مقالات

 

زیارت اربعین کے آفاقی مضامین ، ایک سرسری جائزہ (۱)

سید وقار احمد کاظمی

مقدمہ
تاریخ اسلام کی سب سے اہم مناسبت یا کم از کم اہم مناسبتوں میں سے ایک مناسبت" اربعین" ہے جس کو اردو زبان میں چہلم کہاجاتاہے،لغت میں چہلم کے معنی چالیس کے ہوتے ہیں ۔ اورشیعہ ثقافت میں سرکار سید الشہداءحضرت اما م حسینؑ اوران کے اعزا ، اقارب اور اصحاب کی مظلومانہ شہادت کے 39 دن گذر جانے کے بعد جودن آتاہے یعنی 20 صفر اسے اربعین یا چہلم کہتے ہیں ۔
یوں تو چالیس کا عدداحادیث اور روایات بالخصوص عرفانی نقطہ نظر اور عرفاء کی اصطلاح میں خاص اہمیت کا حامل ہے اور متعدد مقامات پر اربعین یعنی چالیس کا ذکر موجود ہےجیسے: رسالت پر مبعوث ہونے کے وقت پیغمبر اکرم (ص)کی عمر چالیس سال تھی ؛جناب آدم ؑ چالیس دن تک "کوہ صفا "پر سجدہ کی حالت میں تھے ؛چالیس حدیثوں کا حفظ کرناشہداء وصالحین اور صدیقین کے ساتھ مبعوث ومحشور ہونے کا باعث ہے ؛پیغمبر اکرم ؐنے ارشاد فرمایا"شراب پینے والے کی نمازچالیس دن تک توبہ قبول نہیں ہوتی ہے۔ "غیبت کرنے والے کے لئے فرمایا اس کی عبادت نماز وروزہ چالیس دن قبول نہیں ہے"۔
چالیس سال میں عقل انسان کمال تک پہونچتی ہے ؛نطفہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ چالیس دن کے بعد یہ نطفہ، علقہ(گوشت کے لوتھڑے)کی شکل اختیار کرتا ہے اسی طرح علقہ سے مضغہ تک پہنچنے میں چالیس دن کا وقت درکار ہوتا ہے،یہی مرحلہ ولادت تک رہتا ہے یعنی ہر چالیس دن میں تغییر و تبدیلی آتی ہے ؛ گویا چالیس کی عدد کو ایک تغییر و تبدیلی کی شروعات قرار دیا گیا ہے ،شاید"زیارت اربعین " کو علامت مومن میں قرار دینے کی ایک خاص وجہ یہ رہی ہو کہ یہ" زیارت اربعین " عالم اسلام اور بالخصوص عالم شیعت میں تغییر و تبدیلی کی شروعات قرار پائے ۔ جیسا کہ گذشتہ چند سالوں سے اربعین کے موقع پر لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں زائرین کا وجود اسی تبدیلی کی نشاندہی ہے ۔
زیارت اربعین کی اہمیت فقط یہ نہیں ہے کہ زیارت اربعین کو مومن کی علامت قرار دیا گیا ہے بلکہ اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ جس طرح 51 رکعت نماز مومن کی علامت ہے اسی طرح زیارت اربعین بھی ہے یعنی زیارت اربعین کو نماز کےبرابر میں ذکر کیا گیاہے، اور اس بارے میں آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:"جس طرح سے نماز دین کا ستون اور بنیاد ہے اسی طرح "زیارت اربعین" ولایت کا ستون اور بنیاد ہے،آپ آگے فرماتے ہیں " پیغمبر اکرم ؐ کے قول کے مطابق : رسالت نبوی کا خلاصہ قرآن و عترت ہے ؛"انی تارک فیکم الثقلین........" دین خدا کا خلاصہ" کتاب ا لٰہی"ہے کہ جسکا ستون نمازہے اور عترت کا ستون "زیارت اربعین" ہے،امام حسن عسکری ؑ نے دونوں کو ایک ساتھ علامت مومن میں ذکر کیا ہے"
زیارت اربعین علامت مومن
امام حسن عسکری علیہ السلام کی معروف حدیث کے مطابق جسے شیخ طوسیؒ نے تہذیب الاحکام میں نقل کیا ہے"زیارت اربعین " کا پڑھنا،مومن کی پانچ علامتوں میں سے ایک علامت ہے:
ا بِی جعفر الطوسِیِ فِیما رواہ باِِسنادِہِ ِالی مولانا الحسنِ بنِ علِی العسکرِیِ ؑ انہ قال علامات المومِنِ خمس صلا ةاحدی و خمسِین و زِیارة الاربعِین و التختم فِی الیمِینِ و تعفِیر الجبِینِ و الجہر بِ بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیم .
شیخ ابی جعفرطوسیؒ نے امام حسن عسکری ؑسے روایت نقل فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا :مومن کی پانچ علامتیں ہیں
(١)اکاون رکعت نماز پڑھنا،رات ودن کی سترہ رکعات نماز فریضہ اور چوتیس رکعات نماز نوافل چونکہ نافلہ عشاء ایک رکعت ہے جو بیٹھ کر دورکعات پڑھی جاتی ہے ۔
(٢)اربعین کے دن زیارت امام حسین ؑ پڑھنا۔
(٣)داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا۔
(٤)خاک کربلا پر سجدہ کرنا ، عموماً زمین یا خاک کربلا پر سجدہ کرنا انسان کے خضوع و خشوع پر دلالت کرتا ہے اور اللہ کے سامنے اپنے کو عاجزی اور ذلت کے ساتھ پیش کرنے کوہی علامت مومن کہا گیا ہے ۔
(٥)نماز میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيم کا بہ آواز بلند پڑھنا ۔
اربعین(چہلم) کے دن کی مناسبتیں
روایات و تاریخ میں چہلم کے دن کی دو مناسبتیں ذکر ہوئی ہیں :
1۔اہل حرم کا کربلا میں وارد ہونا
اہل حرم اسیری کے بعد شام سے واپسی کے وقت کربلا آئے ، اس میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے لیکن کیا وہ اربعین (چہلم) کے دن کربلا میں تھے یا نہیں ؟
اس سلسلہ میں تاریخ نگار اورسیرت نویس افرادکے درمیان اختلاف ہے بعض مورخین جیسے شہید قاضی طباطبائی ؛ابن طاؤس ابن نما حلی کا کہناہے کہ کوفہ سے شام جاتے وقت ان اسیروں کاقافلہ کربلا گیا اور وہیں پر اربعین منا یا گیاتھا۔
دوسرے افراد کا کہناہے کہ اہل حرم اربعین کے دن کربلا میں نہیں تھے بلکہ شام سے مدینہ کے لئے نکلے تھے جیسے میرزا حسن نوری شیخ عباس قمی شہید مطہری محمد ابراہیم آیتی ۔اس سلسلے میں تفصیل کے لئے کتاب لؤلؤ و مرجان محدث نوری کی طرف مراجعہ کرسکتے ہیں جس کا ترجمہ اردو زبان میں مولانا مراد رضا صاحب نےکیا ہے۔
2۔جناب جابر بن عبداللہ انصاری کا کربلا آنا
اس سلسلہ میں ظاہراً جہاں تک حقیر نے بزرگان کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور بزرگان کے مقالہ اور تحقیقات کو دیکھا اس میں جابر بن عبد اللہ انصاری کا چہلم کے دن کربلا آنا تقریباًمتفقہ مسئلہ ہے،مرحوم شہید مطہریؒ،مرحوم آیتی،آقای رسول جعفریان و دیگر محققین کی کتابوں میں موجود ہے کہ جناب جابر اربعین کے دن کربلا میں پہنچے اور سب سے پہلے زائر تھے ۔ روایات میں بھی اس بات کا ذکر ہے۔
صاحب وسائل الشیعہ نے روایت نقل کی ہے :
وَ رَوَى أَيْضاً فِي الْمِصْبَاحِ أَنَّهُ فِي يَوْمِ الْعِشْرِينَ مِنْ صَفَرٍ ................وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي وَرَدَ فِيهِ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى زِيَارَةِ الْحُسَيْنِ ؑ وَ هُوَ أَوَّلُ مَنْ زَارَهُ مِنَ النَّاسِ
