مقالات

 

غدیر، علمائے اسلام کی نظر میں

سید غافر حسن رضوی چھولسی(مدیر ساغر علم فاؤنڈیشن)

خلاصہ
اس نوشتہ میں مختلف مذاہب اسلام کے علماء کے نظریات بیان کئے گئے ہیں، مثلاً:واقعہ غدیر کیسے متحقق ہوا؟ اس واقعہ کی صحت و عدم صحت پر دلائل کا وجود، حدیث غدیر کا تحقیقی جائزہ وغیرہ۔ اس نوشہ کا مقصد، واقعۂ غدیر کو مکمل طورپر واضح کرنا اور مختلف مذاہب کے علماء کے درمیان قربت درکارہے۔
اس مضمون کی تحریر اور اس کا انداز بیان زیادہ ترسوال و جواب کی صورت میں ہے؛ یعنی پہلے تو حدیث غدیر پر واردہونے والے اعتراضات کو بیان کیاگیا ہے اور بعد میں ان کے جواب دیئے گئے ہیں۔
اہم اشارے
مختلف مذاہب کے نزدیک غدیرکی اہمیت۔ حجة الوداع۔ حدیث غدیر کا تحقیقی جائزہ۔ حدیث غدیر کے راوی۔ مذاہب اسلامی کے درمیان نزدیکی ایجادکرنا۔
مقدمہ
ہجرت کا دسواں سال ہے، پیغمبررحمت حضرت محمد مصطفےٰ ؐ اپنی عمرکا آخری حج بجالانے میں مشغول ہیں، تقریباً تمام مسلمان ہی آنحضرتؐ کے اردگرد، شمع کے چوگردپروانہ صفت منڈلارہے ہیں، آپؐ کی ہمراہی میں اہم عبادت الٰہی ''حج بیت اللہ'' بجا لارہے ہیں۔ اس اتحادکے پرکشش نظارہ کو دیکھتے ہوئے ہر حقیقی مسلمان طائر ِ مسرت کے بال وپرکے ذریعہ پرواز کررہا ہے۔ اس نظارہ کو دیکھنے والا کوئی شخص یہ گمان نہیں کرسکتا کہ زمانے کے تھپیڑوں کے باعث یہ پروانے منتشربھی ہوسکتے ہیں!۔
اعمال حج نے اختتام کی منزل میں قدم رکھا اور تمام حاجیوں نے اپنے اپنے قدم مکہ سے روانگی کی جانب بڑھائے تاکہ خانۂ خدا کو الوداع کہہ کر اپنے غریب خانوں کی جانب واپس جائیں۔
واپسی کے موقع پر تمام حاجی حضرات جحفہ نامی مقام پر پہونچتے ہیں، جس کے نزدیک ایک تالاب ہے جو ''خم''کے نام سے معروف ہے۔یہ ایسا مقام ہے جہاں سے مصر،عراق اور مدینہ کے راستے جدا ہوتے ہیں (یعنی ایک چوراہہ ہے)اور تمام قافلے اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ لیکن... اچانک ایک صدا گونجتی ہے کہ کوئی آگے نہ بڑھے؛ یہ آوازمسلمانوں کے سردار''محمد مصطفےٰ ؐ''کی جانب سے بلند ہوئی تھی؛ گویا بہت ہی اہم پیغام ہے جس کی وجہ سے خستہ حال حاجیوں کو چلچلاتی دھوپ میں ٹھہرنے کا حکم دیا جارہا ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جارہا ہے اور جولوگ آگے بڑھ گئے ہیں ان کو پیچھے بلایا جارہاہے ...۔
مذکورہ مطالب، غدیرکا مختصر سا خاکہ ہے؛ یہ ایسا واقعہ ہے جو تاریخ اسلام میں ستارہ کی مانند دمک رہا ہے اوراس وا قعہ کو مذاہب اسلامی کے بہت سے بزرگ علماء نے تائید کی سند دی ہے۔ اس واقعہ کو متعدد ناموں کے ذریعہ یاد کیا جاتا ہے مثلاً: حجة الوداع، حجة الاسلام، حجة البلاغ، حجة الکمال اور حجة التمام۔
اس روز پیغمبر اسلامؐ نے تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا جس میںایسے مسائل کا بیان تھا جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف کا سدّ باب کرسکیں؛ لیکن کون سا حادثہ پیش آیا کہ اس نے امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کاخاتمہ کردیااورجیسے اتحاد کی ضرورت ہے،ایسا اتحاد موجود نہیں ہے؟۔
