مقالات

 

علامہ میر حامد حسین ہندی مرحوم اور ان کے کارنامے

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

اجمالی تعارف :
نام : سیدمہدی،کنیت: ابوالظفر، معروف بہ سیدحامدحسین،ولادت: ۱۲۴۶؁ہجری، وفات :۱۳۰۶؁ہجری۔
میرحامدحسین اہل تحقیق اور صاحب نظرعالم تھے،آپ کوعلماء سلف کی تالیفات اوراخباروروایات پر تسلط حاصل تھا اوراس فن میں خاص شہرت رکھتے تھے ،انھوں نے معقولات ومنقولات کی تعلیم کے بعد اپنی عمرکواسلامی مباحث اوردینی اعتقادات کی ترویج و اشاعت اور اسلامی اقدار کو عام کرنے میں صرف کی ،نیز اسلامی فلسفہ وسیاست کو عام کیا،اس سلسلے میں ان کی تالیفات انتہائی قابل قدر ہیں ، انھوں نے عبقات کومذہب تشیع اوراسلامی فلسفہ وسیاست کے دفاع میں اس طرح لکھاکہ اس کی وجہ سے حق کا بول بالا ہوگیا اور پورے ہندوستان میں شیعیت کی ترویج و اشاعت ہوئی،اس عظیم کتاب کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے مذہب حقہ کو قبول کیا۔
بافضیلت خاندان:
علامہ میرحامدحسین موسوی سادات میں سے ہیں ،ستائیس واسطوں سے آپ کا سلسلہ نسب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام تک پہونچتا ہے ،آپ کے آباءواجداکا شمار اہل علم اور صاحبان زہدوفضیلت میں ہوتاتھا ۔(۱)
قابل ذکربات یہ ہے کہ یہ خاندان ایرانی الاصل اورنیشاپورکا رہنے والا تھا،ساتویں صدی میں میرحامدحسین کے پندرہویں دادا سیداوحدالدین مغلوں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے ہندوستان ہجرت کرگئے اورشہرکنتورمیں مقیم ہوگئے۔(۲)
میرحامدحسین کے دادا سیدمحمدحسین (متوفیٰ ۱۲۸۸ ؁ھ) برجستہ فقیہ اورزہدوعبادت میں بے نظیرتھے، کہتے ہیں کہ جب وہ بلوغ کوپہونچے تو ان کی مستحبی نمازیں بھی ترک نہیں ہوتی تھیں ، کچھ کرامتیں بھی ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔وہ خوش خطی میں بھی بے مثال تھے ، آج بھی ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے جیسے قرآن، حق الیقین (علامہ مجلسی)، تحفۃ الزائر(علامہ مجلسی)،اورجامع عباسی(شیخ بہائی)وغیرہ ناصریہ لائبریری لکھنو میں موجودہیں۔ (۳)
علامہ سیدمحمدقلی (متوفیٰ۱۲۶۰ھ؁ )میرحامدحسین کے والدمحترم ،تیرہویں صدی کے برجستہ علماء میں سے تھے اورعلم کلام میں صاحب نظرتھے، انہوں نے کچھ برسوں تک شہرمیرٹھ میں قضاوت وفتویٰ کے فرائض انجام دئے، اوروہاں"عدالت علویہ"،" احکام قضاوت افتاء" اورشرائط قاضی ومفتی جیسے موضوع پر کتابیں تحریر کیں ،ان کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں یادگارکے طورپر موجود ہیں ۔ (۴)

