|
توبہ |
محمد طفیل |
تمہید اگر ہم خود کو قوم کا ایک فرد جانتے ہیں تو قوم کی اصلاح کرنے سے پہلے خود کی اصلاح کو اولیت دیں۔جو بھی کسی معاشرے کے افراد کی تربیت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ خود کی تربیت کو مقدم کرے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: من نصب نفسہ للناس اماما فلیبدا بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ و لیکن تادیبہ بسیرتہ قبل تادیبہ بلسانہ و معلم نفسہ ومودبھا احق بالاجلال من معلم الناس۔ (١) جو شخص اپنے کو قائد ملت بناکر پیش کرے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے اور زبان سے تبلیغ کرنے سے قبل اپنے عمل سے تبلیغ کرے اور یہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترام ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ معیار و میزان،امرونہی،واجبات و محرمات کو اچھی طرح جانے اور خود اس پہ عمل پیرا ہو۔جو لوگ خود کی تربیت و اصلاح اور سنوارنے میں کھرے اترتے ہیں ان کے لیے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ معاشرہ اور سماج کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ بہت سے ہیں جو گفتگو کئے بغیر اپنے رفتار و کردار سے دوسروں میں تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ اس بنا پر منطقی اور بجا ہے کہ توبہ کی بحث امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے پہلے بیان ہو کیونکہ جب تک انسان خود کی اصلاح نہ کرلےاورگناہوں سے مبرا نہ ہوجائے ایک معاشرہ کی تربیت کیسے کرسکتاہے۔
توبہ کیا ہے توبہ قرآن اور روایات میں مکررا استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جس کے معنی بندے کا خدا کی طرف لوٹ آنا ہے۔ قرآن میں 69 آیات میں توبہ کے موضوع پر بحث ہوئی ہے جن میں توبہ کرنے والے کے ساتھ خدا کی مہربانی اور رحمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بندوں کو "توبہ نصوح" یعنی سچے دل سے خالص توبہ کرنے کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ احادیث میں بھی توبہ کی اہمیت اور اس کے مقام کو مورد تائید قرار دتے ہوئے توبہ کرنے میں تأخیر سے منع کیا گیا ہے۔ احادیث کے دوسرے حصے میں گناہوں کو حق اللہ اور حق الناس میں تقسیم کرتے ہوئے گناہ کے دونوں اقسام سے توبہ کرنے کے راستوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ توبہ مختلف درجات رکھتی ہے؛ سب سے پہلا درجہ گناہوں سے توبہ کرنا ہے جبکہ غفلت سے توبہ کرنا، غیر خدا پر توکل کرنے سے توبہ کرنا اور خدا کے علاوہ دوسروں کے مشاہدے سے توبہ کرنا وغیرہ اس کے بالاترین درجات میں سے ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: توبہ خدا کی رسی، مدد اور بندوں پر اس کے لطف و کرم کی وسعت کی نشانی ہے اور بندوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں توبہ کرنا چاہئے۔ ہر گروہ کی ایک خاص توبہ ہوا کرتی ہے؛ انبیاء الہی کی توبہ باطنی اضطراب اور اطمینان کی حالت کے دگرگون ہونے سے، اولیائے الہی کی توبہ تصورات کی رنگینی سے، خدا کے برگزیدہ افراد کی توبہ غفلت، فراغت اور استراحت سے، خدا کے مخصوص افراد کی توبہ غیر خدا کے ساتھ مشغول ہونے سے اور عوام الناس کی توبہ گناہ، معصیت اور خلاف ورزی سے ہے۔(٢)
لغوی اور اصطلاحی معنی توبہ کے معنی "واپس آنے " اور "لوٹنے " کے ہیں۔(٣) قرآن میں یہ لفظ کبھی انسان کیلئے اور کبھی خدا کیلئے مختلف حروف اضافت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یہ فعل جب انسان کی طرف نسبت دے کر جب کہا جاتا ہے "تابَ إلَی اللہ" تو اس کے معنی بندے کا گناہ سے ہاتھ اٹھاکر خدا کی طرف واپس آنے کے ہیں۔ اور جب اس فعل کو خدا کی طرف نسبت دے کر کہا جاتا ہے کہ "تابَ اللہ عَلَیہ" تو اس کے معنی بندے کی نسبت خدا کی مغفرت اور بخشش کے ہیں یا بندے کو خدا کی طرف سے توبہ کی توفیق عطا کرنے کے ہیں۔فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّه کلِماتٍ فَتابَ عَلَیه إِنَّه هوَ التَّوَّابُ الرَّحیمُ(ترجمہ: اس کے بعد آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ دعا کے کلمات (حاصل کئے) تو اس نے ان کی توبہ قبول کی کیونکہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔(٤)
