مقالات

 

اشک شہادت

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

ہر تاریخ میں درس عبرت پایا جاتاہے ، ایک قاری بھی درس عبرت حاصل کرنے کے لئے کسی تاریخ کا مطالعہ کرتاہے تو اسےدرس عبرت کے بے شمار گوشے نظر آتے ہیں ۔ دین اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ بھی درس عبرت سے بھرپور ہے ، اس کے ایک ایک صفحہ میں صاحبان عقل و شعور کے لئے درس عبرت موجود ہے ، لیکن درس عبرت کے ساتھ ساتھ اس تاریخ میں غم و اندوہ اور مصائب و آلام کی ایک دنیا سمٹی ہوئی ہے ۔
ایک قاری تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک ایسے باب تک پہونچتاہے جہاں وہ بے حد متاثر ہوتا ہے،دماغ پریشان اور قلب مضمحل ہونے لگتاہے ، روح بے چین ہوجاتی ہے اور انسان خود بخود سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ کیا یہ بھی ہوسکتاہے؟ اس لئے کہ اس باب میں غم و اندوہ کی ایک دنیا سمٹی ہوئی ہے :
زمین بے قرار ہے اور آسمان اشک بار ؛
ہر طرف سیاہی پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں کے دل ہمیشہ سے زیادہ سیاہ ہیں ؛
مظلومیت ، ابھی تک اس طرح ظلم و ستم کے دام میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔
ظلم نے اس طرح بے شرمی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا ؛
آہ ...تنہائی سے امن وامان ؛
گھر کے در و دیوارسے '' واغربتاہ '' کی آواز آرہی ہے ؛
کینہ و دشمنی نے سینے کو شگافتہ کررکھاہے ؛
کیا محسن اس دنیا میں نہیں آئے ؛
کیا وہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی ظلم کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گئے ؟
ہاں !تبھی تو ایک بی بی کی آنکھوں سے اشک شہادت جاری ہے ۔
یہ کون ہے جو در و دیوار کے درمیان بیٹھی رو رہی ہے ۔
یہ کون ہے جو اپنی پسلیوں کے درد کو بھول کر ایک نادیدہ ذات کے لئے گریہ و زاری کررہی ہے ۔
یہ کون ہے جس کی درد بھری آواز فضائے مدینہ کو بے چین کررہی ہے ۔
یہ کون ہے جس کی آواز ہر سننے والے کو تڑپا رہی ہے : فضہ !مجھے سنبھالو ، میرا محسن شہید ہوگیا ۔
ایک قدم آگے آئیے !!
ایک طمانچے کی آواز ،شہر غربت کی گلیوں میں گونج رہی ہے ۔
حسرت و امید نے شہر کی فضا کو سوگوار کر رکھاہے۔
کیا کوئی ہے جو اہل بیت رسول کی پاسبانی کرے ؟
کیا کوئی نہیں جو عالم غربت و تنہائی میں اہل بیت رسول کا سہارا بنے ؟
کیا کوئی جوانمرد نہیں جو اہل بیت سے ظلم و ستم کو دور کرے ؟
ہاں !ایک شخص اس معرکے میں ہے جو بے حد شجاع اور بہادر ہے ۔
زمین و آسمان اس کی طاقت و قوت سے لرزاں ہیں ۔
زمین کے سینے میں اس کے قدموں کی دھمک برداشت کرنے کی تاب نہیں ہے ۔
وہ '' ذوالفقار '' کو حسرت و یاس سے دیکھ رہاہے ۔
لیکن وصیت کے کلمات نے اس کے ہاتھوں کو اسیر کررکھاہے ۔
وہ اپنے حریم کا دفاع کرنا چاہتاہے ۔
ان سنگین حالات میں اس کا دل بری طرح بے چین ہے ۔
لیکن وہ خاموش بیٹھا ہے ، اس لئے کہ پورے شہر میں تنہاہے ۔
اسے تنہا ہی رہنا ہوگا اور اپنے صبر و تحمل کی عظیم ذمہ داری کو پائے تکمیل تک پہونچانا ہوگا ۔
اسے صبر کرنا ہوگا اس لئے کہ اسلام کی بقا اس کے صبر و تحمل پر موقوف ہے ۔
اسے صبر کے تلخ گھونٹ پی کر ایک شہیدہ کو رات کی تنہائی اور تاریکی میں دفن کرنا ہوگا۔
ہاں !اسے تنہائی اور غربت پر رونا ہوگا اور مظلومیت کا درد برداشت کرنا ہوگا اس لئے کہ اس کے رفیق نے ، اس کے مربی نے اسے صبر کی تلقین کی ہے ۔
ہاں !اسے صبر کے تلخ گھونٹ پی کر اس اشک شہادت کی یاد میں آنسو بہانا ہوگا جسے اس نے اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے دیکھاہے ۔
اور پھر اس نے صبر کیا ....اس کے صبر کی روشنی پوری تاریخ میں پھیل گئی ، اس ایک صبر نے اسلام کو عزت و وقار عطا کیا....پورا عالم اسلام اس ایک صبر کا مرہون منت ہے ۔
لیکن اس صبر سے اس کے دل پر کیا گزری ...یہ تو وہ جانتا ہے یا پھر اس کا وحدۂ لا شریک خدا ...تاریخ میں صرف اتناملتاہے کہ اکثر رات کی تاریکی میں ، دبے قدموں سے ، لوگوں سے چھپ چھپا کر چند قبروں پر مشتمل ایک قبرستان میں جاتاہے اور ایک شکستہ قبر کے کنارے بیٹھ جاتاہے ....اور پھر جب درد و غم اور ظلم و ستم سے لبریز اشک شہادت کو یاد کرتاہے تو اس کی آنکھوں سے خود بخود سیل اشک جاری ہوجاتاہے ۔
مقالات کی طرف جائیے