مقالات

 

حقیقی روزہ

حسین عباس ترابی

خالق کائنات اورمدبر جہان نے جب اس دنیاکوخلق کیاتو اس میں اشرف المخلوقات ،انسان کو قراردیا، لیکن اس نے انسان کو اس دنیا کے لئے خلق نہیں کیا بلکہ دنیا کو انسان کے لئے ایک امتحان گاہ اورآخرت تک پہونچنے کاپل قراردیا کہ وہ دنیا میں رہ کراپنی آخرت کی ابدی زندگی کے اسباب فراہم کر سکے ''الدنیا معبرة الآخرة''۔ اسکے لئے اس نے اپنے بندوں پرکچھ احکام لاگو کئے ہیںجو توشہ آخرت میںاس کی مدد کرتے ہیں۔
روزہ بھی اسلامی عبادتوں میں سے ایک ہے جسے پروردگار نے ماہ رمضان میں تمام مسلمانوں پر واجب قراردیاہے ،صوم کے لغوی معنی خودداری کے ہیں،کیونکہ انسا ن عام حالات میںبہت سی چیزیں مثلا کھانا ،پینا ،مباشرت وغیرہ انجام دے سکتاہے لیکن روزہ کی حالت میں انجام نہیںدے سکتا۔ روزہ کے اصطلاحی معنی ان چیزوں سے دوری اختیار کرناہے جن کا انسان مشتاق ہوتاہے۔
اسی طرح رمضا ن کو '' الرمض'' سے لیا گیا ہے رمض اس بارش کوکہتے ہیں جو موسم خزاں کے بعد ہوتی ہے اور گرد وغبار سے آلودہ زمین کوآلودگیوں سے پاک کردیتی ہے اسی طرح ایک صائم بھی روزہ رکھنے کے بعد گناہوں اور روحانی آلودگیوں سے پاک ہوجاتاہے۔ مجمع البحرین ومصباح المنیر میں رمضان کورمض سے مشتق بتایا گیا ہے جس کے معنی اس پتھر کے ہیں جو آفتاب کی براہ راست تپش سے جل گیا ہو کیونکہ اس ماہ میںتمام گناہ اوران کے اثرات جل جاتے ہیں اور انسان انحراف کاراستہ چھوڑکر کمال کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے، اس لئے اس ماہ کورمضان کہتے ہیں۔
روزہ کاذکر اسلام کے علاوہ ددسرے مذاہب میںبھی ملتاہے ،مگر جن آداب و شرائط کا حامل اسلامی روزہ ہے وہ آداب و شرائط کسی اور مذہب کے روزہ میں نہیں پائے جاتے ۔
اسلام کی تمام عبادتوں میںروزہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے کیونکہ دوسری عبادتوں مثلاً نماز، حج، زکوة وغیرہ میں ممکن ہے کہ ریا اور خودنمائی شامل ہوجائے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا کا بالکل دخل نہیں ہے یعنی جب تک انسان خود ظاہر نہ کرے دوسرے افراد کو نہیں معلوم ہوسکتا کہ فلاں شخص روزہ سے ہے ، اسی لئے خدا ارشاد فرماتاہے '' الصوم لی وانا اجزی علیہ''۔
روزہ صرف نیت پرمنحصر ہے اسی لئے اگر انسان کھانے پینے کاارادہ کر لے اوربعد میںاپنی نیت سے منصرف ہوجائے تب بھی اس کا روزہ باطل ہوجاتاہے . دوسری عبادتوں کی طرح روزہ کے بھی درجات ہوتے ہیں ،علمائے اخلا ق نے روزہ کے تین درجات بیان کئے ہیں :
الف) عمومی روزہ یعنی صرف مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا۔
ب) خصوصی روزہ یعنی مبطلات روزہ سے پرہیز کے علاوہ انسان کے دوسرے تمام اعضاء و جوارح بھی روزہ سے ہوں اور انسان غیبت ، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، سخن چینی،بدگوئی وغیرہ سے بھی پرہیز کرے۔
ج) خصو ص الخصوص روزہ: یہ روزہ معصومین علیہم السلام سے مخصوص ہے۔
علماء اخلاق ماہ رمضان کوتہذیب اورتزکیہ نفس کا مہینہ بتاتے ہیں جس طرح طبیعت کا آغاز بہار سے ، سال قمری کاآغاز محرم سے اورسال عیسوی کاآغاز جنوری سے ہوتاہے اسی طرح علمائے اخلاق اپنے سال کا آغاز ماہ رمضان سے کرتے ہیں۔
اسلامی کتابوں میںروزہ کے بہت سے معنوی اورمادی فوائد ذکرکئے گئے ہیںانہیں فوائد میں سے ایک انسان کی قوت ارادی کامضبوط ہونا بھی ہے ظاہر ہے ہم روزہ کی حالت میں صرف رضایت خدا کے لئے بھوک پیاس وغیرہ کاتحمل کرتے ہیں۔ اگر ہم اسی قوت ارادی کو تقویت دیں اور اس کی مشق کرتے ہوئے زندگی کے دوسرے امور میں بھی اس کوجاری رکھیں تو ہمارے بہت سے کام آسان ہوسکتے ہیں اورپھر ہمارے لئے اپنے مقصد تک پہونچنا اتنا مشکل نہیں رہ جائے گا ۔
ہم اختیار رکھنے کے باوجود ایک مہینہ صرف خدا کی خوشنودی کے لئے کھانے پینے اوردوسرے مبطلات روزہ سے پرہیز کرتے ہیںکیونکہ ہمارے پیش نظروہ ذات ہوتی ہے جو ہرجگہ اورہر وقت موجود ہے۔ اسی طرح اگر ہم سال کے دوسرے مہینوں میںبھی اپنے تمام امور میں خدا کے حضور کو پیش نظر رکھیں تو غیبت ،جھوٹ ،وعدہ خلافی ،سخن چینی ،فرائض سے غفلت اوردوسرے برے افعال سے باآسانی بچ سکتے ہیں تب جاکر صحیح معنوں میں ہمیں اس ماہ کے ذریعہ ہونے والا فائدہ جو کہ تقوی ہے ،حاصل ہو سکے گا،اسلام میں ہر عبادت کاایک مقصد ہے جس کے تحت اس کو انجام دیا جا تاہے اوریہی فرق ہے جوایک عبادت کو رسم سے جدا کرتاہے کیونکہ رسوم کو انجام دیتے رہنے سے ہمارے اخلاق وکردار میں کسی طرح کی تبدیلی واقع نہیںہوتی ہے لیکن اگر عبادتوں کو ان کے شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے تو ہمارے کردار میںتبدیلی کارونما ہونا لازمی ہے۔
لہذا ہمیں چاہئے کہ اس ماہ کوتزکیہ نفس کا مہینہ قرار دیں ، اس کے لئے محکم ارادہ کی ضرورت ہے ،محکم ارادہ کرنا اور اس پر باقی رہنا کوئی آسان کام نہیںہے لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔
مقالات کی طرف جائیے