تاثرات

 

مترجم الغدیر مولانا علی اختر رضوی مرحوم

مولانا سید شہوار حسین نقوی امروہوی

پندرہویں صدی کے قابل فخر ادیب ، محقق اور مترجم مولاناسید علی اختر رضوی صاحب کا تعلق سرزمین گوپال پور بہار سے تھا ، جامعہ ناظمیہ لکھنؤ سے "ممتاز الافاضل "تھے ، آپ کا علمی و یادگار کارنامہ علامہ عبدالحسین امینی ؒ کی مایۂ ناز تالیف "الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب " کی گیارہ جلدوں کو اردو پیکر میں ڈھالنا ہے ، یہ کتاب مشمولات کے اعتبار سے ہمہ گیر ہے جس کے ترجمہ کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی ، خداوندعالم نے اس کار نمایاں کو موصوف کے ہاتھوں انجام دلایا ۔
زبان کی روانی ، بیان کی طغیانی ، الفاظ کے انتخاب ، محاورات و ضرب الامثال کے بر محل استعمال ، مناسب صنائع و بدائع کے سبب اس ترجمہ پر تالیف کا گمان ہوتاہے ۔
آپ نے یہ ترجمہ مرجع عالی قدر حضرت آیۃ اللہ ناصر مکارم شیرازی دامت برکاتہ کے ایماء پر کیا جس کے لئے آپ نے ایران کا سفر بھی کیا ، آپ زمانۂ طالب علمی ہی سے اس کتاب سے متاثر تھے جس کے سلسلے میں آپ رقم طراز ہیں :
"یہ کتاب میرے لئے زمانہ ٔ تالیف ہی سے مرکز توجہ رہی ہے، طالب علمی کے ایام میں علامہ امینی لکھنؤ تشریف لائے تھے ، استاذی علامہ اختر علی تلہری مرحوم نے تعارف کراتے ہو ئے فرمایا تھا کہ آپ حدیث غدیر پر ایک جامع اور بیسیوں جلدوں پر مشتمل عظیم الشان کتاب تالیف فرما رہے ہیں اور ہماری توفیقات پر ضرب لگاتے ہوئے فرمایا تھا کہ علما ء عراق و ایران فقط مواد فراہم کرنے کے لئے ملکوں ملکوں کا چکر لگاتے ہیں ، لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ...۔کتاب شائع ہوئی تو سراپا شوق بن کے دیکھا ، واقعی یہ کتاب دینی ، علمی، فنی ، تاریخی اور ادبی کتاب تھی ۔ولایت کی خوشبو ، ادب عالیہ کا رنگ ، از سوی یک نویسندہ بے نظیر ، محقق مشیع ، عالم مخلص ، مجاہد شجاع مرد میدان علم و فضیلت یعنی علامہ امینی ۔میرا ذوق ادب و جمال نا چنے لگا ، اسے اردو جیسی ترقی یا فتہ زبان میں ضرور منتقل ہو نا چاہئے ، لیکن اپنے پاؤں کی طرف دیکھ کے مایوسی ہوئی، ایک بے مایہ انسان'' الغدیر ''جیسی تحقیقی کتاب کا تر جمہ کیسے کرے ؟اور اگر پتّا مار کے یہ دیوانگی کر بھی گزرے تو طباعت کے وسائل کہاں سے لائے ؟حبا ب کی طرح یہ جذبہ شعور سے لا شعور میںپہونچ گیا ،بات آئی گئی ختم ہو گئی "۔(الغدیر جلد اول)
آپ نے اس ترجمہ میں کچھ ضروری تلخیص بھی کی ہے مگر اس بات کا پورا خیال رکھا کہ اہم مطالب حذف نہ ہونے پائیں ، صرف انہیں مطالب کو حذف کیاہے جو غدیر سے متعلق نہیں ہیں لیکن تلخیص کے باوجود کہیں بھی پیوند کاری کا احساس نہیں ہوتا ۔
اس ترجمے کے سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ مولانا نے آزاد ترجمہ کیاہے ، پہلے ابواب کا مطالعہ کیا پھر ان مطالب کو سادہ اور سلیس اردو میں منتقل کیا یعنی اسے مفہومی ترجمہ کہا جاسکتاہے ۔
چھٹی اور گیارہویں جلد کا ترجمہ آپ کے لائق فرزند مولانا شاہد جمال صاحب نے کیا ، اگر چہ الغدیر کی تمام جلدوں کا ترجمہ مولانا علی اختر صاحب مرحوم نے کر لیاتھا مگر حادثہ یہ ہوا کہ آپ ممبئی گئے تھے ، وہاں سے کتابت شدہ کچھ جلدوں کا مسودہ نظر ثانی کے لئے لارہے تھے جن میں چھٹی اور گیارہویں جلد کا اصل مسودہ تھا کہ اسی سفر میں کسی نے آپ کی اٹیچی سرقہ کرلی جس کا آپ کو زندگی بھر افسوس رہا ، آپ کے فرزند مولانا شاہد جمال صاحب نے ان دو جلدوں کے ترجمہ کےعلاوہ حوالہ جات کو مکمل کیا اور ترجمہ کی ترتیب و تزئین میں کافی محبت کی
مولانا علی اختر صاحب ، جناب مظہر حسین رضوی صاحب کے فرزند تھے ، ۹/ستمبر ۱۹۴۸ء؁ میں متولد ہوئے ، ابتدائی تعلیم حاصل کرکے جامعہ ناظمیہ لکھنؤ میں مفتیٔ اعظم مولانا احمد علی صاحب ، مولانا رسول احمد صاحب ، مولانا اختر علی تلہری صاحب ، مولانا ایوب صاحب وغیرہم جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا اور مدرسہ کی آخری سند "ممتاز الافاضل " حاصل کی اور وطن میں دینی خدمات انجام دینے کے علاوہ محمد صالح انٹر کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اور پھر ۲۷/ذیقعدہ ۱۴۲۲ھ؛ ۱۰ فروری ۲۰۰۲ء میں وفات ہوئی ۔
نقل از : مؤلفین غدیر
مقالات کی طرف جائیے