|
شہید قاسم سلیمانی کا الٰہی وصیت نامہ |
سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری |
اشہد ان لا الہ االا اللہ و اشہد ان محمدا رسول اللہ و اشہد ان امیرالمومنین علی بن ابیطالب و اولادہ المعصومین اثنیٰ عشر ائمتنا و معصومین نا حجج اللہ. میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدۖ خدا کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور ان کی اولاد، معصوم امام اور خدا کی حجتیں ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت حق ہے، قرآن حق ہے، جنت و جہنم حق ہیں، سوال جواب حق ہیں، قیامت، عدل ، امامت و نبوت حق ہیں۔
خدایا!تیری نعمتوں پر شکر خدا وندا !تیرا شکر کہ تو نے مجھے ایک صلب سے دوسرے صلب ، ایک صدی سے دوسری صدی اور ایک رحم سے دوسرے رحم میں منتقل کیا یہاں تک کہ ایک ایسے زمانے میں میرے وجود کو اذن ظہور عطا کیا کہ میرے لئے یہ امکان میسر ہوا کہ معصومین سے سب سے زیادہ نزدیک تیرے ایک ولی یعنی عبد صالح حضرت امام خمینی کو درک کرسکوں اور ان کی رکاب میں ان کا ایک سپاہی بن سکوں اور اگر میں رسول خدا محمد مصطفیۖ کا صحابی ہونے کی توفیق سے محروم رہا اور اگر میں امام علی اور ان کے فرزندان کی مظلومیت کے زمانے کو نہ پا سکا تھا تو تو نے مجھے اس دوری کے باوجود انہیں کے راستے کا راہی بنا دیا جنہوں نے اپنی جان ، جان عالم و خلقت کی راہ میں فدا کردی۔ اے معبود! میں تیرا شکر گذار ہوں کہ تو نے اپنے عبد صالح امام خمینی کے بعد مجھے اپنے ایک اور عبد صالح سے ملحق کر دیا کہ جس کی مظلومیت اس کی صالحیت پر غالب ہے،ایسے انسان ہیں جو عہد حاضر میں ایران اور اسلام و تشیع کی سیاسی دنیا کے حکیم و مدبر ہیں یعنی رہبر معظم آیة اللہ خامنہ ای ۔ خدایا!تیرا شکر کہ تو نے مجھے اپنے بہترین بندوں کے ساتھ ملحق رکھا اور مجھے یہ توفیق دی کہ میں ان کے بہشتی رخساروں کے بوسے لے سکوں اور عطر الٰہی کی خوشبو کو استشمام کرسکوںیعنی تو نے مجھے شہدا اور مجاہدین کی صحبت نصیب فرمائی۔ اے خدائے قادر و توانا ، اے رحمان و رزاق! میں اپنی پیشانی بصد شکر ترے آستانے پر رکھتا ہوں کہ تو نے مجھے فاطمہ الزہر(س)اور ان کے فرزندوں کی راہ میں مذہب تشیع جو اسلام کا حقیقی چہرہ ہے، میں قرار دیا اور مجھے علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے فرزندوں پر گریہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائی جو بلا شبہ تیری عظیم اور گرانقدر نعمتوں میں سے ہے، ایسی نعمت جو نورانیت اور معنونیت کی حامل ہے، ایسی بے قراری جس میں سب سے بڑھ کر قرار ہے، ایسا غم کہ جس میں سکون اور روحانیت ہے ۔ خدایا !تیرا شکر کہ تو نے مجھے غریب مگردیندار اور اہل بیتؑ کے متوالے والدین عنایت کئے جو ہمیشہ پاکیزہ راستے پر چلے۔ میں تجھ سے کمال عاجزی کے ساتھ دعا گو ہوں کہ ان دونوں کو جنت میں اپنے اولیا ء کا جوار نصیب فرما مجھے آخرت میں ان کے قرب سے مشرف فرما۔
