مقالات

 

مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب ؛ دوسری قسط

سید عابد رضا نوشاد رضوی

(د) اسلام دشمن عناصر سے دوستانہ تعلقات
اسلام دشمن عناصر سے دوستانہ تعلقات کو بھی مسلمانوں کی پسماندگی کے اہم ترین اسباب میں شمار کیا جا نا چا ہیئے۔ البتہ اس مشکل کا تعلق ملت اسلامیہ سے زیادہ اسلامی ممالک کے حاکموں سے ہے اس لئے کہ دور حاضر میں اس بات کا بخو بی مشا ہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ملتیں تو اسلام ہی کی پناہ میں رہنا چا ہتی ہیں لیکن ان مسلمان ملکوں کے سیاسی سر براہ دشمنان دین کے اشاروں پر نا چ رہے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید نے اعلان کر دیا ہے :
'' خبر دار!صاحبان ایمان مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور اپنا سر پرست نہ بنا ئیں کہ جو ایسا کرے گا اس کا خدا سے کو ئی تعلق نہ ہو گا '' ۔ [سورۂ آل عمران ٢٨]
اسلامی ملکوں کے سیاسی سر براہ ، فراعنہ ٔ عصر امریکہ و اسرائیل یعنی یہودیوں اور نصرانیوں کو اپنے اوپر مسلط کئے ہو ئے ہیں جبکہ خداوند عالم کا فرمان ہے:
'' ایمان والو! یہودیوں اورعیسائیوں کو اپنا دوست اور سر پرست نہ بنا ؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کو ئی انہیں دوست بنا ئے گا تو انہی میں شمار ہو جا ئے گا بے شک اللہ ظالم قوموں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ '' [ سورۂ مائدہ/ ٥١]
مذکورہ آیت میں خدا وند منان نے یہود و نصاری کو اپنے اوپر مسلط کر نے والوں کو یہود و نصاراہی کی فہرست میں قراردیا ہے ۔
با نی ٔ انقلاب اسلامی آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی رح بھی اسلامی حکومتوں کو ہی اسلام کی بڑی مشکل شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: '' اسلام کی مشکلات کا سبب اسلامی حکومتیں ہیں نہ کہ ملت اسلامیہ اس لئے کہ ملت اسلامیہ اپنے آپ میں اچھی ملت ہے ۔ ''
تاریخ اسلام کا جا ئزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ صدر اسلام کی خانہ جنگیوں سے لیکر امویوں ،عباسیوں، فاطمیوں اور عصر حاضر تک کی حکومتوں کا طرز حکومت ہی مسلمان امتوں کی پستی و پسماندگی کا سبب بنا ہے۔ مثال کے طور پر اندلس(spain ) میں واحد اسلامی حکومت کے خا تمہ کے بعد ملوک الطوائفی کا دور آگیا ۔ ہر قبیلہ نے اپنے استقلال کا دعویٰ کیا اور حکومت کی خاطر سب کے سب جنگ پر آما دہ ہو گئے ، ان میں جو بھی شکست پذیر ہوتا عیسا ئیوں سے مدد لیتا اور ہر مدد کے عوض اپنے ملک کا ایک حصہ ان کے حوالہ کر دیتا ۔ سیاسی حماقت کا یہ سلسلہ یو ں ہی جا ری رہا یہاں تک کہ اندلس سے اسلام کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمان اس بہشت مفقود کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو ئے۔
شمالی افریقہ کی حکومتوں کو اندلس کی دلخراش تاریخ سے عبرت حاصل کرناچاہیئے تھا لیکن اس کے بر خلاف مراقش کے حاکم''مولی عبدالحفیظ '' نے اقتدار کی ہوس میں اپنے بھا ئی عبد العزیز سے جنگ کی ایک نے فرانس سے اور دوسرے نے اسپین سے مدد طلبی کی نتیجةً کئی سالوں تک اس خوبصورت اسلامی ملک کو فرانس کے ما تحت رہنا پڑا اور اس کا کچھ حصہ اسپین کے تحت تسلط آیا جن میں سے ''سبة'' اور '' بلیلہ'' نا می شہر آج بھی اسپین کے ما تحت ہیں ۔