ولادت اورتربیت:
علامہ میرحامدحسین ہندی۱۲۴۶ھ؁کو شہرمیرٹھ میں پیداہوئے، ان کااصلی نام سید مہدی تھالیکن میرحامدحسین کے نام سے معروف ہوئے جس کاسبب یہ ہے کہ آپ کے والدمحترم نے آپ کے ولادت کی خبرپانے سے پہلے خواب میں اپنے داد‘‘سیدحامدحسین’’کودیکھا، اسی سبب سے اپنے بیٹے مہدی کا نام"میرحامدحسین"رکھ دیا ، جب میرحامدحسین سات سال کے ہوئے تو آپ کے والدنے مکتب بھیجا، جب انھوں نے مقدمات اورابتدائی دروس کوتمام کرلیاتوبلندوبالامراحل میں داخل ہوئے،جہاں انھوں نے مقامات حریری اوردیوان متنبی، مولوی سیدبرکت علی صاحب سے پڑھی ، اورنہج البلاغہ کومفتی سیدعباس شوشتری سے کسب فیض کیا، اس کے بعدعلوم عقلی کے لئے خلاصۃ العلماء سیدمرتضیٰ کے سامنے زانوتلمذتہہ کیا، اورعلوم شرعیہ کوسیدمحمدسلطان العلماء اورانکے بھائی سیدحسین سیدالعلماء سے حاصل کیا، اس طرح آپ نے مدتوں طاقت فرساتلاش وکوشش کے بعداپنے علمی مراحل کوکامیابی وکامرانی کے ساتھ طے کیا۔

آثار اور کارنامے:
میرحامدحسین کے زمانے میں اسلامی معاشرے خاص طور سے ہندوستانی معاشرہ فتنہ و فساد کا محور بنا ہواتھا، استعماری طاقتیں اوراسلام کے مخالفین مسلسل اپنے باطل اورناپاک اارادوں کوپایہ تکمیل تک پہونچانے کی کوشش کررہے تھے ، وہ چاہتے تھے کہ مسلمان کبھی بھی متحدنہ ہوں اورہمیشہ آپس میں اختلاف کے شکار رہیں ، اسی وجہ سے ایسے لوگوں کومسلمانوں کے درمیان عالم کی شکل میں لاتے رہے جواپنی تحریروں اورتقریروں کے ذریعہ معاشرے میں فتنہ و فساد کا ماحول بناتے تھے اورلوگوں کی اتحاد آمیز زندگی کو آپسی رنجس ودشمنی میں تبدیل کرتے تھے۔
میرحامدحسین کے والدعلامہ سیدمحمدقلی نے اپنی عمرکابیشترحصہ ان شبہات اورتہمتوں کاجواب دینے میں گزاراجنہیں اسلام دشمن طاقتیں بعض علماء اہل سنت کے ذریعہ شیعوں اورمکتب اہل بیت علیہم السلام سے منسوب کرتی تھیں، اپنے والد کے انتقال کے بعدیہ تمام ذمہ داری انکے صالح ولائق بیٹے میرحامدحسین ہندی کے اوپرآن پڑی، جب میرحامدحسین صاحب نے دیکھا کہ کیسی کیسی بے بنیاداورواہیات تہمتیں مذہب تشیع پر لگائی جارہی ہیں جن سے شیعہ قطعی مبرہ ہیں تو انہوں نےنے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان تہمتوں کا جواب دینے کا ارادہ کیا لہذاتدبروتفکرکے ساتھ اسلامی حقائق اورتاریخ اسلام کے واقعات کوحق کے دفاع کے لئے اوران تمام نارواتہمتوں کاجواب دینے کے لئے تحریری میدان میں قدم رکھا جودشمنان اسلام نے شیعوں پرلگائی تھیں۔
ان کی پہلی کاوش اپنے والدبزرگوارکی بعض کتابوں کی تصحیح وتنظیم اورتحقیق تھی۔(۵) کیونکہ ان کے پدربزگوارکی اکژکتابیں مذہب تشیع کے دفاع اوربے بنیادتہمتوں اورغلط اعتراضات کی ردمیں تھی، لہذاضرورت تھی کہ فرزندارجمندان کے آثارکی تصحیح وتنظیم کوانجام دیں اوران کی نشرو اشاعت کریں ۔
میرحامدحسین نے اپنی عمرکاایک طویل وقیمتی حصہ اسی راہ میں گزاردیا اوراس طرح دنیائےتشیع کے لئے گرانقدر خدمت انجام دی۔ انہوں نے جو کتابیں تحریر کی ہیں ان ذیل میں تذکرہ کیاجارہاہے:
• استقصاء الافحام: دس جلدوں پرمشتمل ہے اورفارسی زبان میں ہے، مولف نے اپنی اس کتاب میں قرآن مجید کے بعض نکات ،حضرت مہدی(عج)،بعض علماء اہل سنت کےحالات زندگی اور اصول وفروع دین کوبیان کیا۔ در اصل یہ کتاب "منتھی الکلام" کاجواب ہے جس کوحیدرعلی فیض آبادی حنفی نے تحریرکیاہے جس میں شیعوں کے سلسلےسے بے بنیاد شبہات تحریر کیے تھے ۔(۶)
• شوارق النصوص: پانچ جلدوں پرمشتمل ہے جس کاموضوع علم کلام ہے۔
• افحام اھل المین: یہ بھی ازالۃ العین کاجواب ہے جوحیدرعلی فیض آبادی حنفی کی تالیف ہے۔
• اسفارالانوار:یہ حج وکربلاکاسفرنامہ ہے۔
• کشف المعضلات فی حل المشکلات۔
• العضب البتارفی مبحث آیۃ الغار۔
• النجم الثاقب فی مسألۃ الحاجب : اس کاموضوع ارث ہے اوریہ فقہی کتاب ہے۔
• الدرالسنیہ فی المکاتیب والمنشات العربیہ۔
• زین الوسائل الی تحقیق المسائل: فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ دوسرے موضوعات پرمشتمل ہے۔
• الدرایع: شرح شرائع محقق حلیؒ ہے۔(۷)
• عبقات الانوارفی مناقب الائمۃ الاطھار؛

