مقالات

 

معرفت کی ضرورت

سید عابد رضا نوشاد رضوی

معرفت خدا کے بارے میں تحقیق و گفتگو کرنا کیوں ضروری ہے ؟معرفت خداکی اہمیت کیا ہے ؟کون سی چیز اس سلسلہ میں غور و فکر کرنے پر ہمیں مجبور کرتی ہے ؟
ان سوالات کے جوابات ہمیں مندرجہ ذیل باتوں کے ذریعہ حاصل ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے انسان خدا کی معرفت حاصل کرنے پر مجبور ہو تا ہے :

١۔چونکہ ہر عاقل و خرد مند شخص اس با ت کا قائل ہو تا ہے کہ اس کا ئنات کی اساس و بنیاد نظام علت و معلول پرقائم ہے لہٰذااس کے ذہن میں یہ سوال بھی ضرور آتا ہے کہ اگر ہر موجود چیز کی کوئی نہ کوئی علت ہو تی ہے تو پھر اس پوری کائنات کے وجودکی علت اور اس کا سبب کون ہے ؟کس نے اس دنیا کو بنایا ہے اور اسے اتنا عظیم نظم و ضبط بخشا ہے ؟اس اہم سوال کے جواب کو حاصل کرکے در حقیقت انسان اپنی اس تلاش میں کامیاب ہو جا تا ہے جو اس سلسلہ میں اس نے شروع کی تھی لہٰذا انسان معرفت خدا کی گفتگو میں داخل ہو کر اپنی حقیقت جوئی کی عطش کو سیراب کرتا ہے اور اپنے مقصد میں کا میاب ہو جا تا ہے ۔

۲۔منعم کا شکر ادا کرنے کو لازم جاننا
انسان کو اگر کوئی شخص کو ئی نعمت دیتا ہے تو وہ اس کے سامنے خضوع سے پیش آتا ہے اور چا ہتا ہے کہ کسی طرح اس کا شکریہ ادا کرے اسی طرح جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ کس نے اسے دنیا او ر اس کی نعمتوں سے نوازا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس نعمت دینے والے کو پہچانے اور اس کا شکریہ ادا کرے منعم کا شکر ادا کرنے کا یہ احساس و جذبہ ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے اور اسی جذبہ کی وجہ سے ہر انسان اس بات پر مجبور ہو جا تا ہے کہ اپنے منعم کی معرفت و شنا خت حاصل کرے اس لئے کہ منعم کی معرفت کے بعد ہی اس کا شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے ۔امام جعفر صادق اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:''یہ کتنی بری بات ہے کہ انسان کی ستّر یا اسّی سال کی عمر گذر جائے اور وہ ملک الٰہی میں رہے اور اس کی نعمتوں سے بہر ہ مند ہو لیکن خداکی اس طرح معرفت حاصل نہ کرے جو اس کا حق ہے بلا شک و تر دید انسان کا بر ترین اور واجب ترین فریضہ ،معرفت خدا اور اس کی بندگی کا اقرار ہے ''۔(١)

٣۔منفعت کو حاصل کرنا اور ممکنہ ضررکو دور کرنا
ہر با شعور مخلوق اپنے لئے فائدہ کو حاصل کرنے اور تمام نقصانات کو دور کرنے میں مصروف رہتی ہے انسان میں اس خاصیت کا ہو نا ایک طرف سے تو اس کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ کام کاج میں مصروف ہو جا ئے اور دوسری طرف سے اسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ممکنہ ضرر ونقصانات کے بارے میں کوئی چارہ و اندیشہ کرے اور مستقبل میں آنے وا لے نقصانات کی راہوں کو بند کر دے ۔
گذشتہ تا ریخ اور عصر حا ضر گواہ ہے کہ ہمیشہ الٰہی نمائندوں نے انسانوں کو خدا پر ایمان کی طرف دعوت دی ہے اور یہ بھی گوش زد کر دیا ہے کہ خداکی معرفت اور اس پر ایمان کے ذریعہ انسان سعادت و خوشبختی کی منزلوں تک پہونچے گا اوراگر اس نے ایسا نہ کیا تو شدید عذاب میں مبتلا ہو جا ئے گالہٰذا ہر انسان کے لئے ضروری ہو جا تا ہے کہ اس سلسلہ میں تحقیق کرے تا کہ غفلت و بے توجہی کی وجہ سے یہ عظیم منفعت ہاتھ سے نہ جا ئے اور دنیا و آخرت کے عذاب میں گرفتار نہ ہو، اس بارے میں اتنے ضرر و نقصان کا احتمال و امکان ہی اس بات کے لئے کا فی ہے کہ انسان اس سلسلہ میں سعی و کوشش کرتا رہے ۔
البتہ یہ وا ضح رہے کہ مذکورہ اسباب وعوامل انسان کو خداکی مختصر شنا خت تک ہی لے جا سکتے ہیں اور اس کی تفصیلی معرفت کے لئے اس سے عشق و محبت ہو نا ضروری ہے البتہ یہ عشق و محبت بھی انہیں تین اسباب کی بدولت انسان کے اندر وجود پاتاہے ۔

