مقالات

 

شب قدر کے خصوصیات و امتیازات

قاسم علی بنارسی

قرآنی آیات اور احادیث و روایات میں شب قدر جیسی مبارک رات کے بے شمار خصوصیات و امتیازات بیان کئے گئے ہیں یہاں ان میں سے بعض کی جانب اشارہ کیاجارہاہے :

1۔نزول قرآن
پروردگار عالم کی سب سے باعظمت، جامع و کامل کتاب جسے ہمیشہ باقی رہنا ہے وہ اسی شب قدر میں نازل ہوئی جس سے اس شب کی عظمت و منزلت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لیکن ماہ رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟ اس کا بیان دوسری آیت میں ہے ’’انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ‘‘ بیشک!ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا، اس کے بعد سورہ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا ’’انا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘ بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔
واضح رہے کہ قرآن کا یہ نزول دو طرح کا رہا ہے ایک نزول دفعی یعنی ایک بار نازل ہوا۔ شب قدر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک پر ایک ساتھ نازل ہوا ہے اور دوسرا نزول ، نزول تدریجی ہے جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چالیس کی عمر میں بعثت کے دن نازل ہونا شروع ہوا اور آنحضرت کی عمر مبارک کے 63 ویں سال تک نازل ہوتا رہا ہے، جوکہ 23 سال نازل ہوتا رہا ہے۔ یعنی قرآن ایک ساتھ ایک بار شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری مرتبہ 23 سال آہستہ آہستہ نازل ہوتا رہا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ اس رات قرآنی تعلیمات کی طرف توجہ دیں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے قرآن سے ارتباط برقرار رکھتے ہوئے اپنی عملی زندگی کو قرآن کے مطابق کتنا چلایا ہے اگر زندگی مطابق قرآن ہے تو پروردگار سے مزید توفیق کی دعا کرنی چاہئے اور اگر قرآنی تعلیمات سے ہٹ کر کسی دوسری سمت جا رہی ہےتو پروردگارعالم سے عہد و پیمان کریں کہ آج کے بعد قرآنی تعلیمات سے اپنی زندگی کو منور و مزین کریں گے چونکہ قرآن مجید وہ عظیم کتاب ہے جو انسانوں کی سعادت و ہدایت کی ضامن ہے۔

2۔نزول ملائکہ
شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس رات میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں، ’’تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ‘‘ اس آیت میں ملائکہ اور روح کا لفظ آیا ہے، بعض نے کہا ہے روح سے مراد جبرئیل امین ہیں جنہیں روح الامین بھی کہا جاتا ہے اور بعض نے روح کی تفسیر وحی سے کی ہے، لیکن اس مقام پر ایک تیسری تفسیر بھی ہے جو سب سے زیادہ قریب نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ روح ایک بہت عظیم مخلوق ہے جو فرشتوں سے مافوق ہے، جیساکہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ: کیا روح وہی جبرئیل ہے؟ امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ’’جبرئیل من الملائکة، و الروح اعظم من الملائکة ان اللہ عز و جل یقول : تنزل الملائکة و الروح‘‘ جبرئیل تو ملائکہ میں سے ہے ، اور روح ملائکہ سے زیادہ عظیم ہے ، کیا خدا وند تعاليٰ یہ نہیں فرماتا : ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کیا:آپ جانتے ہیں کہ شب قدر کون سی رات ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’کیف لانعرف و الملائکۃ تطوف بنا فیھا‘‘ ہم کیسے نہ جانیں گے جب کہ فرشتے اس رات ہمارے گرد طواف کرتے ہیں۔
ابن عباس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے فرشتے جو سدرۃ المنتہی کے مقام پر فائز ہوتے ہیں روح اور جبرائیل کے ہمراہ نازل ہوتے ہیں، جبرائیل جبکہ ان کے ساتھ کئی پرچم ہوتے ہیں ان میں سے ایک پرچم میری قبر پر، ایک بیت المقدس پر، ایک مسجدالحرام کی چھت پر اور ایک طور سینا پر نصب کرتے ہیں اور کوئی مومن مرد اور عورت باقی نہیں رہتے مگر یہ کہ فرشتے اسے سلام کرتے ہیں سوائے شراب خور، خنزیر کا گوشت کھانے والے کے اور وہ جو زعفران سے اپنے آپ کو آلودہ کرے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آیا ہے کہ خدا کے کچھ فرشتے آپ کے پاس آئے اور انہیں بیٹے کے تولد کی بشارت دی اور ان پر سلام کیا ۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو جو لذت ان فرشتوں کے سلام میں آئی، ساری دنیا کی لذتیں بھی اس کے برابرنہیں تھیں۔ اب غور کرنا چاہئیے کہ جب شب قدر میں فرشتے گروہ درگروہ نازل ہورہے ہوں، اور مومنین کو سلام کررہے ہوں ،تو اس میں کتنی لذت، لطف اور برکت ہوگی؟! جب ابراہیم کو آتش نمرودمیں ڈالا گیا ، تو فرشتوں نے آکر آپ کو سلام کیااور آگ ان پر گلزار بن گئی ، تو کیا شب قدر میں مومنین پر فرشتوں کے سلام کی برکت سے آتش دوزخ”برد“ و ”سلام “ نہیں ہو گی ؟ ۔
ہاں ! یہ امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کی نشانی ہے کہ فرشتے وہاں تو خلیل پر نازل ہوتے ہیں اور یہاں حضور ختمی مرتب کی امت پر۔

