مقالات

 

خطیب شیریں بیاں

سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

حدیث معصوم کی روشنی میں ایک عالم دین کی موت کائنات کی موت کے مترادف ہوتی ہے ، ''موت العالِم موت العالَم ''کے تناظر میں جب کوئی عالم دین اس دنیا سے جاتاہے تو گویا دنیائے علم و عمل میں موت کا سا سناٹا چھا جاتاہے اورکائنات تعلیم و تربیت، ویران اور سونی سونی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ موت برحق ہے ،اس دنیا میں موجود ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، ہر ذی روح کو اس امر سے دوچار ہونا ہے لیکن یہ بھی صد در صد حقیقت و واقعیت پر مبنی بات ہے کہ شخص مرتاہے شخصیت نہیں مرتی، انسان دنیا سے چلا جاتاہے لیکن کردار زندہ رہتاہے ۔
معصومین علیہم السلام کی احادیث و روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ زندگی انسانی شخصیت و کردار کی تکمیل کا سفر ہے اور اگر مسافر ہر گام پر علم وآگہی اور شعور و عمل کے چراغ روشن کرتاہوا آگے بڑھے تو یقینا وہی انسان کامیاب و کامران اور فلاح یافتہ ہے … ایسے انسان شاذ و نادر ہیں جنہوں نے اپنے کردار سے زندگی کے ہر موڑ پر علم و عمل کے ایسے چراغ روشن کئے جن پر نہ زمانے کی تیز و تند ہوائیں اثر انداز ہوئیں اور نہ ہی ان کی لازوال کرنوں کی تابانی کو وقت کی گرد دھندلا سکی۔
عمدة الواعظین، ممتاز المدرسین، زبدة السالکین، حجة الاسلام والمسلمین عالی جناب مولاناسید ابن حیدر صاحب قبلہ بھی ایسے ہی انسانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنے کردار و افکار سے، رفتار و عمل سے، زبان و بیان سے اور اخلاق و مروت سے پورے ایک عہد کی ترجمانی کی ہے ۔ انہوں نے اپنے شعور و آگہی اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ ایسے ایسے چراغ روشن کئے ہیں جن کی روشنی تادیر دنیا کو جگمگاتی رہے گی ۔
مولانا مرحوم کی ذات میں بے شمار خوبیاں بیک وقت جمع تھیں، آپ جلیل القدر مذہبی رہنما، طلاب علوم دین کے سرپرست و مربی ، عظیم المرتبت خطیب ، بلندپایہ عالم دین اور بے نظیر و شیوا بیان مقرر تھے ۔ آپ ایسے دینی معمار تھے جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ تبلیغ و ترویج اسلام کے لئے وقت تھا، آپ علم کا جاری و ساری چشمہ تھے جو سبھی کو سیراب کررہاتھا ، آپ مشعل افکار تھے جو ہر ایک کے لئے روشن و منور تھا…ان کے علاوہ بے شمار خوبیاں مولانا مرحوم کی ذات والا صفات میں جمع تھیں لیکن آپ کی دو خوبیاں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ نے اپنی زندگی میں تعلیم و تربیت اور تدریس کو بے پناہ اہمیت دی اور زندگی کی آخری سانسوں تک اس سے وابستہ و منسلک رہے ۔اس دوران آپ نے بے شمار علماء و افاضل کی تربیت فرمائی جن کے آثار و برکات صرف ملک ہندوستان ہی تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے بیرون ملک جاکر اپنے استاد کے علم و کردار کی روشنی بکھیری ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔
لیکن جہاں آپ نے اپنی زندگی میں تعلیم و تدریس کو حقیقی اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ قرار دیا وہیں اپنی بے نظیر خطاب کے ذریعہ معارف اہل بیت کو جگہ جگہ نشر کیا ۔ خطابت میں آپ کا انداز انتہائی منفرد ہوتاتھا ، ادبی ذوق کے ہمراہ انتہائی شستہ ، سلیس اور سجی ہوئی زبان استعمال کرتے تھے ، آپ کی زبان سے خالص لکھنؤ کا شیریں لب و لہجہ سننے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتاتھا …آہ! آسمان خطابت کا ایک اور سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
