مقالات

 

بیت معمور

ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری

یہ ڈیوڑھی ہے جناب فاطمہ کی ...!
ابھی چند دن پہلے تک اس کے گرداگرد عقیدت مندوں کا ہجوم رہتاتھا ، آسمان والے مختلف بہانوں سے افتخار حاصل کرنے کے لئے آتے جاتے رہتے تھے ، کوئی چکی چلانے آتاتھا ، کوئی جھولاجھولانے ، کوئی روٹیوں کی بھیک مانگنے چلاآتاتھا ۔جبرئیل امین دن بھر میں کتنے ہی چکر لگادیتے تھے ، کبھی آیۂ ولایت کا مژدہ سنانے ، کبھی آیۂ تطہیر کا اعلان کرنے کے لئے ، کبھی سورۂ دہر کا قصیدہ پڑھنے کے لئے ۔ چاند سورج اسی ڈیوڑھی سے اکتساب فیض کرتے تھے اور ستارے تو لوگوں کو دکھادکھا کے ، جگا جگا کے اس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجاتے تھے ، یہیں آسمان والوں کو معراج ملتی تھی ۔
زمین والے بڑی عقیدت سے اسی چوکھٹ کا طواف کیا کرتے تھے ، وہ جانتے تھے کہ خدا کے گھر سے اس کا براہ راست تعلق ہے ، مسجد کی طرف سب کا دروازہ بند ہوگیا تھا لیکن یہ پوری شان و شوکت کے ساتھ کھلارہا ، کچھ لوگوں نے اس کی ضد میں صرف ایک سوراخ کھلا رکھنے کی اجازت چاہی اور رسول نے سختی سے منع کردیا تھا ، خدا نے اس ڈیوڑھی کو بلند رکھنے کا حکم دیا ہے :(اذن اللہ ان ترفع)۔یہ ڈیوڑھی روحانی برکات کا مرکز ہے ، مومنوں کی امارت اسی گھر میں ہے ، عورتوں کی قیادت اسی سے مخصوص ہے ، جنت کی سردار ی اسی میں محدود ہے ۔
اور رسول اکرم ، خاتم الانبیاء ، رسالتوں پر گواہ ، آخری امت کا بہی خواہ ، رحمة للعالمین ، صبح سے شام تک کئی مرتبہ اس گھر کا چکر لگایا کرتے تھے ، صبح کی نماز پڑھی اور ادھر کا رخ کیا۔الصلوة الصلوة یا اھل البیت ، انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت لیطھرکم تطہیرا؛(۱)۔شام ہوئی اور قدم خود بخود اسی طرف بڑھ گئے ، کبھی وحی لانے والوں سے محبت خداوندی کی بشارت سنی اور سجدوں پر سجدے کرنے لگے ، کبھی بدن میں ضعف محسوس ہوا تو یہیں آئے ، اس میں رسول کا اپنا والہانہ پن بھی ہے اور حکم خدا کی تعمیل بھی ۔یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ رسول کے پسینے پر اپنا خون بہانے والے صحابہ ، آفتاب رسالت سے لولگانے والے ستارے اس ڈیوڑھی کا احترام کریں کیونکہ قرآن نے رسول کی سیرت کو بہترین نمونۂ عمل بنایاہے ۔
جمیع بن عمیر کا بیان ہے کہ ایک بار میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے پوچھا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون تھا ؟ شاید وہ ام المومنین کے چہرے پر دوڑتی ہوئی سرخی دیکھنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے جواب دیا : فاطمہ ۔ پھر پوچھا :اور مردوں میں حضور کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا ؟ جواب ملا : ان کے شوہر ۔(۲)
حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے :ما رایت قط احدا افضل من فاطمة غیر ابیھا '' میں نے فاطمہ سے زیادہ فضیلتوں کا حامل ان کے باپ کے سوا کسی کو نہین دیکھا ''۔(۳)وہ کہتی ہیں کہ رسول جب بھی سفر سے تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے ،رسول کا ارشاد تھا کہ میں اس سے جنت کا خوشبو سونگھتا ہوں ۔