خدایا ! تیرے عفو و بخشش کی امید ہے ! خدئے عزیز ، اے لا شریک خالق حکیم !میں تہی دست ہوں، میری جھولی خالی ہے، میں بے زادِ سفر صرف تیری بخشش اور عفو کی امید میں تیری بارگاہ میں حاضر ہورہاہوں ۔ میں نے اس جہان سے کچھ نہیں لیا کیونکہ فقیر شاہوں کے پاس جائے تو کسی برگ و بار کی کیا حاجت؟! میری جھولی تیرے فضل و کرم کی امید سے پر ہے، آنکھیں موندیں تیرے پاس آرہاہوں ، تمام تر گناہوں اور ناپاکیوں کے باوجود ان آنکھوں میں ایک قیمتی سرمایہ ہے، ایک خزانہ ہے اور وہ ہے امام حسین ابن فاطمہ پر بہائے ہوئے اشک، اہل بیت اطہار پر بہائے ہوئے آنسوں کے موتی، مظلوموں، یتیموں اور ظالموں کے ہاتھوں اسیر بے دفاعوں کے دفاع میں بہائے ہوئے اشکوں کے گوہر۔ خدایا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے،میرے ہاتھوں میں پیش کرنے کو کچھ ہے اورنہ ہی اپنے دفاع کی طاقت ہے۔ بس ایک ہی چیز میں نے ذخیرہ کی ہے اور اسی ذخیرہ سے میری امید وابستہ ہے اور وہ ہے ہمیشہ تیری جانب سفر کی حالت۔ یعنی جب میں نے ان کو تیری بارگاہ میں دراز کیا، جب میں نے ان کو تیری خاطر زمین یا اپنے زانوں پر رکھا، جب تیرے دین کے دفاع کے لئے ان سے اسلحہ اٹھایا... یہ سب میرا ان ہاتھوں کا سرمایہ ہے جس کے لئے میں امید کرتا ہوں کہ تو نے اس کو قبول کیا ہوگا۔ خدا یا! میرے پیر بھی سست ہیں، ان میں جان نہیں ہے۔ان میں پل صراط کو عبور کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ عام پلوں پر میرے پیر لرز اٹھتے تھے ، وائے ہے مجھ پر کہ پل صراط تو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ مگر ایک امید ایک آس مجھے مژدہ سناتی ہے کہ شاید میرے قدم نہ ڈگمگائیں، ممکن ہے کہ میں نجات پا جائوں اور وہ یہ کہ میں ان پیروں سے تیرے حرم میں داخل ہوا ہوں اوران کے ذریعہ سے تیرے گھر کا طواف کیا ہے، تیرے اولیاء کے روضوں میں، بین الحرمین یعنی تیرے حسین اور عباس کے حرم کے درمیان برہنہ پا سعی کی ہے۔ میں نے ان پیروں کو طویل مورچوں پر خم کیا ہے اور تیرے دین کے دفاع کے لئے ان پیروں سے دوڑدھوپ کی ہے۔ تیرے دین کے لئے تگ و دو کی ہے، رویا ہوں اور رلایا ہے، ہنسا ہوں اور ہنسایا ہے،میں گرا بھی اٹھا بھی۔ مجھے امید ہے کہ تودوڑدھوپ اور تگ و دو کے طفیل اور ان روضوں کی حرمت کی خاطر میرے پیروں پر رحم فرمائے گا۔ خدایا! میرا سر، میری عقل، میرے ہونٹ، میری سونگھنے کی حس، میرے کان، میرا دل، میرے تمام اعضا ء وجوارح تیرے فضل و کرم سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یا ارحم الراحمین!مجھے قبول کرلے، پاکیزہ بنا کر قبول کر لے، اس طرح سے مجھے اپنا لے کہ تیرے دیدار کے قابل ہو جائوں۔ میں تیرے دیدار کے علاوہ کچھ نہیں چاہتااے اللہ میری جنت تیرا جوار ہے ۔
