ہی کی تبلیغ نہیں کی‘‘)کے مطابق بغیراس کے ساری تبلیغ رسالت اوراس سلسلہ میں آپ کی ساری زحمتیں ہی کالعدم قرارپارہی تھیں، (۵)
اورجب تک اس فریضے کی تکمیل نہ ہوجائے نہ دین مکمل ہورہاتھانہ اہتمام نعمت ہورہاتھااورنہ دین اسلام پسندیدہ بن رہاتھا، کیونکہ آیت (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا) (یعنی آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا۔ اورتم پراپنی نعمت تمام کردی اورتمہارے لئے دین اسلام کوپسندیدہ قراردیا) اس اعلان کے فورابعدہی نازل ہوئی ۔(۶)
۶۔درمنثورجلال الدین سیوطی، مناقب ابن مغازل، مناقب خورزامی، فرائدالسبطین حموینی، توضیح الدلائل شہاب الدین وغیرہ۔
ظاہرہے کہ خدائے علیم وحکیم کی نظر میں اعلان غدیرکی ضرورت اپنے دامن میں جس قدرعظمت اوروسعت سمیٹے ہوئے تھی اس کاعُشرعشیربھی ہم جیسے انسانوں کے مختصرسے دائرہ علم وعقل سے باہرہے پھربھی ہمارے محدودذہن ودماغ کی جہاں تک رسائی ہے اعلان غدیرکی ضرورتوں کی ایک طویل فہرست نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے جن میں سے چندنمونے درج ذیل ہیں۔
پہلی ضرورت:
جن قرآنی آیات میں حضرت امیرالمومنینؑ کی امامت وولایت اورخلافت کااشارہ اورتذکرہ موجودہے ان میں چونکہ نام کی صراحت نہیں کی گئی ہے لہذاضروری تھاکہ ان کی تفسیرمیں پیغمبراسلام کی طرف سے کثیراورعام مجمع کے سامنے نام اورشخصیت کابھی اعلان کردیاجائے تاکہ ہرشخص کانوں سے سن لے، اورآنکھوں سے دیکھ لے اورآئندہ لاعلمی اورشبہات کی گنجائش باقی نہ رہے۔
دوسری ضرورت:
چونکہ سابقہ اعلانات چندمخصوص اوقات میں اورمختصرمجمع کے سامنے انجام پائے تھے۔ لہذامنصب کی عمومیت اوہمہ گیری کے پیش نظرامت کے ایک ایسے کثیرمجمع کے سامنے اعلان کی ضرورت باقی تھی جس میں ہرعلاقے اورہرطبقے کے مسلمانوں کی نمائندگی موجودہوتاکہ سبھی کواس کاعلم ہوجائے۔ اور(جیساکہ خودآنحضرت نے ارشادفرمایا) جولوگ یہاں موجودہیں وہ ان بقیہ اشخاص کوبھی اس کی اطلاع پہونچادیں جوغیرحاضر ہیں۔اوراس مقصدکے لئے ظاہرہے کہ ایسایااس سے بہترکوئی دوسراموقع ملناممکن نہیں تھا۔
تیسری ضرورت:
سابقہ اعلانات کے باوجوداعلان تکمیل دین واتمام نعمت کے آخری مرحلے سے عین قبل ایک عام اعلان کی مزیدسخت ضرورت تھی تاکہ یہ شبہہ باقی نہ رہ جائے کہ ممکن ہے عہدرسالت کے ختم ہوتے ہوتے سابق حکم کے اندرکوئی ترمیم وتنسیخ ہوگئی ہواورامیرالمومنین ؑکے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے کسی اورکے تعین وتقررکاامکان پیداہوگیا ہو۔
چوتھی ضرورت:
اعلان ولایت امیرالمومنینؑ اوراس کے فورابعداعلان تکمیل دین واتمام نعمت اس لئے ضروری تھاکہ عام طور سے ساری امت کویہ احساس دلایاجائے کہ اگرولایت امیرالمومنین پرایمان نہ ہوگاتودین بھی ناقص رہے گااورنعمت الہی بھی اوردنیاوآخرت میں اس کانقصان اظہرمن الشمس ہے۔
