تاثرات

 

مولاناسید علی اختر رضوی مرحوم

مولانا سید محمد رضوی گوپال پوری

مولانا سید علی اختر صاحب ابن سید مظہر حسین صاحب مرحوم ،وطن گوپال پور، ۱۹۴۸ء؁ میں وطن ہی میں آپ کی ولادت ہوئی ۔
آپ نے ابتدائی دینی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ، بعدہ ناظمیہ عربی کالج (لکھنؤ) میں داخلہ لیا اور ممتاز الافاضل کی اعلی ٰ سند حاصل کی ، اس کے بعد آپ گجرات چلے گئے جہاں پیش نمازی کے فرائض انجام دئیے ، پھر وہاں سے وطن تشریف لائے اس کے بعد حسین گنج ہالی اسکول میں بحیثیت ہیڈ مولوی آپ کی تقرری ہوئی ، جہاں آپ تدریسی فرائض انجام رہے تھے ۔ عربی ، اردو اور فارسی کے ماہر ، تاریخ پر قابل رشک نگاہ تھی ، کسی اخلاقی موضوع پر لکھتے تو دودھ پانی الگ کر دیتے ، تحریر میں بلا کی شگفتگی تھی ، مذہبی جرائد کی تمنا رہتی کہ وہ کچھ لکھ دیں ، مضامین تو بہت لکھے مگر ان کا عظیم کارنامہ علامہ امینی ؒ کی کتاب "الغدیر " کا ترجمہ تھا جو ناکمل رہ گیا ، وہ ایسے باسواد علماء میں سے تھے جو رہتے تو تھے ٹوپی شیروانی میں مگر صاحبان عمامہ بھی ان سے استفادہ کرتے ، ان کی یہ صفت کبھی نہیں بھلائی جاسکتی کہ باوجود اس علمی بھرم کے ان کے مزاج میں غرور و تکبر کا شائبہ بھی نہ ملا ۔
آپ پایہ کے ذاکر تھے ، آپ کا بیان بڑا ہی علمی ہوتاتھا ، ایک عرصہ تک آپ نے حسین آباد (شیخ پورہ) میں چہلم کا عشرہ پڑھا ، آپ باکمال شاعر بھی تھے ، شعور آپ کا تخلص تھا ، محفلوں میں ان کے اشعار مقبول ہوتے اور بہت مقبول ہوتے ، آپ کے علمی مضامین الجواد ، اصلاح میں برابر شائع ہوتے رہے ہیں ، ایک مختصر سی علالت کے بعد ۱۰/فروری ۲۰۰۲ء؁ کو اچانک اپنا سفر حیات تمام کرلیا۔
نوٹ آپ نے آیۃ اللہ خمینی ؒ کے عملیہ کا سب سے پہلے اردو میں ترجمہ کیا جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ آپ کے جو ترجمے منظر عام پر آئے ان میں سے بعض یہ ہیں :ترجمہ الغدیر ؛ شہر شہادت ، نقش عائشہ در اسلام ۔
نقل از : نجوم الارض
مقالات کی طرف جائیے