مقالات

 

جذبۂ ایثار کو سلام

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

اربعین کے سفر میں پیش آنے والا ناقابل فراموش واقعہ

بڑی معصوم بچی تھی ، تقریباًسات سال عمر ہوگی ، عراق کے محلی لباس میں ملبوس سڑک کے کنارے کھڑی تھی اور ہر آنے جانے والے کو بڑی حسرت سے دیکھ رہی تھی ، چہرے پر بلا کی معصومیت تھی اور آنکھوں میں بے پناہ التجا ، جسے لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا بس تمثیل کی زبان میں اتنا کہاجاسکتاہے کہ جس طرح ایک فقیر و مسکین دن بھر دردر کی ٹھوکریں کھا کر رات کے آخری پہر اپنے پیٹ کی آواز سے مجبور ہوکر سامنے کھڑے ہوئے انسان سے التجا کا مظاہرہ کرتاہے ، اسی طرح وہ بچی آنکھوں میں بے پناہ التجا لئے ہر آنے جانے والے سے معصومانہ لہجے میں کچھ کہہ رہی تھی ۔اس کے پیروں کے پاس ایک چھوٹی سی بالٹی رکھی ہوئی تھی اور ہاتھوں میں ایک چھوٹی سی سینی (ٹرے)جس پر دو تین دودھ سے بھرے ہوئے گلاس تھے ؛ وہ ہر گزرنے والے زائر سے ایک ہی جملہ کہتی تھی : "ھلاً بی یازائر "۔
میرے لئے یہ بات نئی نہیں تھی ، اربعین کے موقع پر ہر عراقی امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی خدمت کے لئے اسی طرح پیش پیش رہتاہے اورنجف سے کربلا تک کے راستہ میں قدم قدم پر اس قسم کی خدمت کا مظاہرہ کیاجاتاہے ۔ میں وہاں رکنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے کہ کربلا کی مسافت ابھی زیادہ تھی اور وقت کم تھا لیکن پھر بھی اس بچی کی معصومیت نے میرے قدم روک لئے ۔
میں اس کے قریب پہنچا ، ہاتھوں میں سینی لئے پھر سے وہی جملہ دہرا رہی تھی :" ھلاًبالزائر "۔میں نے اس کی سینی سے ایک گلاس اٹھا کر اس چھوٹی سی معصوم بچی کو غور سے دیکھا ، لباس پردھول جمی ہوئی تھی ، چہرے سے بھی گرد و غبار کے آثار نمایاں تھے ، اس کی ظاہری حالت دیکھ کر ایسا لگ رہاتھا جیسے وہ کافی دیر سے وہاں کھڑی ہے ، لیکن اس کے چہرے سے تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہورہاتھا ، بلکہ اس کے برعکس ہر زائر سے بشاش لہجے میں مسکرا کر یہی کہہ رہی تھی: "ھلاًبالزائر"۔
میں آہستہ آہستہ دودھ کا شربت پینے لگا ، دو یا تین منٹ کے بعد ایک دوسرا شخص اس بچی کے قریب پہنچا اور سینی میں موجود ایک گلاس اٹھا کر اسے پینے لگا ۔اس شخص نے شربت پینے کے بعدخالی گلاس اس کی سینی پر رکھ دیا اور آگے بڑھنے لگالیکن پھر نہ جانے کیا سوچ کر واپس اس بچی کے قریب آیا اورذرا سا جھک کر اس سے سوال کیا: بیٹی !کیا اس چھوٹی سی بالٹی میں بھرے ہوئے دودھ سے مولا کے تمام زائرین سیراب ہوجائیں گے ؟
میں نے چونک کر اس شخص کو دیکھا ، یہ کیسا سوال ہے اور وہ اس معصوم سی بچی سے کیا معلوم کرنا چاہتاہے ۔
میں نے اس بچی کو دیکھا ۔
اس نے سر اٹھا کر بڑے معصومانہ انداز میں جواب دیا : نہیں ۔
پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئی:
مگر کیا کروں ، ہمارے پاس اس سے زیادہ نہیں ہے ، ، یہ بھی ہمارے سارے گھر والوں کا حصہ اور خوراک ہے ، ہم سب نے آج روزہ رکھا ہے تاکہ مولا کے کچھ زائروں کی اس کے ذریعہ تھوڑی خدمت کرسکیں ،شاید اس طرح ہمارا شمار بھی مولا اپنے زائروں کے خدمت گزاروں میں کرلیں ۔
وہ معصوم اور پیاری بچی جواب دے کر پھر سے مولا کے زائروں کو بلانے لگی ، اسی ہشاش بشاش انداز میں ، چہرے پر نہ کسی غم واندوہ کا نشان تھا اور نہ ہی کسی درد کی علامت ، وہ معصوم چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے قطعی عاری تھا ، اس معصوم چہرے پر صرف بشاشیت تھی ۔ لیکن میرے لئے اس نے سوچوں کا نہ بند ہونے والا دروازہ کھول دیا : کیا کوئی اس طرح ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرسکتاہے ، کیا کوئی کسی اجنبی کی اس طرح خدمت کرسکتاہے ، کیا کوئی اپنے مولا و آقا پر سب کچھ قربان کرکے بھی خوش و خرم رہ سکتاہے ؟؟
میری آنکھوں میں آنسو تھے ، میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کرشربت کا خالی گلاس سینی پر رکھااور" شکراً جزیلاً"اور "تقبل اللہ" کہتے ہوئے آگے بڑھنے لگا لیکن صرف میرے قدم آگے بڑھے تھے میرا دل وہیں پر اس بچی کے پاس ٹھہر سا گیا تھا ، میں کچھ دور تک بار بار اسے پلٹ کر دیکھتا رہا اور دل سے اسے دعائیں دینے لگا۔
اس واقعہ کو رونما ہوئے کافی دن ہوگئے ہیں ،ذہن کے صفحے سے بہت سے واقعات محو ہو چکے ہیں لیکن زندگی کا یہ ایک واقعہ تمام تر جزئیات کے ساتھ ذہن کے دریچہ میں محفوظ ہے ،آج بھی جب میں تنہائی میں بیٹھتا ہوں تو اس پیاری بچی کا معصوم سا چہرہ خود بخود نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے اور اس چھوٹی بچی کی عظمتوں کے آگے میرا دل جھکنے لگتا ہے ۔
اور پھر میرا دل خداوندعالم کی بارگاہ میں پہونچ کر یہی دعا کرتاہے :
خدایا ! اس جذبۂ ایثار کا مظاہرہ کرنے والوں کو صحت و سلامتی عطا کر اور انہیں دین اسلام کے لئے باعث عزت و افتخار قرار دے؛آمین یا رب العالمین ۔
مقالات کی طرف جائیے