مقالات

 

حج اور اتحاد بین المسلمین؛قسط اول

سید عابد رضا نوشاد رضوی

تمام تعریفیں اس ذات بے ہمتا سے مخصوص ہیں جو کریم ہے اور رحیم ۔جس نے اپنے حبیب محمد(ص) کو مصطفیٰ بنا کر مبعوث بہ ر سالت فرمایا اور ان کے دین کو [ان الدین عند اللہ الاسلام]کی بے نظیر سند سے نوازا ۔یہ سند شرف ،فضیلت، کرامت،عزت ،اخوت اور وحدت کی سند ہے ،جس کے زیر سایہ آکر فرزندان توحید سر فرازی کے ساتھ یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ''ہم مسلمان ہیں ''۔یہ نعرہ وہ قرآنی نعرہ ہے جس کی تعلیم خود خدائے منان نے مسلمانوں کو دی ہے:
[وانّ ھذہ امتکم امةًواحدة وانا ربّکم فاتقون](١)
یہ شعار وہی قرآنی شعار ہے جس کی آغوش عطوفت میں مسلمانوں کی اخوت پروان چڑھی ہے:
[ انما المومنون اخوة](٢)
اگر مسلمانان عالم کے درمیان شمع اخوت و وحدت فروزاں رہے گی، تو یقیناان کے اردگرد پروانہ عزت وکرامت کا طواف ہوگا اور اگر ان کی مختصر سی غفلت کی وجہ سے یہ شمع وحدت بجھی، تو پروانۂ عزت بیگانہ چراغ کی طرف رخ کرلے گا ۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے مسلمانوں کو صدر اسلام میں ہی ہوشیار کر دیا کہ [یا ایھاالذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ ولا تموتنّ الاّوانتم مسلمون واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًولا تفرقوا](٣)
''اے ایمان والو !خدا کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جو اس کے تقوے کا حق ہے اور موت کو گلے نہ لگاو مگر یہ کہ حالت اسلام میںاور خدا کی رسّی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو ''
خدائے واحد، قرآن مجید میں مسلمانوں کی وحدت کے علل واسباب کو اپنی طرف منسوب کر رہا ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کو اس بات سے آگاہ کررہاہے کہ اے رسول!اگر صرف اور صرف آپ یہ چاہتے کہ ان لوگوں کے قلوب میں بذر اتحاد بو دیں، تو تمام وسائل و اسباب اور دولت و ثروت کے باوجود بھی یہ کام آپ کے بس میں نہ تھا:
[والّف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعاًما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الّف بینھم انّہ عزیز حکیم](٤)
''اور ان کے دلوں میں محبت پیدا کر دی ہے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت اور محبت پیدا کر دی ہے کہ وہ ہر شئی پر غالب اور صاحب حکمت ہے''۔
اسی وجہ سے پیغمبر اسلام (ص) نے خداوند عالم کے لطف و کرم کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور امت مسلمہ کے ما بین ایک الہی رابطہ قائم کر دیا ۔
مسلمان بھی اس گرانقدر رابطہ میں خود کو گرہ لگا کر توحید ،نبوت ،معاد،قرآن اور کعبہ کے مشترک عقیدہ پر گامزن ہو گئے، جس کی وجہ سے انکی وحدت شہرہ آفاق بن گئی اور ان کی ہیبت سے مرکز کفر کانپ اٹھا۔

قرآن میں اتحاد کی قسمیں
قرآن مجید نے اتحاد کو چند قسموں میں تقسیم کیا ہے:

(١)امت کا اتحاد
[انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاعبدون](٥)
''بے شک یہ تمہارادین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہذا میری ہی عبادت کیا کرو۔''

(٢)آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کا اتحاد
[ قل یا اھل الکتاب تعالوا لیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم الاّنعبد الاّ اللہ ولا نشرک بہ شیئاً](٦)
''اے پیغمبر! آپ کہہ دیں کہ اہل کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔''