خدایا! میں اپنے احباب کے قافلہ سے پیچھے رہ گیا! اے خدائے قادر! عرصہ ہوا کہ میں اس قافلہ سے پیچھے رہ گیا ہوں جس کی طرف مسلسل دوسروں کو روانہ کر تارہا... لیکن تو اس سے بخوبی آگاہ ہے کہ میں نے ان دوستوں کے ناموں کو ہمیشہ یاد رکھا ہے۔ صرف ذہن میں نہیں بلکہ اپنے دل اور آنکھوں میں ان کی یاد بسائے رکھی ہے اور انہیں آنسوئوں اور آہوں کے ساتھ یاد رکھا ہے۔ اے جان جاناں!میرا جسم بیمار ہو رہاہے، کس طرح ممکن ہے کہ جو چالیس سال سے تیرے آستانے پر پڑا ہو تو اس کو قبول نہ کرے؟ میرے خالق، میرے محبوب، میرے عشق ! میں نے ہمیشہ تجھ سے یہی چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق کی آگ سے بھر دے، مجھے اپنے فراق میں جلا اور مار ڈال۔ میرے عزیز!میں قافلہ عشق سے پیچھے رہ جانے کی رسوائی کے سبب اور اس قافلہ سے ملحق ہونے کی بے قراری میں بیابانوں کی خاک چھانتا رہا۔ ایک امید، ایک آس پر اس شہر سے اس شہر، اس صحرا سے اس صحرا، جاڑوں اور گرمیوں میں محو سفر ہوں۔ اے کریم ، اے حبیب! میں نے تیرے کرم سے لو لگائی ہے، تو خود جانتا ہے کہ میں تیرا عاشق ہوں۔ تو بہتر جانتا ہے کہ تیرے سوا کسی کو نہیں چاہتا...بس مجھے اپنا وصال نصیب فرما...۔میرے معبود، میرے عشق و معشوق! میں تیرا عاشق ہوں،میں نے بارہا تجھے دیکھا ہے، تجھے محسوس کیا ہے، مجھ میں تجھ سے جدا رہنے کی تاب نہیں ہے۔ بہت ہو چکا ، بس اب مجھے قبول کرلے مگر اس طرح کہ میں تیرے لائق رہوں۔
جذبۂ جہاد سے سرشار بہن بھائیوں سے خطاب ! اس عالم میں میرے مجاہد بہن بھائیو! اے وہ جنہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دے دئیے اور اپنی جانیں اپنی ہتھیلیوں پر رکھ کر بازار عشق میں بیچنے چلے آئے...خوب توجہ کریں !اسلامی جمہوریہ، اسلام و تشیع کا مرکز ہے۔اس وقت امام حسین علیہ السلام کا میدان، ایران ہے۔ جان لیجئے کہ اسلامی جمہوریہ ایک حرم ہے، اگر یہ حرم محفوظ ہے تو دوسرے حرم بھی باقی ہیں۔ اگر دشمن اس حرم کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو کوئی حرم باقی نہ بچے گا۔ نہ حرم ابراہیم، نہ حرم محمدۖ۔ میرے بھائیو اور بہنو! اسلامی دنیا کو ہمیشہ سے رہبر و قائد کی ضرورت ہے۔ ایسا رہبر جو شرعی اور فقہی اعتبار سے معصوم کی جانب سے منصوب ہو اور ان سے متصل ہو۔ اچھی طرح جان لیں کہ پاکیزہ ترین عالم دین جس نے جہان کو دگرگوں کیا اور اسلام کو دوبارہ زندہ کیا یعنی ہمارے امام خمینینے ولایت فقیہ کو اس امت کی نجات کا واحد راستہ بتایا ہے ، لہٰذا آپ سب جو ایک شیعہ ہونے کی حیثیت سے دینی اعتبار سے اس کے معتقد ہیںیا آپ جو ایک سنی کے عنوان سے عقلی طور پر اس کا اعتقاد رکھتے ہیں، جان لیںکہ ہر اختلاف سے دور رہتے ہوئے اسلام کی نجات کے لئے خیمہ ولایت کو نہ چھوڑیں۔ یہ خیمہ ، رسول اللہ کا خیمہ ہے۔ اسی کی وجہ سے سارا جہان اسلامی جمہوریہ ایران کا دشمن بنا ہوا ہے ،وہ اس خیمہ کو جلا کر ویران کر دینا چاہتا ہے۔ اس کا طواف کیجئے۔ خدا کی قسم ...! اگر اس خیمہ کو نقصان پہنچا تو حرم بیت اللہ، حرم رسول اللہ، مدینہ، نجف، کربلا، کاظمین، سامرا و مشہد بھی نقصان اٹھائیں گے حتی کہ قرآن کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ایرانی بھائی بہنوں سے خطاب! میرے ایرانی بھائی بہنوں، سربلند اور پر افتخار لوگو! میری اور میرے جیسوں کی جان ہزار بار آپ پر فدا ہو جیسے آپ لوگوں نے اپنی ہزاروں جانیں اسلام اور ایران پر فدا کی ہیں، آپ سب اصول کی پیروی کیجئے۔ اصول یعنی ولایت فقیہ۔ بالخصوص اس ولی فقیہ، حکیم و دانا، مظلوم اور دین و فقہ و عرفان و معرفت کے چراغ ،عزیز و محترم سید علی خامنہ ای کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھئے۔ ان کی حرمت کو مقدسات کی حرمت کی طرح سمجھئے ۔ جان لیجئے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ہر دل عزیز امام خمینی کا ہنر یہ تھا کہ انہوں نے پہلے اسلام کو ایران میں نافذ کیا پھر ایران کو اسلام کی خدمت پر مامور کیا۔ اگر اسلام نہ ہوتا اور اسلامی روح اس معاشرے پر حاکم نہ ہوتی تو صدام ایک درندہ کی مانند اس ملک کو کھا جاتا۔ امریکہ شکاری کتوں کی طرح اس ملک کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا۔ لیکن پھرامام خمینی نے اسلام کو اس ملت کا پشت پناہ بنایا۔ عاشورا، محرم و صفر اور ایام عزائے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اس ملک و ملت کا یارو مدد گار کیا... میرے عزیزو!اس اصول میں اختلاف کو راہ نہ دیں۔ شہدائے ملت ہماری عزت و کرامت کا مرکز و محور ہیں۔ صرف آج نہیں بلکہ یہ شہدا ہمیشہ خدا وند سبحان کے وسیع و عریض سمندر سے متصل رہے ہیں۔ ان کو اپنی آنکھوں، دلوں اور زبان کے ساتھ ایسا ہی عظیم اور عالی مرتبت رکھئے جیسا وہ حقیقت میں ہیں۔ اپنے بچوں کو ان کے ناموں اور ان کی تصاویر سے آشنا کیجئے۔ ان کے والدین، زوجات کا احترام کیجئے۔ جس طرح آپ اپنے بچوں کے ساتھ مہربانی اورشفقت کا برتا کرتے ہیں شہدا کے خاندانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی خاص برتا کیجئے۔
کرمان کے لوگوں سے خطاب میں کرمان کے باسیوں سے بھی کچھ کہنا چاہوں گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چاہے جانے کے قابل ہیں جنہوں نے آٹھ سالہ جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں اور بلند مرتبت جنگ آور سردار اور مجاہد، اسلام کی راہ میں قربان کئے ہیں...۔ میرے عزیزو! میں تقدیر الٰہی کے سبب آج تمہارے درمیان نہیں ہوں لیکن میں تم سب کو اپنے والدین ، بہن بھائیوں اور بچوں سے زیادہ چاہتا ہوں، کیونکہ میں ان سے زیادہ تمہارے ساتھ رہا ہوں۔ ہر چند کہ میں ان کا پارۂ تن تھا اور وہ میرے وجود کا حصہ تھے ، مگر انہوں نے بھی اس کو قبول کر لیا تھا کہ میں اپنا وجود آپ سب کی اور ایرانی قوم کی نذر کر دوں۔میں چاہتا ہوں کہ کرمان تا دم آخر ولایت کا حامی و مدد گار رہے۔ یہ ولایت ، ولایت علی ابن ابی طالب ہے، اس کا خیمہ ، فاطمہ کے لعل حسین کا خیمہ ہے، اس کا طواف کرتے رہئے۔ میں ہمیشہ آپ کے ہمراہ ہوں۔ میں وصیت کرتا ہوں کہ اسلام کو ایسے دور میں جو انقلاب اسلامی اور جمہوری اسلامی کا دور ہے، تنہا نہ چھوڑئیے۔ اسلام کا دفاع ہوش و حواس اور خاص توجہ کا طلب گار ہے۔ اسلام، اسلامی جمہوریہ، اسلامی مقدسات اور ولایت فقیہ کی بحثیں، الٰہی رنگ کی حامل ہیں لہذا خدائی رنگ کو ہر رنگ پر ترجیح دیجئے۔
