مقالات

 

الغدیر کی تالیف و تحقیق کا اہم ترین سبب

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

"الغدیر "صرف صاحبان تحقیق کی آرزو ہی نہیں بلکہ ایسا آبشار حقیقت اور بے نظیر دائرة المعارف ہے جس کے ذریعہ ہر شخص غدیر اور حقیقی امام و خلیفہ کی معرفت حاصل کرسکتاہے ۔
یہ کتاب علامہ امینی کی عرفان انگیز پیش کش اور معرکة الآراء کارنامہ ہے ،یہ آپ کی خانوادۂ عصمت و طہارت سے بے پناہ عقیدت کا بین ثبوت بھی ہے ،اس میں جہاں حق کی حمایت دیدہ زیبی اور عرق ریزی سے کی گئی ہے وہیں باطل اور باطل پرستوں کے کریہہ چہروںسے نقاب کشائی بھی نہایت سلجھے اور موثر انداز میں کی گئی ہے ۔
اس کتاب یا مؤ لف کتاب کے متعلق کچھ لکھنا یقینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔
بقول علامہ تہرانی ''صاحب الذریعہ '':
''میں اس عظیم کتاب کے اوصاف بیان کرنے سے قاصر ہوں ،الغدیر کا مقام اس سے بالاتر ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ،تنہا کا م جو حقیر اس سلسلے میں انجام دے سکتاہے وہ یہ کہ خداوندعالم سے دعاکرتاہوں کہ اس کتاب کے مؤلف کی عمر دراز ہو اور ان کی عاقبت بخیر ہو ۔اور خلوص نیت کے ساتھ خدا سے چاہتاہوں کہ میری باقیماندہ زندگی کو بھی مؤلف کی عمر شریف میں اضافہ فرمائے''۔
یہ کتاب علامہ امینی مرحوم کی تمام عمر کی تلاش و کاوش کا ماحصل ہے ، اس لئے کہ آ پ نے اس کتاب کی تالیف میں صرف نجف اشرف کے کتابخانوں کی چھان بین نہیں کی بلکہ تحقیقی منابع کے حصول کے لئے ایران ، ہندوستان ،شام ، ترکی وغیرہ جیسے بے شمار ممالک اسلامی و غیر اسلامی ممالک کا سفر کیا ۔ ان ممالک کے اہم کتاب خانوں کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا اور جو کچھ بھی موضوع ولایت سے متعلق مواد ملا اسے اس میں جمع کردیا ۔
ان ممالک میں سفر کے دوران علامہ امینی مرحوم کے ساتھ جو واقعات پیش آئے وہ بھی مطالعہ کے لائق ہیں ، ان واقعات سےجہاں علامہ امینی مرحوم کے اخلاقی صفات اوران کی تحقیقی کاوشوں کی اہمیت آشکار ہوتی ہے ، وہیں ولایت امیر المومنین اور خاندان عصمت و طہارت کی عظمت بھی قلب و دماغ میں مرتسم ہوتی ہے ۔
ان واقعات میں سے ایک واقعہ شام میں بھی پیش آیا ۔ آپ دمشق کے کتابخانہ میں جو اہل سنت سے متعلق تھا ایک مدت تک مشغول مطالعہ رہے، ایک دن حضرت زینب کے حرم میں دمشق کے ایک مشہور تاجر نے علامہ کو دیکھا اورپہچان لیا کیونکہ اس نے اخبار میں علامہ کی تصویر دیکھی تھی اور علامہ سوریہ میں ایک محقق کے عنوان سے مشہور تھے (کیونکہ اس وقت سوریہ ، مصر ،لبنان میں محققین کو خاص اہمیت دی جاتی تھی ،وہ محقق مسلمان ہوں یا عیسائی، شیعہ ہوں یا سنی، صرف اس کی تحقیق کی وجہ سے اس کی اہمیت تھی ) ۔
علامہ کا نام بھی اس وقت ان تمام ممالک میں مشہور تھا ، لہذا اس تاجر نے آپ کو پہچان لیا اور س نے نزدیک آکر پوچھا : آپ علامہ امینی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! میں امینی ہوں۔ اس سنی تاجر نے آپ سے اظہار ہمدردی کیا اور کہا کہ میں نے آپ کا نام بہت سنا ہے، گرچہ اس سے قبل آپ کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا، آپ کو سوریہ میں دیکھ کر بہت خوشحال ہوں،اجازت دیجئے کہ ایک شب آپ کی خدمت کر سکوں، سوریہ کے لوگ آپ کو بہت چاہتے اور پسند کرتے ہیں۔
علامہ امینی نے فرمایا: آپ جانتے ہیں کہ میں تحقیق و تالیف کی غرض سے یہاں آیا ہوں ، آپ کی دعوت پر جانے کی صورت میں لوگ متوجہ ہوجائیں گے کہ میں سوریہ میں ہوں اور اس طرح سے دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور میری تحقیق ناقص رہ جائے گی ، لہذا میں نہیں چاہتا کہ میرے سوریہ میں رہنے کی اطلاع کسی کو ہو، اس طرح میں زیادہ مطالعہ اور تحقیقی کام کرسکتا ہوں ۔
اس تاجر نے کہا: بہتر ہے جب آپ یہاں سے جانے والے ہوں تو مجھے اطلاع دیجئے تاکہ اس وقت میں آپ کی خدمت کر سکوں۔ علامہ نے جب محسوس کیا کہ وہ آپ سے خاص لگاؤ رکھتا ہے تو آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے میں کام کے اختتام پر آپ کو اطلاع دے دوں گا ۔ چنانچہ جب آپ تحقیقی کام سے فارغ ہوئے اور اسے اطلاع دی تو اس نے دعوت کا اہتمام کیا ۔ علامہ کے اعزاز میں اس نے دوسرے علماء اور اہل سنت کے مفتیوں کو بھی دعوت دی تھی ، اس دعوت میں اہل سنت کے ایک بزرگ مفتی نے علامہ سے سوال کیا کہ مشرق ومغرب میں آپ کی تحقیق کی شہرت ہے اور مختلف ملکوں میں آپ کا نام لوگوں کی زبانوں پر ہے، آپ بتائیں کہ آپ نے کس زمین پر تحقیق کی ہے کہ اس قدر آپ کی شہرت ہوئی؟ علامہ نے فرمایا: میں نے صرف غدیر کے سلسلے میں تحقیق کی ہے۔
اس جواب سے مفتی کے چہرہ کا رنگ اڑ گیا ، علامہ کو غور سے دیکھا اور کہا: کیا موضوع کا قحط پڑا تھا کہ آپ نے غدیر پر تحقیق کی ، کیوں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں؟ کیوں اس مسئلہ کے پیچھے پڑے ہیں، کیا تحقیق کے لئے کوئی دوسرا موضوع نہیں ہے... ؟
علامہ نے جواب دیا: پہلی بات تو یہ کہ میں مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے کے فراق میں نہیں ہوں، میں خود مسلمانوں کے درمیان اتحاد چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں کوشاں بھی ہوں، میری کتابوں کو دیکھ لیجئے اس میں ایک بات بھی اتحاد کے خلاف نہیں پائیے گا۔
اور دوسری بات یہ کہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے اگر مجھے اس کا جواب مل گیا تو مجھے غدیر کے بارے میں تحقیق کی ضرورت نہ ہوگی، مفتی نے کہا : آپ اپنا سوال بتائیے شاید میں اس کا جواب دے سکوں تا کہ آپ کو مزید تحقیق کی ضرورت نہ ہو۔
علامہ امینی مرحوم نے فرمایا: بہت خوب! میں اس سوال سے پہلے دوسرے دوسوال کرنا چاہتا ہوں۔
پہلا سوال یہ کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو کیا کوئی اولاد یادگار کے طور پر چھوڑی؟
مفتی نے کہا: ہاں فاطمہ زہرا! جو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔ اس کے بعد اس نے حضرت زہرا کے سلسلہ میں روایات اور احادیث بیان کرنا شروع کیا اور اور آپ کی تعریف کی، آخر میں کہا کہ فقط آپ شیعہ حضرت زہرا کو نہیں مانتے بلکہ ہم بھی مانتے ہیں اور احترام اور محبت کرتے ہیں۔
علامہ نے فرمایا: خدا آپ کو جزائے خیر دے، آپ نے پہلے سوال کا جواب دیا اور اب دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم شیعوں کی کتابوں میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے: من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة '' جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے''۔ تھوڑے سے تفاوت کے ساتھ یہ حدیث اہل سنت کی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے:''اگر کوئی مر جائے اور کسی امام کی بیعت اس کی گردن پر نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے''۔
