تاثرات

 

آہ ! یا ابی

ابن شعور گوپال پوری

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
زندگی کے آگے ایک مرحلہ ، ایک منزل ہے جسے'' موت'' کہتے ہیں ، جب کسی کا کوئی عزیز اس دار فانی سے دار بقاکی طرف کوچ کرجاتاہے تو اس کا وجود خاموشی کی تصویر اور غم کا فسانہ بن کر اشکوں کے حصار میں ، بے قرار دل اور بے چین و مضطرب روح کے ساتھ ٹکٹکی لگائے اس کائنات کو دیکھتاہے تو ایک ہوک سی اٹھتی ہے ، آنکھوں سے نمکین پانی کا دریا جاری ہوجاتاہے ، اس وقت ایسا لگتاہے جیسے خاموشی ، اداسی ، بے نوائی ، بے حسی اور درد و الم اسی کے لئے معرض وجود میں آئے ہوں، اندھیرے اور سناٹے اس کے اپنے ہوں ، تیرگی اور ترسندگی اسی کے وجود خاکی کا حصہ ہوں....گریہ جس کی پہلی منزل اور آنسو جس کا پہلا مقام....۔
لیکن اس گریہ کی بھی دو قسمیں ہیں : کوئی کہہ کر روتاہے اور کوئی خاموشی سے اشکوں کا دریا پی جاتاہے۔ مگرہاں! اس وقت سناٹے اور بڑھ جاتے ہیں ، اندھیروں میں مزید اضافہ ہوجاتاہے اور گریہ مزید شدت اختیار کرلیتاہے جب کسی کا باپ دنیا سے اٹھ جاتاہے اور کوئی پدرانہ شفقت سے محروم ہوجاتاہے۔
آنکھیں اداس اداس ہیں چہرے اجاڑ سے
کنبہ ہے چور چور غموں کے پہاڑ سے
آہ ! قلم میں لرزش ہے ، ذہن پریشان ہے ....سمجھ میں نہیں آتاکہ بچپن کی شفقتوں کو کیسے لکھوں ، ایام طفلی کے پیار بھرے انداز کو کیسے تحریر کروں ، دور کمسنی کے طریقۂ محبت کو قلمبند کروں تو کیسے ...؟اس لئے کہ جب ماضی کی حسین کتاب کھولتاہوں تو احساس ہوتاہے کہ آج میں لق و دق صحرا میں یکہ و تنہا کھڑاہوں ، ویرانیاں میری گرویدہ ہیں اور اداسیاں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں ......۔
آہ! وہ مار میں پیار کی آمیزش ، لہجے میں تنبیہ کی سوزش ، آنکھوں میں محبت ، ہاتھوں میں شفقت ، بذلہ سنجی میں سنجیدگی ، سنجیدگی میں انکساری اور انکساری میں وقار کی جھلکیاں جب یاداشت کی سطح پر ابھرتی ہیں تو یوں محسوس ہوتاہے جیسے یہ دنیا ویران ، اندھیری اور میری ذات کے لئے ادھوری ہوگئی ہو ۔
اب تو صدمات کی کڑی دھوپ ہے ، غموں کی تاریک اورہولناک وادیاں ہیں ، احساس ہے مگر اس میں شدت نہیں ، پیاس ہے مگر طلب سے عاری ....۔
ہاں ! میرے مستقبل کا انحصار اسی ذات پر تھا ، میرے مستقبل کی روشنی اسی ذات سے پھوٹنی تھی ...مگر اسی نے اس وسیع و عریض دنیامیں یکہ و تنہا، ورتا بلکتا ،آزمائش کے لئے چھوڑ دیا ۔
یہ حقیقت ہے کہ جب باپ کا عظیم سایہ انسانی وجود پر برقرار رہتاہے تومحبتوں کی شیرینی معلوم ہوتی ہے ، الفتوں کی لذت ذائقہ دیتی ہے ، پیار و شفقت ،وجود کو اضطرابی کیفیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ عظیم سایہ اٹھ جاتاہے تو الفتوں ، محبتوں اور شفقتوں کے بجائے صرف آہوں کی خطابت اور آنسوئوں کی شاعری ہوتی ہے ، تباہی و بے نوائی کا احساس ہوتاہے ، اندھیرے اور مہیب سناٹوں کا راج ہوتاہے اور لیل و نہار ظالم بن کر ڈسنے کو تیار رہتے ہیں۔
کرب ،ٹیس ، آہ ونالے ، اشک غم ، رنج و فراق
زخم کتنے ساتھ میرے سہہ گئی شام الم
لفظ یتیمی اپنے دامن میں کتنی ویرانیاں اور تلخیاں آباد کئے ہوئے ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب دس فروری کی شام ، الم بن کر وجود پر چھا گئی ،اس وقت معلوم ہوا کہ دکھوں میں کتنی کرواہٹ ہوتی ہے ، ایسا نہیں تھا کہ تسلیاں، دلاسے اورصبر کی تلقین کرنے والے نہیں تھے ،لیکن صبرکی تلقین کرنا بہت آسان ہے مگر صبر کرنا ....اللہ اکبر۔ دل میں ایک احساس تو بہرحال کروٹ لیتارہتاہے کہ ''ہم یتیم ''ہوگئے ۔
مقالات کی طرف جائیے