اب تک حدیث غدیر کے سلسلہ سے مختلف اور متعدد تحقیقیں ہوئی ہیں لیکن اس تحقیق میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر مختلف مذاہب اسلامی کے علماء کے اقوال کو قیدتحریرکے ذریعہ زینت دی جائے اور ان کا تحقیقی جائزہ لیا جائے۔
اس تحقیق میں جن سوالوں کے جواب دیئے جائیں گے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ اس واقعہ کی حقیقت کو تمام علماء مذاہب اسلامی قبول کرتے ہیں یا نہیں؟۔
٢۔ یہ واقعہ، کون سے رموزواسرارکو بیان کرنا چاہتا ہے؟۔
٣۔ کیاتمام امت مسلمہ کا اس واقعہ کو قبول کرنا،امت مسلمہ کے درمیان اختلافات کا خاتمہ کرسکتا ہے؟۔
اس نوشتہ کا طریقۂ کار یہ ہے کہ علمائے تشیع اور علمائے تسنن کے نظریات کا موازنہ کیاگیا ہے اور دونوں فرقوں کی معتبرحدیثی،تفسیری،تاریخی اور لغوی کتب سے استفادہ کیاگیا ہے۔
امید ہے کہ اس تحقیقی نوشتہ کا ماحصل، اہل علم اورحقیقت کے متلاشی افرادکی روشن فکری قرار پائے گا اور اس کے ذریعہ راہ ہدایت و راہ ضلالت کا فرق بنحواحسن واضح ہو جائے گا۔
ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ دورحاضرمیں مذاہب اسلامی کو نزدیک لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور جب حقائق واضح ہوجائیں گے تو اس قربت میں کسی مشکل سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا؛ یہ بتانا بھی نہایت ضروری ہے کہ'' قربت اور اتحاد کا مطلب اپنے عقائد سے دستبردا ری نہیں بلکہ اسلامی حقائق کے پیش نظردشمن کے مقابل، تمام امت مسلمہ کا ایک پلیٹ فارم پر آجانااتحاد اوریکجہتی سے تعبیر کیاجاتا ہے''۔
اگرتمام مذاہب اسلامی، تعصب اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر شفیقانہ انداز میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں اورقرآن و سنت کو جان ودل سے تسلیم کرلیں تو وہ دور تاریخ اسلام میں '' سنہری ورق'' کے نام سے تعبیرکیاجائے گا،( پیغمبراسلامؐ نے بھی حدیث غدیر میں یہی چیز بیان کی ہے) یہی دور امت مسلمہ کی خوش نصیبی کا دورہوگا۔(انشاء اللہ)
حدیث غدیر کے راوی
چونکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق،حدیث غدیر من جمیع الجہات ثابت ہے لہٰذا علمائے شیعہ سے غض نظر کرتے ہوئے بعض بزرگان اہل سنت کے اقوال کو قید تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں؛ البتہ یہ بھی واضح رہے کہ اکثر صحابہ نے حدیث غدیرکوبیان کیا ہے، علامہ امینی نے اپنی بیش بہاکتاب ''الغدیر'' میں ایک سو دس صحابہ کے اسماء قلمبند کئے ہیں(١)؛اورتابعین میں سے چوراسی افرادکے اسماء کا ذکر کیا ہے(٢)؛ اور آپ نے ان لوگوں کو حدیث غدیر کے راویوں کے نام سے تعبیرکیا ہے۔
علمائے اہل سنت نے بھی مسلسل کئی صدیوں میں تقریباً تین سو ساٹھ افراد کا اسماء رقم کئے ہیں جنھوں نے حدیث غدیر کی روایت کی ہے، ان میں سے چند راویوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