عبقات الانوار
عبقات الانوارفی مناقب الائمہ الاطھار، علامہ میرحامدحسین کی گرانقدر اور عظیم کتاب ہے،جو شیعوں کا علمی واعتقادی شاہکار شمارہوتاہے، مؤلف نے اس عظیم ،بے مثال اورحیرت انگیزکتاب کوائمہ اطہارؑ کے فضائل ومناقب اور(تحفہ اثناعشری) کے جواب میں لکھا جوشیعوں کی ضدمیں لکھی گئی تھی۔

عبقات الانوراکی تالیف کامقصد
"کتاب تحفہ اثناعشریہ" یعنی بارہ امامی شیعوں کے لئے ہدیہ ،شیعوں کے عقیدہ کو مجروح کرنے والی کتاب ، جس کومولوی عبدالعزیزدہلوی (متوفیٰ ۱۲۳۹)نے لکھا تھا ، اس کتاب کا مولف سراج الہند"ہندوستان کا چراغ "کے لقب سے مشہور تھا ۔
لیکن کیساتحفہ اورکیساہدیہ؟ موصوف جب کہ برصغیر میں اہل سنت کے برجستہ وفاضل عالموں میں سے تھے پھر بھی قرآن مجیدکی وحدت بخش آیتوں پرتوجہ دیئے بغیراوررسول اسلامؐ کی گزارشات کوملحوظ خاطرلائے بغیرشیعوں کے عقایدوافکار، اصول وفروع، اخلاق وآداب اوران کے تمام اعتقادات اوراعمال کومجروح کیااورایسے الفاظ وکلمات استعمال کیے جوایک عالم دین کی شان کے خلاف ہے اورایسی مذموم روش اپنائی ہے جوآداب مناظرہ کے قطعی بر خلاف ہے۔
یہ کتاب افتراپردازی اورجعلی تہمتوں سے پرہے جواسلامی تفرقہ کاباعث بنی اس کتاب نے اسلامی بھائی چارہ کوکینہ ونفرت میں بدل ڈالا، اورمحراب ومسجدکی پاکیزگی، ماہ مبارک رمضان اورعاشورہ کی عظمتوں کومجروح کیا۔(۸)