(٣)تمام ادیان کا اتحاد
[شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ أن اقیموا الدین ولاتتفرقوافیہ] (٧)
''اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی اے پیغمبر تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور تفرقہ نہ کرو'' ْ۔

(٤)تمام انسانوں کا اتحاد
[یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثیٰ وجعلنا کم شعوباًو قبائل لتعارفوا](٨)
''اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ ''
ان آیات کے پیش نظر ہمیں یہ یقین کرنا ہو گا کہ سب سے پہلے مرحلہ میں اتحاد بین المسلمین کا فریضہ ہر مسلمان پر واجب ہے یعنی اتحاد اسی وقت مکمل طور پر نمایاں ہو گا جب امت اسلامیہ کی ایک ایک فرد اس فریضۂ مفروضہ پر عمل پیرا ہو۔ اس لئے کہ اتحاد بین المسلمین کا فریضہ واجب کفائی نہیں ہے جو کسی ایک خاص فرد یاگروہ کے عمل کرنے کے ذریعہ ادا ہو جائے یا دوسروں کی گردن سے اس کا وجوب ساقط ہو جائے، بلکہ اتحاد ایک ایسی حقیقت واحدہ ہے جس کے وجوب کے گھیرے میں ہر ایک فرزند توحید شامل ہے۔
اسلامی اتحاد اس عمارت کی مانند ہے جس کی ایک ایک اینٹ اسکے قیام اور ثبات میں حصہ دار ہے اور ہر مخالف اتحاد قول و عمل ،اسلامی بنائے اتحاد سے ایک اینٹ کو نابود کرنے کے مساوی ہے جس کی تکرار اس خوبصورت عمارت کو کسی پرانے کھنڈر میں تبدیل کرکے اسے تاریخ کے کسی سسکتے ہوئے گوشے کا نام دے سکتی ہے ۔