مصباح میں روایت وارد ہے بیس صفر (چہلم )کا دن وہ ہے جس دن جابر بن عبد اللہ انصاری امام حسین ؑ کی زیارت کے لئے آئے اور وہ تمام لوگوں میں پہلے زائر ہیں ۔
اور سيدبن طاووسؒ اللهوف على قتلى الطفوف میں کہتے ہیں :
"قالَ الرّاوى : لَمّا رَجَعَ نِساءُ الْحُسَيْنِ (عَليه السّلام ) وَ عَيالِهِ مِنَ الشّامِ وَ بَلَغُوا اِلَى الْعِراق ، قالُوا لِلدّليلِ: مُرَّ بِنا عَلى طَريقِ كربَلاء. فَوَصَلُوا اِلى مَوْضِعِ الْمَصْرعِ فَوَجَدُوا جابِر بنِ عبداللّه الا نصارى (ره ) وَ جَماعَةً مِنْ بَنى هاشِمِ وَ رِجالا مِنْ آلَ الرَّسولِ صلّى اللّه عليه و آله قَد وَرَدُو الزِيارَةِ قَبرِ الْحُسَين عليه السّلام ، فَوافُوا فى وَقتٍ واحِدٍ وَ تَلاقوُا بِالبُكاءِ وَ الْحُزنِ وَ اللَّطْم وَ اَقامُوا الْماتِمَ الْمُقْرِحَةُ لِلْاءكبادِ، وَ اجْتَمَعَ اِلَيْهِم نِساءُ ذلِكَ السَّوادِ فَاقاَموُا عَلى ذلِك اءيّاما"
راوی کہتاہے :جب امام حسین ؑ کی خواتین اوربچے شام کی قید سے رہا ہوکر مدینہ کی طرف چلے عراق پہونچنے پر راستہ کی راہنمائی کرنے والوں سے کہا : ہم لوگوں کو کربلا کے راستہ سے لے چلو !
لہذا اہل حرم کو کربلا کے راستہ لے جایا گیایہاں تک کہ شہیدوں کی قتل گاہ تک پہونچے تو دیکھا جابر بن عبد اللہ انصاری بنی ہاشم اور خاندان رسالت کی کچھ افراد کے ساتھ زیارت امام حسین ؑکے لئے موجود ہیں ۔
اس وقت سب نے اک ساتھ بہت زیادہ گریہ و زاری اور آہ فغاں کیا،لوگوں نے اپنے چہروں پر (بھی کھل کر) ماتم کیا اور اطراف کے دہات کی خواتین بھی آگئیں اور کئی دن تک امام حسین ؑکی عزاداری وسوگواری ہوتی رہی ۔
بشارة المصطفی اور منتہیٰ الآمال میں مرقوم ہے :عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی کوفی مذہب شیعہ اثناعشری کے راویوںمیں سے ایک ہیں اور اہل سنت نے بھی آپ کی سچائی اور وثاقت کی تعریف کی ہے انہوں نے بیان کیاکہ میں جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ زیارت امام حسین ؑکے لئے باہر نکلااور جس وقت ہم کربلامیں وارد ہوئے جناب جابر نے فرات میں غسل کیا ، نیا کپڑا زیب تن کیا اور دوسرے کپڑے کو اپنے دوش پر رکھا اورایک پوٹری کھولا جس میں سے عود(خوشبو دار لکڑی) نکال کر اپنے بدن اور کپڑوں پرملا پھر اما م حسین ؑکی قبر کی طرف نہایت ہی ادب و احترام سےآہستہ آہستہ اور چھوٹا چھوٹا قدم اٹھایا، ہر قدم پر ذکر خداکرتے ہوئے آگے بڑھے قبر اما م ؑ کے پاس پہونچ کر مجھ سے کہا میرا ہاتھ قبر پر رکھ دو (اسلئے کہ جناب جابر نابینا ہوگئے تھے)میں نے آپ کے ہاتھ کو قبر امامؑ پر رکھا جیسے ہی آپ کا ہاتھ قبر تک پہونچا فوراً بیہوش ہوکر قبر پر گر پڑے میں نےآپ کے چہرہ پر پانی کی چھیٹیں ماری تو غش سے افاقہ ہوا اور تین مرتبہ کہا یاحسین ! پھر فرمایا:" حَبيبٌ لا يُجيبُ حَبيبَهُ (اے حسین)! کیادوست اپنے دوست کا جواب نہیں دیتاہے۔
اس کے بعد عرض کیا اےحسین ؑ کیونکرتم جواب دے سکتے ہوجبکہ تم شہید ہوگئے اور آپ کے گلے کی رگیں بھی کٹ چکی ہیں تمہارا سر بدن سے جدا ہو چکاہے ۔
میں شہادت دیتاہوں کہ آپ خیر النبیین کے فرزند اورسید المومنین کے راج دلارے ہیں اور میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ آپ تقویٰ اور ہدایت کے فرزند ہیں ، آپ سید النقباء اور سیدة نساء اہل الجنۃ جناب فاطمہ زہرا ؑ کی آنکھوں کے نورہیں، کیونکر آپ ایسے نہ ہوں جب کہ سید المرسلین نے آپ کی پر ورش اور ایمان کے پستان سےآپ نے دودھ پیا ہے مگر آپ کو قتل کرڈالاگیا آپ موت وحیات کےدونوں مرحلوں میں پاک وپاکیزہ تھے
آپ کی جدائی سے مومنین کے دل خوش نہیں ہیں اور آپ کی نیک کرداری پر کسی کو شک نہیں ہے پس آپ پر خدا کا سلام ہو اور اس کی خوشنودی آ پ کو حاصل ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے ساتھ وہی برتاؤ کیا گیا جو یحییٰ بن زکریا کے ساتھ کیا گیا تھا"۔
پھرجابر نے اپنی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے قبر کے چاروطرف نظر کی اور شہداء کے قبور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس طرح سے سلام کیا:
اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ اَيَّتُهَا الْاَرْواحُ الَّتى حَلَّتْ بِفِناءِ قَبْرِ الْحُسَينِ عَلَيه السَّلامُ وَ اَناخَتْ بِرَحْلِهِ، اَشْهَدُ اَنَّكُمُ اَقَمْتُمُ الصَّلاةَ وَ آتَيْتُمُ الزَّكوةَ وَ اَمَرْتُمْ بِالمَعْروُفِ وَ نَهَيْتُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ جاهَدْتُمُ الْمُلْحِدينَ وَ عَبَدْتُمُ اللّهَ حَتّى آتيكُمُ الْيَقينُ.
پھرجابر نے عطیہ سے کہا محمد(ص) کے مبعوث کرنے والے کی قسم ہم اورتم اس (ثواب ) میں شریک ہوئے جس میں وہ لوگ داخل ہوئے ہیں ۔
عطیہ نے کہا : میں نے جناب جابر سے کہا کس طریقہ سے ہم ان کے ساتھ شریک ہوگئے جب کہ ہم نہ کسی وادی میں گرے ہیں اور نہیں کسی پہاڑ پر چڑھے ہیں اورنہیں کسی کے اوپر تلوار ہی چلائی ہے ؟جب کہ اس گروہ کے سرو تن میں جدائی کو آپ دیکھ رہے ہیں ان کے بچے یتیم اور انکی خواتین بیوہ ہوئی ہیں !