عبقات الانوارکا خاکہ
عبقات الانوار(۹) دو حصوں پر مشتمل ہے اور ہر حصہ چندجلدوں پرمشتمل ہے:
پہلی حصہ: قرآن مجیدکی وہ آیتیں جوامامت پردلالت کرتی ہیں اس کوثابت کیاہے جیسے آیہ ‘‘ انماولیکم اللہ ورسولہ۔۔۔’’ (مائدہ ؍۵۵) اورآیہ ‘‘الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔’’(مائدہ،۳) ان آیات کے علاوہ اوردوسری بہت سی آیتیں جواہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی امامت وولایت پردلالت کرتی ہیں، ان تمام آیات کاعلمی وتحقیقی اندازمیں تجزیہ و تحلیل کیاہے ، کہاجاتاہے کہ یہ جلدیں ابھی تک شایع نہیں ہویی ہیں اورصاحب کتاب کے عظیم کتابخانہ میں موجودہے، جوشہرلکھنؤ میں ہے۔
دوسرا حصہ: ان بارہ حدیثوں کے بارے میں ہے جن کا عبدالعزیزدہلوی نے اپنی کتاب تحفہ اثناعشریہ میں سند و تواتر کے اعتبار سے انکارکیاہے یااس پربے وجہ اشکال کیاہے، یہ کتاب اسی نہج کومدنظررکھتے ہوئے تالیف کی گئی ہے اوروہ تیس جلدوں پرمشتمل ہے جس کی بارہ جلدیں ہندوستان وایران میں شایع ہوچکی ہیں ، ان بارہ حدیثوں کومستقل طورپرالگ الگ اورمستقل جلدوں میں تالیف کیاہے۔اوراس کی بعض جلدیں متعددبارقدیمی وجدیدطرزشایع ہوچکی ہیں جواس طرح ہے:
جلداول: حدیث غدیرکے بارے میں ۔
جلددوم: حدیث منزلت کے بارے میں ۔
جلدسوم: حدیث ولایت کے بارے میں۔
جلدچہارم: حدیث طیرکے بارے میں۔
جلدپنجم: حدیث‘‘ انامدینۃ العلم وعلی بابھا’’ کے سلسلے میں۔
جلدششم: حدیث تشبیہ کے بارے میں۔
جلدہفتم: حدیث ‘‘ من ناصب علیافخلافۃ فھوکافر’’کے بارے میں۔
جلدہشتم: حدیث نور‘‘کنت واناوعلی نور۔۔۔’’ کے بارے میں۔
جلدنہم: حدیث ‘‘رایت’’ کے بارے میں۔
جلددہم: حدیث ‘‘انک تقاتل علی تاویل القرآن۔۔۔’’ کے بارے میں۔
جلدیازدہم: حدیث ‘‘ الحق مع علی۔۔۔’’ کے بارے میں۔
جلددوازدہم: حدیث ثقلین کے بارے میں۔