اتحاد کی ضرورت
اتحاد بین المسلمین کیوں ضروری ہے ؟یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے جواب کے لئے نہ کسی دانشور کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور نہ ہی کسی کتب خانے میں جاکر کتابوں کی چھان بین کرنی ہوگی، بلکہ آج کا بے چارہ مسلمان اگر اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالے تو اسے خود بخود اس اہم سوال کا جواب بآسانی حاصل ہو جائے گا ۔
مملکت کفر تو بہت دور کی بات ہے حتی اسلامی مملکت کہے جانے والے ملکوں میں بھی مسلمان بے بس نظر آرہا ہے ۔لیکن ایسا کیوں؟کیوں ایک مسلمان اپنی ہی اسلامی مملکت میں لاچار ہے؟کیوں ایک مسلمان اپنی ہی اسلامی مملکت میں تبعیض، تحقیراور استحصال کا شکار ہے ؟کیوں ایک مسلمان اپنی ہی اسلامی مملکت میں فقیر ونادار ہے جبکہ دوسرے ادیان کے پیرو کاروں کا اقتصاد کافی مضبوط ہے ؟
ان تمام سوالوں کا جواب وہ استکباری نظام ہے جس کے شیطانی شعلوں سے پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام جھلس رہا ہے ۔یہ نظام ایسا ہی ہے جس کا لازمہ مسلمانوں کی تباہی ہے ۔اسلام مخالف عناصر کی مطلق العنان ریشہ دوانیاں دور حاضر میں زندگی بسر کرنے والے کسی شخص سے پوشیدہ نہیںہیں ۔ استکباری طاقتوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے پیکر اسلام کمزور و ناتواں ہوتا چلا جارہا ہے ۔ یہ استکباری نظام جب چاہتا ہے کسی بھی اسلامی ملک پر اقتصادی پابندی عائد کر دیتا ہے ،جب چاہتا ہے اسے جنگ کی دھمکی دے دیتا ہے اور دوسری طرف سے اسلامی ممالک پر اسکی ثقافتی یلغاروں کا سلسلہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے جس کی طرف نہ صرف یہ کہ بیشتر اسلامی ممالک کی کوئی توجہ نہیں ہے بلکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ خود یہی ممالک اس زہریلی یلغار میں دشمنان اسلام کے برابر کے سہیم نظر آتے ہیں لیکن یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دشمنان اسلام کے مذکورہ تمام اسلام مخالف حربے ان کے اس حربے کے سامنے پھیکے دکھائی دیتے ہیں جس کے ذریعہ انہوں نے سالہاسال مختلف ملکوں کو اپنا غلام بنائے رکھاہے اور وہ حربہ یہ نعرہ ہے ''پھوٹ ڈالو حکومت کرو ۔''
اسی نعرہ اور حربہ پر عمل کرنے کی وجہ سے ہی ان کا استکباری نظام دنیا پر آج تک قائم و دائم ہے ۔ اسی نعرہ کے رائج اور نافذ ہونے کی وجہ سے آج کا مسلمان علمی، ثقافتی ،اقتصادی اور اجتماعی میدانوں میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔
لہذا اگر مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے اہم وجہ ان کے درمیان پایا جانے والا اختلاف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پسماندگی کو قبر تاریخ میں دفن کرکے ہمہ جہتی ترقیاتی منزلوں تک پہونچنے کا سب سے بہترین اور پر امید راستہ اتحاد ہے۔
عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت و ضرورت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان خطرات پر مزید نظر ڈالی جائے جو عالم اسلام کو عالم استکبار سے لاحق ہیں۔
خطرات اور استکباری سازشیں
(١)ثقافتی یلغار:
گزشتہ سطور میں اس مہلک حربہ کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے ۔ثقافتی یلغار کے اہم آلات ووسائل درج ذیل ہیں :اخبارات، کتابیں،رسالے،ریڈیو ،ٹیلیویژن،فلمیں اور انٹرنیٹ وغیرہ۔ان تمام وسائل کے ذریعہ دشمن تہذیب کے نام پرفحشیات کی نشر و اشاعت میں مصروف ہے تاکہ قوموں کے اذہان کو انہی لغویات میں مشغول رکھے اور بہ آسودگی خاطر اپنے غیر انسانی اور گھنائو نے سیاسی مقاصد تک رسائی حاصل کر سکے۔ فحش فلموں اور تصاویر کے علاوہ آج نت نئے گیم شوز ،انٹرٹنمنٹ شوز،ٹی وی سریلز اس بات کی واضح دلیلیں ہیں ۔
(٢)علمی یلغار :