جابر نے کہا :اے عطیہ میں نے اپنے حبیب رسول خداؐ کو کہتے ہوئے سناہے :جوشخص جس گروہ سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ محشور کیا جائے گااور جو شخص جس قوم کے عمل کو پسند کرےگا اس قوم کے فعل میں وہ شریک قرار پائے گا ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی قسم محمد(ص)حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں بیشک ہماری اورہمارےدوستوں کی نیت وہی ہے جوامام حسین ؑاور آپ کے انصار با وفاء کی تھی (یعنی پھر کیونکرہم اس مصیبت میں شریک نہیں ہوں گے )اس طریقہ سے جناب جابر خود زیارت کرتے اور دوسروں کو بھی اپنے فعل اور کردار سے زیارت کی ترغیب دیاکرتے تھے ، آپ امام حسین ؑ اور آپ کے جاں باز اورباوفااصحاب اور تمام شہداء کربلا کی زیارت کو دوستوں کے درمیان رائج ومشہور کیا کرتے تھے۔
لہذا جناب جابر کی پیہم سعی کے نتیجہ میں کوفہ ،بصرہ ،مدینہ اور دوسرے دور ونزدیک کے مناطق سے لوگ جوق در جوق زیارت مظلوم کربلا کے لئے آنا شروع ہوگئے اور اس بے آب وگیاہ اور خشک صحرا میں امام ہمام کی مقدس زیارت گاہ تعمیر ہوئی ۔
زیارت اربعین اور اس کی سند
شیخ الطائفہ شیخ طوسی ؒ نے التہذیب اور مصباح المتہجد میں اس زیارت کو سند کےساتھ ذکر کیا ہے اور سند بھی ایک جہت سے مورد اعتماد ہے جب کہ علامہ مجلسیؒ نے بھی اپنی کتاب تحفۃ الزائر میں معتبر سند کے ساتھ ذکر کیا ہے اور وہاں پر کہا ہے : "زیارت اربعین معتبر سند کے ساتھ صفوان بن جمال سےمنقول ہے "اور انھوں نے کہا :میرے آقاومولا امام جعفر صادق ؑ نے مجھ سے فرمایا : اربعین کی زیارت اس وقت پڑھا کرو جب سورج بلند ہوچکا ہو ۔
شیخ طوسی ؒ کی سند کا مختصر جائزہ:
‏ أَخْبَرَنَا جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ هَارُونَ بْنِ مُوسَى بْنِ أَحْمَدَ التَّلَّعُكْبَرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْعَدَةَ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ الْجَمَّالِ
"ہارون بن موسیٰ بن احمد التلعکبری" آپ موثق اور مورد اعتماد ہیں ، " محمد بن علی بن معمر " ان کے سلسلہ میں خاص توثیق وارد نہیں ہوئی ہے علم رجال میں ان کا حال روشن بیان نہیں کیا گیا ہے شاید اسی کی وجہ مرحوم مجلسی ؒنے اپنی کتاب میں روایت کو مجہول کہا تھا لیکن دوسرے قرائن اس کے معتبرہونے پر دالت کرتے ہیں جیسے یہ شخص ہارون بن موسی بن احمد التلعکبری کے مشائخ اجازہ میں سے ہیں لہذا مجہول الحال شخص سےمحترم تلعکبری کا اجازہ اخذ کرنا بہت بعید ہے ۔ پس ہم روایت کے سلسلہ میں کوئی اشکا ل نہیں کرسکتے ہیں اورابھی تک روایت معتبر ہے ۔
"ابوالحسن علی بن محمد بن مسعدۃ "کے حال ہم پر ظاہر نہیں ہیں " حسن بن علی بن فضال " موثق ہیں اور" سعدان بن مسلم" بزرگان واجلاء میں سے ہیں " صفوان بن مہران الجمال" بھی اجلاء اور امام جعفر صاوق ؑ کے عظیم اصحاب سے ہیں لہذا تمام روات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ زیارت اربعین کی سند مورد اعتماد ہے لہذا مرحوم مجلسیؒ نے تحفۃ الزائر میں روایت کی سند کو معتبر قرار دیا ہے اسلئے کہا "بہ سند معتبر"
زیارت اربعین کا وقت :