شہدا کے خانوادے سے خطاب! میرے بچو، میرے بیٹو اور بیٹیو، شہیدوں کے فرزندو، شہدا کے ماں باپ، اے ہمارے ملک کے روشن چراغو، شہدا کے بھائی بہنوں اور وفادارو دیندار بیویوں!شہدا کے بچوں کی آوازیں ہی وہ آوازیں تھیں جن کو میں اس دنیا میں روز سنتا تھا اور ان سے مانوس تھا اور وہ قرآن کی آوازکی مانند ہی مجھے سکون پہنچایا کرتی تھیں انہیں آوازوں کو میں اپنی معنویت کا یار و مدد گار گردانتا تھا۔ شہداء کے والدین کی آوازوں سے مجھے خصوصی انسیت تھی میں ان کے وجود میں اپنے والدین کے وجود کو تلاشا کر تا تھا۔ میرے عزیزو!جب تک آپ اس قوم کے پیشرو ہیں اپنی قدر کو جانئے۔ اپنے شہیدوں کو اپنے اندر جلوہ گر کیجئے۔ اس طرح کہ جب بھی کوئی آپ کو یعنی کسی شہید کے فرزند کو کسی شہید کے باپ کو دیکھے تو اسے یہ محسوس ہو کہ وہ خود شہید کو اسی معنویت روحانیت اور ہیبت و جلالت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔میں آپ سب سے عفو و بخشش کا طلب گار ہوں۔ میں آپ میں سے اکثر کا حتی کہ شہیدوں کے بچوں کا حق بھی کما حقہ ادا نہ کرسکا ۔ اس کے لئے میں خدائے قدیر سے استغفار طلب کرتا ہوں اور آپ سے معافی کا خواستگار ہوں۔میری خواہش ہے کہ میرا جنازہ شہیدوں کے فرزند اپنے کاندھوں پر اٹھائیں، شاید ان کے پاکیزہ ہاتھوں کی برکت سے خدا وند متعال میرے جسد خاکی پر رحم فرمائے اور اپنی خاص رحمت کا حق دار قرار دے۔
ملک کے ساست دانوں سے خطاب ! مجھے اپنے ملک کے سیاستدانوں سے بھی مختصر بات کرنی ہے۔ چاہے وہ خود کو اصلاح طلب کا نام دینے والے ہوں یا خود کو اصول گراکہنے والے ہوں۔ میں ہمیشہ اس بات سے رنجیدہ خاطر رہا ہوں کہ معمولاً ہم دو دھڑوں میں، خدا ، قرآن اور اقدار کو فراموش کردیتے ہیں بلکہ قربان کر دیتے ہیں۔ میرے عزیزو! آپس میں رقابت ہو یاکوئی جھگڑا ، لیکن اگر آپ کا عمل ، آپ کا مناظرہ، کسی بھی طرح دین اور انقلاب کو کمزور کرنے کا سبب بنے تو جان لیجئے کہ آپ نبی مکرم ۖاور اس راہ میں شہید ہونے والوں کی نظرو ں میں مغضوب ہو گئے ہیں ،سو سرحدوں کو جدا کیجئے۔ اگر آپ ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ہمراہ ہونے کی شرط، باہمی توافق اور اصول کے محور پر واضح بیان ہے......۔
آیات عظام اور علماء سے خطاب! عظیم الشان علما و مراجع خصوصاً مراجع تقلیدسے، جو معاشرہ سے تاریکی دور کرنے کا سبب ہیں، ایک سپاہی کی عرضی ہے جس نے چالیس سال میدانوں میں گذارے ہیں۔ آپ کے ایک سپاہی نے نگہبانی کے ایک مینار سے دیکھا ہے کہ اگر اس نظام کو کوئی نقصان پہنچا تو دین اور اس کی اقدار کہ جن کے لئے آپ نے علمی حوزوں میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے اور اس قدر صعوبتیں برداشت کی ہیں، سب نقش بر آب ہو جائے گا۔ یہ ادوار تمام ادوار سے مختلف ہیں، اگر اس بار استعمار مسلط ہو گیا تو اسلام نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ صحیح راستہ انقلاب، جمہوری اسلامی اور ولی فقیہ کی حمایت ہے بغیر کسی لحاط و تحفظ کے۔ ایسا نہ ہو کہ حوادث دوراں میں دوسرے لوگ آپ کو جو اسلام کی امید ہیں تحفظات کا شکار کر دیں۔ آپ سب امام خمینی کو پسند کرتے تھے اور ان کے راستے کے معتقد تھے تو امام خمینی کا راستہ امریکا سے جنگ اور ولی فقیہ کے پرچم تلے اسلامی جمہوریہ ایران اور استعمار و استکبار کے مظالم کا شکار مسلمانوں کی حمایت اور مدد ہے۔میں نے اپنی عقل ناقص سے محسوس کیا ہے کہ بعض خناس صفت اس کوشش میں ہیں کہ معاشرے میں اثر و رسوخ رکھنے والے مراجع اور علما ء کو اپنی گفتار کے ذریعے حق سے سکوت اور تحفظات کی جانب لے جائیں۔ حالانکہ حق واضح ہے۔ اسلامی جمہوریہ ، اقدار اسلامی اور ولایت فقیہ امام خمینی کی میراث ہے جس کی سنجیدگی کے ساتھ حمایت کی جانی چاہئے۔ میں آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو بہت تنہا اور مظلوم محسوس کر رہا ہوں۔ انہیں آپ کی ہمراہی اور مدد کی ضرورت ہے اور آپ سب معززین اپنی تقاریر، ملاقاتوں اور رہبر کی حمایت کے ذریعہ معاشرہ کو درست سمت پر گامزن کر سکتے ہیں۔ اگر اس انقلاب کو کوئی نقصان پہنچا تو اس مرتبہ شاہ کا زمانہ بھی نہ ہوگا بلکہ استکبار اس معاشرہ کو کفر، خالص الحاد اور گہرے انحراف کی جانب ڈھکیل دے گا جس سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔میں آپ کی دست بوسی کے ساتھ آپ سے معذرت کا طلب گا ر ہوں کہ آپ کے حضور لب کشائی کی، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ سب کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرائض پیش کروں مگر اس کی فرصت نصیب نہ ہو سکی۔(آپ کا سپاہی اور خدمت گذار)
سبھی سے طلب مغفرت ! اپنے سبھی پڑوسیو،دوستو اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے معافی کا طلب گار ہوں۔ میں اس لشکر ثار اللہ اور قدس کی با عظمت فوج سے بھی عفو و بخشش کا متمنی ہوں جو دشمن کی آنکھ میں تیر اور اس کے ارادوں میں حائل ایک مضبوط دیوار ہے...بالخصوص ان لوگوں سے جنہوں نے برادرانہ میری مدد کی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس مقام پر میں حسین پور جعفری کا نام نہ لو ںجنہوں نے کمال خیر خواہی اور بڑے پن کے ساتھ میری ایسے ہی مدد کی جس طرح اپنے بچوں کی مدد کی جاتی ہے ۔ میں نے بھی ان کو اپنے بھائیوں کی طرح چاہا ۔ حسین پور جعفری کے اہل خانہ اوران تمام مجاہد بھائیوں سے عذر خواہی کرتا ہوں جن کو میں نے زحمتوں میں ڈالا۔ ہرچند کہ سپاہ قدس کے تمام لوگوں کا رویہ میرے ساتھ برادرانہ اور محبت آمیز رہا اور سبھی نے میری مدد کی۔ میں اپنے عزیز دوست سردار قاآنی سے بھی عفو کا خواستگار ہوں جنہوں نے بہت ہی صبر و متانت کے ساتھ مجھے برداشت کیا۔والسلام ماخوذ از کتاب :’’زندہ شہید ‘‘
|
مقالات کی طرف جائیے |
|