مقالات

 

امام حسین علیہ السلام؛غیروں کی نظر میں

سید رضوان امام کلکتوی

مقدمہ
ابتدائے آفرینش سے انسانی قافلہ میں بہت سی ایسی شخصیتوں نے جنم لیا ہے جن کے وجود اور ایثار و کردار سے تہذیبیں پروان چڑھیں اور تاریخ بشریت وجود میں آئی۔
انسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنی محدود عمروں کو خدا کی خوشنودی اور خدمت خلق میںصرف کر دیا، شب و روز ان کے فیض سے نورانی ہوئے ہیں تہذیبوں کے چمن جن کی زلفوں کی ہواؤں سے لہلہائے ہیں انسانی قدروں کے پھول جن کے عارض سے تازگی لے کر سدا بہار ہو گئے ہیں، انھیں کامل انسانوں میں سے ایک نام جو واقعا انسانیت کی پیشانی پر سب سے درخشاں اور نمایا ہے وہ حسین بن علی کا نام ہے۔ اخلاق و شرافت، ایثار و وفا، مہر و محبت، شجاعت و عطوفت، سخاوت و عفت اور دیانت و ذکاوت، غرض کہ وہ کون سی انسانی فضیلت ہے کہ جس نے اس عظیم شخصیت کے پاک و پاکیزہ خون کے قطروں سے حیات جاوداں نہیں پائی۔
آج چودہ سو برس کے بعد بھی دنیا حیرت کے ساتھ اس انقلاب حسینی کی طرف دیکھ رہی ہے اور اپنے آپ سے سوال کرتی ہے، حسین علیہ السلام کون تھے؟
آج دنیائے انسانیت حسین ابن علی کو یاد کر رہی ہے اور حق بھی یہی ہے کہ علی بن ابی طالب کے لاڈلے نے انسانیت کو اس درندہ کے ہاتھوں سے نجات دلا کر انسانیت کو قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا۔ امام حسین تمام انسانی خوبیوں کے مالک و وارث تھے۔ اسی لئے جب ظلم و ستم کے پیکر نے اپنی غیر انسانی حرکتوں کو صحیح بنانے کے لئے آپ سے بیعت کا سوال کیا تو دو شرطیں آپ کے سامنے رکھیں: یاتو حسین بیعت کریں، یا ان کا سر قلم کر دیا جائے، امام حسین نے خود فرمایا ہے: مجھ سے رسوا زندگی یا موت کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن حسین ابن علی (ھیھات منا الذلة) یعنی ذلت کی زندگی مجھ جیسے لوگوں سے بعید ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام حسین نے ارشاد فرمایا عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے دنیا کی ہر قوم و ملت کے لوگوں نے امام حسین کے بارے میں تعریفوں کے قصیدے کہے ہیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام غیروں کی نظر میں:
امام حسین کی ولادت کے سلسلہ میں کتاب (اخبارالدول) میں ملتا ہے کہ جس وقت اما م حسین کی ولادت ہوئی اور جب پیمبر اکرمۖ کو اس کی خبر ملی تو پیمبراکرمۖ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے گھر تشریف لائے اور امام حسین کو اپنی آغوش میں لیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، جناب جبرئیل نازل ہوئے اور پیمبر اکرمۖ سے کہا کہ اس فرزند کا نام (حسین) رکھیں۔(اخبارالدول و آثار الاول، ص١٠٧)
سبط ابن الجوزی نقل کرتے ہیں کہ امام حسین کی کنیت ابوعبداللہ اور القاب، سید، وفی، ولی، مبارک،سبط اور شہید کربلا وغیرہ ہیں۔(تذکرة الخواص، ص٢٣٢)

امام حسین کی عبادت غیروں کی نظر میں:
ابن صباغ مالکی نے روایت نقل کی ہے کہ جس وقت امام حسین نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپکا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا امام حسین سے لوگ کہتے تھے یہ کون سی حالت ہے جو نماز کے وقت آپ پر عارض ہوتی ہے تو امام حسین نے فرمایا:'' تم نہیں جانتے ہو کہ میں کس کے مقابل میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں''۔(الفصول المہمة، ص١٨٣)
عبداللہ بن عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حسین بن علی علیہماالسلام نے ٢٥مرتبہ پاپیادہ حج کیا ہے حالانکہ امام حسین کے ہمراہ نجیب گھوڑے موجود تھے۔ (الاستیعاب ج١، ص٣٩٣)

حلم امام حسین علیہ السلام
امام حسین کے غلاموں میں سے ایک غلام نے معصیت انجام دی، امام نے حکم دیا کہ اسے تنبیہ کی جائے، غلام نے عرض کی اے میرے مولا، خداوند متعال فرماتا ہے (والکاظمین الغیظ) امام حسین نے فرمایا کہ اسے آزاد کر دو میں نے غصہ کو قابو میں کر لیا، پھر غلام نے فوراًکہا والعافین عن الناس امام نے فرمایا میں نے تجھے معاف کیا، پھر غلام نے کہا: واللہ یحب المحسنین امام نے فرمایا تم خدا کی راہ میں آزاد کردیئے گئے امام نے حکم دیا کہ غلام کو انعام دیا جائے (وسیلة المال، حضرمی، ص١٨٣)