پانچویں ضرورت:
جب کوئی واقعہ کچھ ایسے سخت اورغیرمعمولی حالات میں پیش آتاہے جن سے انسان کی طبیعت خاص طورپرمتاثرہوجائے توانسانی فطرت اسے آسانی سے فراموش نہیں کیاکرتی، لہذااعلان غدیرکے لئے ایسے مقام، ایسے وقت، ایسے موقع، ایسے موسم اورایسی منزل کاانتخاب ضروری تھاکہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس خصوصی اقدام کی یادہمیشہ تازہ رہے اوراگرکبھی کوئی شخص اسے بھول جانے کاحیلہ کرے(جیساکہ کیاگیا) تووہ قابل قبول نہ ہو۔
چھٹی ضرورت:
دس ہجری میں حجة الوداع کے بعدجیساکہ آنحضرتؐ نے خودارشادفرمایا. حیات پیغمبراپنے آخری دورکوتمام فرمارہی تھی لہذاایسے موقع پرآنحضرت کاہرقول اورہرہدایت ایک وصیت کی حیثیت رکھتی تھی اورچونکہ ہرشخص مرنے والے کی وصیت کااحترام اوراس کی تعمیل حتی الامکان اپنافریضہ سمجھتاہے۔ لہذااعلان غدیرکی صورت میں ولایت خلافت امیرالمومنین جسیے اہم منصب اورجزدین کے اظہاروتکرارکی شدیدضرورت ہونے میں کوتاہی نہ کرے اوراگرکوئی شخص باجماعت اس سے روگردانی کی جسارت کرے بھی توخدا اوررسول کی جانب سے اس اتمام حجت کے بعدساری ذمہ داری اورالزام اسی کے سررہے۔
ساتویں ضرورت:
اس وصیت کااعلان عام اس لئے ضروری تھاکہ اگروقت آخرکچھ لوگ آنحضرت کووصیت نہ لکھنے دیں۔ (جیساکہ واقعہ قرطاس سے ظاہرہے) تویہ اعلان ایک پختہ سندکے طورپرذہنوں میں باقی رہے۔
آٹھویں ضرورت:
اس اعلان کے لئے غدیرکے بے آب وگیاہ، تمازت آفتات سے تپتے ہوئے اورانسانوں کے ہجوم سے چھلکتے ہوئے میدان کاانتخاب اس لئے ضروری تھاکہ نگاہوں کے سامنے میدان حشرکانمونہ آجائے اوردلوں میں یہ احساس تازہ ہوجائے کہ جس طرح آج ساری قوم حضرت رسول خداۖ کی نبوت ورسالت اورامیرالمومنین حضرت علی کی امامت وولایت تسلیم کرنے اوران حضرات کاوسیلہ اختیارکرنے کی پابندادلہ محتاج ہے اسی طرح روزقیامت بھی انھیں کی اطاعت اورانھیں کاوسیلہ نجات کاضامن ہوگا۔
نویں ضرورت:
اتنے خصوصی اہتمام وانتظام کے ساتھ ولایت امیرالمومنین کااعلان اس لئے ضروری تھاکہ مسلمانوں کے باشعوراورانصاف پسندطبقے کوصحیح طورسے اندازہ ہوجائے کہ آنحضرت نے مولاکالفظ اس کے خاص اوراہم مفہوم کے ساتھ استعمال فرمایاہے۔ اوراگرکوئی شخص مولاکے معنی صرف دوست کے بتائے تواس کی معقولیت کی قلعی کھل جائے کیونکہ اس معمولی سے مقصدیعنی اظہاردوستی کے لئے عقلاًاتنی پریشانی برداشت کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی جب کہ عام طورسے لوگوں کوپہلے ہی سے علم تھاکہ رسول جس کے دوست ہیں علی بھی اس کے دوست ہیں علاوہ بریں ایسااعلان اتناعظیم المرتبت نہیں ہوسکتاکہ بارشادخداوندی اسی کے اوپرساری تبلیغ رسالت کے عدم وجودکادارمدارہو،اسی کے ذریعے دین اسلام کی تکمیل ہواسی کے اوپرنعمت الہی کااتمام ہو۔ اوراسی کی بناپراسلام پسندیدہ دین قرارپائے۔
