تاثرات

 

مرد با شعور

حجة الاسلام مولانا ممتاز علی صاحب قبلہ (دہلی)

آج سے تقریباً تیس سال پہلے مولانا مجتبی علی خاں ادیب الہندی صاحب سے مدرسة الواعظین کی طالب علمی کے زمانے میں مولانا سید علی اختر صاحب شعور گوپال پوری کانام سنا تھا ، وہ اکثر آپ کی زندگی کے پر لطف واقعات سناتے رہتے تھے لیکن انہیں دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا کیونکہ ان کی طالب علمی کا زمانہ ہمارے مدرسة الواعظین پہونچنے سے بہت پہلے ختم ہو چکا تھا ۔ چونکہ وہ ادیب الہندی اور مشہور ادیب و افسانہ نگار برادر معظم جناب قمر احسن صاحب کے مدرسہ ٔ ناظمیہ میں دوست تھے ، اس بنا پر ان دونوں حضرات کی زبانی ذکر خیر سے آگاہ ہوتا رہتا تھا ۔
ایک دن ادیب الہندی صاحب نے خبر دی کہ آج شعور صاحب آرہے ہیں ، وہ اپنے دوستوں اور مہمانوں کی حسب توفیق پردیس میں بھی بڑی خاطر و مدارات کرتے تھے ، ان کی خبر پر میں سراپا انتظار بن گیا ۔ آخر وہ گھڑی آہی گئی ، جب دوپلی ٹوپی ، شیروانی اور بڑی موہری کے پاجامے میں ملبوس مدرسة الواعظین کے دروازے سے ایک مولوی صاحب کو اندر آتے دیکھا۔ میں نے دور سے یہ سمجھا کہ شاید رئیس الواعظین مولانا کرار حسین صاحب قبلہ واعظ تشریف لا رہے ہیں ، کیونکہ ان کی بھی وضع قطع کچھ ایسی ہی تھی ، میں نے بڑھ کے جب قریب سے دیکھا تو یہ سمجھ میں آیا کہ نگاہیں دھوکہ کھا گئیں ۔ قریب پہونچ کر بعد سلام ، میں آپ ....؟ کہا ہی تھا کہ انہوں نے فرمایا : مجھے علی اختر کہتے ہیں ، میں گوپال پور سے ادیب الہندی صاحب سے ملنے آیا ہوں ۔ بس اتنے میں وہ ساری یادیں تازہ ہو گئیں جن کا ذکر ادیب الہندی صاحب کیا کرتے تھے ۔
پھر کئی دنوں تک موصوف کا مدرسة الواعظین میں قیام رہا ، طالب علمانہ کھا نا ، ناشتہ وغیرہ سب ساتھ ساتھ ہوتا رہا ، وہ ہم سے بہت بزرگ تھے ، گفتگو میں مجھے جھجھک محسوس ہوتی تھی لیکن انہوں نے کچھ ایسا انداز اختیار کیا جو ظرافت سے لبریز تھا ، پھر توبات کرنے میں کوئی جھجھک باقی نہیں رہ گئی۔
ایران سے واپسی کے بعد مولانا ادیب الہندی صاحب کے گھر پر محلہ پیر بخارا میں کئی بار ملاقات ہوئی اس وقت بعض ناگزیر حالات کی بنا پر ادیب الہندی صاحب نے مدرسة الواعظین آنا جانا بند کردیاتھا ، وہی شعور صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ خالی اوقات میں لکھتے یا پڑھتے رہتے تھے ، سفر و حضر میں لکھنے پڑھنے کا کام جاری رہتا تھا ۔
اسی زمانہ میں آپ کے کئی ترجمے ارو تخلیقات منظر عام پر آچکے تھے ، میں ان کی تحریروں کو پڑھنے اور پھر ان سے اس پر بحث کرنے کا عادی بن گیا تھا ، بعض اعتراضات صرف چھیڑنے کی غرض سے کر دیا کرتاتھا لیکن وہ اس کا برا نہیں مانتے تھے اور سوال کا مزاج سمجھ کر بڑے ظریفانہ اور کبھی کبھی گوپال پوری لب و لہجہ میں اس کا جواب دیا کرتے تھے ۔ ہر علاقہ کے لہجہ کا اپنا ایک حسن ہوتاہے جسے واقف کار افراد ہی محسوس کر سکتے ہیں لہذا اگر کبھی میں اسے محسوس نہیں کرپاتا تو وہ اس کی تشریح کے ساتھ اسے محسوس کراتے تھے جس سے لطف دو بالا ہو جاتا تھا ۔