مغربی طاقتیں اپنی اخلاقی پسماندگی کے باوجود علم اور ٹکنالوجی کے لحاظ سے مسلسل ترقیاتی منزلوں کو طے کر رہی ہیں جس کی وجہ سے یہ طاقتیں اور حکومتیں دنیائے علم و تمدن کا قبلۂ آمال بنی ہوئی ہیں اور اس کے مقابلے میں ہم مسلمانوں کی پسماندگی اس بات کاباعث بنتی ہے کہ گزشتہ کی طرح آئندہ بھی مغربی طاقتوں کا تسلط ہم پر باقی رہے۔
سید جمال الدین اسد آبادی اسلامی معاشرے میں مغربی تمدن کی اس طرح عکاسی کر تے ہیں : (مسلمان) اپنوں کے ہر اچھے کام کو بری نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے معاشرے کی کسی فرد کے ہر بڑے کام کو چھوٹا شمار کرتے ہیں لیکن جب کو ئی اجنبی بے بنیاد باتیں کرتا ہے تو اس کی با توں کو گراں بہا اور حکمت آمیز جا نتے ہیں ۔ اگر ان کے معاشرے کا کو ئی فرزند دریا ئے ہستی میں غوطہ زن ہو کر حقیقت کے درشاہوارکا استخراج اور اسرار حیات کو ان کے لئے فاش کر تا ہے تو اس کا یہ کام ان کی نظروں میں حقیر اور بے قدر و قیمت ہو تا ہے ۔ اکثروبیشتر زبان حال کے ذریعہ اور کبھی کبھی صراحت کے سا تھ یہ کہتے ہو ئے نظر آتے ہیں کہ ہما ری قوم سے کو ئی دا نشور سا منے نہیں آئے گا ، محال ہے کہ ہما رے یہاں بصیر اور آگاہ افراد وجود میں آئیں ۔(٩)
(٣)عالم اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کا اتحاد:
مغربی ممالک اپنے ما بین موجود ہ تمام اختلافات کے باوجود، مسلمانوں کی تخریب اور غارتگری کی خاطر ہم پیمان ہیں اور وہ ہمیں علمی ،سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے کمزور بنانے پر متحد ہیں ۔
(٤)زمینوں پر قبضہ:دشمنان اسلام اور مغربی طاقتوں نے اسلامی سرزمینوں اور ملکوں پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کر رکھا ہے اور آج تک ان کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔عراق اور فلسطین کی سلگتی سر زمین اور افغانستان کے مسلمانوں کی بے بسی اسی بات کو واضح کر رہی ہے ۔
(٥)اسلام مخالف فرقوں کا ظہور :
ان میں سے بیشتر فرقے دشمنان اسلام کے ناپاک اہداف کے ایجاد کردہ ہیں۔ قادیانیت اور بہائیت جیسے دیگر فرقے دشمنان اسلام کی ناپاک اولادیں ہیں جو مسلمانوں کے درمیان گمراہ کنندہ افکار کی سم افشانی کرتے ہیں اور ایسے ایسے حربوں کا استعمال کرتے ہیں جسکا فریب سب سے پہلے ہمارے جوان کھاتے ہیں ۔
(٦)علماء اور مفکرین اسلام کی غفلت:
غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی اقلیتیں اور بالخصوص ان کے جوان رفتہ رفتہ دینی اقدار اور شریعت و احکام کو فراموشی کے سپرد کرتے جارہے ہیں اور یہ سب کچھ مسلمانوں کی دوسری امتوں کے ساتھ بلا قید وشرط باہمی تعلقات اور علماء و متفکرین اسلام کی غفلت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
(٧)اسلام کو دہشت گرد دین کے نام سے مشہور کرنا :
استکباری نظام اور مغربی طاقتیں اسلام کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کو وجود میں لاتی ہیں اور ان کو جنگی تربیت دینے کے بعد اسلامی ممالک میں بھیج دیتی ہیں پھر انہیں خود ساختہ تنظیموں سے اپنے ملک پر حملہ کرواتی ہیں تاکہ اسلام اور دہشت گردی کو لازم و ملزوم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور ساتھ ہی اسلامی ملک پر حملہ آور ہو نے کا بہانہ تلاش کر سکیں۔
(٨)دنیائے عرب اور عالم اسلام کے خلاف یہودیہں کا قیام :
مغربی طاقتوں اور استکباری نظام نے عالم اسلام پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے ایک اہم اور خطرناک طریقہ یہ اپنا رکھا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف قوم یہود کو اکسایا جائے اور جب انکے درمیان سیاسی ،اجتماعی، اخلاقی و اقتصادی جنگ اپنے عروج پر پہنچ جائے تو پھر ثالثی کے لئے آگے آئیں اور اسی ثالثی کے ذریعہ دونوں پر اپنا نہ ختم ہونے والا تسلط قائم رکھ سکیں ۔