مصر،سوڈان،شام، لبنان، عراق،ترکی، بر صغیر،افغانستان وغیرہ جیسے اسلامی ممالک کو بھی ایسی تلخ تاریخ سے گذرنا پڑا ہے بلکہ یہ تلخیاں ان ممالک میں آج بھی برقرار ہیں جو مغربی طا قتوں اور اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا شکار ہیں ۔

(ہ)سیاست اور دین میں جدائی
سیاست اور دین میں جدائی کا قائل ہونا بھی مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک اہم سبب ہے ۔سیاست اور دین میں جدائی کا نعرہ استعمارو استکبار کی اسلام مخالف سازشوں میں برسر فہرست ہے جسے اسلامی ممالک کے ''روشن خیال '' کہے جا نے والے دانشور طبقے نے کا فی تقویت دی ہے ،مجھے نہیں معلوم کہ ایسے طبقے کو ''روشن خیال'' کہا جا ئے یا ''تاریک خیال'' جس نے ایک'' روشن'' و واضح شے کا انکار کر دیا اس لئے کہ دین کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں فرد و اجتماع کی رہنمائی کرے جس میں سیاست کا پہلو کا فی اہمیت کا حامل ہے اور پھر دین اسلام کی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہو ئے یہ بات بھی مسلم الثبوت ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے تو پھر سیاست کو دین سے کیسے جدا کیا جا سکتا ہے جب کہ سیاست حیات کے اہم ترین پہلو کا نام ہے ۔
اس سلسلہ میں سید حسن مدرس کا یہ جملہ زبانزد خاص و عام ہے کہ '' ہماری دیانت عین سیاست اور ہماری سیاست عین دیانت ہے '' ۔امام خمینی سے پہلے سید جمال الدین اسد آبادی کی تحریک بھی دین و سیاست کے اتحاد پر استوار تھی۔ شہید مطہری فرما تے ہیں :'' شاید اس سلسلہ میں گام اول سید جمال الدین اسد آبادی نے اٹھا یا ہے ،سید جمال وہ پہلے شخص تھے جن کو یہ احساس ہوا کہ اگر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر ان میں ولولہ پیدا کرنا ہے تو انہیں یہ باورکرانا ہو گا کہ سیاست دین سے جدا نہیں ہے ، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس مسئلہ کو مسلمانوں کے درمیان رائج کیا جس کی بنیاد پر استعمار ی طاقتوں نے کا فی سعی و کو شش کی تا کہ اسلامی ممالک میں دین اور سیاست کے رابطہ کو منقطع کردیا جائے۔ [پیرامون انقلاب اسلامی ،ص٥٢ انتشارات صدرا تہران]
سیاست اور دین کی جدا ئی کے نعرہ کی بنیاد پر ہی بعض بظاہر دیندار حضرات بھی استعماری قوتوں کا فریب کھا کر اس بات کے قا ئل ہو گئے کہ دینی حکومت کی تشکیل کی کو ئی ضرورت نہیں بلکہ غیر دینی حکو مت میں ہی خاموشی کے ساتھ زندگی گذارنا بہتر ہے لیکن اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ دینی حمیّت کا لبادہ اپنے تن سے اتار پھینکا جا ئے ۔
