مقالات

 

رہبریت، اسلام کی اہم ترین ضرورت

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

دین اسلام کا ایک بنیادی اور اساسی قاعدہ اورعقیدہ یہ ہے کہ اس کائنات اور اس کے ذرے ذرے کا خالق و مالک صرف اللہ ہے ، اسی نے اس کائنات کو وجود عطا کیاہے اور بہترین نظام سے آراستہ فرمایاہے۔
توحید میں اس اٹل عقیدہ پر بہت زیادہ زور دیاگیاہے کہ ہر موجو د، خواہ اس کا تعلق جمادات و نباتات سے ہو یا حیوانات و انسان سے ، نظر آنے والی مخلوقات سے ہو یا پوشیدہ سے ، ہر موجود پر اللہ ہی کی حاکمیت ہے ۔اذن الٰہی کے بغیر درخت سے ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا : (و انا تسقط من ورقة الا یعلمھا)۔ لہذا چونکہ ہر شئی کا خالق و مالک اللہ ہے اسی لئے ہر شئی پر حکومت و حاکمیت بھی اللہ ہی کی ہوگی ،اس بنا پر اس کائنات میں جہاں بھی کوئی حکومت وجود میں آئے تو اس کا سرچشمہ اور منبع اللہ کی حاکمیت و حکومت ہونا چاہئے ، ''لاحکم الا للہ'' کے پیش نظر خداوندعالم کی اجازت و مشیت کے تحت ہی ہر حکومت وجود میں آنی چاہئے۔
خداوندعالم کی اجازت و مشیت کے بغیر جو بھی حکومت بنانے کی کوشش کرے گا ،وہ ظالمین کے زمرے میں آجائے گا:(و من لم یحکم بما انزل اللہ فائولئک ھم الظالمون)۔خداوندو عالم نے اپنے انبیاء کو جہاں انسانیت و بشریت کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مبعوث کیاہے وہاں اقتضائے زمان و مکان کے مطابق یہ ذمہ داری بھی سونپی ہے کہ وہ باقاعدہ حکومت کو تشکیل دیں ، ائمہ معصومین علیہم السلام ، اقتدار و حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لیں اورلوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عملی طور پر احکام الٰہی کو نافذ کرنے کی کوشش کریں۔
دوسری طرف اللہ نے لوگوں کو حکم دیاکہ وہ انبیاء کی باتیں مانیں ، ان کا اتباع کریں اور ان کے مطیع و فرمانبردار رہیں؛چنانچہ حضرت رسو ل اکرم(ص) کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے :( فلا و ربک لا یومنون حتی یحکومک)'' تیرے رب کی قسم ! یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو حاکم تسلیم نہ کرلیں''۔اس سے معلوم ہوا کہ حق حاکمیت صرف خد اکو حاصل ہے اور اس نے یہ کام اپنے انبیاء کے سپرد کیاہے کہ وہ لوگوں کے درمیان خدا کی حاکمیت کورائج کریں۔
اللہ نے اہل ایمان کو پہلے ہی اس بات کی طرف متوجہ فرمادیاہے کہ اس کا نبی تم پر تمہاری جانوں سے زیادہ حکومت و ولایت رکھتا ہے: ''النبی اولی بالمومنین انفسھم ''۔
واضح سی بات ہے کہ رسول خدا(ص) کی وفات کے بعد یہ حاکمیت اور ولایت ختم نہیں ہوئی ہے، یہ بات غیر معقول ہے کہ کوئی یہ کہے کہ جب تک رسول خدا(ص) زندہ تھے ، اللہ کی حکومت تھی اور جب اس دنیا سے چلے گئے تو اب اللہ کو حکومت کی ضرورت نہیں ۔اس لئے کہ تشکیل حکومت کا مقصد یہ تھا کہ رسول خدا(ص)حکومت کے ذریعہ انسانیت و بشریت کے لئے فلاح و بہبودی اور دنیا و آخرت کی سعادت کا اہتمام فرمائیں۔