معرفت خدا کی اہمیت
خدا کی شنا خت ومعرفت تمام دینی و مذہبی مسائل کی بنیاد ہے ،اگر یہ معرفت نہ ہو تو پھر دیگر مذہبی مسائل بھی ہیچ ہیں اس لئے کہ توحید شجر ین کا تنہ ہے اور دیگر مذہبی مسائل اس کے برگ و شاخ ہیں ۔حضرت امیرالمؤمنین اپنی ایک خوبصورت تعبیر میں خدا کی معرفت کودین کا آغاز بتا تے ہوئے فرماتے ہیں :
دین کا آغاز خدا کی معرفت سے ہو تا ہے ۔(۲)
معاشرے میں اخلاقی اقدار اور لوگوںکی رفتار اگر توحید کی اساس پر ہو تو یقینااس میں کمال کی معنویت پا ئی جا ئے گی ،جو لو گ تو حید پر اعتقاد نہیں رکھتے ان کے یہا ں اخلاقی اصول کا کو ئی معنی و مفہوم نہیں ہے اور اخلاقی اصول و آداب کی رعایت کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔
البتہ معرفت خداکی تفصیلی اہمیت انسانوں کے لئے اس وقت زیادہ واضح ہو گی کہ جب وہ خدا سے اپنے را بطے کی کیفیت پر توجہ کریں یعنی وہ اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ اسی کے ارادہ کی وجہ سے ہم دنیا میں آئے ہیں ،اب بھی ہمارا وجود اسی کی وجہ سے با قی ہے ،وہی ہے جس کی وجہ سے تمام نظام عالم رواں دواں ہے اور دنیوی حیا ت کے بعد بھی ہم اسی سے ملحق ہو جا ئیں گے ۔لہٰذا وہ ہی ہما را خالق ،نعمت دہندہ اور مبدأو مرجع ہے،ہم ہر لمحہ اور ہر حال میں اسی سے وابستہ ہیں خدا وند عالم سے انسان کی یہ وجودی وابستگی ،اس کے لئے خدا کی معرفت کی اہمیت کو واضح و آشکا ر کر دیتی ہے ۔

معرفت خدا کی فضیلت
ہر شنا خت و معرفت کی اہمیت اس کے مو ضوع کی اہمیت پر منحصر ہے یعنی کم اہمیت اور چھوٹے چھوٹے موضوعات کی معرفت کی اہمیت کم ہوتی ہے اور اہم اور بڑے موضوعات کی شنا خت کی اہمیت زیادہ ہو تی ہے ،اب چو نکہ معرفت خدا کا مو ضوع بر ترین و بالا ترین مو ضوع ہے اور کسی موضوع سے اس کا مقا ئسہ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا خدا کی معرفت کی اہمیت اور قدر وقیمت بھی بر ترین و بالا ترین ہے جیساکہ حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طا لب فرما تے ہیں :
''خدا وند عالم کی معرفت بلند ترین معرفت ہے ''۔(۳)
ایک مقام پر معصوم افضل ترین انسان ان لو گو ں کو بتا تے ہیں جو خدا وند متعال کی زیا دہ شنا خت رکھتے ہیں :
''تم میں سے بعض نماز کو بعض حج کو بعض صدقہ کو اور بعض روزہ کو دوسروں سے زیا دہ انجام دیتے ہیں لیکن تم میں سے افضل وہ ہے جو خداکی سب سے زیا دہ معرفت رکھتا ہو ۔''(۴)
خدا کی معرفت کے سلسلے میں بہت سی آیا ت و روایات وارد ہو ئی ہیں ،یہاں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے :

معرفت خدا، ہدف خلقت
خلقت کا ئنا ت کا ایک ہدف و مقصد یہ ہے کہ انسان خدا وند عالم کے علم اوراس کی قدرت اور اس کی ذات و صفا ت سے آشنا ہو، قرآن مجید میں ارشاد ہو تا ہے:
''وہ خدا وند عالم کی ذات ہے جس نے سات آسمانوں کو خلق کیا اور زمینوںکو بھی اسی کی طرح ہمیشہ اس کافرمان ان دونوں کے درمیان نا زل ہو تا رہتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ خداہر چیز پر قادر ہے اور اس کا علم تمام چیزوں پر احاطہ رکھتاہے ۔''(۵)

خدا کی معرفت، فضیلت کا معیار
گزشتہ تا ریخ میں اکثر معاشرے قومی تعصب اور جا ہلی افکار میں مبتلاتھے اور جن چیزوںکو وہ افضلیت کا معیا ر سمجھتے تھے وہ دولت و ثروت ،مقام ،زبان اور قومیت جیسی مادی چیزیں تھیں لیکن دین اسلام میں ان چیزوں کو افضلیت کا معیا ر نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ انسان کی کرامت و شرافت اور اس کے معنوی فضائل کی وجہ سے ہی اس کی تمام فضیلت و برتری ہے۔اس لحاظ سے معرفت خدا ایک طرف سے تو بندوں کی فضیلت کا معیار ہے اور دوسری طرف سے بارگاہ ایزدی میں ان کے قرب کا ضامن ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد ہو تا ہے :
''خدا وند عالم تم میں سے ایمان لانے والوں اور عالموں کے رتبوں کو ان کے درجوں کے مطابق بلند کرتا ہے ۔''
ہر علم و معرفت کی قدر و قیمت اس کے موضوع کے اعتبار سے ہو تی ہے اور چو نکہ ذات پر وردگار بلند ترین موضوع ہے اور اس سے دوسرے موضوعات کا مقا ئسہ نہیں کیا جا سکتا ،لہٰذا معرفت خدا بھی افضل ترین اور اعلیٰ ترین علم ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:
ہر چیز کے برا بر کوئی نہ کوئی دوسری چیز ہو تی ہے سوائے اللہ تعالیٰ عز وجل کے اور'' لا الہ الا اللّہ'' سے مراد خدا کی وحدانیت کا وہ اقرار ہے جو اس کی معرفت کے ساتھ ہو۔(۶)
اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
''اگر لو گ یہ جا ن لیتے کہ معرفت خداکی کیا قدر و قیمت ہے تو ہر گز دنیا داری اور اس کی نعمتوں کی طمع نہ کرتے جس سے خدا وند عالم نے اپنے دشمنوں کو نوازا ہے او ر وہ معرفت خدا جیسی نعمت سے بہرہ مند ہو تے اور اسکی لذت کا احساس کرتے ،ایسی لذت کہ جیسے کو ئی شخص بہشتی باغوں میں اولیا ء الٰہی کا ہمنشین ہو'' (۷)

حوالہ جات
١۔بحارالانوارعلامہ مجلسی ج٤ ص٥٤
۲۔نہج البلاغہ خطبہ ١
۳شرح غررالحکم محمدخوانساری ج٦ ص١٤٨
۴۔بحار الانوار ج٣ ص
۵۔سورہ ٔطلاق ١٢
۶۔ثواب الاعمال شیخ صدوق ص ١٧
۷۔ اصول کا فی ،شیخ کلینی ،ج ٨ ،ص٢٤٧
مقالات کی طرف جائیے