تاثرات

 

شعور ، واقعی باشعور تھے

عالیجناب مولانا سید جابر باقری جوراسی

عالم باسواد ، ادیب ذی استعداد مولانا سید علی اختر صاحب قبلہ شعور گوپال پوری طاب ثراہ سے میری واقفیت جامعہ ناظمیہ لکھنؤ میں زمانۂ طالب علمی سے ہوئی ، میں مبتدی تھا اور وہ وہاں کے درمیانی درجات کے طالب علم تھے ، ایک آدھ درجہ کے تفاوت سے ان کے ہم عصروں میں مولانا سید احمد مظلوم تھے جو بعد میں مہاراشٹر میں ایم ایل ہوئے اور پھر وزیر بنے ۔ مولانا سید قمر احسن تھے جو اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے اردو ادب کے ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے ، مولانا مجتبی علی خان ادیب الہندی تھے جو بعد میں برصغیر کے مشہور عالم دین بنے ، انقلابی شخصیت تھے ، عراق و ایران میں ان کی اچھی شناخت تھی ، مغربی ممالک میں بھی دینی خدمات انجام دیئے ، مدرسة الواعظین لکھنؤ کے وائس پرنسپل اور مجلس علماء و واعظین کے جنرل سیکریڑی رہے ، عمر نے زیادہ وفا نہ کی ۔ان کے ہم عصروںمیں برادر معظم مولانا سید محمد غافر جوراسی بھی تھے جو جامعہ ناظمیہ لکھنؤ میں استاد ہیں ، ان سے بھی سینیئر طلبا میں مولانا سید سخی احمد سرسوی طاب ثراہ ، مولانا محمد مرتضی جعفری ، مولانا محمد مرتضی پاروی اور مولانا سید تنویر حسین سرسوی اور دیگر چند حضرات تھے ۔ جونیئر طلبا میں مولانا سید عارف حسین سرسوی مرحوم ، مولانا سید حسن رضا سرسوی امام جمعہ سرسی تھے ۔
حضرات اور بھی تھے ، ان کا ذکر میں نے اس لئے کیا کہ ان کے مدرسہ میں گہرے روابط تھے اور بعض کے بعد میں بھی مخلصانہ رابطے رہے ۔
جامعہ ناظمیہ لکھنؤ کا ماحول خالص دینی ، علمی ماحول تھا جس میں عربی ، فارسی اور اردو ادب کی چاشنی بھی پائی جاتی تھی ، جس کا سبب بعض نابغہ روزگار اساتذہ کی موجودگی تھی ، جن میں مولانا سید ایوب حسین صاحب قبلہ سرسوی ، مولانا سید ثاقب حسین صاحب قبلہ امروہوی ، مولانا سید محمد شاکر صاحب قبلہ امروہوی اور مولانا سید ابن حیدر صاحب قبلہ لکھنؤ ،کے اسمائے گرامی بجا طور سے لئے جا سکتے ہیں ، جامعہ کے سربراہ مفتی اعظم مولانا سید احمد علی صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ نے عبقری شخصیت، اردو ادب کے مستند نقاد مولانا سید اختر علی صاحب قبلہ تلہری کے درسی خدمات حاصل کر کے مدرسہ کے ادبی ماحول میں ایک تازہ روح پھونک دی ، اس ماحول کا جن طلبا نے بہت زیادہ اثر لیا ان میں مولانا سید سخی احمد صاحب سرسوی ، مولانا سید قمر احسن صاحب اور مولانا سید علی اختر صاحب قبلہ گوپال پوری کے اسماء بجا طور سے لئے جاسکتے ہیں ۔ مولانا سید سخی احمد صاحب کے صحافی خدمات قابل قدر تھے ، انہوں نے ماہنامہ الواعظ لکھنؤ کو اپنی فنی مہارت سے چار چاند لگائے ، مولانا قمر احسن صاحب جنہیں اب یہ قطعاً پسند نہ ہوگا کہ ان کے نام کے ساتھ مولانا لگایا جائے لیکن جامعہ ناظمیہ لکھنؤ کے تعلق سے ان کے نام کے ساتھ اس لفظ کا استعمال نامناسب بھی نہ ہوگا ۔ بے شک ان کی تحریروں اور ادبی کتابوں سے اردو ادب کو مالامال کیا اور مولانا سید علی اختر صاحب قبلہ شعور گوپال پوری کے بہترین اشعار کی گونج صرف مدرسہ ہی میں نہیں بلکہ مدرسہ کے باہر بھی تھی ۔ وہ اپنے اشعار اور اپنی تحریروں کے تحفظ کے سلسلہ میں کبھی ذمہ دار نہیں مانے گئے ، خداوندعالم نے مرحوم کو ایک بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے اور وہ ہے نیک و صالح اولاد ۔ اگر وہ خود متوجہ ہوں تو بہتر ہے ورنہ میں متوجہ کررہاہوں کہ وہ منتشر ذخیرہ میں سے ان کے اشعار جمع کر کے اگر یکجا شائع کرادیں تو یہ ایک اچھی خدمت ہوگی ، ویسے مجھے اس کا تھوڑا اندازہ ہے کہ ان کے اشعار ہوں یا تحریری خدمات وہ سب محفوظ نہیں رہ پائے ہیں بلکہ کچھ ضائع ہوا ہے ۔ اس کا ایک تجربہ مجھے بھی ہے ۔ ١٩٩٨ء؁ میں جب کہ اصلاح صدی تقریبات کا اہتمام ہو رہاتھا ، اس سلسلہ میں اصلاح کا ایک ضخیم خصوصی شمارہ بھی شائع ہوا ۔ تجویز یہ تھی کہ بانی ٔ اصلاح فخر الحکماء علامہ سید علی اظہر صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ کی کوئی کتاب بھی منظر عام پر آجائے ، مولانا سید علی اختر صاحب قبلہ گوپال پوری نے پیشکش فرمائی کہ مرحوم کی ایک معرکة الآراء تصنیف ''کنز مکتوم فی حل عقد ام کلثوم '' میرے پاس محفوظ ہے ، میں اس کا خلاصہ مرتب کردوں گا ، اس موقع پر اس کی شاعت مناسب ہوگی ، ان کی یہ تجویز مناسب تھی ، انہوں نے کام بھی شروع کردیا بلکہ مکمل کرلیا اور جب میں نے اسے اشاعت کے لئے مانگا تو انہوں نے انکشاف فرمایا کہ بچوں نے مسودہ کے اوراق ادھر ادھر کر دئیے ہیں ، انہیں تلاش و یکجا کرنا ہے ۔ وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے اور پھر صدی تقریبات کا وقت بھی گزر گیا ۔ جس نے محنت کی ہو اسے محنت کے رائگاں جانے کا افسو س زیادہ ہوتاہے لیکن شاید مجھے اس سلسلہ میں ان سے زائد افسوس ہوا ۔
مرحوم کی کچھ محنتیں دوسروں سے بھی ضائع ہوئیں انہوںنے اپنی حیات میں جو بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے وہ علامہ امینی کی لاجواب و مسکت تالیف '' الغدیر '' کا اردو ترجمہ ہے ، جس کی اشاعت ان کی حیات ہی میں شروع ہوگئی تھی ، بعد میں مزید جلدوں کی فکر لائق اولاد کو ہوئی ، جن صاحب کے سپرد اشاعت کا کام تھا ان سے ترجمہ کی چھٹی اور گیارہویں جلد ضائع ہوگئی ۔ بحمد للہ چھٹی اور گیارہویں جلد کا اردو ترجمہ مولانا مرحوم کے لائق فرزند حجة الاسلام مولانا سید شاہد جمال رضوی نے کر کے ''الولد سر لابیہ ''کی عملی تفسیر پیش کردی، معبود انہیں جزائے خیر دے ، میری نگاہوں میں اس طرح کا ایک کام مجاہد اسلام مولانا سید محمد باقر نقوی مدیر دوم ماہنامہ اصلاح کا ہے کہ ان کے پدر بزرگوار مدیر اول اصلاح حجة الاسلام علامہ سید علی حیدر صاحب قبلہ نے سیرت امیر المومنین کو دس جلدوں میں پیش کرنے کا اعلان فرمادیا تھا ، انہوں نے کئی جلدیں لکھ ڈالیں لیکن کام بہت بڑا تھا ، عمر نے وفا نہ کی ، ادھورے کام کو ان کے فرزند اکبر مجاہد اسلام مولانا سید محمد باقر نقوی نے آگے بڑھایا اور جب یہ دیکھا کہ شاید میں بھی ضخیم دس جلدیں مکمل نہ کرسکوں تو انہوں نے اس موضوع پر دوسروں کی اہم کتابوں کی اشاعت کر کے دس جلدیں مکمل کرلیں ، شامل شدہ کتابوں میں قضایائے امیر المومنین اور ندائے عدالت انسانی بھی ہیں۔
آپ ہندوستان بالخصوص جامعہ ناظمیہ لکھنؤ کی تعلیمی پختگی کا اندازہ لگائیں کہ مولانا سید علی اختر گوپال پوری صاحب قبلہ طاب ثراہ نجف اشرف اور قم مقدسہ کے تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود عربی و فارسی بلکہ اردو پر بھی اتنا عبور رکھتے تھے کہ ''الغدیر '' کا سلیس اردو زبان میں ترجمہ پیش کردیا ، اللہ تعالی کو ان سے ایک کام لینا تھا اور اس نے لے لیا ۔