چونکہ خالق کائنات کا یہ مقصد اب بھی باقی ہے اس لئے حکومت الٰہی کی بقا بھی ضروری ہے ۔اس بناء پر اللہ نے ختم نبوت کے بعد امامت کا سلسلہ قائم کیا تاکہ رسول خدا(ص)کی وفات کے بعد ان کے جانشین ائمہ معصومین اسی مقصد کو آگے بڑھائیں ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان الامامة خلافة اللہ و خلافة رسولہ ''بے شک امامت اللہ اور اس کے رسول کی حکومت کا استمرار ہے ''۔
متعدد روایتوں میں آیاہے کہ امام مسلمانوں کے دینی امور کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور کا بھی حاکم ہے ، امام ہی کے ذریعہ انسانوں کے دینی اور دنیاوی سعادت کا اہتمام کیاجاسکتاہے''ان الامام زمام الدین و نظام المسلمین و صلاح الدنیا و عز المومنین ''۔
پس اس زمانے میں جس حاکم واقعی کی حکومت کے سایہ میں ہمیں زندگی بسر کرنی ہے ، وہ امام زمانہ (عج)ہیں ، اور یہ امام اس وقت پردۂ غیب میں ہیں۔امام زمانہ کی حاکمیت و حکومت ، رسول خدا(ص)کی طرف سے ہے اور رسول خدا(ص)کی حاکمیت و حکومت اللہ کی طرف سے ہے ، پس امام زمانہ کی حکومت و حاکمیت بھی اللہ کی طرف سے ہے۔
ممکن ہے یہاں یہ سوال کیاجائے کہ امام زمانہ کے پردۂ غیب میں رہنے کی وجہ سے ان کا حق حکومت ساقط ہوگیاہو؟ کیا امام زمانہ کے پردۂ غیب میں جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو حاکم کے بغیر چھوڑدیاگیاہے ؟
یہ قطعی ممکن نہیں اس لئے کہ امام کے غائب رہنے کی وجہ سے حاکمیت و حکومت کے فوائد اور اہداف و مقاصد ختم نہیں ہوئے بلکہ امام کے غائب ہونے کی وجہ سے حکومت کی ضرورت اور بھی شدت سے محسوس ہورہی ہے ، لہذا امام زمانہ کی غیبت کے دوران بھی ظاہری حاکموں کی ضرورت ہے ، اس لئے کہ جب اسحق بن یعقوب نے امام زمانہ سے سوال کیا کہ فرزند رسول !جب آپ پردۂ غیب میں ہوں گے تب ہمیں کس کی طرف رجوع کرنا چاہئے ؟ امام نے جواب میں فرمایا: فارجعوا فیھا الی رواة حدیثنا ...و انا حجة اللہ علیہھم ''پس اس وقت تم راویاں حدیث کی طرف رجوع کرو جو میری طرف سے تم پر اللہ کی حجت ہیں اور میں اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہوں''۔
خود حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا ارشاد بھی اس مطلب پر واضح دلیل ہے ، امام فرماتے ہیں: فاما من کان من الفقھاہ کائنا لفنسہ و حافظا لدینہ مخالفا لھواء مطیعا لامرمولاہ فللعوام ان یقلدوہ ''پس اس وقت اس فقیہ کی اطاعت کرو جو خواہشات نفسانی سے پاک ہو ، دین کی حفاظت کرنے والاہو، ہوا و ہوس سے مبرہ ہو اور اپنے مولا یعنی امام زمانہ حضرت مہدی موعود (عج)کا اطاعت گزار ہو ''۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :''میری طرف سے تمہارے اوپر وہ شخص حاکم ہے جو ہماری احادیث کی معرفت رکھنے والا ہواور جو حلال و حرام کو بہتر انداز میں جانتا ہو''۔