توبہ قرآن کریم کی روشنی میں: توبہ اور اس کے مشتقات قرآن میں 87 مرتبہ استعمال ہوئے ہیں اور قرآن کے نویں سورہ کو توبہ کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میں توبہ کی قبولیت کو ان اشخاص کے ساتھ مختص کیا گیا ہے جنہوں نے نادانی میں کسی گناہ یا معصیت کا ارتکاب کیا ہو لیکن جیسے ہی وہ اس گناہ اور معصیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔إنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللَّه لِلَّذینَ یعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَہالَةٍ ثُمَّ یتُوبُونَ مِنْ قَریبٍ فَأُولئِک یتُوبُ اللَّه عَلَیهمْ وَ کانَ اللَّه عَلیماً حَکیماً(ترجمہ: توبہ قبول کرنے کا حق اللہ کے ذمہ صرف انہی لوگوں کا ہے جو جہالت (نادانی) کی وجہ سے کوئی برائی کرتے ہیں پھر جلدی توبہ کر لیتے ہیں یہ ہیں وہ لوگ جن کی توبہ خدا قبول کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔(٥) لیکن وہ لوگ جو موت کے آثار نمایاں ہونے تک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور جب موت کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو توبہ کرتے ہیں، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی ہےوَ لَیسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذینَ یعْمَلُونَ السَّیئاتِ حَتَّی إِذا حَضَرَ أَحَدَهمُ الْمَوْتُ قالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَ لاالَّذینَ یمُوتُونَ وَ همْ کفَّارٌ أُولئِک أَعْتَدْنا لَهمْ عَذاباً أَلیماً(ترجمہ: ان لوگوں کی توبہ (قبول) نہیں ہے۔ جو (زندگی بھر) برائیاں کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، تو وہ کہتا ہے، اس وقت میں توبہ کرتا ہوں۔ اور نہ ہی ان کے لیے توبہ ہے۔ جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(٦)
توبہ احادیث کی روشنی میں: ایک حدیث میں رسول خداؐ فرماتے ہیں :عَلامَةُ التّائِبِ فَاَربَعَةٌ: اَلنَّصیحَةُ لِلّہ فی عَمَلِہ وَ تَركُ الباطِلِ وَ لُزومُ الحَقِّ وَ الحِرصُ عَلَی الخَیرِ؛۔توبہ کرنے والے کی چار نشانیاں ہیں: خدا کیلئے خالص عمل انجام دینا، باطل کو چھوڑ دینا، حق کا پایندہونا اور کار خیر کو انجام دینے میں حریص ہونا۔ (٧) شیعہ اور سنّی دونوں کی کتابوں میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں توبہ کی حقیقت، اس کی اہمیت، خدا کے نزدیک توبہ اور توبہ کرنے والوں کی محبوبیت اور توبہ کرنے والوں کے ساتھ خدا کے عشق واشتیاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔(٨) مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ خداوند متعال توبہ کرنے والے کو تین خصوصیات عطا کرتا ہے کہ اگر ان میں سے صرف ایک خصوصیت آسمان اور زمین میں رہنے والی تمام مخلوقات کو دی جاتیں تو اس کے ذریعے سب کے سب نجات پاتے۔ (٩) دوسرے اہم نکات جو اس حوالے سے احادیث میں بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: توبہ کرنے میں تأخیر سے منع(١٠) یہ کہ گناہ پر اصرار کرنا توبہ کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے.(١١) اور توبہ پر ہمیشہ کیلئے قائم رہنا وغیرہ۔ مختلف گناہوں سے توبہ کرنے کے احکام اور شرائط کے بارے میں بھی بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ (١٢) بعض احادیث کے مطابق خدا کی طرف سے توبہ کی قبولیت کیلئے ائمہ معصومین علیہمالسلام کی ولایت شرط ہے۔(١٣)
نتیجہ جیسا کہ مقدمہ میں بھی بیان ہوا ہے کہ توبہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے پہلے ہے کیونکہ انسان سب سے پہلے خود کو سنوارے اور سنوارنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ہر اس گناہ کے لیے توبہ کرے جس کواس نے انجام دیا ہے۔ پھر جاکر انسان ایک مقام حاصل کرے گا لیکن اگر زندگی بھر گناہ کرتا رہے اور تکرار کرتا رہے تو آخری وقت میں اسکی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ یا ایک شخص ہے جو گناہ کرتا ہے اور توبہ کرلیتا ہے پھر اسی گناہ کو انجام دیتاہے تو ایسے شخص کی بھی توبہ قابل قبول نہیں ہوگی۔
حوالجات (١) نہج البلاغہ حکمت ٧٣ (٢) مصباح الشریعہ، ترجمہ مصطفوی، ص۳۵۲ (٣) الصحاح جوہری؛ ابنمنظور، لسان العرب، ذیل «توب» (٤) سورہ بقرہ/آیت ۳۷ (٥) سورہ نساء/آیت ١٧ (٦) سورہ نساء/آیت ١٨ (٧) تحف العقول، ص۲۰ (٨) کلینی، ج۲، ص۴۳۵ (٩) کلینی، ج۲، ص۴۳۲ـ۴۳۳ (١٠) بحارالانوار، ج۶، ص۳۰ (١١) وسائل الشیعہ، حرّ عاملی، ج۱۶، ص۷۴ (١٢) بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۲۹ (١٣) بحارالانوار، ج۲۷، ص۲۰۰
|
مقالات کی طرف جائیے |
|