|
نہج البلاغہ سے آشنائی |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
باب مدینة العلم حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات کا مجموعہ جسے سید رضیؒ نے بڑی جانفشانی سے تالیف کیا ہے'' نہج البلاغہ ''کے نام سے ہمارے درمیان موجودہے ، اس سرچشمۂ حکمت و اخلاق کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کیاہے : پہلے حصے میں حضرت کے وہ خطبات ہیں جو آپ نے مختلف موقعوں پر ارشاد فرمائے ہیں ، یہ خطبے اپنی عظمت و جلالت ، اعجازی فصاحت و بلاغت اور معنوی لطافت کے اعتبار سے تمام ادب دوستوں سے ہمیشہ ہی سجدہ کراتے رہے ہیں ؛ اس کا عنون ہے : باب المختار من خطب امیر المومنین و اوامرہ ...ویدخل فی ذلک المختار من کلامہ الجاری مجری الخطب فی المقامات المحصورة والمواقف المذکورة والخطوب الواردة '' یہ باب حضرت امیر المومنین کے کچھ منتخب خطبوں اور احکام پر مشتمل ہے ... اور اسی باب میں حضرت کے وہ ارشادات بھی درج ہیں جنہیں آپ نے مختلف مجلسوں ، معرکوں اور پیش آنے والے حادثوں میں خطبوں کے اندازمیں بیان فرمایاہے''۔ دوسرے باب میں آپ کے وہ خطوط درج ہیں جنہیں آپ نے حکومت کے کار پردازوں کو تحریر فرمائے ہیں نیز اپنی اولاد اور اصحاب و انصار کو کی گئی وصیتیں بھی اسی باب میں درج ہیں؛ اس کا عنوان ہے : باب المختار من کتب مولانا امیر المومنین ورسائلہ الی اعداء ہ و امراء بلادہ و یدخل فی ذلک ما اختیر من عھودہ والی اعمالہ و وصایاہ لاھلہ و اصحابہ و ان کان کل کلامہ مختارا''اس منتخب باب میں حضرت امیر المومنین کے وہ خطوط اور نگارشات درج ہیں جو آپ نے اپنے مخالفین اور اپنی حکومت کے مختلف شہرو ں کے حاکموں کے نام ارسال فرمائے ہیں اور ان میں کارندوں، صاحبزادوں اور صحابیوں کے نام جو وصیت نامے لکھے ہیں یا انہیں ہدایتیں کی ہیں ، ان کا انتخاب بھی درج ہے ، اگر چہ حضرت کا تمام کلام انتخاب میں آنے کے لائق ہے ''۔ اور تیسرا باب عہد حاضر کے مزاج سے بڑی مماثلت رکھتاہے،چھوٹے چھوٹے حکمت آفریں کلام کا مجموعہ ، جس میں زندگی و بندگی کے تمام مسائل کی احاطہ بندی کی گئی ہے ، سادے اور دلنشین الفاظ میں تاثرات کی ایک دنیا سمودی گئی ہے ۔ اس صنعتی ترقی کے تیز رفتار عہد میں کسے فرصت ہے کہ وہ ادق مضامین پر مشتمل طول طویل مقالات کا غائر نظر سے مطالعہ کرے اور اپنی زندگی میں برتنے کی کوشش کرے ۔ آج تو ضرورت ہے کہ ایسے مواعظ ہوں جو کم سے کم الفاظ پر مشتمل ہوں ، ایسی مختصر حکمت آفریں باتیں ہوں جن میں معانی کی دنیا بھر دی گئی ہو ۔ اس باب میں ایسے ہی چھوٹے چھوٹے فقرات کے ذریعہ زندگی کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کیاگیاہے ، نہ صرف تجزیہ کیاگیاہے بلکہ الجھنیں بھی بیان کی گئی ہیں اور ان کا حل پیش کیا گیاہے ؛ اس کا عنوان ہے:باب المختار من حکم امیر المومنین و یدخل فی ذلک المختار من اجوبة مسائلہ والکلام القصیر الخارج فی سائر اغراضہ'' حضرت کے حکمتوں سے بھرپور ارشادات کا باب ، اس باب میں سوالات کے جوابات اور چھوٹے چھوٹے حکیمانہ جملوں کا انتخاب درج ہے جو مختلف مقاصد کے تحت بیان کئے گئے ہیں''۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی فصل بھی قائم کی گئی ہے جس میں حضرت کے ٩/ ایسے ارشادات درج ہیں جو تشریح طلب ہیں ، سید رضی نے ان ارشادات کی تشریح و توضیح میں اپنی مخصوص فکری و ادبی بصیرت کا مظاہرہ کیاہے ، اس فصل کو شروع کرنے سے پہلے سید رضی فرماتے ہیں:اس فصل میں ہم امیر المومنین کے وہ مشکل اور دقیق کلام منتخب کر کے درج کررہے ہیں جو محتاج تشریح ہیں۔ چھوٹے بڑے چار سو اکیاسی(٤٨١) ارشادات میں حضرت نے زندگی و بندگی کے تمام رخوں کے متعلق بصیرت انگیز افادہ فرمایاہے ، اخلاق و معاشرت ، اقتصاد و معاشیات ، ما بعد الطبیعات ، ثواب و عقاب ، رمز شریعت ، قانون مکافات وغیرہ جیسے بے شمار موضوعات پر بلیغ ارشادات ہیں۔ ظاہر ہے ان چھوٹے بڑے ارشادات اپنی مخصوص جگہ پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ، ان کی موضوع بندی کرنے اور انہیں یکجا کرنے سے ہر ارشاد کی بلیغ انفرادیت مجروح ہوجائے گی ، ہر فقرہ آسمان فصاحت و بلاغت پر ایک درخشاں ستارہ ہے ، ان کا انتشار ہی حسن ہے ۔ شاید یہی خیال تھا جس کی وجہ سے سید رضی نے بھی ہم معنی اور ایک جیسے خیالات پر مشتمل فقرات کا باب قائم کرکے انہیں منظم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|