متذکرہ احادیث و روایات سے ثابت ہوا کہ جو حاکمیت یا حق حکومت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ، وہ اللہ نے اپنے انبیاء کو عطا فرمایا ہے ، اسی لئے حضرت رسول خداۖ نے اپنے زمانے میں باقاعدہ حکومت تشکیل دی اور حق حاکمیت و حکومت اپنے بعد اپنے جانشین حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب کے سپرد کردیا اور حجة الوداع کے موقع پر حاجیوں کے درمیان یہ فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ۔
حضرت امیر المومنین نے اپنی شہادت سے پہلے اپنے فرزند ارجمند امام حسن علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا اور ان کے بعد امام حسین جانشین ہوئے ۔
یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہایہاں تک کہ یہ حاکمیت و حکومت ہمارے آخری اور بارہویں امام امام زمانہ (عج) تک منتقل ہوئی اور ان کے پردۂ غیب میں جانے کی وجہ سے یہ حق حکومت ، فقیہ جامع الشرائط تک منتقل ہوا ، جسے آج ولایت فقیہ سے تعبیر کیاجاتاہے ، ولی فقیہ امام زمانہ کا نمائندہ ہوتاہے ، ان کے حکم کی پیروی امام کے حکم کی پیروی کے مانند ہے ، ان کی اطاعت ، امام زمانہ کی اطاعت کے مترادف ہے۔
ولی فقیہ کی حکومت در اصل اللہ کی حکومت ہے کیونکہ ان کی حکومت کا سرچشمہ حکومت امام زمانہ ہے اور ان کی حکومت کا سرچشمہ حکومت رسول ہے اور حکومت رسول کا سرچشمہ ، حکومت خدا ہے ۔
اس لئے حدود الٰہی کو نافذ کرنے کرنے کا جو اختیار رسول خدا(ص)یا ائمہ طاہرین کو حاصل تھا وہی اختیار ولی فقیہ کو بھی ہے ، مثلاًاسلام میں فلاں مجرم کی سزا ایک سو کوڑے لگانے کی ہو تو رسول خدا(ص)سو کوڑے لگانے کا اختیار رکھتے ہیں ، اسی طرح سے امیر المومنین بھی یہ اختیار رکھتے ہیں اور دیگر ائمہ کو بھی یہ حد جاری کرنے کا اختیار ہے ، اس طرح سے نمائندہ امام زمانہ ، ولی فقیہ کو بھی یہ اختیار ہے کہ وہ اس حدود کو جاری کرے ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ کسی کی منزلت اور فضیلت کی زیادتی ، حدود الٰہی کے نافذ کرنے میں زیادہ ہوگی، مثلاً: کہیں کہ رسول خدا(ص)کی فضیلت زیادہ ہے اس لئے انہیں سو کوڑوں کا اختیار ہے ، امیر المومنین کی فضیلت رسول خدا(ص)کے بعد ہے اس لئے وہ سوکوڑے نہیں لگاسکتے وہ پچاس کوڑے لگائیں اور ولی فقیہ پچیس کوڑے لگائے ۔یعنی اگر چہ ان کے درجات اور فضیلت و مرتبہ میں فرق ہے لیکن نفاذ احکام اور حق حکومت و حاکمیت میں سب کی ذمہ داری ایک جیسی ہے ۔
الحمد للہ !آج ولایت فقیہ کا عملی نمونہ حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے جو واقعاً امام کے بقول : محافظ دین بھی ہیں اور متقی زمان بھی ۔ حضرت امام خمینی اسی ولایت کے بارے میں فرماتے ہیں : ولایت فقیہ ھمان ولایت رسول اللہ است '' یعنی رہبر معظم ولی امر مسلمین کی حکومت گویارسول خدا(ص)کی حکومت ہے ''۔
خداوندعالم سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس حکومت الٰہی کی تائید و اطاعت کی توفیق عنایت فرمائے اس لئے کہ رسول و آل رسول اور ولی فقیہ کی اطاعت و پیروی میں ہی ہمارے دین و دنیا کی سعادت ہے ۔
مقالات کی طرف جائیے