|
آل محمد (ص) ، بنیاد دین |
سید غافر حسن رضوی |
ہر چیزاپنی ''بنیاد" پر ٹھہری ہوئی ہے۔اگربنیاد نہ ہو تو کوئی بھی چیز سلامت نہیں رہ سکتی ۔ یہ آسمان سے منھ در منھ باتیں کرتی ہوئی عمارتیں [ buildings ]کس چیز کے بل بوتہ پر قائم ہیں ؟ بنیاد نہ ہوتی تو یہ عمارتیں کس طرح باقی رہتیں؟ بنیاد کی اہمیت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ بہت آسان ہے چونکہ اس کا اندازہ لگانے والے کی بھی ایک بنیادہے۔ اس بات کا اندازہ صرف اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر کوئی انسان بے معنیٰ بات کرتا ہے تو اس سے یہی کہا جاتا ہے کہ بھائی "بے بنیاد" بات مت کرو ''یعنی ایک عاقل انسان کی پہچان یہ ہے کہ اگروہ کوئی بات کہتا ہے تو اس کی بھی ''بنیاد "ہوتی ہے بغیر بیخ و بنیاد کے کوئی بھی بات نہیں کہتا ،، اور اس بنیاد کی زیادہ اہمیت سمجھنے کے لئے یہ کہونگا کہ اگر بنیاد صحیح ہے تو عرشہ تک عمارت صحیح ہوگی اور اگر بنیاد ہی غلط رکھی گئی تو پھر کتنی بھی سدھارنے کی کوشش کیجئے وہ سدھر نہیں سکتی مزید بگڑنے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک فارسی شاعر نے کتنی اچھی بات کہی ہے : خشت اول چون نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج ایک معمار اگر بنیاد کی پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے گا تو دیوار اپنی بلندیوں تک ٹیڑھی ہی رہے گی چاہے اسے کتنی ہی بلندیوں تک لے جائیں ''لہٰذا ہر بنیاد رکھنے والے معمار کو چاہیئے کہ بنیاد سوچ سمجھ کر رکھے ایسا نہ ہو کہ کوئی نقص باقی رہ جائے،چونکہ یہ نقص، آخر تک نقصان دے گا ۔ اور یہ بنیاد صرف عمارت سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ہر چیز کی بنیاد رکھتے وقت یہ سوچنا چا ہیئےکہ بنیاد کیسے رکھیں اور کیسی ہونی چاہیئے؟ یہاں تک کہ جولوگ وسیلہ کے قائل نہیں ہیں وہ بھی بنیاد کے قائل ہیں ۔ حالانکہ بنیاد بھی ایک وسیلہ ہے ۔ بنیاد کیسے وسیلہ ہے؟ اگر ترقیوں سے ہمکنار ہوناہے تو بنیاد کو وسیلہ بنانا پڑے گا ۔ بغیر بنیاد کے منزل مقصود تک پہونچ ہی نہیں سکتے ۔ اور بنیاد من جمیع الجہات مستحکم و مضبوط ہونی چاہیئے چونکہ کھوکھلی بنیاد کسی بھی حالت میں قابل استفادہ نہیں ! انسان اگر ایک چھوٹا سا کمرہ ۔ کمرہ بھی بہت بڑاہو گیا ، ایک غسل خانہ [حمام bath room ] بنانا چاہتا ہے تو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ بنیادمضبوط ہونی چاہیئے چونکہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ اسے روزانہ تعمیر کراتے رہیں اور نہ ہی ہمارے گھر میں پیسوں یا ڈالرس کا درخت اگا ہوا ہے کہ اسی کو دیکھتے رہیں اور بھی بہت کام کرنے ہیں ۔ اور اسی طرح عمارت جتنی بڑی ہوتی چلی جائے گی ''بنیاد ،، کے سلسلہ میں انسان کی فکر اتنی ہی زیادہ ہوتی چلی جائے گی ۔ جب ایک معمولی سا انسان چھوٹی سے چھوٹی عمارت بنانے کے لئے یہ سوچتا ہے کہ ''بنیاد ،، مستحکم ہونی چاہیئے تو جو اس انسان کا خالق (خالق کائنات )ہے وہ کسی چیز کو بغیر ''بنیاد،، کے کیسے چھوڑ سکتا ہے !۔ آخر یہ اتنی بڑی عمارت دین کس بنیاد پر رکی ہوئی ہے ؟ اس کی بنیاد کیا ہے اور کیسی ہے؟ ایک جگہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمایا ''الصلوٰة عمود الدین،، نماز دین کا ستون ہے چونکہ ایک عمارت میں ستون کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔یہ تو معلوم ہوگیا کہ نماز دین کا ستون ہے لیکن دین کی بنیاد کیا ہے؟ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آئیے حلال مشکلات کے دروازہ پر دستک دیتے ہیں کہ اے عقدہ کشائے جہاں !ہماری مشکل کو حل کیجئے یہ بتائیے کہ دین کی ''بنیاد،، کیا ہے ؟ کس چیز کی بنیادپر دین قائم ہے؟ مولائے کائناتؑ آواز دینگے اے بے معرفت لوگو!بے بنیاد باتیں مت کرو تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ جن ہستیوں کے صدقہ میں یہ کائنات بنی ہے وہی دین کی ''بنیاد،، ہیں یعنی ''آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ بنیاد دین ہیں،، اسی عنوان پر رقم طرازی کی سعادت سے ہمکنار ہونے کی سعی کر رہا ہوں ؛امید ہے کہ مشکل کشائے دو جہاں کی مدد سے منزل مقصود تک رسائی ہو جائے گی ۔ میں نے شیعہ شرحوں سے گریز کرتے ہوئے عالم عامہ ''جناب ابن ابی الحدید معتزلی ،، کی شرح سے استفادہ کیا ہے چونکہ چاہنے والے کی نظروں میں محبوب کی اچھائیاں ہی ہوتی ہیں اور وہ محبوب کی برائیوں سے صرف نظر کرتا ہے لیکن دشمن کی نظر صرف و صرف برائیوں پر ہوتی ہے، اسے اچھا ئیاں نظر نہیں آتیں؛ کمال تو اسی میں ہے کہ دشمن بھی تعریف کرے ''الفضل ما شھدت بہ الاعداء،، فضیلت وہی ہوتی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے ۔ مولائے کائناتؑ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کو ''بنیاددین،، بتاتے ہوئے اس طرح گویا ہیں : ھم موضع سرہ و لجاہ امرہ وعیبة علمہ و موئل حکمہ(اہل بیت نبوت علیھم السلام)اسرار الٰہی کے امین اس کے دین کی پناہ گاہ اس کے علم کے مخزن اور اس کی حکمتوں کے مر جع ہیں "یعنی اگر کسی کو خدائے حکیم کی حکمت میں ذرہ برابر بھی شک ہو تو ان کے در پر آئے یہ بتائیں گے کہ اس حکمت میں کیا حکمت پوشیدہ ہے" وکھوف کتبہ وجبال دینہ.۔. یہی ہیں آسمانی کتابوں کی گھاٹیاں ؛یہی ہیں دین الٰہی کے کوہ مستحکم؛ بھم اتام انحناء ظھرہ...خدا وند عالم نے انھیں کے ذریعہ اس ''دین،، کی خمیدہ پشت کو سیدھا کیا ؛ و اذھب ارتعام فرائصہ (انھیں کے ذریعہ خدا نے)اس ''دین"کے ضعف و کمزوری سے پیدا ہوئی کپکپی دور کی ؛ لا یقاس بآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ من ھٰذہ الامةاحد..... اس امت میں سے کسی کو بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا (چونکہ اس کے شرائط ہی نہیں پائے جاتے قیاس کے اسباب مفقود ہیں ؛ان کی برابری کون کر سکتا ہے ؟کون ان سے آنکھیں ملا سکتا ہے ؟کس میں اتنی ہمت ہے کہ ان کے برابر آئے؟)۔ ولایسوی بھم من جرت نعمتھم علیہ ابدا... وہ لوگ ان کی برابری کیسے کر سکتے ہیں ؟جن پر ان ہستیوں کا ہمیشہ احسان رہا؛ ھم اساس الدین وعماد الیقین الیھم... اہلبیت رسالت علیھم السلام ''بنیاددین،، اور ''یقین دین،، ہیں ۔ اس جملہ کی وضاحت عالم عامہ جناب ابی الحدید معتزلی اس طرح کرتے ہیں کہ دین صرف انہیں (اہلبیت نبوت )کی وجہ سے قائم ہے بالکل اسی طرح جس طرح زمین پہاڑوں کی وجہ سے؛ کہ اگر پہاڑ نہ ہو تے تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل جاتی[١] جو آگے بڑھ گیا ہے اسے انھیں کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور جو پیچھے رہ گیا ہے اسے آگے آکر انھیں سے ملنا ہے ۔ ولایت انھیں کا حق مسلم ہے اور انھیں سے مخصوص ہے انہیں کے بارے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کی وصیت اور انھیں کے لئے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی وراثت ہے ۔ آگے ارشاد فرماتے ہیں :۔ الآن اذا رجع الحق الیٰ اھلہ و نقل الیٰ منتقلہ...... یہ وہ وقت ہے کہ حق حقدار تک پہونچ گیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہو گیا [٢] وضاحت:۔مو لائے کائناتؑ اہلبیت رسالت علیھم السلام کی شان میں فر ما رہے ہیں کہ (دنیا کی کسی فرد کو ان پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ) کیونکہ دنیا ان کے احسا نات کے نیچے د بی ہو ئی ہے اور انہیں سے نعمت ہدایت پاکر اخروی نعمتوں کی مستحق قرار پائی ہے، یہ ہستیاں دین کی ''بنیاد،، اور اسکی زندگی کا سہارا ہیں ، یہ علم و یقین کے ایسے مستحکم ستون ہیں کہ شک و شبہات کے طوفان و حوادث کا دھارا موڑ سکتے ہیں اور یہ ہی ہستیاں افراط و تفریط کی دنیا میں درمیانی راستہ ہیں کہ اگر کوئی غلو کی حد تک پہنچ جائے یا کو تاہی سے کام لینے لگے تو جب تک راہ اعتدال پر نہیں آئے گا اسلام کی راہ پر گامزن ہو ہی نہیں سکتا ۔اور انہیں میں وہ تمام خصوصیتیں پائی جاتی ہیں جو امامت و قیادت میں ان کے حق کو فائق قرار دیتی ہیں۔ لہٰذاان کے علاوہ کسی کو بھی امت کی سر پرستی کا حق نہیں ہے ...یہی تو وجہ ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنا وصی و جانشین انہیں ہستیوں کو مقرر فرمایا ۔ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں :۔ ولایت کا حق صرف رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کو ہے لیکن شیعہ حضرات آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کو بھی اسی میں شامل کر تے ہیں رہی وصایت کی بات تو ہم بھی اس کے قائل ہیں کہ علی وصی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ ہیں ...اگر چہ اس میں بھی اختلاف ہے [٣] اب آئیے وراثت کو دیکھتے ہیں شیعہ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ وراثت سے مراد مال اور خلافت ہے ''ونحن(ابی الحدید)نحملھا علیٰ وراثة العلم ،، اور ہم اس وراثت سے مراد وراثت علم کو لیتے ہیں [٤] ہاں جناب معتزلی صاحب اگر آپ وراثت سے وراثت علم مراد لیتے ہیں تو پھر بھی اس کا یہی مطلب نکل کر سامنے آتا ہے کہ نیابت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کاحق اہلبیت علیھم السلام کے علاوہ کسی کو نہیں پہنچتا چونکہ خلافت کے لئے ''بنیادی،، شرط علم ہے اگر خلیفہ رسول ہی جاہل ہوگا تو امت کو جہالت و نادانی کی تاریکی سے کیسے نجات دے گا؟ ابن ابی الحدید مولائے کائنات کے اس جملہ ''الآن اذا رجع الحق الیٰ اھلہ،، کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ ابھی تک یہ حق نا اھل کے پاس تھا اور اسکی تاویل ہم (ابن ابی الحدید) اس طرح کرتے ہیں کہ علی و اولاد علی علیہم السلام اس منصب کے حقدار زیادہ ہیں لیکن نص و حدیث کی بنیاد پر نہیں بلکہ افضلیت کی بنیاد پر چونکہ بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ علی علیہ السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ نے مصلحت وقت کی ''بنیاد،، پر اپنا حق نہیں لیا چونکہ اگر اس وقت تلوار اٹھا لیتے تو اسلام کا شیرازہ بکھرکر رہ جاتا [٥] جناب معتزلی صاحب نص ماننے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ ایک سے ایک معتبر حدیث موجود ہے اب بتائییے ہم اسمیں کیا کر سکتے ہیں ایک انسان جب ہٹ دھرمی پر اتر آئے کچھ سننے کو تیار نہ ہو تو خدا سے بھی انکار کر بیٹھتا ہے ، رسول و آل رسول علیہم السلام تو پھر بھی خدا کے بندے ہیں ۔ آگے وضاحت کرتے ہوئے ابی الحدید کہتے ہیں :۔کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کوکسی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا یہ بات بالکل صحیح ہے چونکہ جو احسان کر رہا ہے اور جس پر احسان کیا جا رہا ہے وہ برابر نہیں ہو سکتے اس بارے میں کہا گیا ہے کہ ''لا شبھة ان المنعم اعلیٰ و اشرف من المنعم علیہ ولا ریب ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ...اس میں کوئی شک نہیں کہ نعمت دینے والا اس سے بہتر ہے جس کو نعمت دے رہا ہے اور بے شک جو منعم ہیں وہ محمد و آل محمد علیہم السلام ہیں اور خصوصاً علی ابن ابی طالب علیہما السلام کہ جنہوں نے خلق خدا کو اتنی نعمات سے نوازا کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑی اور اس نعمت کا احصا نہیں کیا جا سکتا اور وہ نعمت سب سے بڑی نعمت ''الدعاء الیٰ الاسلام،، اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس کی طرف ہدایت کرنا ہے ۔ اگر چہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ نے خلق خدا کی ہدایت کی اور اپنی زبان مبارک سے اسلام کی طرف دعوت دی اور اپنے پورے وجود کے ساتھ راہ اسلام پر گامزن رہے اور خدا نے اپنے ملائکہ کے ذریعہ آپ کی نصرت فرمائی اور آ پ سید و سردار ہدایت ہیں کہ جن کی اطاعت واجب ہے ۔ علی نے بھی ہدایت کی لیکن ہدایت کے ساتھ ساتھ دو عدد جہاد بھی کئے ایک ''جھاد باالسیف،، اور ایک ''علوم و تفسیر قرآن کو پھیلانے کا جہاد،،[٦] ایک جگہ آل رسول (س)کو ''بنیاد دین"بتاتے ہوئے مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں : بنا اھتدیتم فی الظلماء...ہماری وجہ سے تم نے گمراہی کی تاریک فضا میں ہدایت کی روشنی پائی و تسنمتم العلیاء .اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا "لیکن یاد رہے کہ اگر انسان کا پختہ ارادہ ہو تو شہرت کے بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا کوئی مشکل کام نہیں ...بلکہ اس پر چڑھنے کے بعد سیسا پلائی ہوئی دیوار کی مانند ثابت قدم رہنا عین کمال کی دلیل ہے...