تاثرات

 

کتاب غدیر؛ آیة اللہ مکارم شیرازی سے علامہ سید علی اختر شعور گوپال پوری تک

مولانا سید نیاز علی صاحب بھیک پوری

وچۂ بیگ دلی صفائیہ قم المقدسہ اپنے گھر میں آیة اللہ اعتمادی کی درسی کیسٹ میں مشغول تھا کہ یکایک گھر کی گھنٹی کی آواز سنائی دی ، دروازہ کھولا تو آیة اللہ مکارم شیرازی کے ڈرائیور جن کا نام ''آبشار'' تھا، دکھائی دئیے ، ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے اور ہم دونوں میں کافی نزدیکی سلام علیک بھی تھا ۔ آبشار نے آقا کا پیغام مجھ تک پہونچایا ۔ انہوںنے کہاکہ سید نیاز ساڑھے تین بجے بعد از ظہر آقا نے تمہیں اپنے دفتر میں بلایا ہے ، لہذا وقت مقررہ پر آجانا ۔ میں وقت معینہ پر آقا کے دفتر میں پہونچا ۔ آقا تشریف فرما تھے ۔ میں نے سلام کیا ، آقا نے جواب سلام دیا اور فرمایا : سید نیاز ! تمہیں یہاں اس لئے بلایا ہے تاکہ ''الغدیر '' جیسی اہم و نایا ب کتاب کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیاجاسکے لہذا اس کام کے لئے کسی ایسے شخص کا انتخاب کرو جو اردو کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی زبان پر بھی مہارت رکھتا ہو ۔ میں نے اسی وقت آقا کی خدمت میں تین نام پیش کئے : مرحوم علامہ سید علی اختر طاب ثراہ ؛ مرحوم و مغفور شاہد زعیم فاطمی اور استاذی العلام جناب مولانا شاہ مظاہر حسین صاحب عمید جامعہ اسلامیہ کھجوہ ۔ آقانے استخارہ پر حمل کیا ۔ قرعہ فال مرحوم علامہ علی اختر کے نام آیا ۔ آقا نے آن واحد میں حکم دیا کہ علامہ علی اختر کو ایران بلانے کا کام شروع کردو ۔ میں نے سر و چشم کہا اور دفتر سے خدا حافظی کے ساتھ نکلا ۔
چونکہ کام نہایت ہی اہم تھا لہذا میں وہاں سے استاد محترم مولانا روشن علی صاحب کے پاس گیا ۔ میں نے مرحوم استاد سے ساری باتیں دہرائی ۔ مرحوم نے برجستہ کہا کہ نیاز ! تمہارے انتخاب کی داد دینی پڑے گی ، علی اخترسے اچھا اس کام کے لئے کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ۔استاد محترم روشن علی صاحب کا کہنا تھا کہ نیاز ! برصغیر میں ہماری نظروں میں اگر کوئی ادیب ہے تو وہ علی اختر شعور ہیں۔ میرا دل باغ باغ ہوگیا ، میں علامہ کو حوزۂ علمیہ قم المقدسہ بلانے کی تیاری میں لگ گیا ، رابطہ قائم کیا ۔ کچھ دنوں بعد مجھے کافی خوشی میسر ہوئی جب مرحوم علامہ کا جواب دستیاب ہوا ، انہوںنے پیغام دیا کہ اس کا م کے لئے میں تڑپ رہاتھا اور تم نے ہماری وہ تڑپ ختم کردی ، میں ہر طرح سے تیار ہوں اور اسی ضمن زیارت کے شرف سے بھی مشرف ہوجائوں گا ۔
میں نے زاد راہ وغیرہ کا انتظام کیا اور مرحوم علامہ سر زمین خون و قیام ، سرزمین ام انقلاب ، سر زمین مہد انقلاب ، سر زمین جوار معصومہ'' قم'' میں نہایت والہانہ طور پر پہونچے ۔ علامہ مرحوم کو لے کر اپنے گھر کوچہ بیگ دلی قم جہاں سے الغدیر کے ترجمہ کا کام شروع ہوتاہے ، آیا ۔ مرحوم علامہ نے خستگی ٔ مسافرت دور کی پھر ہم سے فرمایا : معصومہ کی زیارت کے بعد مرجع تقلید کی زیارت کی جائے ۔ میں نے آیة اللہ کو فون کیا کہ برصغیر کے جس ادیب کا تذکرہ کیاتھا ، وہ تشریف لاچکے ہیں ، سرکار وقت تعین فرمائیں تاکہ آپ کی خدمت میں لے کر آئوں ۔ آقانے نماز مغربین کے بعد بلایا ۔ میں نے علامہ مرحوم سے عرض کی کہ صحن حرم معصومہ قم میں مغربین کی نماز حضرت آیة اللہ مرعشی نجفی کی امامت میں ہوتی ہے ، لہذا نماز صحن حرم میں پڑھی جائے اور نماز کے بعد زیارت کے فرائض انجام دے کر آقامکارم کے پاس چلا جائے ۔
