|
زیارت اربعین کے آفاقی مضامین ، ایک سرسری جائزہ (۲) |
سید وقار احمد کاظمی |
اس ضروری بحث کے بعد اب قارئین کی خدمت میں زیارت اربعین میں موجودہ مضامین کو بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے : زیارت اربعین میں موجود ہ مضامین زیارت اربعین پڑھنا علامت مومن چاہے کربلا میں حاضر ہوکر پڑھے یا دور سے کربلا کا رخ کر کے؛جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ زیارت پڑھنے کا مقصد صرف زبان سے کلمات کا ادا کرنا نہیں کرنا ہے بلکہ اس کے معنی اور اسکے مفہوم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے،یہ زیارت اربعین جو امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ،اس زیارت عالیہ میں بہت ہی بلند و بالا مفہوم ذکر ہوئے ہیں یہ زیارت ایک عظیم مضمون کی حامل ہے یہاں پر ہم اس مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں: 1-امام حسین علیہ السلام کے صفات زیارت اربعین دوسری زیارتوں کی طرح "سلام" سے شروع ہوتی ہے جو شیعوں کےاپنے ائمہؑ سے محبت کی علامت اور تولا کی دلیل ہے، سلام کے بہت سے معنی بیان ہوئے ہیں جیسے سلام اللہ کا نام ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ آپ کا حافظ ہے،کبھی سلام تسلیم کے معنی میں آتاہے اور کبھی سلام،سلامتی کے معنی میں آتا ہے، اور جب ہم سلام کرتے ہیں تو ان میں امامؑ کو متعدد صفات سے مخاطب کرتے ہیں جو امام کی زندگی کے الگ الگ پہلوؤں کی طرف اشارہ ہے:اس زیارت کی ابتدا میں امام حسین ؑکو "ولی خدا،حبیب خدا، خلیل خدا،شہید مظلوم،اسیر غم و رنج اورکشتہ گریہ" "السلام علی ولی اللہ وحبیبہ، السلام علی خلیل اللہ ونجیبہ السلام علی صفی اللہ وابن صفیہ السلام علی الحسین المظلوم الشھید السلام علی اسیر الکربات و قتیل العبرات " جیسے عظیم صفات کے ذریعہ زائر سلام کرتا ہے، اور اس سلام کا مطلب اوپر بیان ہوئے معنی کے اعتبار سےیہ ہوتا ہے کہ زائر اپنے دل میں یہ کہتا ہے کہ "ہماری طرف سے امام کو کوئی اذیت یا تکلیف نہیں ہوگی" اس لئے کہ امام حسین ؑ اور تمام ائمہ کا ہدف اور مقصد صرف اور صرف لوگوں کی اصلاح اور ان کی ہدایت یعنی انہیں اطاعت خدا کے لئے آمادہ کرناہے،لہٰذا ائمہؑ کواللہ کی معصیت اور اس کے امر و نہی کی مخالفت نیز ناپسندیدہ اخلاق جیسے ،تکبر ،لالچ،سود،غیبت،چغل خوری،دوسروں کو اذیت پہنچاناو غیرہ،ان سب سے تکلیف اور اذیت ہوگی،لہٰذا زائر یہ کہتا ہے مولا ہم ان سب صفات سے دور ہیں اور دور رہیں گے اور اطاعت الٰہی میں زندگی بسر کریں گے ؛ ان صفات کو ذکر کرنے کے بعد زائر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دیتا ہےکہ امامؑ" شہید،خدا کے ولی اور ولی خدا کے فرزند،اللہ کے منتخب اور منتخب الٰہی کے فرزند ہیں؛ اللھم انی اشھد انہ ولیک وابن ولیک وصفیک وابن صفیک " تاکہ یہ گواہی زائر کے ایمان کی گہرائی کو اجاگر کرسکے اور اور اس عقیدہ کو اس کے دل وجان میں راسخ کرسکے۔ 