|
مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب ؛ تیسری قسط |
سید عابد رضا نوشاد رضوی |
٢۔ اخلاقی و ثقافتی مشکلات ثقافت و تہذیب اور اخلاقی اقدار ہر قوم کی بیداری کا معیار ہو تے ہیں ۔ جب تک اس کے طور طریقے ، رسم ورواج اوراقوال و افعال،اس کی دیرینہ تہذیب پر مبتنی ہوں گے ،اسے کسی طرح کے گزند و نقصان سے رو برو نہیں ہو نا پڑے گا اوریہ مستحسن قدامت پسندی اس کی حیات و بقا ء کی ضامن ہوگی لیکن اس کے بر عکس اگر کسی قوم نے اپنے اخلاقی اقدار اور ثقافتی اصول سے رو گردانی کرتے ہو ئے غیروں کا طرز اپنایا تو یقینا گذشت ایام کے سا تھ سا تھ اس کا نام تاریخ کے چند اوراق کی زینت اور اس کے آثار عجا ئب گھروں کی رونق ہو کر رہ جا ئیں گے ۔ اسی طرح کی ڈھیروں مشکلیں آج کے مسلم معاشرے میں شدت کے ساتھ پا ئی جا تی ہیں ۔ بعنوان مثال ان میں سے چند ذیل الذکر ہیں:
(الف ) جہالت مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک بنیادی سبب جہل اور نادانی ہے ۔ قوموں کے زوال میں جہالت کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔ حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں : '' اذاارذل اللہ عبداً حظر علیہ العلم '' [نہج البلاغہ، حکمت ٢٨٨] جب پروردگار عالم کسی کو ذلیل کر نا چا ہتا ہے تو اسے علم سے محروم کر دیتا ہے ۔ بالیقین مسلمانان عالم میں خداوند کریم کے احکام سے روگردانی اس قدر اوج پر ہے کہ خدا وند عالم نے علم کو چھین کر انہیں ذلت کی خوفناک وادی میں چھوڑدیا ہے ۔ جس دین میں '' اطلبوا العلم و لو بالصین'' اور'' طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة '' جیسی تعالیم موجود ہوں آج اسی کے پیروکار عدم علم کی بنیاد پر خود کو غیر اسلامی دنیا کے سامنے حقیر جا ننے پر مجبور ہیں ۔ ''بر صغیر میں تو اس ارشاد کی نا فرما نی ایک المناک حد تک پہنچ گئی ہے ۔ دوسرے اسلامی ممالک مثلاً مصر اور مملکت ترکیہ میں موجودہ دور تعلیم کے آغاز سے بیشتربھی عالم گیر تعلیم کاایک نظام موجود تھا یہ نظام ایک زمانہ میں تو ضرور راہنما حیثیت رکھتا تھا لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ اس نظام پر غفلت ،جمود، اور غنودگی طاری ہو چکی تھی ۔ تا ہم اس کی بدولت اتنا تو ضرور تھا کہ ہر مسلمان تعلیم اسلامی اور فرائض مذہبی سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور حاصل کر لیتا تھا، بر صغیر تو آج ایسے نظام سے بھی محروم ہے ۔ہندوستان میں کتنے ہی ایسے مسلمان موجود ہیں جو مذہب سے قطعاًناواقف ہیں اور ممکن ہے کلمہ شریفہ بھی نہ جا نتے ہوں"۔ [اسلامی کلچر ،ص ٦٣ محمد مارماڈیوک پکھتال] مسلمانوں کا جہل صرف اسلامی علوم تک محدود نہیں بلکہ مقام افسوس یہ ہے کہ اس سے بڑھکر امت مسلمہ تاریخ اسلام، سیاست و صنعت ، اسلام دشمن عناصر کی سیاسی و ثقافتی سا زشوں بلکہ ان تمام چیزوں سے بے خبر ہے جو مسلمانوں کے عروج و زوال میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ درد آشنائے اسلام سید جمال الدین اسد آبادی اس خطر ناک مسئلہ سے بھی مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :'' کیا ہر حکیم بلکہ ہر عاقل پر یہ لازم نہیں کہ وہ جہل پر را ضی نہ ہو ؟ کیا انسان کے لئے یہ نقص نہیں کہ وہ اسباب کی فراہمی کے لئے کو شاں نہ ہو ؟ کیا کسی عالم و حکیم و دانا کے لئے یہ عیب شما ر نہیں کیا جا ئے گا کہ جدید فنون و اختراعات سا رے عالم پر محیط ہو چکے ہوں اور اس کے با وجود اسے انکے علل و اسباب کی کو ئی خبر تک نہ ہو اور دنیا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہو جا ئے اور وہ خواب غفلت سے بیدار نہ ہو ؟ کیا کسی محقق کے لئے یہ روا ہے کہ اس کی گفتگو مجہولات مطلق کی بنیاد پر ہو اور معلومات مطلق سے بے خبر رہے یا ما ہیات مو ہومہ کی تو مو شگا فیاں کرے لیکن امور ظا ہرہ کی معرفت حا صل نہ کرے ؟ ! [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص٦٤و٦٥ ] ایک مقام پر انہوں نے مسلمانوں کے جہل کے سبب کو یوں بیان کیا ہے :'' ان بادشاہوں نے اپنی ملت کے افکار کو دوسری ملت اسلامیہ کے خلاف خصومت ودشمنی میں مشغول کر دیا اور تمام لوگوں کو ان پر غلبہ پا نے میں سر گرم کردیا۔ مسلمانوں کے درمیان یہ خانہ جنگی اور دشمنی ہی تنہا وہ سبب ہے جس کی بنیاد پر مسلمان جدیدعصر کے علوم و فنون میں پیچھے رہ گئے یہاں تک کہ اب وہ ان چیزوں کے حصول کی فکر میں بھی نہیں رہتے۔'' [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٦٦، بحوالۂ العروةالوثقیٰ ،ص ١٨١] ظاہر ہے کہ جب تک مسلمان اپنے ان عیوب کی اصلاح اور مختلف جہتوں سے جہل کو دور نہیں کر لیتا اس وقت تک پسماندگی کی ذلت میں مبتلا رہے گا اور جب تک اس سلسلہ میں سعی و کو شش نہیں کرے گا اس وقت تک جہا لت کی تاریک وادی میں ہی باقی رہے گا ۔ اس لئے کہ: '' انسان کے لئے اتنا ہی ہے جتنا اس نے کو شش کی ہے۔ '' (سورۂ النجم ٣٩ ) '' خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود کو تبدیل نہ کر لے۔ '' (سورۂ رعد ١١ ) لہٰذا ضروری ہے کہ ملت اسلامیہ کی ایک ایک فرد کمر ہمت باندھے اور تعلیمات اسلامی کے سا تھ سا تھ جدید علوم و فنون ا و رعصرحاضر کی سیاسی و ثقافتی نشیب و فراز اور باریک بینیوں سے بخو بی آشنا ئی حاصل کرے اس لئے کہ: ''جو اپنے زمانے سے آگاہ ہو تا ہے اس پر غلطیوں کا ہجوم نہیں ہو تا ہے۔ '' [تحف العقول ، ص٢٦١] جب ایسامطلوب معاشر ہ رونما ہو گا تو امداد الہی بھی شا مل حال ہو گی اور ملت اسلامیہ استعمار و استکبار کے ہر گزند و نقصان سے نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے گی بلکہ یہ سامراجی طاقتیں اور اسلام دشمن عناصر خود بخود نابود ہو جا ئیں گے اور پھر ہما رے لبوں پر یہ مصرعہ ہوگا: '' دام میں اپنے گرفتار ہو ا خود صیّاد ''۔