ارباب نظر جانتے ہیں کہ خطابت انتہائی ذمہ دارانہ فن ہے ، ایک خطیب اپنی خطابت و تقریر میں ہیئت ، موضوع اور الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ سامعین کے فہم و فراست کو خاص طور سے ملحوظ رکھتاہے، اگر متذکرہ باتوں کا خیال نہ رکھاجائے تو کبھی کبھی مثبت باتیں ایسا منفی پہلو اختیار کرلیتی ہیں کہ برسوں سنبھالے نہیں سنبھلتے اور اصلاح و ترمیم کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں ۔عام طور سے دیکھاگیاہے کہ باتوں کی رو میں کوئی خطیب ایسی بات کہہ جاتاہے جو سامعین کے مزاج کے برخلاف ہوتاہے اور دینی مسلمات میں بھی اس کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہوتا ۔ ممکن ہے اس نے یہ بات غیر ارادی طور پر کہی ہو … لیکن جب بعد میں متوجہ کیاجاتا ہے کہ تو احساس ہوتاہے کہ یہ مزاج دین و مسلمات مذہب سے کتنی بعید ہے ۔
مولانا سید ابن حیدر صاحب مرحوم ایک ذمہ دار خطیب تھے ، آپ کو جہاں اس فن کی اہمیت و عظمت کا اندازہ تھا وہیں اس کی بھرپور نزاکتوں کا بھی احساس تھا اسی لئے آپ جو بھی باتیں منبر سے بیان کرتے تھے وہ ٹھوس اور مدلل ہوتی تھیں … طرز بیان بڑا شیریں اور نرمی و شائستگی کا حامل ہوتاتھا ،مقفی و مسجع و مرصع دل نشین گفتگو کرنے کے عادی تھے… اس طرز بیان کے پیش نظر سننے والا دیر تک سننے کے باوجود بھی اکتاہت محسوس نہیں کرتاتھا ۔
اصل میں مولانا ابن حیدر صاحب مرحوم کے مزاج و کردار میں گہوارۂ ادب لکھنؤ کی تہذیب کی اعلیٰ قدریں اتنے حسن کے ساتھ مجتمع ہوگئیں تھیں کہ بعض موقعہ پر ان کے چاہنے والے اور ملنے جلنے والے سحرزدہ رہ جاتے تھے ، مرحوم کی گفتگو کا جادو ، جملوں کی مخصوص سجاوٹ ، انداز بیان کی دل نشینی اور پھر ان کے حیا آمیز شریفانہ اطوار…یہ سب کے سب ان کے وجود کا اس طرح احاطہ کرلیتے تھے جس طرح آفتاب عالم تاب کے چاروں طرف نورانی ہالہ ہوتاہے ۔آپ کی خطابت میں ایک عام انسان بھی ادبی چاشنی محسوس کرسکتاتھا۔
مولانا مرحوم کی خطابت کا ایک رخ بے حد اہم ہے کہ آپ اپنی خطابت میں ہر مکتب فکر کا خیال رکھتے تھے اور ایسے جملے کہنے سے حتی الامکان اجتناب کرتے تھے جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی مجلسوں میں کلامی یا مناظراتی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ ایسی بحثیں خوب خوب کرتے تھے لیکن انداز ادبی ہوتاتھا ، بڑی خوبصورتی سے انتہائی اہم مناظراتی نکات کی طرف اشارہ کرتے تھے جس کا مزہ سامعین کو فوری طور پر ملتاتھا اور اس انداز سے کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی تھی ۔ اسی منفرد انداز خطابت کی وجہ سے آپ نے مستقل ٦٥ یا ستر سال تک آگرہ کا عشرۂ اولیٰ خطاب کیا ، شاید خطاب کی دنیا میں ایسی مثالیں ڈھونڈھنے سے دستیاب نہ ہوں ، ایک ہی منبر سے تقریباً ستر سال تک عشرہ خطاب کرنا آپ کا عظیم کارنامہ قرار دیاجاسکتاہے ۔
ناچیز کو آپ سے بہت زیادہ ملاقات کاشرف حاصل نہیں رہا صرف ایک چھوٹی سی ملاقات رہی لیکن اس ملاقات میں آپ کے مشفقانہ برتاؤ کا اثر آج بھی ذہن و دل پر باقی ہے … آپ کی شخصیت کی یہ خوبی بھلائے نہیں بھولتی کہ آپ جس طرح اپنے سے بڑوں کا احترام کرتے تھے اسی طرح اپنے سے چھوٹوں کا بھی احترام کرتے تھے ، آپ کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جو ایک مرتبہ آپ سے ملتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا تھا … تواضع و انکساری میں آپ کا جواب نہ تھا ، انتہائی منکسر المزاج تھے ، تصنع اور بناوٹ سے کوسوں دور تھے اسی لئے لوگوں کے دلوں میں آپ کے لئے ایک خاص جگہ تھی ۔
اس طرح آپ کی شخصیت بے شمار خوبیوں کا مخزن تھی ، جن میں سے اکثر کی جھلکیاں آپ اسی شمارے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں جن کے متعلق علماء و افاضل اور مولانا مرحوم کے مخصوص تلامذہ نے قلم فرسائی کی ہے ۔ ہم تو بس اس عالم جلیل اور مبلغ دین و شریعت کے فقدان پر امام زمانہ(عج) ، علماء و مراجع اور تمام شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ وہ مولانا مرحوم کو جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ عطا فرمائے ؛ آمین یا رب العالمین
مقالات کی طرف جائیے