حضرت امام حسین علیہ السلام علماء اہل سنت کی نظر میں:
ابن سیرین نقل کرتے ہیں کہ آسمان نے جناب یحیٰ پر گریہ کیا ہے اس کے بعد فقط امام حسین پر گریہ کیا ہے امام حسین کی شہادت کے وقت آسمان سیاہ ہو گیا تھا اور ستارے دن میں نکل آئے تھے یہاں تک کہ سیارہ جوزاء عصر کے وقت دیکھا گیا، اور آسمان سات دن تک ایسے خون کی طرح تھا جیسے خون جم گیا ہو۔(تاریخ ابن عساکر، ج٤، ص٣٣٩)
عمر رضا کحالہ نے امام حسین کے بارہ میں کہا: ''امام حسین اہل عراق میں سب سے زیادہ فقہ جانتے تھے اور جود و بخشش ان کے یہاں بہت زیادہ تھی''۔ (اعلام النسائ، ج١، ص٢٨)
عمربن خطاب نے امام حسین سے کہا ہر وہ چیز جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے آپ کے خاندان کے ذریعہ سے مجھ تک پہونچی ہے (الاصابة، ج١، ص٣٣٣)
امام حسین ایسی بلند شخصیت کا نام ہے کہ جن کی تعریف دائرہ اسلام میں رہنے والوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی کی، کہ اگر امام حسین نے اپنے اعزاء و اقرباء کی قربانی نہ دی ہوتی اور اپنے سر کو سجدۂ خالق میں نہ کٹوایا ہوتا تو جو کچھ کائنات میں انسانیت پائی جاتی ہے وہ نہ پائی جاتی۔
یقینا اہل بیت علیہم السلام کا دنیا اور دنیا کے لوگوں پر بہت بڑا احسان ہے:
١۔ جیسا کہ پنڈت جواہر لال نہرو حضرت امام حسین کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں:
''کسی کار نمایاں کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کا دوسروں پر کتنا اثر مرتب ہوا ہے، کس قدر انھیں ابھارا، کس قدر انھیں طاقتور بنایا اور کتنی شرافت و تہذیب ان میں پیدا کی، یہ حقیقت ہے کہ لا تعداد کربلا کی اس عظیم قربانی سے زبردست طریقے پر اثر انداز ہوتی آئی ہیں یہ بات خود اس کا ثبوت ہے کہ حضرت امام حسین کی قربانی کس قدر لازوال اہمیت رکھتی ہے''۔
٢۔ مہاتما گاندھی حضرت امام حسین کے بارے میں کہتے ہیں: ''میں نے کربلا کے ہیرو کی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس سے مجھکو یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان کی اگر نجات ہو سکتی ہے تو ہمکو حسینی اصول پر عمل کرنا چاہئے ، گویاکہ مہاتما گاندھی دنیائے انسانیت کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی میں کربلا کا بہت اہم کردار ہے''۔
٣۔ پرمیل و پٹیٹر پرگ نے کہا: ''امام حسین کی تاریخی حیثیت ہم پر ایک بار اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ کوئی نہ کوئی خدائی آواز آج بھی موجود ہے جس کے مطابق ہر قوم اور ہر امت کی رہبری ہوتی ہے''۔
٤۔ مسٹر جیمس کارکرن مصنف تاریخ چین: ''دنیا میں رستم کا نام بہادری میں مشہور ہے لیکن کئی لوگ ایسے گزرے ہیں جن کے سامنے رستم کا نام لینے کے قابل نہیں چنانچہ اول درجہ میں حضرت حسین بن علی کا مرتبہ بہادری میں ہے کیونکہ میدان کربلا میں ریت پر تشنگی اور گرسنگی میں جس نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہو ان کے سامنے رستم کا نام وہی شخص لیگا جو تاریخ کربلا سے واقف نہیں ہے''۔
مسٹر جے بی کھیر سابق وزیر اعلیٰ ممبئی نے حضرت امام حسین کے بارے میں کہا:''امام حسین صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کے بھی ہیں۔ہندو اور مسلمان یا دیگر مذاہب کے لوگ امام حسین کے نقش قدم پر ہی چلکر ظلم و ستم کے خلاف سینہ سپر ہو سکتے ہیں''۔
مسٹر گووند بلبھ پنتھ اما م حسین کے بارے میں کہتے ہیں:'' حسین کی ذات اس محیط ظلمت اور تاریکی میں ایک منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے ان کی شہادت انسانیت کو درس بصیرت دیتی رہے گی''۔