مرحوم علامہ اور میں مذکورہ پروگرام کے تحت اپنے گھر سے نکلے ۔ مرحوم وہی ہندوستانی تہذیبی لباس میں ملبس ، سفید ٹوپی اور اونچی شیروانی اور گھیردار پامامہ پہنے ہوئے کوچۂ بیگ دلی کو ہمارے ساتھ ساتھ عبور کرتے ہیں ، سرخیابان صفائیہ کچھ شوخ ایرانی جوان دکھائی دئیے ، جن کی نگاہ علامہ مرحوم کی ٹوپی اور شیروانی پہ تھی جو ایران کے لئے عجوبہ تھا ۔ کہتے ہوئے گذر گئے کہ یہ ہے قم کا انقلاب ۔ انقلابی دور تھا ، ان جوانوں کا مفہوم و منطوق کیا تھا ، اللہ جانے یا وہ جوانان جانیں ۔ البتہ میں نے مرحوم کو ان جوانوں کی باتوں پر مسکراتے ہوئے پایا ۔ ہم لوگ صحن مطہر میں پہونچے ، علامہ مرحوم کی نگاہ جیسے ہی حرم معصومہ پر پڑی ، بلبلانے لگے ، آنکھیں بھیگ گئیں ، دل کی آواز زبان پر آگئی ، کہتے ہوئے آگے بڑھے :'' یا فاطمة اشفعی لی فی الجنة ''
اتنے میں گلدستۂ اذان سے موذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی ، نماز کی صفیں لگی ہوئی تھیں ، صفوں کو دیکھ کر مرحوم متحیر ہوئے ، انہیں صفوں میں ہم لوگ نماز کی ادائیگی کے لئے کھڑے ہوئے ، علامہ نے نہایت ہی خضوع و خشوع کے ساتھ حضرت آیة اللہ مرعشی نجفی کی قیادت میں نماز ادا کی ، نماز مغربین کے بعد داخل حرم حضرت معصومہ ہوئے اور بار اول علامہ گریہ و زاری ، مناجات و دعا اور تشکر الہی و زیارت میں مشغول ہوئے ، زیارتی تشرف کے حصول کے بعد صحن حرم مطہر میں آکر تمام طلاب حوزۂ علمیہ قم سے ملاقات کی ۔ پھر ہم لوگ وہاں سے دفتر حضرت آیة اللہ مکارم میں وقت معینہ پر پہونچے ۔ آیة اللہ کو خبر دی گئی ، آقا نے حکم دیا کہ میرے پاس لایا جائے ۔ صندوق ذخیرۂ علوم اہل بیت عصمت و طہارت حضرت آیة اللہ مکارم شیرازی مد ظلہ اپنے مسند علم پر بیٹھے ترویج و تشریع مکتب اہل بیت میں مشغول تھے ۔علامہ نے آیة اللہ کی خدمت میں متدین و متشرع انداز میں سلام کیا ، آقا نے جواب سلام دیا ، مرحوم والہانہ اندازمیں مصافحہ اور دست بوسی میں مشغول ہوئے ۔
میں نے اجمالی طورپر تعارف کرایا ، آقا نے علامہ سے سفری حالات پوچھے ، علامہ نے جواب دیا : سرکار نے ایک عظیم کار خیر کے لئے بلایا ہے ، بھلا سفر میں کیسے کوئی پریشانی ہوتی ، گفتگو کے دوران خادم صاف و شفاف چمکتے ہوئے لیوان میں زعفرانی رنگ کی ایرانی چائے لے کر آیا ، آقا نے چائے کی طرف اشارہ فرمایا ، مرحوم چائے پینے لگے ، مرحوم کو چائے اتنی اچھی لگی کہ تقریباً ایک گھنٹے کی ملاقات میں تین لیوان چائے پی گئے ۔ آخر کار آقا نے مرحوم سے فرمایا : آپ اپنے انداز میں اس کتاب پر کچھ روشنی ڈالئے اور مجھ تک بھیجئے ۔ ہم لوگ خدا حافظی کے بعد وہاں سے باہر نکلے ۔
