مقالات

 

لقب امیر المومنین کا نزول

شعور ولایت فاؤنڈیشن

حقیقی مومن کی علامت یہ ہے کہ جو پیغمبر(ص) پرنازل ہوا اس کازبان سے اقرار کرے ، دل سے ایمان رکھے اور اعضاء و جوارح کے ذریعہ اس کو عملی جامہ پہنائے، لہٰذا اگر صرف زبانی دعویٰ ہو اور دل سے اقرار نہ ہو تووہ مسلمان تو ہوسکتا ہے، مومن نہیں ہوسکتا۔
١٣ ذی الحجہ وہ مبارک تاریخ ہے جس میں خداوندعالم نے مومنین کے لئے امیر اور رہبر کا انتخاب فرمایا، جبرئیل نازل ہوئے اور علی کو اس انداز سے سلام کیا:السلام علیک یا امیر المومنین''اے مومنوں کے امیر آپ پر میرا سلام ہو۔(١)
حضرت علی نے پیغمبراکرم(ص)سے عرض کی : یا رسول اللہ(ص)! مجھے ایک آواز سنائی دے رہی ہے لیکن بولنے والا دکھائی نہیں دے رہا ہے!۔ پیغمبراکرم(ص)نے جواب میں فرمایا: یہ جبرئیل امین ہیں، یہ اس وعدہ کو نبھانے آئے ہیں جو مجھ سے خداوندعالم نے کیا تھا۔
پیغمبر اکرم(ص)نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو، بعض نے تو وجد و سرور کے ساتھ سلام کیا اور بعض نے جبر و اکراہ کے ساتھ۔(لیکن امیرالمومنین سب کی زبان پر آیا)۔
البتہ اس سے پہلے بھی علی کو امیر المومنین کہا جانا( بالخصوص اہل بیت کے درمیان) رائج تھا، کیونکہ حدیث کساء میں دیکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ زہرا نے امیرالمومنین کہہ کر جواب سلام دیا اور آپ کا استقبال کیا لیکن یہ حکم عوام الناس کے لئے حجة الوداع کے موقع پرنازل ہوا اور تمام لوگ غدیری بیعت سے قبل متوجہ ہوئے کہ حضرت علی خدا کی جانب سے امیر وپیشوا قرار پاچکے ہیں اور یہ لقب بھی ان سے مخصوص ہے یہاں تک کہ اگر دوسرے ائمہ معصومین کو امیر المومنین کہہ کر خطاب کیا جاتا تھا تو وہ لوگ فرماتے تھے کہ ہم کو امیر المومنین مت کہو کیونکہ یہ لقب صرف حضرت علی سے مخصوص ہے۔
روایتوں میں تو یہاں تک بھی آیا ہے کہ اگر کسی شخص کو امیرالمومنین کہہ کر خطاب کیا جائے اور وہ اس خطاب پر خوش ہوجائے تو وہ فسق وفجور کا مرتکب ہوا ہے۔ (2)

حدیث شریف سے حقانیت تشیع پر استدلال
١۔ حضرت علی فرشتوں کے رہبر یہاں تک کہ جبرئیل کے بھی پیشوا ہیں کیونکہ تمام فرشتے مومن ہیں اور ان کے سردار جبرئیل ہیں اور جبرئیل نے مکمل تواضع و انکساری کے ساتھ علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا ہے اور بعد سلام عرض کیا: یا علی! انت امیر من فی الارض و امیر من فی السمائ، امیر من قبلک و امیر من بعدک ''اے علی ! آپ اہل زمین کے بھی امیر ہیں، اہل آسمان کے بھی امیر ہیں؛ آپ اپنے سے پہلے والوں کے بھی امیر ہیں اور بعد میں آنے والوں کے بھی امیرہیں''۔
٢۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی مومنین کی مدح و ثنا ہوئی ہے، ان آیات کے ذریعہ امیر المومنین کی فضیلت رونما ہوتی ہے لہٰذا فضائل امیرالمومنین کی معرفت، ان آیات کے ذریعہ بھی ممکن ہے جن میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے ہیں اور ان کی توصیف کی گئی ہے۔
٣۔ جبرئیل نے علی کو پیغمبر(ص) کے سامنے امیر المومنین کہہ کر خطاب کیا ؛ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) بھی مومن ہیں اورمومنین کے رہبر بھی ہیں لہٰذا یہ بھی ایک دلیل ہے کہ یہ دونوں (پیغمبر(ص) و علیؑ ) دو جسم ایک جان ہیںاسی لئے علی کو نفس رسول(ص)کہا گیا ہے۔
علی کی منزلیں جانیں پیمبر

کہ انساں جانتا ہے خود کو بہتر
٤۔ چونکہ علی کو بالعموم امیر المومنین قرار دیا گیا ہے لہٰذا اگر مسلمان حضرات کسی کو اپنا امیر قرار دیں اور وہ شخص امیری قبول بھی کرلے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امیر الکافرین یا امیر الفاسقین ہے کیونکہ روایات سے یہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔
٥۔ وہ تمام افراد جن کو تاریخ نے امیر المومنین کہا ہے اور وہ لوگ اس لقب سے خوش ہوئے ہیں ان کے فسق و فجور طشت از بام ہیں جو محتاج تعارف نہیں ہیں۔
٦۔ خدا وند عالم کے علاوہ جو مخلوق بھی تسبیح پروردگار میں زمزمہ سنج رہتی ہے(یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِیْ السَّمٰوَاتِ وَ مَا فِیْ الْاَرْضِ)''جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ تسبیح خداوندی میں زمزمہ سنج ہے''۔(3)؛ اس کے امیر حضرت علی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام نظام ہستی، مطیع علی ہے۔
٧۔ خدا وند عالم کی جانب سے القاب کا انتخاب حکمت کے تحت ہوتا ہے، خدا عادل ہے اس نے رہتی دنیا تک نگاہ کی لیکن علی کے سوا کوئی نظر نہیں آیا جس کو اس لقب سے نوازا جائے لہٰذا امیر المومنین تمام صالحین کے امیر ہیں۔
٨۔ امیر و خلیفہ کا انتخاب خدا کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا خلیفۂ اول کی خلافت پر اجماع کا دعویٰ، خلیفۂ دوم کو لوگوں کی جانب سے منسوب کیا جانا اور خلیفۂ ثالث پر شوریٰ کا فیصلہ... یہ تمام چیزیں امر الٰہی کی خلاف ورزی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ امیر المومنین نہیں بلکہ دوسرے بادشاہوں کی مانند بادشاہ کہلائیں گے۔

ماخوذ از انوار غدیر ؛ ترجمہ شعور ولایت فاؤنڈیشن
حوالہ جات
١۔ مناقب آل ابیطالب: ج٣، ص٥٤
2۔ وسائل الشیعہ: ج١٤، ص٦٠٠
3۔ سورۂ جمعہ١
مقالات کی طرف جائیے