مسٹر کے ایل الیارام گرمچین لیڈر ملتان: ''امام حسین کی شہادت کا واقعہ کسی ایک قوم سے متعلق نہیں ہے امام نے کسی ذاتی مقصد کے لئے جان نہیں دی بلکہ وہ ایک اصول کے لئے قربان ہوئے۔مام نے اپنی قربانی سے تاریخ پر ایسا نقش چھوڑا ہے جو اپنی پائیداری سے جریدہ عالم پر ہمیشہ کے لئے مثبت ہو گیا''۔
مسٹر ایڈورڈگبن: '' حضرت امام حسین کا پر درد واقعہ ایک دور دراز ملک میں واقع ہوا جو بے رحم و سنگدل کو بھی ہلا دیتا ہے اگر چہ کوئی کتنا ہی بے رحم کیوں نہ ہو مگر نام سنتے ہی اس کے دل میں ایک جوش ہمدردی پیدا ہو جائے گا''۔
مسٹر ارتھن بن ولٹن:''حسین کی بہادری اور شجاعت کی مثال شاید دنیا کبھی پیش نہ کر سکے۔ اقوام عالم کی تاریخ کبھی کوئی ایسا سورما پیش نہ کر سکی جو ہزاروں سے تنے تنہا لڑا ہو اور بہ رضا و رغبت مرنے پر تیار ہو گیا ہو۔ اس لئے کہ حسین کی ذات خود ایک معجزہ ہے''۔
مسٹر جان لونگ:'' وہ دیندار خدا پرست فروتن خلیق اور بے مثل بہادر تھے۔ اور سلطنت و حکومت کے لئے نہیں لڑے بلکہ خدا پر ستی کے جوش میں جنگ کی۔ امام حسین یزید سے اسی لئے بیزار تھے کہ وہ اسلام اور دین محمدی کے خلاف تھا''۔
مشہور مورخ کارلائل: ''سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ فاتحان کربلا کو خدا کا کامل یقین تھا اور وہ اپنی آنکھوں سے اس دنیا سے اچھی دنیا دیکھ رہے تھے''۔
راجندر پرشاد سابق صدر: ''کربلا کا واقعہ شہادت تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جو دنیا کے کروڑوں مرد اور عورتوں پر اثر انداز ہوتا رہے گا ان کی زندگی پر ہندوستان میں اس دردناک واقعہ کی یاد بڑی سنجیدگی سے منائی جاتی ہے۔ جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی مساویا نہ جذبے سے حصہ لیتے ہیں''۔
سوامی شنگراچاریہ: ''میں نے امام حسین سے بڑھکر کوئی شہید نہ دیکھا اور حسین کی شہادت کے اثر سے زیادہ کسی شہید کی قربانی کو اس درجے مؤثر نہیں دیکھا''۔
پروفیسر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری: ''حسین دنیا کے بڑی سے بڑی خدا رسیدہ ہستیوں کے ہم پلہ ہیں ان کا نام اور ان کا کام ان کی زندگی اور موت کے واقعات ان نسلوں کی روحوں کو بھی بیدار کریں گے جو ابھی پیدا بھی نہی ہوئیں۔
سر بہرام جی جنیمی بھائی: ''یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ ایک خالص اسلامی جلسہ کی صدارت ایک ہندو کرے اور اس کا استقبال ایک پارمی کے سپرد کردیا جائے مگر ہمیں تعجب اس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ یہ جلسہ ایک مجسمہ ایثار و قربانی کی یاد منانے کے لئے منعقد کیا گیا ہے جس نے اپنی بے نظیر قربانی اور ایثار سے دنیائے انسانیت پر زبردست احسان کیا ہے''۔
خواجہ معین الدین چشتی: جن کا مزار اجمیر شریف ہندوستان میں ہے انہوں نے فرمایا:
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دیں پناہ است حسین
سرداد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
انھوں نے تو امام حسین کو مکمل دین ہی کہدیا اب بچا ہی کیا! جہاں حسین وہاں دین اب جو امام حسین کے مد مقابل آئے وہ بے دین۔
جو حدیث میں نے شروع میں امام حسین کی لکھی ہے امام کے اس کلام سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے پوری اسلامی امت بلکہ پورے انسانی معاشرہ کی اصلاح، فلاح اور نجات کے لئے قدم اٹھایا تھا جو آپ پر واجب تھا۔
خدا سے میری یہ دعا ہے کہ ہم جب بھی کچھ کہیں تو حق کہیں اور جب بھی قلم اٹھائیں تو حق کے لئے قلم اٹھائیں تاکہ خدا کی خوشنودی اور رسول اکرمۖ اور آل رسول کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔ خدا ہمیں ایسا طالب علم بنائے کہ جیسا ہمارے وقت کے امام چاہتے ہیں۔(آمین)
مقالات کی طرف جائیے