2-امام حسین علیہ السلام کے امتیازات بعد کے فراز میں امام شہید ؑ کے بعض بہت ہی خاص امتیازات اور خصوصیات کاتذکرہ ہے جو اللہ نے امام حسین ؑ کو عطا کیا : الف)شہادت کے سایہ میں کرامت الٰہی پر فائزہونا"اکرمتہ بالشھادۃ" ب)خصوصی سعادت کا مالک ہونا جو اللہ کی عطا اور نواز ش ہے"حبوتہ بالسعادۃ" ج) ولادت کا طیب و طاہر اور پاک وپاکیزہ ہونا"واجتبیتہ بطیب الولادۃ" د)سرداروں میں سردار قائدوں میں قائد اور دین کا مدافع ہونا"وجعلتہ سیداً من الساده و قائداً من القاده وذائداً من الذادۃ " ھ) میراث انبیاء کا وارث اور تمام مخلوقات پر حجت الٰہی ہونا"واعطیتہ مواریث الانبیاء و جعلتہ حجۃ علی خلقک من الاوصیاء" 3-عاشوراکا فلسفہ عاشورا اورقیام امام حسینؑ کا الگ الگ کتابوں اور الگ الگ جگہوں پر مختلف فلسفہ اورہدف ذکر ہوا ہے ، لیکن جو فلسفہ اس زیارت میں ذکر ہوا ہے وہ یقیناً جامع اور منفردہے:وہ فلسفہ اور ہدف" امت کی ہدایت، نجات اور بیدار ی"ہے،امام نےلوگوں کو اللہ کے راستے اور نبی (ص)کی سنت نیز قرآن کے احکام کی طرف دعوت دینے میں اس طرح عمل کیا کہ کوئی راہ عذر باقی نہیں رہا یعنی امام نے حق دعوت ادا کر تے ہوئے حجت تمام کر دی" فاعذر فی الدعاء ، ومنح النصح"۔ کبھی معاشرے کو جگانے کے لئے بیدار کرنے کے لئے ،اس میں موجود بدعتوں اور خرافات کو ختم کر نے لئے انسان کو "خون دل"کا تحفہ پیش کرنا ہوتا ہے،امام ؑ نے اللہ کی راہ میں اپنے "خون دل"کو نچھاور کردیا:بذل مہجتہ فیک؛تیری راہ میں اپنا خون دل دے دیا" اور خون دل دینے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکی اور گمراہی کی حیرانی سے نکال سکیں، اور اللہ کے بندوں کی تکلیف معین اور روشن ہوسکے:"لیستنقذ عبادک من الجہالۃ و حیرۃ الضلالۃ؛تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرانی سے نکال لے" اُس وقت کے معاشرے کی حالت اور ان کی بے بصیرتی کو بیان کرنے کےلئے بہت وقت درکار ہے،بس خلاصہ یہ کہ اس وقت معاشرے کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ صرف فرزند رسول(ص) کا خون ہی معاشرہ میں انقلاب اور تبدیلی لا سکتا تھا اور اموی حکومت کی بنیاد کو ہلا سکتا تھاجو بنیاد لوگوں کی جہل و نادانی پر ٹکی ہوئی تھی، اور اسی جہالت کے سہارے مضبوط تھی ۔ عاشوارا کا فلسفہ وہی ہے جو پیغمبر اکرم(ص) کی رسالت کا فلسفہ قرآن و نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے یعنی"لوگوں کوعالم اور آگاہ کرنا نیز تہذیب نفس کے ذریعہ عاقل بنانا" نبی ؐآئے تھے تاکہ لوگوں کو تعلیم دیں اور تزکیہ کریں یعنی جاہلوں کو عالم اور گمراہوں کی ہدایت کر سکیں؛ حسین بن علی ؑ جو وجودی اعتبار سے اور نوری دونوں اعتبار سے رسول اکرم سے متصل تھے"حسین منی وانا من حسین " امام کا بھی وہی ہدف ہونا چاہئے جو رسول کا تھا لہٰذا اس وجودی اتصال کے عملی نمونہ کو دو جملوں میں اس زیارت مقدسہ میں ذکر کیا گیا ہے" لیستنقذ عبادک من الجہالۃ و حیرۃ الضلالۃ؛تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرانی سے نکال لے" امام حسین ؑ کا بھی ہدف لوگوں کو عالم کرنا اور ان کی ہدایت کرنا تھا۔ 4۔دشمنوں کے مذموم صفات وہ کون سے افراد تھے جوامام حسین ؑ سے جنگ کے لئے آئے تھے اور اس عظیم جنایت کے مرتکب ہوئے؟ان کا مقصدکیا تھا جو "ثار اللہ" کو شہید کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا تھا ؟ اسی زیارت میں چند جملوں میں اس گروہ کے اس عظیم جنایت کی وجہ کو ان کے مذموم صفات کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے: -دنیا کے فریب خوردہ"غرتہ الدنیا؛دنیا نے انہیں بہکا دیا" -آخر ت کو معمولی قیمت پر بیچنے والے"شری آخرتہ بالثمن الاوکس؛ آخرت کو معمولی قیمت پر فروخت کردیا" -خواہشات کے چکر میں ہلاک ہونے والے "تردیٰ فی ھواہ؛ خواہشات میں ہلاک ہوگئے" -اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کرنے والے:"واسخطک و اسخط نبیک؛تجھے اور تیرے نبی کو ناراض کیا" -گناہگاروں ،شقی اور منافقوں کی اطاعت کرنے والے: "واطاع من عبادک اھل الشقاق والنفاق؛تیرے بندوں میں اہل شقاق و نفاق کی اطاعت کر لی " ان تمام صفات کو دیکھیں اور شمر ،عمر سعد،ابن زیاد اور یزید ملعون کی زندگی کامطالعہ کریں ،یقیناً آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان افراد میں جو قاتلان حسین کے سب سے نمایاں نام ہیں یہ صفات بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان مذموم صفات کی انتہا ان ہی پر ہے۔ 5۔جہاد سے شہادت تک کا سفر اللہ کی راہ میں اپنے وظائف کو خلوص کے ساتھ انجام دیتے ہوئے شہادت تک جہاد کرتے رہنا اور صبر کی اعلیٰ منزل پر فائز رہنا حتی شہادت کے بعد بھی صبر کرنا یعنی آل اللہ کی اسیری پر صبر کرنا جو اسیری دین کی آزادی اور دین کی بقا کی بنیاد بنی اور جس نے بنی امیہ کے اس ارادے کو چکنا چور کیا جو وہ اسلام کے خلاف ، اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انجام دینا چاہ رہے تھے: "فجاھدھم فیک صبارا محتسباً ،حتی سفک فی طاعتک دمہ ، واستبیح حریمہ"؛(اے اللہ)تیرے حسین نے تیری راہ میں صبر کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ تیری اطاعت میں ان کا خون بہا دیا گیا اور ان کی حرمت کو حلال سمجھ لیا گیا" دین کی زندگی اور بدعتوں سے دست و پنجہ نرم کرنے کے لئے انسان کے اندر قربانی اور فدا ہوجانے کا جذبہ اور حوصلہ درکار ہے،وہ شخص جو اس راستے میں قدم اٹھائے اسے اہل جہاد بھی ہونا چاہئے،صبر اور استقامت کا مالک بھی ہوناچاہئے ، اخلاص اور خلوص نیت کا پیکر بھی ہونا چاہئے اور اسے اس بات کے لئے تیار ہونا چاہئے کہ اس راہ میں اس کا اور اس کے خاندان کا خون بھی بہہ سکتا ہے اور اس کے خاندان کی ہتک حرمت بھی ہوسکتی ہے اسے ہرہر طرح سے آمادہ ہونا چاہئے ۔ امام حسین ؑ اللہ کے اور اس کے رسول کے محبوب تھے رسول کے پیارے تھے لیکن حسین ؑ اس گرم صحرا میں ان خبیث اور بد طینت ملعونوں کے نرغے میں گھر گئے ، ہاں زہرا کے لعل نے خود کو ہر ہر مصیبت کے لئے آمادہ کر رکھا تھا :اپنی اور اپنے خاندان حتی چھوٹے چھوٹے بچوں کی پیاس، بھوک ،پیکر مطہر کی عریانی،سر و تن میں جدائی ،نوک نیزہ پہ سر اقدس کا جانا،خیموں میں آگ کا لگنا،جسم اطہر کی پامالی ،خیموں کا لٹنا،اہل حرم کی اسیری وغیرہ وغیرہ ،شہید مطہری کے بقول "21 قسم کی جنایتوں " کے لئے خود کو تیار کر رکھا تھا اور یہ سب صرف راہ خدا میں تھااور زبان پہ ایک کلمہ تھا"الھٰی رضا بقضائک"۔ 6۔دشمنوں پہ لعنت اور ان سے بیزاری بہت سی زیارتوں میں ، سلام کے ساتھ دشمنوں پہ لعنت اور ان سے بیزاری بھی موجود ہے جو ائمہ ؑسے تولا کے ساتھ ان کے دشمنوں سے تبرا کی علامت ہے، اس زیارت میں خود زائر قاتلوں اور کافروں پر لعنت بھیجتا ہے اور پھر اللہ سے بھی ان پر لعنت کی درخواست کرتا ہے:"اللھم فالعنھم لعنا وبیلا وعذبھم عذاباً الیما؛خدایا ان کے قاتلوں پرسخت لعنت اور دردناک عذاب نازل فرما" زائر کا اس طرح لعنت اور عذاب کا تقاضا کرنا ان ملعونوں کے لئے جنہوں نے روز عاشورا زمین وآسمان کو لرزا دیا ،یہ لعنت کا تقاضازائر کی تبرائی روح کو بیان کررہا ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول ؐکے دشمنوں کی دشمنی پر اور زیادہ ثابت قدم رہنے میں مددگار ثابت ہونے میں مددگار ہے۔ 