سید جمال الدین ایسے افراد کی مذمت کرتے ہو ئے لکھتے ہیں : مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو اپنے دین پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے عقائد پر استوار ہیں لیکن ''دینی غیرت و حمیّت'' کی مذمت کرتے ہیں اور ان کا پورا اصرار یہ ہے کہ غیور مسلمانوں کوشدت پسند اور جدیدتمدن سے نا بلد ٹھہرائیں لیکن ایسے مسلمان اس بات سے غافل ہیں کہ وہ اس کام کے ذریعہ اپنے عصائے دست کو توڑ رہے ہیں اور اپنے مقام و مرتبہ میں تنزلی کا با عث بن رہے ہیں ۔اپنے گھروں کوبے دینوں کی مدد سے اپنے ہا تھوں ہی ویران کررہے ہیں ۔ یہ لوگ غفلت اور بے توجہی کی بنیاد پر مسلمانوں کے معتدل دینی غیرت و حمیّت کی نابودی کے خواہاں ہیں جس کے نتیجہ میں مسلمان اپنی قومیت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ، اپنی قومیت کو غیروں کے سپرد کرتا جارہا ہے اور یوں اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے دوسروں کا غلام بنا رہا ہے ۔ [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٧٣ بحوالۂ عروة الوثقیٰ اسد آبادی ،ص١٤٠]
سیاست اور دین کی جدا ئی کے نعرے کی بنیاد پر ہی یہ مسئلہ بھی دنیا ئے سیاست میں اکثر و بیشتر موضوع بحث رہا کرتا ہے کہ دنیوی سیاست میں دینی رہبروں کا کیا دخل ہے ؟ اس مسئلہ میں اسوقت مزید شدّت آئی جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا ، اسلامی حکومت تشکیل پائی اور پارلیمان دینی و مذہبی افراد کے اختیار میں آگیا ۔
سید جمال الدین اسد آبادی نے اس با طل اور حماقت بھرے نظریہ پر خط بطلان کھینچ ڈالا اور سیا ست سے مذہبی رہنماؤں اور دیندار سیاستدانوں کی جدائی کو ہی مسلمانوں کے زوال کا با عث جا نا ہے ۔ آپ فرما تے ہیں: جو لوگ اخلاقی طور پر مسلمان تھے ، اسلامی امور کی زعامت کی صلاحیت رکھتے تھے اور حکومتی مناصب و مراتب کو لیاقت و شا ئستگی کے سا تھ سنبھال سکتے تھے، وہ امور میں دخالت سے ممنوع قرار دے دئے گئے یہاں تک کہ اسلامی حکومتوں کو دشمنوں کے ہاتھوں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ تاریخ کے صفحات پر افشین و دیالمہ وغیرہ جیسی داستانیں ثبت و ضبط ہیں ۔ [ سید جمال الدین و اندیشہ ہائے او ،ص٤١٠ بحوالۂ علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٧٦]
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدا ئی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
( علامہ اقبال )

(و) مغربی تمدن سے احساس شکست
اپنے اصل تہذیب و تمدن کو مغربی تمدن کے سامنے حقیر جاننا اور احساس شکست کرنا بھی مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک بڑا سبب ہے ۔
تقریباًتین یا چار صدی پہلے جب اسلامی ممالک خواب غفلت میں محو تھے اور ان کے بو الہوس حکمراں بندہ عیش و نوش بن چکے تھے ،مغربی دنیا بڑی تیز رفتاری کے سا تھ اپنی وحشی گری کے زمانے کو طے کرتی ہو ئی ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور ثقافتی ، علمی، اجتماعی ،سیاسی اور ٹکنالوجی کے میدان میں ایک نئی تا ریخ رقم کر نے میں مصروف تھی ۔ مغربی ہا تھوں کے اکتشافات و ایجادات کی خبریں روز بروز مشرقی سماعتوں سے ٹکراتی تھیں ، کبھی ریڈیو کے اکتشاف کی خبر گم گشتہ مسلمانوں کو حاصل ہو ئی تو کبھی ٹیلی ویژن، گاڑی ، ٹیلی فون، ریل گا ڑی ، بجلی اور ہو ائی جہاز جیسی متحیر العقول ایجادات کی خبر اس کے تعجب کا با عث بنیں۔