3۔امام مہدیؑ اور تعیین مقدرات
شب قدر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس شب میں ملائکہ اور روح امام زمانہ پر نازل ہوتے ہیں اور سال کے مقدّرات امام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، حضرت مہدی ہر انسان کے ایک سالہ مقدّارت پر دستخط کرتے ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ روایت ہے جس میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’انه ینزل فى لیله القدر الى ولى الامر تفسیر الامور سنهً سنهً، یؤمر فى امر نفسه بکذا و کذا و فى امر الناس بکذا و کذا‘‘ شب قدر میں ہر سال کے امور کی تفسیر امام عصر کی خدمت میں نازل ہوتی ہے جس میں خود اور دوسروں کے بارے میں احکام ہوتے ہیں۔ اسی طرح امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: ’’یقدر فیھا ما یکون فی السنۃ من خیر او شر او مضرۃ او منفعۃ او رزق او اجل و لذالک سمیت لیلۃ القدر‘‘ شب قدر میں جو بھی سال میں واقع ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے نیکی ،برائی ، نفع و نقصان ،رزق اور موت اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں: ’’ ہر سال شب قدر میں تمام امور کی تفسیر امام زمان کی خدمت میں نازل ہوتی ہے جس میں خود امام اور لوگوں کے بارے میں احکام ہوتے ہیں اور اس طرح سے شب قدر کے علاوہ جب بھی خداوند عالم چاہتا ہے امام کی خدمت میں لوگوں کے اعمال کی تفسیر نازل فرماتا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسری روایت میں حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’ ہرسال شب قدر آتی ہے اس میں ملائکہ تمام سال کے معاملات لے کر آتے ہیں بے شک اس امر کے لئے رسول اللہؐ کے بعد کچھ والیان امر مقرر ہو ئے ہیں اور وہ ،میں اور میرے صلب سے گیارہ امام جو محدث ہیں ( ان میں سے آخری امام حضرت امام مہدی ہیں )‘‘

4۔بخشش کی رات
شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے لہذا ہر انسان کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس عظیم شب کے فیوض و برکات سے محروم نہ رہے، وائے ہو ایسے شخص پر جو اس بابرکت رات میں بھی رحمت و مغفرت الٰہی سے محروم رہ جائے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’من ادرک لیلۃ القدر فلم یغفر لہ فابعدہ اللہ‘‘ جو شخص شب قدر کو درک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے خداوند عالم اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے: ’’من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم‘‘ جو بھی شب قدر کے فیض سے محروم رہ جائے وہ تمام نیکیوں سے محروم ہے ، اس شب کے فیض سے وہی محروم ہوتا ہے جو خود کو رحمت خدا سے محروم کر لے ۔
بحارالانوار کی ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) سے اس طرح منقول ہے: ’’من صلّیٰ لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفر اللہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ جو بھی اس شب میں ایمان و اخلاص کے ساتھ نماز پڑھے گا پروردگارعالم اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا۔
ان روایات کی روشنی میں جبکہ اسے بخشش و مغفرت کی رات کہا گیا ہے انسان کو اپنی عبادت و ریاضت کے ذریعہ اپنے پروردگار کو راضی کرنا چاہئے اور تکبر، عناد، حسد، بغض و کینہ، شراب نوشی، زناکاری اور رشتہ داروں سے قطع تعلقی کو ختم کرتے ہوئے سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے اس لئے کہ یہ رات بخشش کی رات ہے جس میں انسانوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق جو شخص اس رات نہ بخشا جا سکےپروردگارعالم اس سے اپنی رحمتوں کو دور کر دیتا ہے۔

منابع و مآخذ:
۔ سورۂ بقرہ، آیت 185
۔ سورۂ دخان، آیت 3
۔ سورۂ قدر، آیت 1
۔ سورۂ قدر، آیت 4
۔ تفسیر برہان، ج 4، ص 481
۔ تفسیر برہان، جلد ۴، ص ۴۸۸، حدیث ۲۹
۔ مجمع البیان ، علامہ امین الاسلام طبرسی ج٧ ٢، ص ١٩٦
۔ سورۂ ہود، آیت 69
۔ تفسیر فخر رازی“ جلد ۳۲ ص ۳۶
۔ تفسیرالمیزان، ج ٢٠ ،ص ٧٦٥
۔ عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۱۱۶
۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢٥٩
۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢٥٩
۔ بحارالانوار، ج 94، ص 80
۔ کنز العمال متقی ہندی، ج ۸، ص ۵۳۴، حدیث نمبر ،۲۸ و ۲۴
۔ بحارالانوار، ج 93، ص 366
مقالات کی طرف جائیے