7۔امام حسین علیہ السلام کا رسالت سے رشتہ جب ہم امام حسین کی زیارت میں پیغمبر اکرم ،امیر المومنین ؑ اور خاندان نبوت وعصمت کا تذکرہ کر رہے ہیں تو یہ تذکرہ اس لئے ہے تاکہ اس شہید امام کے رشتے کو بیان کیا جائے کہ امام کا اس بلند و رفیع خاندان سے کتنا گہرا رشتہ ہے،جیسا کہ دوسری زیارتوں میں بھی امام حسین ؑ کو اس انداز میں سلام کرتے ہیں کہ آپؑ :" فرزند رسول(ص)،فرزند فاطمہؑ،فرزند امیر المومنینؑ ،وارث انبیاء ،امین خدا،امین خدا کے لعل،وصی خدا ،وصی خدا کے فرزند " ہیں،اسی طرح اس زیارت میں بھی ہم اس انداز میں سلام کرتے ہیں :"السلام علیک یابن رسول اللہ، السلام علیک یابن سید الاوصیاء؛سلام ہو آپ پر اے دلبند رسول(ص)،سلام ہو آپ پر اے فرزند سید الاوصیاء" اس سلام کا مقصد یہ ہے کہ امام کے رشتہ کو اجاگر کریں اور دشمنوں کے اس حربہ کی کاٹ کر سکیں جس میں دشمنوں نے کربلا کے شہیدوں کو خاندان نبوت اور آل اللہ سے جداکرکے پیش کیا ۔گویا ہم اپنے اس جملے سے یہ بیان کرتے ہیں بس یہی خاندان نبوت اور آل اللہ ہیں ۔ 8۔امام حسین علیہ السلام کی سعادت مندانہ حیات اور قابل مدح زندگی اگرچہ امام حسین ؑ سے زیادہ حدیثیں نقل نہیں ہوئی ہیں ،لیکن جتنی بھی نقل ہوئی ہیں ان میں اگر دوسرے اماموں کی بنسبت ہم حساب کریں تو امام حسین ؑ کی حدیثیں عزت نفس اور سعادت کے بارے میں بہت زیادہ ہیں؛ کتاب "طوبای کربلا" میں عزت کے سلسلے سے امام حسین ؑ کی چالیس حدیثیں ذکر ہوئی ہیں جو "حوزہ نت" پر حدیث عزت کے عنوان سے موجود ہیں ۔ عزت کے سلسلے سےامام کا جو سب سے مشہور قول ہے وہ اس انداز میں ہے"موت فی عز خیراً من حیاۃ فی ذل؛عزت کی موت بہتر ہےذلت کی زندگی سے" گویا امام نے یہ بیان کردیا کہ عزت ہی میں سعادت ہے ،سعادت چاہئے تو عزت کی زندگی گزارو۔ زیارت اربعین میں امام صادق ؑ نے بیان کیا ہے کہ حسین بن علی ؑ نے سعادتمندانہ زندگی گزاری:"عشت سعیداً" اور لائق مدح و تعریف موت پائی :مضیت حمیداً" اور مظلومانہ شہادت نصیب ہوئی:"مظلوماً شہیدا" خدا نے بھی راہ خدا میں شہید ہو جانے والے افراد اور فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کی نصرت ، حیات ابدی اور عزت وسر بلندی کا وعدہ کیا ہے اورنیز ظالمین اور مستکبرین کی ہلاکت کا وعدہ بھی کیا ہے،چاہے یہ وعدہ فوراً پوا ہوجائے یا اس کے لئے طولانی زمانہ درکار ہو۔ لہٰذا ہم زیارت اربعین میں اس وعدہ الٰہی کے پورے ہونے کی یقینی گواہی دیتے ہیں :"اشھد ان اللہ منجز ما وعدک و مھلک من خذلک؛میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ آپ کے وعدے کو پورا کرنے والا اور آپ کو چھوڑنے والوں کو ہلاک کرنے والا ہے" 9۔