ان جدید ٹکنا لو جیز اور حیرت انگیز اشیاء نے مسلمانوں کو اس طرح اپنی طرف مجذوب کر لیا کہ مغربی تمدن کے مقا بل حقارت و پستی کا احساس کر نے لگے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا میں جینے کی بس ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ بلا چون و چرا ایسے '' عظیم صنعتی تمدن '' کی مطلق پیروی کی جا ئے اور وہاں کے مغز ہا ئے متفکر کو اپنے اوپر مسلط ہو نے کی کھلی چھوٹ دے دی جا ئے، چاہے اس کے لئے ہمیں اپنے دین اور اسلام کے قوانین سے دستبردار ہی کیو ں نہ ہو نا پڑے ۔ انہی کی طرح کھا نا کھا نا چا ہیئے، انہی جیسا لباس زیب تن کر نا چا ہیئے ، چلنے پھر نے کا انداز ، طرز گفتگو ، سلیقۂ زندگی ، شیوہ معاشرت اور حیات کے ہر مر حلہ میں ان ہی کا اتباع کر نا چا ہیئے ۔
یہی نظر یہ جب عام ہو ا تو اسلامی ممالک سے اسلامی تہذیب و تمدن رخصت ہو گیا اور مغربی ثقافت نمودار ہو گئی ۔ یہاں تک کہ ترکی جیسے مسلمان ملک میں عربی رسم الخط کے بجائے رومن رسم الخط کو رسمی حیثیت دی گئی جو آج تک باقی ہے۔یہ تلخ اور افسوسناک تبدیلی اتاترک کے زمانے میں پیش آئی ۔
سید جمال الدین اسد آبادی اسلامی معاشرے میں مغربی تمدن کی عکاسی اسطرح کر تے ہیں : (مسلمان) اپنوں کے ہر اچھے کام کو بری نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے معاشرے کی کسی فرد کے ہر بڑے کام کو چھوٹا شمار کرتے ہیں لیکن جب کو ئی اجنبی بے بنیاد باتیں کرتا ہے تو اس کی با توں کو گراں بہا اور حکمت آمیز جا نتے ہیں ۔ اگر ان کے معاشرے کا کو ئی فرزند دریا ئے ہستی میں غوطہ زن ہو کر حقیقت کے درشاہوارکا استخراج اور اسرار حیات کو ان کے لئے فاش کر تا ہے تو اس کا یہ کام ان کی نظروں میں حقیر اور بے قدر و قیمت ہو تا ہے ۔ اکثروبیشتر افراد زبان حال کے ذریعہ اور کبھی کبھی صراحت کے سا تھ یہ کہتے ہو ئے نظر آتے ہیں کہ ہما ری قوم سے کو ئی دا نشور سا منے نہیں آئے گا ، محال ہے کہ ہما رے یہاں بصیر اور آگاہ افراد وجود میں آئیں۔ [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٨١، بحوالۂ نامہ ھا ئے سید جمال الدین ،ص١٦١]
مقام افسوس یہ ہے کہ مسلمان مغربی تمدن کی اس بے چون و چرا پیروی کے با وجود اپنے خود ساختہ مقصد و مراد تک نہ پہنچ سکا بلکہ اسے '' نہ خدا ہی ملانہ وصال صنم'' اس کا حال زار اس کوّے کی مانند ہو گیا جس کے با رے میں یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ '' کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا ''۔ مغربی تمدن کی تقلیدپر نازاں مسلمانوں کو جس قدر ذلت و حقارت کا سا منا کر نا پڑا ہے اگر اس کے بجا ئے اسلامی تعلیمات اور دینی حمیت کو سر مشق زندگی قراردیتے ہو ئے سعی و کو شش میں مصروف ہو جا تے تو آج تہذیب مغرب ایک با ر پھر تہذیب اسلام کی محتا ج ہوتی۔
یقیناً جب تک ہم خود کو حقیر جا نتے ہو ئے مغربی تہذیب کا لو ہا مانتے رہیں گے، کبھی عزت و سر بلندی نصیب نہ ہو گی اور روز بروز دینی آثار اور اسلامی تمدن کو کھو تے چلے جا ئیں گے ۔[ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین ، ص٧٤٣ ]
مغرب زدہ مسلمانوں کی مذمت کر تے ہو ئے علامہ اقبال کہتے ہیں :
ترا و جود سراپا تجلی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو ،زر نگار و بے شمشیر!