مفتی نے کہا: جی ہاں! یہ حدیث فلاں کتاب حدیث میں ہے اور متواتر بھی ہے ۔ علامہ نے فرمایا: خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
اب جو سوال میرے ذہن میں ہے جس کی وجہ سے میں یہ تحقیق کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ فاطمہ زہرا جن کی مدح میں آپ نے اتنی حدیثیں پڑھیں پیغمبر کے بعد چند روز زندہ رہیں، روایت کے اختلاف کی بناء پر٤٠ روز یا٧٥ روز یا ٩٥ روز.... اس کے بعد آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ،اس درمیان ہم شیعوں کے اعتبار سے اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کی ، یا ان کی گردن پر کسی امام کی بیعت تھی جس کی وجہ سے وہ حالت اسلام میں دنیا سے رخصت ہوئی ہوں؟ یاپھر کسی امام کی بیعت آپ کی گردن پر نہ تھی اور آپ کی موت(العیاذ باللہ)جاہلیت کی موت تھی...؟
متانت سے بھرپور علامہ کے اس سوال پر مفتی صاحب کا منھ کھلا رہ گیا ، ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہا: امام کی بیعت آپ کی گردن پر تھی اور اسی حالت میں اس دنیا سے گئیں کیونکہ جس بنت رسول کی مدح میں اتنی روایات ہوں ان کی موت جاہلیت کی موت نہیں ہو سکتی۔
علامہ امینی نے فرمایا: بہت خوب! یعنی جب آپ اس دنیا سے گئیں تو آپ کی گردن پر کسی امام کی بیعت تھی لہذا حالت اسلام میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں، پس سوال یہ ہے وہ امام کون تھا جس کی بیعت حضرت زہرا نے کی؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ خلیفہ اول، تو صحیح نہیں ہے ، کیونکہ آپ خود جانتے ہیں اور اہل سنت کے بزرگ علماء نے اپنی تاریخی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب آپ مریض تھیں اور شیخین آپ کی عیادت کو آنا چاہتے تھے تو بی بی نے قبول نہیں کیا ۔کیا یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت زہرا کسی کو اپنا امام مانتی ہوں اور اسے اپنی عیادت کی اجازت نہ دیں؟ اور آپ کی کتابوں میں یہ بھی بیان ہوا کہ جب حضرت فاطمہ نے اجازت نہیں دی تو وہ دونو ں حضرت علی کے پاس آئے تاکہ وہ بی بی سے اجازت لیں اور ایسا ہی ہوا لیکن آپ کی کتابوں میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ جب وہ لوگ آئے اور گھر میں بیٹھے تو جب وہ اپنا رخ داہنے سمت کرتے بی بی دو عالم بائیں سمت ہو کر بیٹھ جاتیں اور جب وہ بائیں سمت متوجہ ہوتے تو آپ اپنا رخ داہنے سمت کر لیتی تھیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت زہرا کسی کو اپنا امام مانتی ہوں اور اس سے اپنا منھ موڑ لیں۔
مفتی صاحب بالکل خاموش تھے ۔
علامہ نے اپنی بات جاری رکھی :یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا خلیفہ اول کے علاوہ کسی اور کو اپنا امام مانتی تھیں ۔ میں نے اب تک جو تحقیق کی ہے اس کے نتیجہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شہزادی کے امام کو خود رسول خداؐ نے اپنی زندگی میں معین فرما یا تھا ، آنحضرت کی وفات کے بعد وہ انہیں کی اطاعت کرتی تھیں اور انہیں کی بیعت پر قائم تھیں ۔
وہ کوئی اور نہیں بلکہ امیر کائنات حضرت علی بن ابی طالب ؑ تھے۔
اسی لئے تو خلیفہ سے منھ کو پھیر لیا
غدیر خم میں بنا تھا امام زہرا کا

نوٹ : علامہ امینی مرحوم کے اس واقعہ کو آقای شفیعی شاھرودی کی تالیف شبہای غدیر جلد ۲ میں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے ۔
مقالات کی طرف جائیے