چونکہ جتنا آسان وہاں تک پہونچنا ہے اس سے کہیں زیادہ سہل تنزلی جیسے صیاد کے دام فریب میں پھنس کر پستی کی وادیوں کی سیر ہوتی ہے"۔ آگے ارشاد ہوتا ہے :۔بنا انفجرتم عن السرار وقر سمع لم یفقہ الواعیة ..... ''تم لوگ،، ہمارے سبب سے اندھیری رات کی گھاٹیوں سے میدان صبح ''ہدایت،، کے اجالوں میں آگئے...بہرے ہوجائیں وہ کان جو چیخنے چلانے والے کی آواز کو ''سن کر بھی،، نہ سن سکیں "اوراسے ان سنی کردیں"۔ بھلا وہ لوگ میری کمزو راور دھیمی آوازکو کیسے سن سکتے ہیں ؟ جو خدا ورسول کی بلند آوازوں کونہیں سنتے...آگے ایک قیامت خیز جملہ فرماتے ہیں...مازلت انتظر بکم عواقب الغدر ...میں تم سے ہمیشہ فریب و مکاری اور دھوکہ دھڑی کے نتائج کا منتظر رہا ۔ اقمت لکم علیٰ سنن الحق فی جوار المضلة ... میں تمہاری خاطر بھٹکانے اور گمراہ کرنے والی راہوں پر جادہ حق ''سر حد حق،، پر کھڑا تھا جہاں تم ملتے ملاتے تھے مگر کوئی راہ دکھنے والا نہیں تھا تم کنواں کھودتے تھے مگر پانی نہیں نکلتا تھا [٧] آخر مولاؑ یہ کیوں فرما رہے ہیں ؟ کیا یہ احسان جتانا نہیں ہوا کہ تم پیاسے مر رہے تھے میں نے ہی تمہیں سیراب کیا ؟ نہیں عزیزو! جو انسان دوسروں کو منع کرتا ہو کہ اگر کسی کے ساتھ نیک برتاؤ کروتو اس احسان کو اپنی زبان پر نہ آنے دو اگر کسی کو ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ بھی نہ چلنے دو ...وہ خود کس طرح احسان جتا سکتا ہے ؟ یہ صرف وصرف گمراہوں کو ہوش میں لانے کا ذریعہ ہے اور جو راہ حق پر گامزن ہیں انہیں یاد دہانی کرائی جا رہی ہے ...کہ اگر تم ہدایت یافتہ ہو تو صرف ہماری وجہ سے ..."اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگرتم پر کوئی احسان کرے تو اس کے احسان کو فراموش نہ کرو اپنے محسن کو ہمیشہ یاد رکھو"۔ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں کہ مولاؑ نے اپنے کلام میں استعارے استعمال کئے ہیں تاکہ قوم تک ا پنا پیغام آسانی سے پہنچا دیں قوم کے لئے کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔[٨] ایک جگہ مولاؑ ''بنیاد دین،، کو واضح طور پر بیان فرماتے ہوئے گویا ہیں :۔انظروا اھلبیت نبیکم فالزموا و سمعتھم" اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھو ان کی سیرت پر چلو۔ مولاؑ نے "اپنے نبی" کیوں فرمایا ؟ کیا رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ مولا علیؑ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ نہیں تھے؟ یہ اس لئے فرمایا تاکہ یہ شبہہ نہ پیدا ہوجائے کہ علیؑ نے ایسا اس لئے کہا ہے چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سے ان کی رشتہ داری ہے ایک داماد ہونے کے ناتہ ایسا کہا ہے"۔ ان کے نقش قدم پر اپنے قدم رکھو "اگر تم ایسا کروگے" تو اہلبیت علیہم السلام تمہیں بالکل بھی راہ ہدایت سے نہیں بھٹکنے دینگے ... اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ کھڑے ہوجائیں تو تم بھی کھڑے ہوجاؤ۔ اہلبیت علیہم السلام سے آگے نکلنے کی کوشش بھی مت کرنا ورنہ گمراہ ہوجاؤگے ...