دسویں ضرورت:
مزیدتاکیدکے لئے ضرورت تھی کہ آنحضرت امیرالمومنین کے صرف مولاہونے اعلان نہ فرمائیں بلکہ یہ وضاحت بھی فرمادیں من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ (یعنی جس کامیں مولاہوں یہ علی بھی اس کے مولا ہیں) مقصدیہ کہ جس طرح سرورکائنات ۖ ساری کائنات کے مولاوآقاہیں اسی طرح مولائے کائنا ت حضرت علی بھی بلااستثناء ہرفردبشراورسارے عالم کے مولاوآقاوحاکم ہیں صرف دوست نہیں بقول شاہ علی حسن جائسی مرحوم
چرادرمعنی من کنت مولا میروی هرسو
علی مولاباین معنی که پیغمبربود مولا
گیارہویں ضرورت :
ضرورت تھی کہ کلمہ '' فھذا'' کے ساتھ اعلان عام ہوجائے تاکہ حروف'ف'' کے استعمال سے جوفوریت کے معنی دیتاہے صاحبان فہم کی سمجھ میں آجائے کہ آنحضرت اورحضرت امیرالمومنین کی مولائیت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے اورآپ چوتھے نمبرپرنہیں بلکہ بلافصل مولاہیں، اورساتھ ہی''لذا'' کااشارہ یہ بتادے کہ یہی علی مرادہیں جوسب کے سامنے موجودہیں۔ یہاں کوئی دوسرے علی یاخداکی ذات جس کانابھی علی ہے مرادنہیں ۔
بارہویں ضرورت:
غدیرخم کے ایسے عظیم اورعام مجمع کے سامنے ہی اعلان کی ضرورت تھی تاکہ کسی کے لئے یہ حیلہ تراشنے کی گنجائش باقی نہ رہ جائے کہ سابقہ اعلانات جن افرادکے سامنے ہوئے تھے حضرت علی صرف انھیں کے لئے مولاتھے ساری امت کے لئے نہیں۔
تیرہویں ضرورت:
خداکے حکم اورحضرت رسول خداۖ کی زبان مبارک سے یہ مہتم بالشان اعلان اس لئے بھی ضروری تھاکہ ساری امت بخوبی سمجھ لے کہ اگرآئندہ کچھ لوگ منصب خلافت وولایت کے لئے اپنے مفادات کے پیش نظربغیرکسی سندکے اجماع ذاتی طورپراستخلاف شوریٰ، اورقہروغلبہ کے اصول ایجادکرلیں تووہ صرف ایجادبندہ ہوں گے سنت الہیہ اورحقیقی اسلامی اصول یہی رہے گاکہ پیغمبربھی اپنی جانب سے استخلاف نہیں کرسکتے بلکہ وہ بھی پابندہیں کہ خداکے حکم سے اپنے خلیفہ کاتقررکریں اورآئندہ اس اصول میں کوئی ترمیم بھی نہیں ہوسکتی کیونکہ قرآنی تاکیدکے مطابق اللہ کی سنت میں کوئی تغیروتبدل نہیں ہواکرتا۔
چودہویں ضرورت:
تمام موافقین اورمخالفین سے مولائیت علی کااقرارلے لینابھی ضروری تھا۔تاکہ وہ مذہبی اوراخلاقی حیثیت سے پابندہوجائیں اورانکایہ قول وفعل تاریخ کاایک حصہ بن جائے تاکہ اگووہ بعدکوبغاوت اوراپنے قول سے انحراف کریں توانکے پاس کوئی معقول عذرگناہ موجودنہ ہوچنانچہ بحکم رسول سب نے ایک خاص طورپرنصب کئے ہوئے خیمے میں حاضرہوکرعلی الاعلان امیرالمومنین کوتہنیت بھی اداکی اوربیعت بھی کی۔