مسور بن مخرمہ جن کو اس گھر والوں سے خدا واسطے کا بیر تھا ، کہتے ہیں :میں نے خود رسول اللہ سے سنا ہے ، وہ فرماتے تھے کہ فاطمہ میری پارۂ جگر ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔(۴) معتبر صحابی کا بیان ہے کہ انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ فاطمہ سورہی ہیں اور چکی خود بخود چل رہی ہے ، فاطمہ کے بچوں کا جھولا خود بخود جنبش میں ہے ، کچھ غیر مرئی ہاتھ اس ڈیوڑھی کی خدمت پر مامور تھے ۔ صبیح مولیٰ ام سلمہ اور زید بن ارقم دونوں بیک زبان کہتے ہیں کہ رسول نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین سے فرمایا:اناحرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم '' اس سے جنگ کرنے والا ہوں جو تم سے جنگ کرے ، میں اس سے صلح کروں گا جو تم سے صلح کرے ''۔
پھر اچانک آفتاب رسالت کے غروب ہوتے ہی اس ڈیوڑھی پر بھیانک اندھیرا چھا گیا ، اس کے زمین و آسمان ہی بدل گئے ، میں نے غلط کہا ، آسمان نہیں بدلا زمین بدل گئی ، زمین والوں کا مزاج بدل گیا ، دنیا پرستوں کا طریقہ بدل گیا ، کہاں تو عقیدت کیشوں کا طواف تھا ، نفس پیمبر کا دم بھرا جاتا تھا ، رسول کی پارۂ جگر کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش تھی ، فرزندان رسول پر واری فدا ہونے کے مظاہرے تھے ۔ اور کہاں اب انہیں لوگوں پر زمین تنگ کی جانے لگی ، زندگی دوبھر کرنے کا بیڑا اٹھالیا گیا ، ان کے تمام مادی و روحانی حقوق پر قبضہ کرلیاگیا ، وسائل حیات سے منع کیاگیا ، امارت و سیاست سے متعلق رسول کے اعلانات کو نظر انداز کیاگیا ، رسول کی بیٹی ان سے اپنا حق مانگنے گئی ، غصب حقوق کے خلاف احتجاج کرنے گئی تو اسے دھمکیاں دی گئی اور جھٹلایاگیا ۔
علامہ عبدالکریم شہرستانی ''الملل والنحل '' میں لکھتے ہیں:
ان عمر ضرب بطن فاطمة یوم البیعت حتی القت الحسن من بطنھا و کان یصیح احر قوا الدار و من فیھا و ما کان فیھا غیر علی و فاطمة و الحسن و الحسین '' ہنگامۂ بیعت کے دن عمر نے حضرت فاطمہ کے شکم پر ضرب لگائی جس کی وجہ سے محسن کا حمل ساقط ہوگیا ، اس دن عمر چیخ رہے تھے : گھر میں آگ لگادو ، اس گھر میں جو بھی ہو پھونک دو اور اس گھر میں علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کے سوا کوئی بھی نہ تھا ''۔(۵)
طبری کے الفاظ ہیں:وقال واللہ لاحرقن علیکم او لتخرجن الی البیعة '' عمر بن خطاب نے کہا: خدا کی قسم !تم سب کو جلا ڈالوں گا ورنہ نکل کر بیعت کرو''َ۔(۶)
ابھی بہتر دن پہلے یہی عمر ہزاروں کے مجمع میں علی ؑکے ہاتھوں پر بیعت کررہے تھے اور بلند بانگ الفاظ میں تہنیت پیش کررہے تھے ، آج بیعت کا مطالبہ کررہے ہیں اور رحلت رسول کی تعزیت پیش کررہے ہیں۔
تاریخ ابوالفداء کی عبارت ہے :'' ابوبکر نے عمر کو بھیجا کہ علی اور جوبھی ان کے ساتھ فاطمہ کے گھر میں ہوں انہیں نکال لائیں ۔ اور حکم دیا کہ اگر وہ انکار کریں تو ان سے جنگ کرو ۔ یہ حکم پاتے ہی عمر تھوڑی سی آگ لے کر گھر چلانے کے لئے ان کے مکان پر آئے فاطمہ نے فریاد کی : اے پسر خطاب !کہاں کا ارادہ ہے ، کیا ہمارا گھر جلانے آئے ہو ؟ عمر نے کہا: ہاں۔(۷)
