تاثرات

 

دلی کیفیات

استاد الاساتذہ مولانا سید شاکر حسین صاحب

نہ جانے کتنے مہینے گذر گئے لیکن میں ابھی تک مولانا علی اختر صاحب مرحوم کے نور نظر نجم سلمہ کی اتنی سی خواہش پوری نہ کرسکا کہ ان کے عظیم المرتبت والد ماجد کے لئے اپنے تاثرات کی دو لفظیں لکھ سکوں۔
اس سلسلے میں اپنی ضعیف العمری کو بھی سبب نہیں بنا سکتا ۔ ہاں! نفسیاتی دنیا سے قربت رکھنے والے میرا عذر ضرور قبول کر لیں گے ،کیونکہ اکثر مواقع پر ضعیفی کا عذر کام نہیں آسکتا ، ظاہر ہے کہ ایک سو سال کا بوڑھا باپ اپنے بیٹے کی بارات میں لاکھ منع کرنے کے بعد بھی پیدل چلنے کی آمادگی پر مسرت محسوس کرے گا ، اس کے برخلاف اگر کسی جوان العمر باپ سے اپنے بیٹے کی مشایعت جنازہ کے لئے ہمت کا جائزہ لیاجائے تو بار غم سے دوہری کمر ،زبان حال سے جواب دیتی نظر آئے گی کہ ہاں ، ہاں! تمہارے جنازے کے ساتھ جہاں تک تم جائوگے میں بھی چلوں گا۔
یقینا علی اختر مرحوم کے سلسلے میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیات سے دوچار ہوں ، ایک وہ وقت تھا کہ جب ادبی ، ثقافتی ،صحافتی مملکت کے اورنگ فصاحت و بلاغت پر مولانا علی اختر صاحب مرحوم اپنی ظرافت آمیز لطائف سے اہل ذوق کو مستفیض فرمانے میں منہمک تھے ، ہر موضوع پر ان کا نازک مزاج قلم، اپنے طنز سے مخلوط افکار سے اپنے عقیدت مندوں کو محظوظ کررہاتھا اور آج وہی علی اختر مرحوم اپنے روایتی سادہ لباس کے بجائے دوسری دنیا کا لباس زیب تن کئے خاموش و ساکت آغوش لحد میں محو استراحت ہیں ۔
ایسے تصوراتی پژمردہ و افسردہ غموں سے ڈوبے ہوئے ماحول میں مجھ جیسے اسّی سال کے بوڑھے سے یہ توقع کرنا کہ میں اپنے تاثرات کو چھیڑوں ، بہت بڑی ستم ظریفی ہوگی
آخر میں اللہ سے یہ دعا ہے کہ اللہ اہل ذوق کو مولانا کے الغدیر جیسے عظیم کارنامے سے مستفیض ہونے کا موقع عنایت فرمائے ۔آمین
''شاکر حسین امرہوی '' ٣١ مئی ٢٠١٠ھ
مقالات کی طرف جائیے