المختصر وہاں سے ہم لوگ کوچہ ٔ بیگ دلی اپنے گھر آئے اور اکل و شرب کے بعد مرحوم علامہ قلم و کاغذ لے کر بیٹھ گئے اور آقا کے حکم کے مطابق اپنے احساسات لکھنے میں مشغول ہوگئے ۔ آیات کرام و جوار مقدسات نیز اہل بیت اطہار ( ع) کی دل میں رچی بسی فضیلتیں صفحات پر لکھ کر ہمیں سنانے لگے ، ہماری وجدی کیفیت کا یہ عالم ہوا کہ ہم فوراً تحریر لے کر آیة اللہ کے دفتر پہونچے چونکہ علامہ نے اردو میں تحریر کیاتھا ، لہذا آقا نے حکم دیا کہ فارسی میں ترجمہ سنائو ، میں نے اسے اردو سے فارسی میں ترجمہ کیا ، آغا کے چہرے سے خوشی کے آثار جھلک رہے تھے ، ہمارے خیال سے آقائے مکارم شکر الہی بجالانے لگے کہ جیسے مترجم کی تلاش تھی ویساہی مل گیا ، الغدیر جیسے کتاب کے ترجمہ کے لئے علامہ علی اختر سے بہتر شاید نہ ملتا ۔ خوشی سے اچھل پڑے اور مجھ سے فرمایا کہ الغدیر کی ساری جلدیں ان تک پہونچادو تاکہ اس امر کو جلد از جلد انجام دینے میں مشغول ہوجائیں۔
علامہ غدیر کے ترجمہ میں مشغول ہوگئے اور اپنے ساتھ مجھے بھی شامل کیا ، پہلی جلد کے ترجمہ میں مجھے شامل کیا ، تقریباً بارہ پندرہ صفحات میں نے ترجمہ کر کے علامہ کو دیا تو جھومنے لگے اور خوش ہو کر فرمایا ، ان کا جملہ آج تک مجھے یاد ہے کہ مرحوم نے فرمایا تھا : نیاز تمہارے اندر خداداد صلاحیتیں ہیں ، تم انہیں نکھارو ۔ میں نے سرسر ی جواب دیا کہ کیوں نہ ہو آخر آپ ہی کا تو شاگرد ہوں۔
علامہ مرحوم کی کاوشوں کا نتیجہ ''الغدیر '' کی پہلی جلد منظر عام پر آئی جو نہایت ہی مقبول ہوئی اور دانشوران کے زیر مطالعہ رہی ۔ کچھ ترجمے ممبئی کے سفر میں گم بھی ہوگئے ، اس کے باوجود علامہ نے اپنی محنت و مشقت سے ان امور کی انجام دہی کی ۔ چندین افراد نے اس کتاب سے مال بھی کمایا اور نام بھی اور علامہ کو استحصال بھی کیا جنہیں زیر قلم نہیں لانا چاہتا ۔ میں علامہ سے برابر کہاکرتاتھا :
قلم گوید کہ من شاہ جہانم
قلم کش را بدولت می رسانم
ترجمہ برعکس رہا ، دوسرے ان کے قلم سے مالامال ہوگئے لیکن خود علامہ دنیا سے گئے تو خالی ہاتھ گئے ۔
یہ تو صحیح ہے کہ وہ رحمت الہی کی بیکراں فضائوں اور مشیت ایزدی کی راحت رساں آغوش میں نہایت سکون و اطمینان سے ہیں۔ لیکن ہم لوگوں کو دائمی جدائی کا مرثیہ پڑھنے کے لئے چھوڑ گئے ۔
دل صد پارہ بخیہ گری سوزنِ خدمت ِ اہل بیت عصمت و طہارت کے سوا ممکن نہیں ، اسی لئے خداوندعالم نے ان کے فرزند حجة الاسلام والمسلمین جناب آقای سید شاہد جمال رضوی کو موروثی علم سے نوازا ، الحمد للہ انہوں نے اپنے والد گرامی کے کارنامے کو تکمیل کے مرحلے تک پہونچاتے ہوئے چھٹی اور گیار ہویں جلد کا ترجمہ کیا ۔ اس کے علاوہ سلمہ ،حجة الاسلام والمسلین جناب شمع محمد رضوی کی ہماہنگی میں پدری مکتوبہ کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں مشغول ہیں ، خداوندعالم ان لوگوں کو مزید توفیقات عنایت فرمائے تاکہ یہ لوگ اپنی شرعی ذمہ داریوں کو بہ نحو احسن انجام دے سکیں۔
مقالات کی طرف جائیے