جو امام کی تعبیر سے استفادہ ہوتاہے وہ سورج کے بلند اور تھوڑادن گذرنے کا ہے اور قدر متیقن بھی یہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد جب اس کی روشنی ہر طرف پھیل گئی ہو تویہی اس کی فضیلت کا وقت ہے کیا کوئی زوال کے وقت یا اس کے بعد پڑھ سکتاہے یانہیں؟ یہاں پر ہم کو یہ دیکھنا ہوگا کہ "عند ارتفاع النهار" کے معنی کیا ہیں اگر "عند ارتفاع النهار" سے مراد وقت کی شروعات لے تے ہیں تو اس صورت میں سورج کے غروب ہونے سے پہلے کسی وقت پڑھ سکتے ہیں لہذا اگر کوئی کام وغیرہ کی مشغولیت کی وجہ سے زیارت اربعین نہ پڑھ سکے تو ظہر کے بعدکسی وقت بھی موقع نکال کر پڑھ سکتاہے ۔
لیکن اگر" عند ارتفاع النهار "سے اختصاص کامعنی لیا ہے یعنی زیارت اربعین کا وقت مخصوص ہے سورج کے نکلنے اور اس کی روشنی پھیل جانے سے تو اس صورت میں زیارت اربعین ظہر کے بعد نہیں پڑھ سکتےہیں ۔
نہ پڑھ سکنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب اس کا پڑھناصحیح نہیں ہے یا پڑھنے میں ثواب نہیں ملے گا ،نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی فضیلت کا ثواب حاصل نہیں ہو گا یوں تو دعا اور زیارات کوکسی وقت بھی پڑھاجا سکتاہے اور جس وقت بھی پڑھا جائے ہمیشہ باعث ثواب اوراجر عظیم کا حامل ہےلہذا کبھی بھی دعا اور زیارات کو پڑھنے سے دوری نہیں کرنی چاہیئے ۔
زیارت اربعین کا فقہی حکم :
کسی بھی جگہ جانے کے لئے سب سے پہلے وہاں کی امنیت اور زائر کی صحت و سلامتی بہت اہم ہوتی ہے ، اسی وجہ سے فقہاء نے حج کے واجب ہونے کی شرط" استطاعت" کو قرار دیتے ہوئے استطاعت کے متعدد شرائط بیان کئےہیں جن میں ایک "راستے کا پر امن "ہونا ہے لہٰذا اگر راستے میں امنیت نہ ہو تو استطاعت محقق ہی نہیں ہوگی ،اور نتیجتاً حج واجب نہیں ہے ،لیکن زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے ائمہ اطہارؑ نے خطرے اور راستہ کے نا امن ہونے کے باوجود حکم دیا ہے کہ سید الشہدا کی زیارت کو جاؤ۔ صاحب وسائل الشیعہ نے اس بارے میں متعدد مناسبتوں سے متعدد باب قائم کئے ہیں جس میں ائمہ اطہارکی جانب سے زیارت حسین بن علی ؑ کی تاکید ہے۔ جس سے زیارت حسین بن علی کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے ۔
فقہائے کرام نے زیارت اربعین کو فقہی اعتبار سے "مستحب" قرار دیا ہے، آقای حر آملیؒ نے وسائل الشیعہ میں زیارت اربعین کومستحب موکد قرار دیا ہے اور اسی عنوان کو نئے باب کی شہ سرخی کے طور پرانتخاب کیا ہےاور فرمایا ہے:
" باب تأکّد استحباب زیارت الحسین (ع) یوم الأربعین من مقتله و هو یوم العشرین من صفر "
آقای حر آملیؒ کا فتوا ن کے کتاب کی شہ سرخی سے معلوم ہوتا ہے جیسا کہ یہاں پر ذکر ہوا اور پوری وسائل الشیعہ میں آپ کا یہی انداز ہے۔
شیخ طوسیؒ نے مصباح المتہجد میں فرمایا:
" و یستحب زیارته فیه و هی زيارة الاربعین " اربعین کے دن زیارت سید الشہداء مستحب ہے اور اس دن زیارت اربعین پڑھے
علامہ حلیؒ نے منتہی المطلب میں فرمایا:
" و تستحب زیارته یوم الاربعین من مقتله و هو العشرون من صفر " چہلم کے دن(20 صفر) امام حسین کی زیارت مستحب ہے۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لئے دوسری قسط پر کلک کیجئے ۔
مقالات کی طرف جائیے