ان کے انتقال کے بہت دنوں کے بعد ان کے وارث مولانا سید شاہد جمال صاحب سے امامیہ ہال دہلی میں ملاقات ہوئی ،اس وقت شاید وہ اپنے والد کے ترجمہ الغدیر پر حوالوں کی ترتیب و تزئین کا کام اپنے اعتبار سے کر رہے تھے اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایران کے مرکز علم '' قم '' تشریف لے جارہے تھے ، جب انہوں نے اپنے والد کا نام بتایا تو ان کی یادیں تازہ ہو گئیں ۔
اب شاہد جمال صاحب مصروف تعلیم ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کا کام بھی کررہے ہیں۔یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ باپ کے میراث میں تازگی اور تابندگی آگئی ہے ، ان کے ادھورے خواب کی تکمیل کے لئے موصوف کوشاں ہیں ، کئی بار فون کر کے اس مرد باشعور شخصیت پر قلم اٹھانے کی ضد کر چکے ہیں ، میں اپنی کوتاہی قلم اور شعور صاحب کی اپنے سے کئی گنا بلند شخصیت کو دیکھ کر ہاتھوں میں قلم اٹھا کر رکھ دیتا تھا لیکن ملاقات کی چند یادوں نے چند سطریں لکھنے پر مجبور کردیا ۔
یہ جان کر بڑی مسرت ہو رہی ہے کہ علامہ امینی کی کتاب '' الغدیر '' کا ترجمہ تھوڑی تلخیص کے ساتھ منظر عام پر آرہاہے جسے مولانا علی اختر صاحب شعور گوپال پوری نے کیا ہے ۔اگر کسی طرح تلخیص کے بجائے پوری کتاب منظر عام پر آجا تی تو بڑا اچھا ہوتا ۔ اس طرح کی کتابوں میں اتنی تفصیل پیش کر دی گئی ہے کہ مخالف کے لئے دم مارنے کی گنجائش باقی نہیں ہے ۔
علامہ امینی کتاب لکھتے وقت حوالہ کی تلاش میں مختلف ملکوں اور شہروں سے گذرے ، لکھنو میں ناصریہ اور مدرسة الواعظین کی نادر لائبریری سے استفادہ کیا ، قیام مدرسة الواعظین کے زمانہ میں موصوف نے وہاں کے رجسٹر معائنہ پر اپنے قلم سے معائنہ بھی تحریر فرمایا تھا ، اگر وہ کہیں مل جاتا تو علامہ امینی کی تحریر کے ساتھ ان کے تاثرات بھی ہوتے ، جو اس ترجمہ میں اردو ترجمہ کے ساتھ شائع کئے جاسکتے تھے جو علامہ امینی کی ایک نادر تحریر ہوتی ، جس میں پرانے مدرسة الواعظین کے حسن کی جھلک نمایاں تھی ۔
یہ زمانہ تفصیل کا زمانہ ہے ، قم اور دوسرے مراکز میں گذشتہ کاموں کو وسعت دی جارہی ہے ، احقاق الحق کے بعض حصوں کو آقائے مرعشی اعلی اللہ مقامہ نے مزید تفصیل عطا کی ہے ، اسی طرح دوسری کتابوں پر بھی حاشیہ لکھنے والے اگر موجود ہوں تو ماضی کی ان کتابوں کے حسن میں اضافہ ہو جائے گا ،الحمد للہ اردو زبان جاننے والے طلبہ اب پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور کافی تعداد میں موجود ہیں ۔ خدا وندعالم شاہد جمال سلمہ کو توفیق خیر اور خیرات روانی قلم عنایت فرمائے ۔ شاہد جمال سلمہ نے الغدیر کے ان دو جلدوں کا ترجمہ بھی کیاہے جو ایک سفر کے دوران مولانا مرحوم سے غائب ہو گئی تھی۔سلمہ سے مستقبل میں امیدیں ہیں جو نظم و نثر میں خدمت لوح وقلم اور خدمت دین مبین کر رہے ہیں اور شعور صاحب کو فکر و نظر کی بلندی کا اجر عطا کرے ۔
مقالات کی طرف جائیے