پندرہویں ضرورت:
اگرامت مسلمہ آج بھی رسالت پیغمبر،مکمل دین الہی، پوری نعمت خداوندی اورپسندیدۂ خدااسلام کی محتاج ہے اور یقیناہے توتبلیغ رسالت مکمل دین اتمام نعمت اورپسندیدگی ٔ اسلام کے حرف آخریعنی اعلان غدیرکی یادتازہ رکھنے کی آج بھی پوری ضرورت موجودہے۔
سولہویں ضرورت:
امت کی اکثریت چونکہ آج بھی اپنے انتخاب کوخدااوررسول کے انتخاب پرترجیح دے رہی ہے بلکہ اپنے انتخاب کوبرحق اورالٰہی انتخاب کوباطل قراردیتی ہے لہذاآج بھی شایان شان طریقے سے یادگارغدیرقائم کرکے خدائی انتخاب کی حقانیت اوراہمیت پرروشنی ڈالناانتہائی ضروری ہے اوریہ چہاردہ صدسالہ یادگارغدیراس کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔
سترہویں ضرورت:
آج بھی جب کہ ہرطرف امام زمانہ حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے وجودپُرنورسے انکارکی مخالف ہواچل رہی ہے یادگارغدیرکے ذریعہ یہ بتاناضروری ہے کہ جس منصب خلافت وولایت پرخداورسول نے اس قدرزوردیاہووہ دورحاضرمیں غیر ضروری کیونکر ہوسکتاہے؟ اس لئے کہ اگرآج بھی رسالت پیغمبرؐ اوردین اسلام کاسلسلہ قائم رہے اورتاقیامت رہے گاتوساتھ ہی ایک محافط رسالت ، قائدملت اسلامیہ اورولی عصرکی موجودگی بھی انتہائی ضروری ہے اورضروری رہے گی۔

حوالجات:
۱۔ تاریخ محب الدین طبری، تاریخ ابوالفدا، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن کثیر، تاریخ کامل، حبیب السیر، کنزالعمال، ریاض النضرة، ازالة الخفاء اورمسنداحمدابن حنبل و۔۔۔)
۲۔محب الدین طبری، ریاض النضرہ، نورالابصارشبلنجی، تذکرہ خواص الامہ وغیرہ۔
۳۔مسنداحمدابن حنبل، مسندحاکم، مستدرک علی الصحیحین، استیعاب فی معرفت الاصحاب، مطالب السئول، کفایت الطالب، ریاض النضرہ، میزان الاعتدال، مودة القربیٰ، فتح الباری، کنزالعمال، ابن اثیر، اسدالغابہ، منہاج السنة، سیرة الحلبیہ، ینابیع المودة وغیرہ۔
۴۔صحیح بخاری، صحیح مسلم، سیرة ابن ہشام، طبقات ابن سعد، مسنداحمدابن حنبل، سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی، مستدک، الاستعیاب، اسدالغابہ، مطالب السئول، تذکرہ خواص الامہ، کفایت الطالب، محب الدین طبری، منہاج السنة، مودة القربیٰ، فتح الباری، فصول المہمہ، تفسیردرمنثور، تاریخ خمیس، صواعق محرقہ، کنزالعمال، نورالابصار، ینابیع المودہ وغیرہ۔
۵۔ درمنثورسیوطی، تفسیرکبیرفخرالدین رازی، مطالب السئول محمدبن طلحہ شافعی، مودة القربیٰ سیدعلی ہمدانی، فصول المہمہ ابن صباغ مالکی، عمدة القاری شرح صحیح بخاری، اسباب النزول واحدی، حلیة الاولیاء ابونعیم وغیرہ۔

نقل از کتاب غدیر مطبوعہ تنظیم المکاتب ۱۴۱۰ہجری
مقالات کی طرف جائیے