١)ابوعبداللہ محمدبن ادریس شافعی۔٢)ابوعبد اللہ احمد بن حنبل شیبانی۔ ٣)حافظ ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری۔ ٤)حافظ محمدبن عیسیٰ،ابوعیسیٰ ترمذی۔ ٥)حافظ ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی۔ ٦)حافظ محمد بن جریر طبری۔ ٧)حافظ ابوحامدمحمدبن محمدطوسی،غزالی معروف بہ حجة الاسلام۔ ٨)ابوالفتح محمد بن ابی القاسم عبد الکریم شہرستانی۔ ٩)ابوعبد اللہ محمد بن عمر بن حسین، فخرالدین رازی شافعی۔ ١٠)حافظ احمدبن علی بن محمد، ابوالفضل عسقلانی مصری شافعی، معروف بہ ابن حجرعسقلانی۔ ١١)حافظ جلال الدین عبد الرحمن بن کمال الدین مصری، سیوطی۔ ١٢)سیدمحمدبن عبد اللہ حسینی آلوسی، شہاب الدین ابوثناء بغدادی۔ ١٣)سید عبد الحمید آلوسی وغیرہ۔
علامہ امینی نے ان تمام علماء اور دیگر راویوں کے اسماء بھی اپنی کتاب ''الغدیر''میں قلمبندکئے ہیں۔(٣)
یہاں تک اچھی طرح واضح ہوگیا کہ اصل واقعۂ غدیر میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں ہے، یعنی تمام یا اکثر علماء واقعۂ غدیر کے قائل ہیں لہٰذا اگرکوئی عقل کا دشمن اس حقیقت سے انکار کرے گا تو بزرگ ہستیوں کے سامنے منھ کی کھائے گا اور اپنا سا منھ لے کر رہ جائے گا، اس کی گفتگوپوچ اور بے قیمت ہوگی جس پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔
صحت ِحدیث ِغدیر کی تصریح
اہل سنت کے بہت سے علماء نے تصریح کی ہے کہ حدیث غدیر کے صحیح ہونے میں کوئی دورائے نہیں ہے، ان علماء میں سے بعض کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
١)ابن حجر ہیثمی(٤)؛ ٢)شمس الدین جزری(٥)؛ ٣)بدخشی(٦)؛ ٤)ضیاء الدین مقبلی(٧)؛ ٥)فخررازی(٨)؛ ٦قاضی شوکانی(٩)؛ ٧)سیوطی(١٠)؛ ٨)ثعلبی(١١)؛ وغیرہ۔
لیکن افسوس ہے ان لوگوں کی عقلوں پر کہ جو لوگ ان معتبرعلماء کی تصریح کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ حدیث غدیر صحیح نہیں ہے، ہم یہاں ان لوگوں کی گفتگو نقل کرتے ہوئے تحقیقی پیرائے میں ان کے اعتراضات کادندان شکن جواب دیں گے۔
پہلا دعویٰ
قاضی عضد الدین ایجی نے اپنی کتاب ''المواقف''میں کہا ہے: ''ہم اس روایت کی صحت سے انکار کرتے ہیں اور اس روایت کے تواترکا دعویٰ بغیردلیل کے ہے؛یہ روایت کیسے متواتر ہوسکتی ہے جب کہ اس روایت کو اکثر اصحاب حدیث نے نقل نہیں کیاہے!؟''(١٢)؛ اس جیسا اعتراض ابن حجرہیثمی(١٣)؛ ابن حزم اورتفتازانی وغیرہ نے بھی واردکیاہے۔(١٤)
مذکورہ دعوے کا تحقیقی جائزہ
مذکورہ گفتگوایک عالم اور محقق کے شایان شان نہیں ہے؛کیونکہ بہت سے علمائے اہل سنت نے حدیث غدیر کی صحت اور اس کے سلسلۂ سند کی تصریح کی ہے، کتاب ''الغدیر''میں ٤٣افراد کے نام ذکر کئے گئے ہیں۔(١٥)