ظالمین اور ان کے ہم فکر وں سے بیزاری دینی اعتبار سے ظلم کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ظاہری طور سے اس ظلم پہ خاموش اور راضی رہنے والے افراد بھی مستحق لعنت ہیں اگرچہ انہوں نے ظلم میں شرکت نہیں کی لیکن چونکہ و ہ باطنی اور دلی اعتبار سے اس عمل سے راضی تھے اس لئے وہ بھی شریک جرم ہیں جیسا کہ امام علی ؑ کا قول ہے :"الراضی بفعل قوم کالداخل فیہ معھم؛کسی قوم کے عمل پہ راضی رہنے والا شخص ایسا ہی ہے جیسے ان کے ساتھ ان کے عمل میں شامل ہو" یہ حقیقت (ظالم کے ہم فکر اور ان کے عمل پہ راضی افراد بھی مستحق لعنت ہیں ) متعدد زیارتوں میں بیان ہوئی ہے جیسے زیارت عاشورا ،زیارت وارثہ ؛اس زیارت میں بھی یہ حقیقت بہترین انداز میں ذکر ہوئی ہے اور خدا کی لعنت جس طرح سے امامؑ کے قاتلوں اور ظالموں پر ہے اسی طرح ان لوگوں پر بھی ہے جنہوں نے اس واقعہ کو سنا اور اس پر راضی رہے:"فلعن اللہ من قتلک و لعن اللہ من ظلمک ولعن اللہ امۃ سمعت بذالک و رضیت بہ" فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے کون مستحق لعنت ہے اور کون قابل مدح، لہٰذا اس کے بعد شیعہ زائر اپنے عقیدے اور اپنے موقف کو صاف و شفاف طریقے سے بیان کرتا ہے ،ہم اولیائے الٰہی کے ساتھ ہیں اور خدا کے دشمنوں کے خلاف ہیں اور اس عقیدے پر خدا کو گواہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے :"اللھم انی اشھدک انی ولی لمن والاہ ، وعدو لمن عاداہ" اور پھر خاندان عصمت کی پیروی کرتے ہوئے اپنی ،اپنے والدین اور اعزاء کی جان اس راہ میں قربان کردینے کی آمادگی کا اظہار کرتاہے:"بابی انت وامی یابن رسول اللہ" اس جملہ کو دینی اصطلاح میں "دعائے تفدیہ" کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے :اے مولاؑگرآپ پر کوئی بلا یا مصیبت آن پڑی تو ، اللہ ہمارے والدین کی جان آپ پر نچھاور کر دے اور آپ محفوظ رہیں ،یہ دعائیہ جملہ امامؑ کے احترام اور ادب میں استعمال ہوا ہے۔ 10-طیب و طاہرخاندان اس مقام پہ آنے کے بعدزائر پھر سے امام ؑ کے نسل کی طہارت کی گواہی دیتا ہے جس طرح سے قرآن میں آیہ تطہیر نے اہل بیت پیغمبر ؑ کی طہارت اور عصمت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح زائر بھی امام کے اعلیٰ نسب اور خاندانی طہارت کی گواہی دیتا ہے نیز یہ گواہی دیتاہے کہ امام ؑ جو اہل بیت کی ایک فرد ہیں زمانہ جاہلیت کی تمام عقیدتی اور اخلاقی برائیوں اور کثافتوں سے طیب و طاہر ہیں اور یہ طہارت بابا کی جانب سے بھی ہے (یعنی دادہیال بھی اعلیٰ نسب )اور مادر گرامی کی جانب سے بھی (نانیہال بھی ارفع وبلند نسب):"اشھد انک کنت نوراً فی الاصلاب الشامخۃ والارحام المطھرۃ لم تنجسک الجاھلیۃ بانجاسھا ولم تلبسک من مدلھمات ثیابھا"؛میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بلند ترین اصلاب اور پاکیزہ ترین ارحام میں اللہ کے نور تھے،جاہلیت کی نجاست آپ کو چھو نہیں سکی اور اس کی تاریکیوں کے لباس آپ کو ڈھانپ نہیں سکے۔ 11۔امامت اور ائمہؑ کا مرتبہ اور مقام اسلامی معاشرہ میں ائمہ علیہم السلام اور خاص طور سے امام حسینؑ کا نقش ہادی اور محافظ کا رہا ہے دین کی حفاظت مومنین کی حفاظت ائمہ کا شیوہ رہا ہے،یہ خاندان مسلمانوں کی پناہ گاہ ،اسلام کا ستون اور شیعوں کا ملجاء و ماوا رہا ہے، اس زیارت میں امام علیہ السلام کو دین کا ستون ،مسلمانوں کے ارکان اور مومنین کی پناہ گاہ کہہ کے زائر امام اور امامت کے مرتبہ کا اقرار کرتا ہے:"اشھد انک من دعائم الدین وا رکان المسلمین ومعقل المومنین" اور پھر زائر آپ کوامام صادق ؑ کے تعلیم دئے ہوئےالقاب اور صفات سے یاد کرتا ہے :نیک کردار،تقی، رضی ،زکی، ھادی اور مہدی "اشھد انک الامام البر التقی الرضی الزکی الھادی المہدی"،پھر امام کی اس خصوصیت کا تذکرہ کرتا ہے جو متعدد روایات میں ذکر ہوئی ہے یعنی بقیہ ائمہؑ کا آپ کی اولاد اور آپ کی نسل سے ہونا اور یہ ذکر کہ ائمہ پرچم ہدایت ،ایمان کے محکم ریسمان اور اہل دنیا پر اللہ کی حجت ہیں "ان الائمہ من ولدک کلمۃ التقویٰ واعلام الھدیٰ والعروۃ الوثقیٰ" گویا اس جملہ میں زائر امامت اور ائمہ کے مرتبہ اور مقام کا اقرار کرتا ہے جس میں سب سے اہم مقام" حجت الٰہی" ہونا ہے ۔ 