عبقات الانوار؛علماء کی نگاہ میں
• شیعوں کے بزرگ عالم دین علامہ شیخ عبدالحسنی امینی ؒ، صاحب کتاب الغدیر، عبقات الانوارکے بارے میں رقم طرازہیں : اس کتاب کی دل پذیرخوشبوتمام دنیامیں پھیلی ہوئی ہے اوراس کی عظمت وشوکت مشرق ومغرب کواپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، جس نے بھی اس کتاب کودیکھاوہ سمجھ گیاکہ یہ کتاب معجزنماہے جس میں کسی بھی طرح باطل کا گزر نہیں ، اورمیں نے الغدیرلکھتے وقت اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیاہے ۔(۱۰)
• علامہ شیخ آقابزرگ تہرانی ؒ، میرحامدحسینؒ کی تالیفات بالخصوص عبقات کے بارے میں لکھتے ہیں :
میرحامدحسین کی یہ عظیم ومفیدکتاب، بڑی باریک بینی اوردقت نظروتحقیق کی حامل ہے،علامہ کی اہم ترین اورمشہورترین تالیف ‘‘عبقات الانوار’’جومناقب ائمہ اطہارؑ کے بارے میں ہے، اس میں امامت کے سلسلے میں ان حقائق و معارف کو اہل سنت ہی کی احادیث وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے ثابت کیاہے جن کادہلوی نے انکارکیاتھا ۔(۱۱)
• امام خمینیؒ:( ۱۳۲۰؁ش۔،۱۳۶۳؁ھ )آپ نے اس وقت فرمایا جب اس کی تمام جلدیں شائع نہیں ہوئی تھیں):آپ حدیث غدیرکی بحث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حدیث غدیرکے سلسلے میں اگرکوئی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ عبقات الانوارکی طرف رجوع کرے، سیدبزرگوارمیرحامدحسین ہندی جنھوں نے چارجلدیں حدیث غدیرکے بارے میں تالیف کی ہیں، ایسی کتاب ابھی تک تصنیف وتالیف نہیں ہوئی ہے، اورجیسا کہ عبقات الانوارجوامامت کے بارے میں تالیف کی ہے ہم نے سناہے کہ تیس جلدوں پرمشتمل ہے اورجوہم نے دیکھاوہ سات یاآٹھ جلدہے ،شایدایران میں پندرجلددستیاب ہو سکے۔اہل سنت اس کتاب کوجمع کرنے اوراس کوضائع کرنے میں جٹے ہوئے ہیں اورہم شیعہ حضرات خواب غفلت میں پڑے ہیں لہذاقبل اس کے کہ ایساقیمتی سرمایہ بربادہوجائے کہ ابھی دوسال ہوا(دوسال قبل از۱۳۶۳؁ھ)ہم نے شیعہ حضرات کوپیشنہاددی کہ اس کتاب کودوبارہ شائع کرائیں لیکن جواب سکوت کے علاوہ کچھ نہ ملا۔بہرحال خدا سے فضل و کرم سے حدیث غدیر سے مربوط جلد زیر طبع ہے ۔(۱۲) لیکن خاص طورسے شیعہ علماء اوردوسرے طبقوں پرلازم وضروری ہے کہ اس کتاب کی طباعت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں جومذہب حق پربزرگ ترین حجت ہے۔
• استادمحإدرضاحکیمیؒ: عبقات الانوارکے بارے میں لکھتے ہیں: واقعاعبقات بڑی عظیم کتاب ہے اوراقیانوس بحربیکراں اوربحرعمیق کتاب ہے، اس طرح کی کتاب کی نظیرابھی تک کسی قوم وملت میں دیکھی نہیں گئی، کتاب عبقات اپنی تمام جلدوں کے ساتھ ایک ایسانمونہ ہے جوانسان سازاورانسانی ذمہ داریوں کواجاگرکرتی ہے، اس کی گرانقدر بحثوں میں ایک بحث اس کی سندہے۔(۱۴)