(ب) شہوت پرستی اور عیّاشی بعض نام نہادمسلمانوں کے درمیان شہوت پرستی کی تاریخ بڑی پرانی ہے جس نے فقر، جہل ، فسق وفجور ،قتل و غارت گری ،اسراف وغیرہ جیسی بری صفتوں کو ان کے درمیان وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیز دنیا ئے اسلام پر استعمار واستکبار کے غلبہ کا ایک اہم سبب اسلامی مملکتوں کے بعض حکمرانوں ،صاحب اثر و نفوذ افراد اور ثروت مند با شندوں کا عیاش اور شہوت پرست ہو نا ہے ۔ پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت جانگداز کے بعد مخصوصاً معاویہ اور اس کے ملعون فرزند یزید کے دور میں شہوت پرستی کامل طور پر را ئج ہو چکی تھی اور یہ سلسلہ اپنی کمی وزیادتی کے ساتھ بنی امیہ کے با قی خلفاء اور بنی عباس کی حکومت کے دوران جاری رہا جس کے بے شمار مصادیق و واقعات دامن تاریخ پربد نماداغ بن کر موجود ہیں ۔ شاید اسلاف کی یہ شہوت پرستی آج کی دنیا ئے عرب کے ثروت مند ممالک کے حصے میں آئی ہے جہاں درہم، ریال اور دینار کی فراوانی نے عربی مغز سے قوت فکر و تدبیر کو سلب کر لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بعض مسلمان ملک فحاشی و شہوت پرستی کا عالمی اڈہ بنے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ ضعف ایمان اور فراوانی مال و زر کی بنا پر بندۂ شہوت بنے بیٹھے ہیں، نہ اندیشۂ اسلام ہے نہ فکر مسلمین ، نہ دوست کی معرفت رکھتے ہیں نہ دشمن کی پہچان بلکہ بسا اوقات دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بکھرے ہو ئے مسلمان جہالت، فقر وناداری ، ظلم وجور اور ذلت و حقارت کا شکار ہیں ۔ اے مسلمان حکمرانو! اے مسلمان سرمایہ دارو! اے اسلامی ممالک کے ثروت مند با شندو! خواب غفلت سے بیدار ہو جا ؤ!سامراج کے گھنونے افکار و ارادے کا آلۂ کار نہ بنو !اپنی اسلامی حمیت کو بیدار کرو اور ان اسلامی ممالک کے ہمگام ہو جا ؤ جو عالم اسلام کے نجات کے لئے کو شاں ہیں! اپنی قومی غیرت کو جوش میں لا ؤ اور کم از کم عراق، بحرین، شام، یمن، فلسطین ، افغانستان،لبنان، برما اور دیگر ممالک کے مظلوم مسلمان بھا ئیوں کی مدد کودوڑو !دوست کو پہچانو، دشمن کو للکارو ، اس لئے کہ یقین جا نو یہ تمہاری شہوت پرستی اور غفلت استعمار و استکبار ہی کی پلید سازش ہے جس میں تم مبتلا ہو ۔ خدارا! ہوش میں آؤ اور خود کو بیدار کرواس لئے کہ : جس بندۂ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق ( علامہ اقبال )
(ج) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے گریز عصر حاضر میں اسلامی معاشرے کی ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم ترین فریضہ کو ترک کر دیا گیا ہے جو اس معاشرے کی تنزلی و و پسماندگی کا سبب ہے جبکہ آیات و روایات میں اس کی بڑی تا کید کی گئی ہے۔ حضرت علی فر ما تے ہیں : ''تمام نیک اعمال اور راہ خدامیں جہاد، امر بالمعروف اور نہی از منکر کے مقابلہ میں اس طرح ہیں جیسے مواج سمندر کے سامنے ایک قطرہ ۔'' [نہج البلاغہ، حکمت ٣٢٤] اس فریضہ الہیہ کی عظمت کے سلسلہ میں ایسی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد عقلیں حیران رہ جا تی ہیں اور ہر عاقل و حکیم مسلمان اس بات پر غور کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں یہ عظیم فریضہ کیو ں متروک ہے ؟ کیا ہمارا معاشرہ اس قدر نیک اور صالح ہو چکا ہے کہ اسے اب نیکیوں کی طرف دعوت دینے اور برائیوں سے روکنے کی ضرورت با قی نہیں رہ گئی ؟ یا پھراسلام کا یہ حکم اب منسوخ ہو چکا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں! نہ ہمارا معاشرہ حقیقی طور پراسلامی ہوا ہے نہ یہ حکم منسوخ ہوا ہے بلکہ مسلمان اور بالخصوص قوم و ملت کے ممتاز افراد ، شرفاء، خطباء، علماء اور دانشوروں کی کوتاہی اور بے تو جہی کے بموجب آج ہم اس مصیبت سے دوچار ہیں ۔ مقام افسوس ہے کہ دشمن تو ہمارے بچوں،جوانوں، زن ومرد اور خرد و کلاں کو برائیوں کی طرف دعوت دینے اور اچھا ئیوں سے روکنے کے فریضہ پر خوب عمل کررہا ہے لیکن ہم اپنے فریضہ کو فراموشی کے سپرد کئے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلہ میں بر صغیر کی حالت زار نہ پو چھئے ! ہند و پاک کی سر زمین پر منبر، تبلیغ کا سب سے بڑا ذریعہ ماناجاتا ہے اور ہے بھی۔ ہمارے خطبا ء و علماء اس کا صحیح استعمال بھی کرتے ہیں تاہم اس میں کو ئی شک نہیں کہ کتنے ہی نام نہاد ذاکر ین و خطباء ان منبروں کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس مقدس مقام پر بیٹھ کر عجیب و غریب قیاس آرا ئیوں اور باطل گو ئیوں سے کام لیتے ہیں ، ان میں سے کچھ لوگ دانستہ و مغرضانہ طور پر اور زیادہ تر لوگ نا دانستہ طور پر اسلام مخالف عناصر کا آلۂ کار بن کر دین کی تحریف میں مصروف ہیں ۔ تولیٰ و تبرا کے اسلامی مفہوم کو اس طرح بگاڑ دیا ہے کہ مسلمان اس کی حقیقت سے بے خبر ہے ، تولیٰ و تبرا کے خود سا ختہ مفہوم کی بنا پر اس شخص کو'' مخالف ولایت و امامت'' اور "دشمن عزاداری" ٹھہرا دیا جا تا ہے جو منبر سے اسلام کے حقیقی علوم و معارف اور واقعی ولایت کی وضاحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض اداکرتا ہے جبکہ امربالمعروف و نہی عن المنکر تولی اور تبرا کے ہی مصا دیق ہیں جس میں نیکیوں اور نیک لوگوں سے دوستی اور برائیوں اور بروں سے دوری اختیار کر نے کا حکم دیا جا تا ہے ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ نام نہاد ذاکرین منبر حسین علیہ السلام سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور تبلیغی و اصلاحی بیانات کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ خود امام حسین علیہ السلام کی شہا دت عظمیٰ کا ایک اہم مقصد اسی فریضہ الہیہ کا احیاء تھا ۔آپ نے مدینہ کو ترک کرتے وقت اپنے قیام کے مقصد کو بیان کرتے ہو ئے فرمایا :'' ارید ان آمر بالمعروف وانہی عن المنکر '' ''میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے کے لئے قیام کر رہا ہوں۔'' سید الشہداء علیہ السلام کے مذکور ہ گرانقدر قول شریف سے بھی اس متروک فریضہ کی اہمیت واضح ہو جا تی ہے کہ ضرورت کے مطابق معاشرہ میں اس کے احیاء کے لئے قیام بھی کیا جاسکتا ہے ۔ لہٰذا قوم و ملت کی ہر ایک فرد پر ضروری ہے کہ شرائط کو پیش نظر رکھتے ہو ئے اس الہی اور انسانی فرض کو بخوبی انجام دیں ، اس لئے کہ یہ قانون نیک ، صالح اور بہترین امت کی علامت ہے : (کنتم خیرامة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر ) [سورۂ آل عمران ١١٠] '' تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم، لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو..'' بیداروں کی ذمہ داری مسلمانوں کی مشکلات اور ان کی پسماندگی کے اسباب انہیں چند عناوین و صفحات میں خلاصہ نہیں ہو تے بلکہ ان کے علاوہ بھی ایسی سیکڑوں مشکلات موجود ہیں جن سے دیگر بے شمار مشکلات وجود میں آتی ہیں۔ لہٰذا قوم کے علماء ، خطباء ،شعراء، ذاکرین اور ہر ذمہ دار اور بیدار شخص اپنی توانائی کے اعتبار سے ان مشکلوں اور پسماندگیوں کے اسباب کی نشاندہی کرے اورشانہ بشانہ ان کی چارہ جو ئی میں مشغول ہو جا ئے۔ بڑی ہی مسرت کی با ت ہے کہ اس سلسلہ میں مختلف تنظیمیں اور انجمنیں وجود میں آرہی ہیں جو اسلامی اہداف کو نصب العین قرار دے کر بڑے خلوص اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں جس کے بموجب اب اسلامی معاشرے اور بالخصوص جوان طبقہ میں ایک اسلامی بیداری قائم ہو چکی ہے ۔ اب علماء ،دانشوروںاورقوم کے ذمہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ مواقع سے کما حقہ فا ئدہ اٹھا ئیں اورامت مسلمہ کو تمام دینی، علمی ،ثقافتی ، سیاسی اور اقتصادی بحران سے نجات دلائیں تا کہ مسلمان صرف اپنے درخشان ماضی پر ہی فخرکرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ زمان حال میں بھی عزت واقتدار کی شیرینی کا کو لمس کریں اور ملت اسلامیہ میں اس طرح کی امید کی کرن پھوٹ پڑے کہ ہر فرزند تو حید یہ کہتا ہو ا نظر آئے : یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ما ضی میرے استقبال کی تفسیر ہے(علامہ اقبال ) ہم بارگاہ خدا وند منان میں دعا گو ہیں کہ حضرت ختمی مرتبت پیغمبر اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، حضرت امیر المومنین علی مرتضی علیہ السلام ،سیدۀکونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کی صلب میں آنے وا لے مقدس انوار الہیہ کے تصدق میں اسلام کو عالم گیر اور مسلمین کو سرفراز و سر بلند بنا دے۔ (آمین)
منا بع و مآخذ نہج البلاغہ ؛ترجمہ، علامہ ذیشان حیدر جوادی قرآن مجید ؛ترجمہ، علامہ ذیشان حیدر جوادی الاحتجاج ؛طبرسی اسلامی کلچر ؛حمد مار ماڈیوک یکھتال ترجمہ محمد ایوب نیر پیرامون انقلاب اسلامی؛شہید مطہری تاریخ تمدن ؛ول ڈورنٹ تاریخ طبری؛محب الدین طبری تحف العقول ؛حسن ابن شعبہ تمدن اسلام و عرب ؛گوسٹاولوبن جہان اسلام ؛مرتضی اسعدی رسالہ حوزہ شمارہ ٢٦ ؛دفتر تبلیغات اسلامی شرح نہج البلاغہ ؛علامہ محمد تقی جعفری علل پیشرفت اسلام ؛زین العابدین قربانی علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ؛سید احمد موثقی الفرق بین الفرق ؛ عبد القاہر بن طاہر بغدادی کلیات اقبال ؛علامہ اقبال لاہوری وسائل الشیعہ؛شیخ حر عاملی
|
مقالات کی طرف جائیے |
|