(٩)اسلامی قیادت کو خدشہ دار کرنا : اسلامی قیادت کوخود مسلمانوں کی نظر میں بے دست و پا اور انتہائی کمزور دکھا کر اپنے پٹھووں کو عالم اسلام پر مسلظ کرنا بھی مغربی طاقتوں کی خطرناک سازش ہے۔عصر حاضر میں بیشتر اسلامی ممالک میں ان پٹھووں کو سریر قیادت پر بیٹھا ہوادیکھا جا سکتا ہے،جنہیں وقت کے بو جہلوں کی دادو تحسین، محمد کی بشارتوں سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔
(١٠)اسلامی تعلیمی مراکز کی بساط الٹ دینا:
مسلمانوں کے تعلیمی مراکز کے درمیان پھوٹ ڈالی جا رہی ہے،دینی تعلیمی اداروں اور مسلمانوں کے دیگر تعلیمی مراکز کے بیچ حد فاصل کھینچی جا رہی ہے صرف اس خوف سے کہ کہیں ان دونوں کے اتحاد سے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی علمی شان و شوکت واپس نہ پلٹ آئے۔نہ صرف یہ کے ان تعلیمی اداروں کے عدم اتحاد کے لئے سازشیں رچی جا رہی ہیں بلکہ علٰیحدہ طور پر بھی ہر ایک ادارے کے اعتبار کو ساقط کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔
(١١)اسلامی اقتصاد پر حملہ :
عصر حاضر میں اسلامی ممالک کے درمیان ایک متحدہ اقتصادی نظام کے قیام کی اہمیت و ضرورت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔مگر افسوس کہ اب تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا ہے اور اسکی سب سے بڑی وجہ وہ سرمایہ دارانہ نظا م ہے جو مغرب نے اسلامی ممالک پر بھی تھوپ رکھا ہے،جبکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو اپنا مخصوص بینکنگ سسٹم بھی رکھتا ہے ۔اگر اسلامک بینکنگ سسٹم دنیا پر حکومت کرے تو پھر کسی ملک کو اقتصادی بحران کا شکار نہیں ہو نا پڑیگا ۔
مغربی عناصر نے اقتصادی قراردادوں اور اپنے بینکنگ سسٹم کے ذریعہ اسلامی ممالک کے اقتصادی استقلال پر اپنی من مانیوں کا پہرہ بٹھا دیا ہے۔
(١٢) اسلامی ممالک کو قوت افرادی سے تہی کر دینا:
موجودہ دور میں یہ بات بخوبی قابل مشاہدہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر اسلامی ممالک کے مختلف علوم و فنون میں ماہر اور متخصص افراد گوناگوں طریقوں سے اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں جسکی وجہ سے خود ان ممالک کی پیشرفت ماند پڑ جاتی ہے۔
(١٣)اسلامی ممالک کی فوجوں کو اپنا محتاج بنائے رکھنا:
مغربی طاقتوں کا ایک اہم حربہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمان فوجوں کو اسلحے کی فراہمی اور جنگی تربیت دینے کے بہانے ،استعماری فوج کا محتاج بنا رکھا ہے ،جسکی وجہ سے وہ مسلمان فوجوں کی کمیت و کیفیت اور اسرار و رموز سے بھی بخوبی آشنا ہیں ،عین ممکن ہے کہ انکی یہ آشنائی خود اسلامی مملکت کے سربراہوں سے بھی زیادہ ہو۔
(١٤) اسلامی ممالک میں مغربی فوجوں کی چھائونی :اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں اپنی فوجی چھائونی کے تقرر میں کامیاب ہو جائے تو پھر اس ملک کو مسخر کرنے کے لئے اسے الگ سے کسی زحمت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔آج مختلف اسلامی ممالک میں اسلام دشمن طاقتیں کہیں امریکہ و برطانیہ کی فوج کی شکل میں حاضر ہیں تو کہیں u.n.o کے لشکر کا روپ دھارکر موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ جب دشمن کی فوج ان سربراہان مملکت کے بیڈ روم تک موجود ہو تو پھر ان میں اتنادم کہاں کہ اپنے آقائوں کی طرف ٹیڑھی نظر سے بھی دیکھ سکیں !

حوالے :
(١)سورۂ مومنون٥٢ ،
(٢) سورہ ٔ حجرات ١٠
(٣)سورۂ آل عمران ١٠٢،١٠٣
(٤)سورۂ انفال٣٦
(٥)سورہ ٔانبیائ٩٢
(٦)سورۂ آل عمران ٦٤
(٧)سورۂ شوریٰ ١٣
٨)سور ۂ حجرات١٣
(٩) ۔ علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٨١، بحوالۂ نامہ ھا ئے سید جمال الدین ،ص١٦١سورۂ حجرات٩
مقالات کی طرف جائیے