|
آیۂ صیام کے اہم ترین پیغامات |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
اسلام ایک مکمل اور تا قیام قیامت باقی رہنے والا دین ہے ، اس کے دستورات آفاقی اور ہمہ گیر ہیں ، اس نے زندگی کے ہر شعبے کے لئے بہترین قانون مرتب کیاہے تاکہ اس پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوسکے ۔ روزہ بھی اسلام کا ایک بہترین دستور اور قانون ہے ۔ اسلام کا یہ آفاقی دستور انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک کردیتاہے ۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے جسے اپنی بقاء کے لئے غذا اور دوسری مادی لوازمات فراہم کرنا پڑتے ہیں جب کہ روح ایک لطیف چیز ہے جس کی بالیدگی اور نشو و نما مادی ضروریات اور دنیاوی لذات ترک کردینے میں مضمر ہے ۔ جسم اور روح کے تقاضے ایک دوسرے سے متضاد ہیں ، روزہ جسم کو اپنا پابند اور منقاد بنا کر مادی قوتوں کو لگام دیتاہے جس سے روح لطیف اور قوی ہوتی چلی جاتی ہے ، جوں جوں روزے کی بدولت بندہ خواہشات نفسانی کے چنگل سے آزادی اور کامیابی حاصل کرتاہے اس کی روح غالب وتوانا اور جسم مغلوب و نحیف ہوتا جاتاہے ۔ روح اور جسم کا تعلق پرندے اور قفس کا سا ہے جیسے ہی قفس جسم کا کوئی گوشہ وا ہوتاہے روح کا پرندہ مائل بہ پرواز ہوکر موقع پاتے ہی جسم کی بندشوں سے آزاد ہوجاتاہے ۔ مسلسل روزے کے عمل سے تزکیہ نفس کا عمل تیز ہونے لگتاہے جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہوکر پہلے سے کہیں زیادہ لطیف اور قوی ہوتی جاتی ہے ۔ خداوندعالم نے روزہ کے ہمہ گیر فوائد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ابد آثار کتاب '' قرآن مجید '' میں روزہ کا خصوصی تذکرہ کیا ہے؛قرآن کا ارشاد ہے :''اے ایمان والو!تمہارے اوپر روزہ اسی طرح لکھ دیاگیاہے ( واجب قرار دیاگیاہے ) جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر واجب کیاگیاتھا تاکہ تم تقوی اختیار کرسکو''۔(١) خداوندعالم نے اس مختصر سی آیت میں روزہ کی تمام تر تفصیلات بیان کردی ہے ، جس کی تفسیر و تفصیل پر روشنی ڈالنے کے لئے متعدد صفحات کی ضرورت ہے ، یہاں صرف اس آیۂ مبارکہ کے اہم ترین پیغامات و نکات کو مختصر طور پر بیان کیاجارہا ہے: ١۔ آیت کی ابتدا میں تمام لوگوں کو بہترین اور حسین انداز میں مخاطب کیا گیاہے ،نفسیاتی اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ حسین اور خوبصورت انداز میں خطاب کرکے جب کوئی پیغام دیاجاتاہے تو پیغام انتہائی بااثر اور قابل قدر ہوجاتاہے۔روزہ کے اہم ترین پیغام کو پہونچانے میںبھی خداوندعالم نے بہترین انداز خطاب اختیار فرمایا ہے ،چنانچہ روایتوں میں ہے کہ (یا ایھا الذین آمنوا )کا لذت بخش خطاب روزہ کی زحمت و سختی کو آسان کردیتاہے ، اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کی نصیحتوں پر توجہ دے تو اللہ کے لہجے کی تاسی کرتے ہوئے وہ بھی اپنی اولاد کو خوبصورت اور پیار بھرے لہجے میں مخاطب کریں ۔(٢) ٢۔ اس آیۂ مبارکہ میں تمام انسانوں کے بجائے صرف صاحبان ایمان کو مخاطب بنایاگیاہے تاکہ سننے والے کو یہ احساس ہوکہ خداوندعالم نے مجھے عام انسانوں سے ممتاز بنا کر صاحب ایمان کا درجہ دیاہے تو میرا کردار بھی عام انسانوں سے بلند تر ہونا چاہئے اور مجھے وہ تمام زحمتیں برداشت کرنا چاہئے جنہیں عام انسان برداشت نہیں کر پاتے ۔ ٣۔ اس آیت میں '' کُتِبَ '' مجہول ''کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے ، حالانکہ لکھنے والا اور فریضہ عائد کرنے والا خداوندعالم ہے۔ رحیم و کریم خالق نے مجہول کا صیغہ اس لئے استعمال کیا کیونکہ اس کی رحمت اس بات کو گوارا نہیں کر رہی تھی کہ وہ مشقت آمیز عمل کو براہ راست اپنی طرف منسوب کرے اور نادان انسان اس کی رحمت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ورنہ جہاں جہاں رحمت کا تذکرہ ہوا ہے وہاں اس نے بات کو براہ راست اپنی طرف منسوب کیاہے اور کتابت ہی کے لئے لہجہ میں تذکرہ کیاہے ۔ ٤۔ تبلیغ کی ایک روش یہ ہے کہ سخت کاموں کو آسان بناکر پیش کیا جائے ، آیۂ صیام میں بھی روزے کی سختی کے احساس کو یہ کہہ کر کم کیاگیاہے کہ یہ روزے فقط تمہا رے اوپر فرض نہیں کئے گئے بلکہ تم سے پہلے والے لوگوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے ۔ ٥۔ گزشتہ امتوں کا حوالہ اس لئے بھی دیاگیا تاکہ انسان ذہنی طور پر مطمئن رہے کہ اس کے لئے کوئی خاص مصیبت نہیں ہے بلکہ سابق امتیں اس سے بہتر بندگی کا مظاہرہ کر چکی ہیں حالانکہ روزہ کا قانون اس امت سے زیادہ مشکل تر تھا اور بعض حالات میں تو بات کرنا بھی ممنوع تھا جیسا کہ جناب مریم علیہا السلام نے قوم سے کہا تھا کہ میں نے روزہ کی نذر کی ہے لہذا میں بات نہیں کرسکتی ہوں ، خود شریعت اسلام میں ابتدائی طورپر روزہ کا یہ قانون تھا کہ اگر انسان افطار کے بعد سو گیا تو روزہ کا سلسلہ شروع ہوجاتاتھا چاہے ابھی سحر کا وقت نہ آیاہو ۔ چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر جب دن میں خندق کھودنے کا کام انجام پارہاتھا ، ایک مرد مسلمان رات کو تھک کر جلدی سو گیا اور اب جو اٹھا تو کھانا پینا ممنوع ہوچکاتھا نتیجہ یہ ہوا کہ اسی عام میں صبح کی اور حسب قاعدہ خندق کھودنے میں مصروف ہوگیا ، گرمی کا زمانہ پیاس کی شدت ، حالات کی تاب نہ لاکر بیہوش ہوگیا تو آیت نازل ہوئی :''اس وقت تک کھاسکتے ہو جب تک فجر کے آثار نمودار نہ ہوجائیں ''۔ ظاہر ہے جب کل کا مسلمان ایسے روزہ رکھ کر اس طرح مشقت برداشت کرسکتاتھا تو آج کا مسلمان اس راحت و آرام کے دور میں کیوں نہیں رکھ سکتا لیکن اس اطمینان قلب کے لئے دور سابق کا حوالہ ضروری چنانچہ قرآن کریم نے یہی کام انجام دیاہے اور صاف اعلان کردیاہے کہ تم پر اسی طرح روزے واجب کئے گئے ہیں جس طرح سابق امتوں پر واجب کئے تھے ۔ ٦۔ اس آیت میں تبلیغ کو موثر بنانے کے بہترین طریقہ کی نشاندہی کی گئی ہے اس لئے کہ تبلیغ کو موثر بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ حکم اور عمل کے ساتھ ساتھ اس کے نتیجہ کا بھی اعلان کیاجائے چونکہ جب لوگ کسی قانون و عمل کے اثر و نتیجہ سے واقف ہوجاتے ہیں تو اسے جوش و خروش اور بہت دلچسپی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ۔ اس آیت میں یہی کام انجام دیاگیا ہے ، چنانچہ خداوندعالم نے (لعکم تتقون )کہہ کر روزہ کے اثر و نتیجہ کی وضاحت کی ہے ۔ ٧۔دوسرے احکامات کی طرح اس آیت میں بھی روزہ کا حکم دیتے ہوئے عام لہجہ اختیار کیاگیاہے اور مالدار و فقیر سب کو مخاطب قرار دے کر یہ بتایاہے کہ خداوندعالم کی نظر میں سب مساوی ہیں اور یکساں طور پر اس کے مہمان ہیں۔ حدیث میں بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے ، چنانچہ امام جعفر صادق کا ارشاد ہے : روزہ کو خدا نے بس اس لئے واجب کیا ہے تاکہ مالدار ، فقیر و نادار مساوی ہوجائیں کیونکہ اگر روزہ نہ ہو تو مالدار بھوک کا مزہ نہیں چکھ سکتا ۔ دوسرا یہ کہ اس کے احساسات بیدار ہوں اور وہ فقیروں کو کھانا کھلائے کیونکہ ثروت مند جو چاہتا ہے وہ اس کے لئے فراہم ہوجاتاہے ، خدانے چاہا کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور امیر بھوک کا مزہ چکھیں تاکہ وہ کمزور لوگوں پر ترس کھائیں اور بھوکے پر رحم کریں۔(٣) ٨۔ تقویٰ، ظاہر و باطن اور جلو ت و خلوت میں اللہ سے ڈرنے کا نام ہے اور روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں خفا اور پوشیدگی پائی جاتی ہے ، کسی کو دکھائی نہیں دیتی ، روزہ میں اغنیاء ، فقراء کے ساتھ بھوک کے درد سے آشنا ہوتے ہیں ، روزہ انسان کے ارادے اور عزم و ہمت کو قوی کرتاہے ، جو ایک مہینہ تک پانی، روٹی اور اپنے جیون ساتھی سے دوری کو برداشت کرنے کی قدرت رکھتاہے ، وہ اس بات پر بھی قادر ہوجاتا ہے کہ دوسرے کے آب و غذا اور ناموس کے مقابلہ میں اپنے کو کنٹرول کر سکے ۔ روزہ استعمالات میں اعتدال پیدا کرتاہے اور انسان کو صبر و تحمل کا عادی بناتا ہے ، پیغمبر اسلام ۖ نے فرمایا ہے : روزہ نصف صبر ہے۔(٤) روزہ عام لوگوں کے لئے وہی آب و غذا اور جیون ساتھی کی قربت سے پر ہیز کرنا ہے ۔ البتہ خواص کے لئے مفطلات روزہ سے پرہیز کے ساتھ ساتھ تمام گناہوں سے محفوظ رہنا ہے لیکن خاص الخاص افراد کا روزہ یہ ہے کہ مبطلات صوم اور تمام گناہوں سے مکمل پرہیز کے ساتھ اپنے دل کو غیر خدا کی یاد سے بالکل خالی رکھتے ہیں اور ان کے قلب و روح پر ہر لمحہ فقط '' یاد خدا'' کا قبضہ ہوتاہے ۔(٥) ٩۔ ( لعلکم تتقون)کہہ کر روزے کا صرف ایک فائدہ بیان کیاگیاہے ، وہ یہ کہ روزہ سے تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے ۔ لیکن یہ بات پیش نظر رکھنا چاہئے کہ یہاں لفظ تقویٰ عام ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے یعنی تقویٰ نفس میں ، کردار میں ، احساس و جذبات میں ، انفرادی سطح پر ، اجتماعی سطح پر ...غرض روزے کی برکات ہمہ جہت ہیں اس لئے کہ جب تقویٰ کو بطور عام بیان کیاگیاہے تو اس کا مطلب یہ کہ روزہ کے فوائد بھی عام ہیں ، اگر انسان غور و فکر کرے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح تقویٰ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اسی کے تناسب سے روزہ کے فوائد بھی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہیں۔ ١٠۔روزہ کے نتیجہ میں انسان کو دولت تقویٰ نصیب ہوتی ہے اور دولت تقویٰ انسان کو غضب و شہوت جیسی کثافتوں سے دور رکھتی ہے ، اکثر گناہ انسان سے غضب و شہوت جیسی کثافتوں کی وجہ سے انجام پا تے ہیں ۔ روزہ اور تقویٰ انہیں دو کثافتوں کے زور کو گھٹا تا ہے اور اگر روزہ دار باقاعدہ اور کماحقہ عمل روزہ کو انجام دے تو پھر یہ دونوں آسانی سے مغلوب ہوجاتی ہیں اور پھر انسان اپنے حقیقی کمال کو پالیتاہے ۔ آخر کلام میں اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ماہ رمضان کا مکمل احترام و اکرام کرنے کی توفیق دے اور روزہ کے تمام مادی و معنوی منافع سے بہرہ مند فرمائے آمین ۔
حوالہ جات ١۔ بقرہ ١٨٣ ٢۔ تفسیر مجمع البیان نقل از تفسیر نور جلد ١ ص٢٨٤ ٣۔ مہجة البیضاء ج٢ ص ٣٢١ ٤۔تفسیر المنار ٥۔ تفسیر البیان
|
مقالات کی طرف جائیے |
|