12۔ایمان ،تسلیم ،اتباع ایمان ،تسلیم اور اتباع وپیروی ،ہدایت اور سعادت کے یہ تین بنیاد ی اور اصلی عوامل ہیں ؛ہم شیعہ، ائمہ کی امامت کا اقرار کرتے ہوئے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "مومن بکم" اور پھر ان کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ان کی کامل طور سے اتباع اور پیروی کا اعلان اس انداز میں کرتے ہیں " وقلبی لقلبکم سلم وامری لامرکم متبع؛میرا دل آپ کے دل لئے تسلیم اور میرا امر آپ کے اوامر کا تابع ہے" اگرکسی انسان کے اندر یہ تینوں بنیادی عوامل پائے جاتے ہیں تو پھر اس کا لازمہ "نصرت ومدد "ہے جس طرح سے امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں موجوداصحاب و انصار ،آپ پر ایمان رکھتے اور آپ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے اور ہر ہر قدم پہ امامؑ کے ساتھ ساتھ رہے اوراپنی آخری سانس تک امامؑ کا دفاع کرتے رہے،اربعین کے موقع پہ زائر حسین بھی ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیوں اور امکان کو امام کی راہ میں صرف کر دیتا ہے، اور یہ نصرت کا سلسلہ یوسف زہرا امام زمانہ (عج) کی حکومت تک برقرار رہے گا :"ونصرتی لکم معدۃ حتی یاذن اللہ لکم؛اور میری نصرت آپ کے لئے حاضر ہےیہاں تک کے خدا سب کا فیصلہ کر دے" 13۔عقیدہ رجعت شیعوں کے عقیدوں میں ایک بہت ہی اہم عقیدہ "رجعت" ہے ؛لغت میں رجعت کے معنی ایک بار پلٹنا (واپس آنا)ہے اور اصطلاح میں مردوں کا دنیاوی زندگی کے لئے پلٹنا ، شیعوں کے عقیدہ کے اعتبار سے :امام زمانہ (عج)کے ظہور کے وقت،اللہ بعض مردوں کو اس دنیامیں اسی طرح سے پلٹائے گا جس طرح سے وہ پہلے تھے ،ان میں بعض کو عزت نصیب ہوگی اور بعض کو ذلت ملے گی، اور اللہ اہل حق کو باطل پر غلبہ عطا کرے گا اور مظلوم اپنا حق ظالموں سے حاصل کریں گے ، یہ رجعت مخصوص ہے بعض لوگوں سے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے "رجعت عمومی نہیں ہے بلکہ خاص لوگوں کے لئے ہے فقط وہ لوگ واپس اس دنیا میں آئیں گے جو خالص مومن ہوں گے یا خالص مشرک " اس عقیدہ کے ثبوت میں بہت سی روایات اور آیات ذکر ہوئی ہیں چونکہ ہمارا مقصد اس عقیدہ کو ثابت کرنا نہیں ہے لہٰذا تفصیل کے لئے عقائد سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے اور خود رجعت کے سلسلے سے مستقل کتابیں موجود ہیں جیسے آقای محمد رضا ضمیری نے ایک کتاب لکھی ہے اور اس کا نام"رجعت"رکھا ہے یہ کتاب فارسی میں ہیں جسکی طباعت نشر موعود تہران سے ہوئی ہے۔ اور علامہ مجلسیؒ نے بھی ایک مستقل کتاب "رجعت"کے نام سے لکھی ہے جس کا اردو ترجمہ برادر عزیز جابر عباس صاحب نے کیا ہے ۔ یہی عقیدہ اس زیارت میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے"وبایابکم موقن؛ آپ کی رجعت کا یقین رکھتا ہوں"یہ الفاظ دوسری زیارتوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں جیسے زیارت وارثہ میں۔ زائر ان الفاظ کے ذریعہ اپنے عقیدہ رجعت کو امام کے سامنے بیان کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ مولا مجھے یقین ہے کہ آپ ظہور امام زمانہ کے وقت آئیں گے اور آپ کو رجعت ہوگی۔ 14۔اپنے مسلک کا اعلان زیارت کے آخری مرحلوں میں زائر ،امام صادق علیہ السلام کے تعلیم دئے ہوئے جملہ کی تکرار کرتا ہے اور کہتا ہے"معکم معکم لا مع عدوکم ؛میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ ہوں نہ کہ آپ کے دشمنوں کے ساتھ" یعنی اس جملہ سے اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے یعنی وہ یہ کہتا ہے کہ اے مولا ہم آپ کے ساتھ ہیں نہ کہ آپ کے دشمن کے ساتھ ،زبانی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔ اس جملہ کے ذریعہ سے زائر اپنے مسلک کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے میرا مسلک "حسینی مسلک"ہے میرامسلک" یزیدی" نہیں ہے۔اور یہ یاد رہے کہ مسلک شبیر اپنے آپ کو شمشیروں کے حوالے کردیناہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے: تیر و سنان و خنجر و شمشرم آرزو ست با من میا کہ مسلک شبیرم آرزو ست گویا مسلک شبیر حق کی خاطر اپنے کو نوک سنا کے لئے آمادہ رکھنا ہے،مسلک حسینی ستم پزیری نہیں ہے کہ یزید ظلم کرتا رہے اور حسین جامہ احرام باندھے طواف کرتے رہیں ،بلکہ شبیر کا مسلک یہ ہے کہ جامہ احرام کھول کے کہہ دو کہ میں حج کو ترک کرسکتا ہوں مگر یزیدیت کے ستم پہ خاموش نہیں رہ سکتا ہے۔اب جو بھی حسینی مسلک ہوگا وہ ظلم پہ گردن جھکا نہیں سکتا اور جو ظلم دیکھ کے گردن جھکا لے وہ شبیری نہیں ۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ زیارت فقط زبان سے ان الفاظ کو پڑھنا نہیں ہے بلکہ جو الفاظ زبان پہ ادا ہورہے ہیں ان کو عملی جامہ پہنانا ہے ، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا فقط ہم زبان سے یہ کہہ ر ہے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں نہ کہ آپ کے دشمنوں کے؟یا پھر عملی اعتبار سے ؟ خاتمہ "صلوات" زیارت کاخاتمہ اور آخری جملہ صلوات کی صورت میں ہے "صلوات اللہ علیکم وعلی ارواحکم واجسادکم و شاھدکم وغائبکم وظاھرکم و باطنکم آمین رب العالمین؛اللہ کی صلوات آپ پر آپ کے ارواح و اجسام پر آپ کے شاہد و غائب پر اور آپ کے طاہر و باطن پر" اس جملہ میں ہر اعتبار سے سلام درود بھیج کر زائر اس زیارت کو منزل اختتام تک پہونچا تا ہےاورآپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پہ چاہے روح و جان ہو یا جسم و بدن ،چاہے حاضر ہو یا غائب ،چاہے ظاہر ہویا باطن ہر اعتبار سے درود وصلوات بھیجتا ہے اور اللہ سے درود کا تقاضا کرتا ہے ۔ نتیجہ: اربعین کا دن وہ عظیم دن ہے جس میں یقینی طور سے جناب جابر بن عبداللہ انصاری پہلے زائر کے طور پر امام حسین کی زیارت کو آئے اور بعض علماء کے قول کے اعتبار سے امام حسین ؑ کے اہل حرم بھی کربلامیں اربعین کے دن پہنچے اور ان کی ملاقات جناب جابر سے ہوئی ۔ زیارت اربعین ،وہ صحیح السند زیارت ہے جسے شیخ طوسی ؒاور دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ یہ زیارت صادق آل محمد ؑ نے جناب عطیہ کو تعلیم دی اور یہ زیارت رہتی دنیا تک شیعوں کے لئے اپنے مولا و آقا امام حسین ؑ اور ائمہ اطہار سے اپنے "عہد و پیمان کی تجدید " کا وسیلہ ہے ۔ اس زیارت میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں وہ ہیں : قیام امام حسینؑ کا فلسفہ ،ائمہ سے محبت کا اظہار ،ان سے وفاداری کا اعلان،ان کے قاتلوں سے بیزاری،تولا و تبرا،آپ کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے قربان ہوجانا،اہل بیت پیغمبرؐ کی ہمراہی،اتباع،تسلیم،نصرت، حق وباطل کے چہرے کی پہچان اور نور و نار کی طرف لے جانے والے ائمہ کی علامت(جو صفات کے ذیل میں ذکر ہوئے) جہاد اور شہادت کے لئے تیار رہنا " زائر اس زیارت کو پڑھنے کے بعد اُن مضمونوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یقیناً حقیقی زائر وہی ہوگا جو ان مطالب کو زبانی الفاظ سے قلبی اور عملی منزل تک پہونچائے۔ یہ زیارت اربعین ،زائر کو اس بلند مقام پر لے جاتی ہے جہاں وہ اللہ ،انبیاء اور ملائکہ کے ہمراہ"شہادت اور گواہی" دیتا ہے اور کہتا ہے : اللھم انی اشھد انہ ولیک...... یا اللہ !ہمیں یہ توفیق عطا کرکہ ہم اربعین کے دن کربلا میں حاضر ہوکرمولا کی ضریح کے قریب کھڑے ہوکر اس عظیم زیارت کو پڑھ سکیں جو امام صادق علیہ السلام نے اپنے شیعوں کے لئے تعلیم فرمائی ہے،اور اس کے مضمون کواپنی زندگی میں عملی کر سکیں ۔ منابع و مآخذ: 1. قرآن کریم ،ترجمہ سید ذیشان حیدر جوادیؒ،انصاریان،قم،ایران 2. نہج البلاغہ ترجمہ سید ذیشان حیدر جوادیؒ،انصاریان،قم،ایران 3. مفاتیح الجنان ترجمہ سید ذیشان حیدر جوادیؒ،تنظیم المکاتب،لکھنؤ،ہندوستان 4. اربعین ،محمد علی قاضی طباطبائی ؒ،وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی،تہران،ایران 5. اربعین حسینی مکان حضور در تاریخ دیگر،طاہر اصغر زادہ،انتشارات لب المیزان،اصفہان ،ایران 6. اصول كافي ،محمد بن یعقوب کلینیؒ ،دارالحدیث،قم،ایران 7. إقبالالأعمال،سید ابن طاؤسؒ، بوستان کتاب،قم ،یران 8. بحار الأنوار، محمدباقر مجلسىؒ، ۱۱۰ جلد،مؤسسہ الوفاء،بيروت،لبنان 9. تحفۃ الزائر،محمد باقر مجلسیؒ،منشورات مکتب اسلامیہ،تہران،ایران 10. التہذيب، شيخ طوسى، ۱۰ جلد، دار الكتب الإسلاميہ تہران، ایران 11. حماسہ حسینی ،شہید مرتضیٰ مطہریؒ،انتشارات صدرا،تہران،ایران 12. دانستنیھای اربعین حسینی،رضا اکرامی، مرکز تحقیقات رایانہ ای اصفہان،(پی ڈی اف فائیل)ایران 13. زیارت اربعین ،میرزا محمد حسن احمدی فقیہ یزدی ،دارا لتفسیر چاپخانہ اسماعیلیان ، قم ،ایران 14. شکوفایی عقل در پرتو نہضت حسینی ،جوادی آملی، انتشارات اسراء،قم،ایران 15. فیروز اللغات،مقبول بیگ بدخشانی،ایم آر پبلیکیشنز،نئی دہلی ،ہندوستان 16. کامل الزیارات،ابن قولویہؒ،نشر الفقاہہ،قم،ایران 17. کربلا حق وباطل میں جدائی کا معیار،جواد نقوی،مرکز تحقیقات اسلامی بعثت،لاہور،پاکستان 18. لولو ومرجان،محدث نوریؒ،انتشارات فراھانی،تہران۔ایران 19. لہوف علی قتلی الطفوف،سیدابن طاؤسؒ،انوار الھدیٰ،قم،ایران 20. مثیر الاحزان،ابن نما حلیؒ،مطبعہ حیدریہ،نجف اشرف،عراق 21. مصباح المتہجد،شیخ طوسیؒ،موسسہ فقہ شیعہ،بیروت،لبنان 22. مضامین زیارت اربعین ،جواد محدثی،مجلہ ویژہ نامہ اربعین،وزارت فرھنگ و ارشاد،قم،ایران 23. منتہی الآمال ،شیخ عباس قمی ؒموسسہ انتشارات ہجرت،قم،ایران 24. وسائلالشيعہ،شیخ حر عاملیؒ،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث،قم،ایران 25. معجم رجال الحدیث، سید ابو القاسم موسوی خوئیؒ ،مرکز نشر آثار شیعہ، قم،ایران
|
مقالات کی طرف جائیے |
|