ابوالفداء نے '' بشئی من نار '' اور ابن عبد ربہ نے العقد الفرید میں '' بقبس من النار '' کے الفاظ لکھے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ کی شدت کم کرنے کے لئے ان کی اپنی احتیاط ہے ورنہ ایک معمولی عقل والا بھی سمجھ سکتاہے کہ کسی مکان کو جلانے کے لئے یا کسی کو دھمکانے کے لئے '' تھوڑی سی آگ '' کافی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ شہرستانی اور ابوالفداء کے بیانات میں تضاد بھی ہے لیکن اسے نظر انداز کرکے ذرا جناب زہراء کی گھٹی گھٹی فریاد کا تجزیہ بھی کیجئے : الی این ...؟ اس ڈیوڑھی کی عظمت تازہ کرنے کے لئے ایک بلیغ فقرہ چیخ بن کے نکل گیا ۔ پھر فرماتی ہیں: اجئت لتحرق دارنا ...؟ مظلومہ کی بے بسی کا یہ نطقۂ عروج ہے کہ خود ظالم سے اس کے ظلم کی شکایت کررہی ہیں۔
پھر اس ڈیوڑھی سے جس کی تعظیم کا قرآن نے حکم دیا تھا ، وحی ترجمان نے مہینوں سلام کیاتھا ، فرشتوں نے بصد افتخار خدمت کی تھی ، اسی ڈیوڑھی سے علی کو کشاں کشاں مسجد میں لایاگیا ، جب علیؑ قبر رسول کے پاس پہونچے : و ھو یبکی و ینادی یا بن امی ان القوم استضعفونی و کادوا ان یقتلوننی ۔ مثیل ہارون نے گریۂ خونیں کے ساتھ فریاد کی : میرے مانجائے قوم نے مجھے اس قدر کمزور کردیا کہ قریب ہے کہ قتل کردیں ''۔(۸)
مصیبت اگر آہستہ آہستہ پڑتی ہے اور تدریجاًبڑھتی ہے تو انسان میں قوت برداشت بھی بڑھتی جاتی ہے لیکن اگر اچانک کوئی عظیم مصیبت ٹوٹ پڑے تو اس کا احساس زیادہ ہوتا ہے ، یہ عام نفسیات ہے کسی بلند مرتبہ انسان کو غیر متوقع چھوٹی مصیبت بھی بڑی معلوم پڑتی ہے ۔ فاطمہ کا مرتبہ خود انہیں بلوائیوں سے پوچھئے ، شہزادی کونین ہیں ، صنف نسواں پر خدا کی طرف سے حجت ہیں ، رسول کی پارۂ جگر ہیں ، شاید آیۂ مودت میں خدا نے حکم دیا تھا کہ بھرپور مظاہرۂ نفرت کرتے ہوئے انہیں جی بھر کے ستاؤ ، آیۂ تطہیر میں حکم دیاگیا تھا کہ انہیں یوں اذیت دو جو اذیت دینے کا حق ہے ، اور چونکہ ان دونوں آیتوں میں مرکزی تصور جناب فاطمہ ہی کی ذات ہے اس لئے انہیں کو خصوصیت سے نشانۂ مظالم بنایاگیا۔
اچانک طوفان مصائب اس بلند پیمانے پر کھڑا کیاگیا کہ عصمت کبریٰ کی صدائے فریاد گھٹ کے رہ گئی ، وہ ظالموں کی شکایت کیا کرتیں ، انہیں تو گریہ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔
نفسی علی زفراتھا محبوسة
یا لیتھا خرجت مع الزفرات
لا خیر بعدک فی الحیاة و انما
ابکی مخافة ان تطول حیات
میری جان ہچکیوں میں مقید ہے ، کاش وہ ہچکیوں کے ساتھ نکل جاتی ، باباجان !آپ کے بعد تو زندگی میں کوئی بھلائی نہیں ہے میں اس خوف سے رو رہی ہوں کہ کہیں میری زندگی طویل نہ ہوجائے ۔(۹)

حوالے :
۱۔ احزاب/۳۳؛
۲۔ جامع ترمذی ج۵ ص ۶۵۴ح/۳۸۷۴
۳۔ معجم الاوسط ج۳ ص ۳۴۹ح/۲۷۴۲
۴۔ صحیح بخاری ج۵ ص ۲۰۰۴؛ صحیح مسلم ج۵ ص ۵۳ح/۹۳
۵۔ الملل و النحل ج۱ ص ۵۹
۶۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۱۹۸
۷۔ تاریخ ابو الفداء ج۱ ص ۱۵۶؛ عقد الفرید ج۲ ص ۲۵۰
۸۔ الامامة والسیاسیةج۱ ص ۲۰
۹۔ مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص۲۴۲؛ اعلام النساء ج۱ ص ۱۲۰۵
مقالات کی طرف جائیے