[کلیات اقبال ،ضرب کلیم ، ص٣٣]

(ز) استعمار
کسی قوم کے امورمیں دوسری بڑی طاقتوں کی دخالت ، ان کے ذریعہ اس کے قومی و مذہبی سرمایوں کی تباہی اور اس قوم کے افراد کو غلام بنا نے کو ''استعمار'' کہتے ہیں۔
اسلامی ممالک کی ترقی میں ایک خطرناک ما نع استعمار ہے جس سے یہ مملکتیں برسوں سے روبرو ہیں، استعماری عناصر ہمیشہ ا س سلسلہ میں کوشاں رہے ہیں کہ مسلمانوں سے عزت و اقتدارکو سلب کر لیا جا ئے، اور انہیں اپنا غلام بنا کر اسلام کو غلاموں کے دین کی شکل دے دی جا ئے۔اس ہدف تک رسا ئی کی خاطر استعماری طاقتوں نے اسلام و مسلمین کے خلاف مختلف جال بچھا ئے اور بے چا رہ مسلمان بھی دام صیاد میں گرفتار ہو تا چلا گیا۔
اس سلسلہ میں جمال الدین اسد آبادی لکھتے ہیں : آج مسلمان ممالک فریادی ہیں ، ان کے اموال غصب کرلئے گئے ہیں ، ان کی مملکتوں پر اجنبی طاقتوں کا غلبہ اور ان کی ثروت پر بیگانوں کا تصرف ہے ، کو ئی ایسا دن نہیں جس میں اجنبی لوگ اس کی سر زمین کا کو ئی نہ کو ئی حصہ غصب نہ کرتے ہوں اور کو ئی ایسی رات نہیں جس میں مسلمانوں کے کسی ایک فرقہ و گروہ کو اپنی حکومت و اطاعت کے ما تحت نہ لیتے ہوں اور ان کی عزت کی ہتاکی اور ان کے شرف کی پامالی نہ کرتے ہوں ... یہ لوگ کبھی مسلمانوں کو وحشی کا لقب دیتے ہیں تو کبھی قسی القلب اور بے رحم (دہشتگرد) کے نام سے پکار تے ہیں ، انہیں دیوانہ و جا ہل جا نتے ہو ئے سلسلۂ بنی آدم سے خارج کر دیتے ہیں اور ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بد تر سلوک کرتے ہیں۔[ علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٩٣،بحواالۂ مقالات جمالیہ ]
یوں تو مجموعی طور پر مسلمانوں کے انحطاط کے تمام گفتہ و نا گفتہ بہ اسباب میں استعماری سازشوں کا نما یا ں کردار ملتا ہے، لیکن اپنے مقصد میں کامیاب ہو نے کے لئے ان با طل عناصر نے مسلمانوں کو قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات سے دور رکھنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اس لئے کہ وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک اسلامی معاشرے میں اسلامی تعلیمات و قوا نین مقدس شمار کئے جائیں گے اس وقت تک ہمارے ذہنی اہداف عملی جامہ نہیں پہن پائیں گے ۔جیسا کہ بر طا نیہ کے گذشتہ وزیر اعظم ''گلیڈسٹن'' نے قرآن مجید کو اہانت آمیز انداز میں میز پر ما رتے ہو ئے کہا : '' جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے درمیان موجود ہے اس وقت تک مسلم سر زمینوں کا بر طا نوی استعمار کے سا منے سر تسلیم خم کر نا محال ہے''۔[ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین ، ص٤٣٣]
'' ولیم گیفرڈ'' کہتا ہے : جب قرآن اور مکہ ، عر بی اور اسلامی ممالک سے جدا ہو ں گے ےبھی ہم یہ دیکھ پائیں گے کہ مسلمان آہستہ آہستہ ہما ری تہذیب میں ڈھل ر ہے ہیں اور ہمارے مطیع و فر مانبردار بنتے جا رہے ہیں ۔[ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین ، ص٤٣٣ بحوالۂ نقشہ ھا ئی استعمار در راہ مبارزہ با اسلام ،ص٢٢١]
اس با ت میں کو ئی شک نہیں کہ استعما ری سعی و کوشش اسلامی مملکتوں میں کا فی حد تک مو ثر ثا بت ہو چکی ہے اور موجودہ اسلامی معا شرے کے منا ظر و مظاہر اور اس کی دینی تعلیمات اور قرآنی نظام حیات سے اجنبیت اس بات پر واضح دلیل ہے ۔
مقالات کی طرف جائیے