١٩٦٣ء؁ میں مدرسہ ٔ ناظمیہ لکھنؤ میں میرا داخلہ تیسرے درجہ میں ہوا تھا ، اس زمانہ میں مولانا علی اختر صاحب قبلہ درمیانی درجات میں تھے ، اپنی باغ و بہار شخصیت کے ذریعہ وہ ہر دلعزیز تھے ، میری نگاہوں میں وہ منظر بھی ہے کہ وہ اس زمانہ میں شدید مریض ہوئے ، ان کے منہ سے اتنا خون آتاتھا کہ کمرہ میں جگہ جگہ پڑا ہواتھا ۔ سچ پوچھئے تو زیادہ تر طلباء ان کی زندگی سے مایوس تھے لیکن شافی مطلق کو ان سے کام لینا تھا لہذا اس نے انہیں ایسی شفا دی کہ بعد میں ان کی صحت قابل رشک تھی ۔
اللہ نے ان کی روزی روٹی کا بھی باعزت انتظام فرمایا ، جامعہ ناظمیہ لکھنؤ سے فارغ ہونے کے کچھ عرصہ بعد محمد صالح انٹر کالج حسین گنج سیوان بہار میں استاد ہوگئے ، تعلیمی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد جب بھی کوئی موقع ملتا تو لکھنؤ تشریف لے آتے ، کبھی دہلی آنے جانے میں لکھنؤ رک جاتے ، استاد معظم حجة الاسلام مولانا مجتبی علی خاں ادیب الہندی طاب ثراہ کے شریف کدہ پر کئی دن قیام رہتا ، کتابوں کی فراہمی ، علمی و ادبی ماحول میں ان کا بہت دل لگتا ، آمد کی اطلاع پر میں بھی حاضر ہوجاتا اور اچھی نشست رہتی ۔
میرا پہلے قیام مدرسة الواعظین لکھنؤ میں تھا ، جہاں سے واعظ کی سند حاصل کرنے کے بعد ماہنامہ الواعظ لکھنؤ کا اڈیٹر ہوگیا تھا ، یہ بات ١٩٨٠ء؁ کی ہے ، ١٩٨٢ء؁ میں ماہنامہ اصلاح کی ادارت بھی میرے ذمہ آگئی ، ١٩۸۸ء؁میں میں نے ماہنامہ الواعظ کی ادارت چھوڑ دی اور ماہنامہ اصلاح کی ادارت کے سلسلہ میں میرا مستقل قیام دفتر اصلاح مسجد دیوان ناصر علی مرحوم لکھنؤ میں رہنے لگا ، مجھے نہیں یاد کہ مرحوم لکھنؤ تشریف لائے ہوں اور مجھ سے ملنے اور تھوڑی دیر بیٹھ کر کچھ باتیں کرنے کے لئے ، مدرسة الواعظین لکھنؤ یا بعد میں مسجد ناصر علی لکھنؤ میں نہ تشریف لائے ہوں ، وہ میرے ہاتھ کی بنائی چائے پینے کے شائق تھے لیکن چائے کی پیالی سامنے رکھ کر باتوں میں ایسا مشغول ہوتے کہ باوجود یاد دہانی کے تھوڑی چائے پیتے اور تھوڑی ٹھنڈی ہوجاتی اور کبھی کبھی چائے دوبارہ بنائی جاتی ۔
میرے زمانہ ادارت میں انہوں نے الواعظ میں لطائف کا ایک سلسلہ شروع کیاتھا '' خوشبو بَہار کی '' جسے ان کے کچھ مخلص از راہ مزاح '' خوشبوبِہار کی '' پڑھتے تھے ۔ در اصل یہ سلسلہ علامہ نعمت اللہ جزائری کی کتاب '' زہر الربیع '' کا اردو ترجمہ تھا ، جتنی قسطیں شائع ہوئی تھیں انہیں یکجا کر کے اگر کتابی شکل دے دی جائے تو یہ بھی ایک دلچسپ کتاب ہوگی ۔
مجھے مرحوم کی جو اداانتہائی پسند تھی وہ ان کا ہم جیسے خردوں سے مساویانہ برتائو تھا جب کہ وہ مجھ سے عمر میں بھی بڑے تھے اور ان کی تعلیمی لیاقت بھی بہت زیادہ تھی ، غرور کا تو ان میں شائبہ تک نہیں تھا ، یہی وجہ ہے کہ بعد مردن بھی ان کی شخصیت ناقابل فراموش ہے ۔
نہ ہی ان کی عمر کوئی ایسی زیادہ تھی اور نہ ہی ان کی صحت تشویش ناک تھی لیکن وقت موعود آیا اور انہوں نے موت کو گلے لگا لیا اور موت سے پہلے تک ہم سب اسی غلط فہمی میں رہے کہ ابھی تو انہیں زندہ رہنا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان جسمانی طور سے نہیں بلکہ اپنے کارناموں سے زندہ رہتاہے اور بحمد للہ ان کے علمی کارنامے انہیں آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔
فقط والسلام ''سید جابر جوراسی ''
مقالات کی طرف جائیے