کتاب کی تالیف اورعلامہ کی نا قابل فراموش زحمتیں
علامہؒ نے اس کتاب کوآسایش و آرام میں تالیف نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تالیف میں بڑی طاقت فرسازحمتیں اٹھائیں ہیں اورمختلف صعوبات سفرکو برداشت کیاہے ۔
چونکہ تمام اسنادومنابع کی تحقیق وبررسی کے لئے ان کے پاس کوئی چارہ کارنہ تھاخاص طورپراہل سنت کے منابع۔ لہذاان کوحاصل کرنے کے لئے انہون نے مکہ کے دوردارزدیہات میں موجود ایک سنی عالم کے یہاں نوکری کی تاکہ وہ کتاب جس کی تلاش میں ہیں اس عالم سنی کے کتب خانہ سے حاصل کرسکیں۔ چنانچہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔(۱۵)
سب سے اہم بات یہ کہ جب ان کے جوان بیٹے کاانتقال ہواتو آپ نےان کے غسل وکفن ،دفن ،تشیع جنازہ اور مجلس سوم وغیرہ کے رسومات کو اپنے عزیزواقارب کے سپرد کردیا اورخودشرکت نہ کی تاکہ کہیں سےتالیف میں کوئی کوتاہی نہ رہ جاے، لہذااپنے قیمتی وقت کوعبقات الانوارکے لکھنے میں صرف کی۔(۱۶)
ایک بارکسی کتاب کی تلاش میں مصرکاسفرکیاواپسی میں کشتی کے عرشہ پربیٹھے ہوئے کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے کہ اچانک تیزہواکی وجہ سے وہ کتاب سمندرمیں گرگئی توآپ بھی اس کتاب کوپچانے کے لئے سمندرمیں کودگئے ،اسے واپس لےکرجب کشتی میں آئے تولوگوں نے سوال کیاکیوں سمندرمیں کودپڑے تھے، توکتاب کودکھاکرکہا:اس کتاب کی خاطریہ کام کرناپڑا۔ وہ کتاب اب بھی ناصریہ لائبریری لکھنؤمیں موجودہے۔(۱۷)
وفات :
افسو س صدافسوس دنیاے تشیع کے بزرگ عالم دین اور حریم اہل بیت کے بہترین مدافع علامہ میرحامدحسین ہندی ۱۸صفر ۱۳۰۶؁ھ کولکھنؤمیں اس دارفانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے ، "اناللہ واناالیہ راجعون" آپ کی آخری آرام گاہ حسینہ غفران مآب میں موجود ہے ۔ (۱۸) خداکادرودوسلام ہوان پراوران کے پاک آباء واجدادپر۔
یہ مقالہ فارسی سے ماخوذ ہے ، نیٹ سے لے کر اس کا تھوڑے اضافات کے ساتھ ترجمہ کیاگیاہے ۔

حوالجات :
۱۔ نجوم السماء ج۱ ص ۲۵
۲۔ ہمان
۳۔ عبقات الانوار میر حامد حسین ج۱ ص ۹۱؛ نجوم السماء ج۱ ص ۲۲
۴۔ عبقات ج۱ ص ۲۱۔۲۵؛ فواید الرضویہ ، شیخ عباس قمی ص ۵۹۵
۵۔ نجوم السماء ج۱ ص ۲۴۔۲۸؛ نقباء البشر ، تہرانی ج۱ ص ۳۴۷
۶۔ نجوم السماء ج۱ ص ۲۸؛ نقباء البشر ج۱ ص ۳۴۹
۷۔ نجوم السماء ج۱ ص ۳۱؛ مجلدات مختلف الذریعہ
۸۔ میر حامد حسین ، رضا حکیمی ص ۸۶۔۸۸
۹۔ عبقات الانوار بہ معنی خوشبو کی کلیاں اور پھول
۱۰۔ الغدیر ، علامہ امینی ج۱ ص ۱۵۷
۱۱۔ نقباء البشر ج۱ ص ۳۴۸
۱۲۔ بعد میں متعدد جلدوں میں شایع ہویی
۱۳۔ کشف الاسرار ، امام خمینی ص ۱۷۸
۱۴۔ میر حامد حسین ص ۹۵۔۹۶
۱۵۔ کیہان فرہنگی ، شمارہ ۵۰ ص ۳۹
۱۶۔ مجلہ پیام انقلاب شمارہ ۱۵ص ۹
۱۷۔ مجلہ عشاق اہل بیت محرم و صفر ص ۳۶
۱۸۔ علماء معاصرین ، ص۳۱؛ اعیان الشیعہ عاملی ج۴ ص ۳۸
مقالات کی طرف جائیے