انہیں چھوڑ کر پیچھے بھی مت رہ جانا کہ تباہ و برباد ہو جاؤ گے اور ہلاکت کے دہانے پر پہونچ جاؤ گے۔[٩] امیرالمو منینؑ نے ان چند فقروں میں بہت کچھ کہہ دیا، کتنے سبق دے دئے مولاؑ نے ان کلمات میں!؟۔ ١۔انظروا اھلبیت نبیکم...اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کے اہل بیت علیھم السلام کو دیکھو ... چونکہ انہیں دیکھنا عبادت ہے اس چھوٹے سے فقرہ کے ذریعہ مولا نے عبادت کی دعوت دی ہے ۔ ٢۔فالزمواوسمعتھم...کہہ کر اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت کی دعوت دی ہے۔ ٣۔اہل بیت علیہم السلام سے آگے نہ نکلنا.... کہہ کران کے رتبہ کو بتایاکہ یہ ہستیاں کس رتبہ کی حامل ہیں ۔ ٤۔ان کے پیچھے بھی مت رہنا...کہہ کر سمجھایا کہ ظلم و تشدد کی تاریکی تم پر غالب نہ آجائے چونکہ اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑکر تاریکی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک خطبہ میں اس طرح ارشاد فرما تے ہیں :۔ بنا یستعطی الھدیٰ و یستجلیٰ العمیٰ ....وہ ہم ہی تو ہیں جن سے ہدایت طلب کی جا سکتی ہے اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خوا ہش کی جا سکتی ہے ۔ ان الائمة من قرش غرسوا فی ھذا البطن من ھاشم......بے شک تمام ائمہ علیہم السلام قریش سے ہونگے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے ۔ لا تصلح علیٰ سواھم ولا تصلح الولاة من غیرھم .....نہ توامامت بنی ہاشم کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اس کا اہل ہو سکتا ہے اہل بیت ہی اصل حقدار امامت ہیں امامت انہیں کا حق ہے۔[١٠] "ان جملوں میں جہاں یہ بتایا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و آل رسول علیہم السلام ہی منبع ہدایت ہیں یہی ''بنیاد دین،، ہیں وہیں یہ بھی واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ دیکھو امامت صرف قریش کا حق ہے کسی اور کو اپنا امام نہ بنا لینا امامت کے اصل حقدار قریش ہیں انہیں پر امامت جچتی ہے اگران کے علاوہ کسی کو امام بناؤ گے تو یہ عہدہ نا اہل کے ہاتھ میں جائے گا اور یہ ظلم ہے چونکہ ظلم کی تعریف یہی ہے ''وضع الشئی علیٰ غیر محلہ،، کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا ظلم ہے، خدارا یہ ظلم نہ کرو"۔ ابن ابی الحدید معتزلی ''بنا یستعطی الھدیٰ ،، کی توضیح اس طرح کرتے ہیں کہ اگر ان سے طلب کیا جائے تو یہ عطا کریں گے کوئی ان سے مانگ کر تو دیکھے مانگنے والے کو اس کے دامن سے بھی سوا دیتے ہیں ''انہوں نے تو اپنے قاتل کو بھی خالی ہاتھ نہیں پلٹایا۔
حوالہ جات:۔ ١۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج١ ص ۔١٣٨ ٢۔ نھج البلاغہ ''خطبہ ٢چاپ انتشارات اسلامی ٣۔ ابن ابی الحدید معتزلی ج١ص۔١٣٩ ٤۔ ابن ابی الحدید معتزلی ج ١ ص ١٤٠ ٥۔ ابن ابی الحدیدمعتزلی ج١ ص۔١٤٠ ٦۔ ابن ابی الحدید معتزلی ج١ص۔١٤١ ٧۔ نھج البلاغہ خطبہ٤انتشارات اسلامی ٨۔ ابن ابی الحدید معتزلی ج١ ص٢١٠ ٩۔ نھج البلاغہ خطبہ ۔٩٧ ١٠۔ نھج البلاغہ خطبہ ۔١٤٤ ١١۔ ابن ابی الحدید معتزلی ج۔٩ ص۔٨۹
|
مقالات کی طرف جائیے |
|