تاثرات

 

لاکھوں میں ایک

حجة الاسلام مولانا سید احمد حسن صاحب قبلہ

چہرہ اور اس کے خد و خال ، آنکھیں اور دیکھنے کا انداز ، زبان اور طرز گفتگو انسان کے باطن کا حال کہے دیتے ہیں ،پڑھنے والا ہوناچاہئے ۔ شریعت نے باطن کی پاکیزگی پر جو اس قدر زور دیاہے اس لئے کہ :
تہ میں جو شی ٔ ہو وہی آتی ہے سطح پر
حسن ظاہر کے لئے باطن کو آئینہ کرو
اس رحیم و کریم کے ستار العیوب ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر آخر خدا کہاں تک اور کس کس چیز کی پردہ پوشی کرے گا ؟کیا اسے ستاری کی زحمت دینا ضروری ہے ؟ جس طرح آپ دوسروں کے یہاں دنائت نفس دیکھ کر منغص ہوتے ہیں اسی طرح دوسرا بھی تو آپ کی خرابیاں دیکھ کر بد حظ ہوتاہوگا ؟
آپ کو ہر نظر پڑھے گی ضرور
آنکھوں آنکھوں میں تجزیہ ہوگا
اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ کے تنغص کو تو ا ہمیت دی جائے مگر دوسروں کے احساس کو کالعدم کردیاجائے، کوئی آپ کی خدائی تو ہے نہیں ۔
اس لئے بہتر یہی ہے کہ بتوفیق پروردگار ، بوسیلہ ٔ عزم و استقلال، بہ تعاون خوف خدا '' رشد فکری '' اختیار کرتے ہوئے دوسرے بندگان خدا کے لئے اپنے دل میں خلوص و وفا اور ہمدردی کے جذبات کی پرورش کی جائے اور خود کو نامعقول اثرات سے حتی الامکان دور رکھتے ہوئے توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ کے ذریعہ اپنے باطن کو صاف و شفاف اور آئینہ بنانے کی سعی پیہم کی جائے ۔ ہم یہ بات اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ مولانا علی اختر صاحب نہایت نیک نفس اور پاک باطن تھے، یہ خوبی جو بے انتہاء کمیاب ہے مولانا کے یہاں ضرور پائی جاتی تھی ، آدمی اپنی انفرادیت ہی کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے لہذا اگر انہیں لاکھوں میں ایک کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
صاحب علم تھے اور علم کو عمل میں ڈھالنے کے عادی تھے ۔ صاحب قلم تھے ، مقالوں اور کتابوں کی شکل میں ان کے آثار دیکھ لیجئے ۔ بہت اچھے مترجم بھی تھے ۔ آقای امینی کی الغدیر کی کئی جلدوں کے ترجمے کئے اور اردو زبان پر اپنی دست رس کے جوہر دکھائے ہیں ۔
شاعر بھی تھے اور بہت اچھی فکر کے مالک تھے ۔ ذوق شعری بہت اچھا تھا جس کا مظاہرہ دوسروں کے اشعار سنتے وقت ہوا کرتا تھا ۔ البتہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ مرحوم نے غزلیں بھی لکھیں ہیں یا نہیں ۔
بے تکلف طرز زندگی ، سادہ مزاج ، مرنجاں مرنج ، بولنے میں معمولی سی لکنت تھی ، یعنی کلام میں ہم شبیہ کلیم اللہ اور قوت پرواز میں گردوں نشین ۔ بنارس جب بھی آتے ملاقات کے لئے ضرور تشریف لاتے تھے ، پتہ نہیں کیوں ہم سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔ دعا کیجئے کہ ہم ویسے ہی بن جائیں جیسا وہ ہمیں سمجھتے تھے ۔ اچھے لوگ عموماً جلد ہی رخصت ہوجاتے ہیں البتہ ان کے آثار ان کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں ۔
آج وہ ہمارے درمیان نہیں مگر ان کا عکس ہمیشہ آنکھوں میں رہے گا ۔ مرحوم کے لائق فرزند مولانا سید شاہد جمال سلمہ جو فی الحال قم میں مشغول تحصیل علم ہیں ، اپنے باپ کی طرح نیک واقع ہوئے ہیں ۔ سلمہ نے اپنی مقدور بھر کوشش کر کے الغدیر کی غائب شدہ دو جلدوں کا ترجمہ کیا ہے ، ترجمہ نامعلوم کیسا ہے لیکن اس عمر میں ان کا حوصلہ یقینا قابل قدر ہے ۔خداوندعالم انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ باقی رکھے تاکہ وہ اپنے والد مرحوم کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھ سکیں ۔
'' سید احمد حسن '' ٢٩ جون ٢٠١٠ء؁
مقالات کی طرف جائیے