تاثرات

 

مولانا علی اختر صاحب؛ میری نظر میں

سرکار شمیم الملةمولانا سید شمیم الحسن صاحب قبلہ ( عمید جامعہ جوادیہ،بنارس )

ثقة الاسلام مولانا سید علی اختر صاحب مرحوم گوپال پوری سے میری پہلی ملاقات جناب حکیم سید محمد صالح صاحب مرحوم ( پٹنہ ) کے یہاں ہوئی ، موصوف خدا بخش لائبریری ، کچھ تحقیقی کام کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے ، اسی وقت سے ان کی علمی اور اخلاقی چھاپ میرے اوپر پڑی ، پھر تو ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ خصوصاً حسین گنج کے کالج میں مرحوم کا تدریسی سلسلہ اور میرا ایام عزا میں کئی سال تک کچھ دنوں کے لئے مجالس عزا کے لئے جانا ہوتا رہا ۔ ان دنوں مختلف موضوعات پر مجھ سے گفتگو فرماتے رہے ، تعلقات اور تاثرات اس منزل تک پہونچے کہ آپ نے اپنے لائق فرزند حجة الاسلام مولانا سید شاہد جمال سلمہ کو میرے حوالے کردیا اور سلمہ جامعہ جوادیہ بنارس سے تعلیم کی تکمیل کے بعد ایران گئے اور اپنے والد بزرگوار کے علمی وارث بھی بنے ۔ یوں تو مولانا مرحوم کے مضامین مختلف ماہناموں میں خصوصاً ماہنامہ الجواد بنارس میں مسلسل شائع ہوتے رہے اور ان کی بعض کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ ہوتی رہیں ، جن سے مرحوم کی علمی اور تحقیقی صلاحیت اور جستجو کی گہرائی میں ڈوبنے اور ابھرکر آبدار جواہر پاروں سے عوام کو فیضیاب کرنے کا سلیقہ واضح ہوتا ہے ۔ مولانا مرحوم میری خواہش پر جامعہ جوادیہ کی لائبریری کی ترتیب دینے کے لئے مقیم رہے جس سے قربت میں اور اضافہ ہوا ۔ مولانا کے معرکة الآراء خدمات میں کتاب ''الغدیر '' کا ترجمہ ہے ، ترجمہ کسی بھاری بھرکم کتاب کا آسان کام نہیں ہے کہ مصنف کے لکھے ہوئے مطالب کو کسی دوسری زبان میں بے کم و کاست پیش کردیاجائے۔ او ریہی مترجم کا کمال مانا جاتاہے اور یہ کام اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ جو اس زبان پر عبور نہ رکھتا ہو کہ جس زبان میں وہ کتاب لکھی گئی ہے ۔اس ترجمہ کی خوبی کے ساتھ مولانا کی عربی زبان پر عبور اور ان کی صلاحیتوں پر بھرپور دلیل ہے ۔ البتہ یہ بات بھی مخفی نہ رہے کہ آخر کی دو ایک جلدوں کا ترجمہ خود ان کے نور چشم مولانا سید شاہد جمال سلمہ نے کیاہے جو سلمہ کی علمی استعداد کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے ، میں بارگاہ احدیت میں دعاگو ہوں کہ سلمہ کے علمی و دینی خدمات کو ادامہ نصیب ہو اور ہمارے افتخار کا سبب بنتے رہیں ۔ خداوندعالم سلمہ کو طول عمر عطا کرے ۔
''سید شمیم الحسن رضوی '' ٤/جولائی ٢٠١٠ء؁

مقالات کی طرف جائیے