ابن حجرکا اعتراض بھی قابل توجہ نہیں ہے، کیونکہ انھوں نے خود کہا ہے: ''حدیث غدیر، ایسی صحیح حدیث ہے کہ جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور اس کو ایک معتبرگروہ نے نقل کیا ہے جس میں ترمذی، نسائی اور احمد بن حنبل کے اسماء قابل ذکر ہیں، اس حدیث کے سلسلۂ سند بھی بہت ہیں؛ اس حدیث کو سولھا صحابہ نے نقل کیا ہے، احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ اس حدیث کو تیس اصحاب رسول نے نقل کیا ہے اور جب خلافت امیر المومنین کے متعلق اختلاف نے جنم لیا تو ان حضرات نے حقانیت غدیر کی گواہی دی''۔(١٦)
انھوں نے اپنی کتاب میں دوبارہ تکرار کرتے ہوئے کہا ہے: ''غدیرکی روایت کو تیس اصحاب رسول نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کے بہت سے سلسلۂ سندیاتو صحیح ہیں یا حسن ہیں ''۔(١٧)
قابل ذکر ہے کہ شیعوں کے نزدیک امامت کو ثابت کرنے کے لئے روایت کا متواتراور قطعی ہوناشرط ہے اور شیعی کتب کے اعتبارسے روایت غدیرمتواتر اور قطعی السندہے جیسا کہ بہت سی کتب ِاہل سنت میں بھی نقل ہوا ہے؛ لیکن اہل سنت عقیدہ کی بنیاد پرامامت کو ثابت کرنے کے لئے بھی فروع دین کی مانند سند کا صحیح ہونا کافی ہے اور روایت کا متواتر ہونالازم نہیں ہے؛ اس نکتہ کی جانب توجہ کی جائے تو اس اعتراض کا بے بنیاد ہونا واضح ہوجاتاہے۔(١٨)
دوسرا دعویٰ
قاضی عضد الدین ایجی اپنی کتاب ''المواقف'' میں رقمطراز ہیں: ''حجة الوداع کے موقع پر علی یمن میں تھے، لہٰذا مقامِ غدیر پررسولؐ کی ہمراہی میں موجود ہوناکیسے ممکن ہے؟''۔(١٩)
دعوے کا تحقیقی جائزہ
یہ اعتراض قابل قبول نہیں ہے؛ کیونکہ بہت سے علمائے اہل سنت نے اس اعتراض کی تردیدکی ہے؛ مثلاً: سیدشریف الدین جرجانی(٢٠)؛ ابن حجر ہیثمی(٢١)؛ طبری، ابن کثیر اور ابن اثیر وغیرہ۔(٢٢)
یہاں نمونہ کے طورپر ابن حجرکی تحریرکوزینت قرطاس قراردے رہے ہیں:
ابن حجر کا بیان ہے: ''جو شخص حدیث غدیر کو صحیح نہ مانے یا اس بات کا قائل ہو کہ اس وقت علی ،غدیر میں نہیں بلکہ یمن میں تھے، اس کی بات پر توجہ نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ علی یمن سے واپس آچکے تھے اور انھوں نے رسول اسلاۖم کی ہمراہی میں اعمال حج انجام دیئے ہیں''۔(٢٣)
بعض لوگوں نے اس حدیث پر دوسرے طریقوں سے اعتراض کیا ہے، مثلاً کہا گیا کہ چونکہ حدیث غدیر کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں جگہ نہیں دی گئی لہٰذا یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
اس اعتراض کے جواب کچھ اس انداز سے دیئے جاتے ہیں:
ایسا ہرگزنہیں ہے کہ جو احادیث صحیحین(صحیح مسلم وصحیح بخاری) میں نقل نہیں ہوئی ہیں وہ صحیح نہیں ہیں! اور اس پر خود علمائے اہل سنت کے اقوال دلیل ہیں،نمونہ کے طورپر بعض اقوال مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ شیخ محمودبن محمد شیخانی قادری مدنی کابیان ہے: ''بہت سی ایسی صحیح احادیث بھی موجود ہیں جن کو دونوں شیخوں(بخاری ومسلم) میںسے کسی نے بھی نقل نہیں کیا ہے ''۔(٢٤)
٢۔ حاکم نیشاپوری کابیان ہے: ''بخاری ومسلم یا ان میں سے کسی ایک نے یہ نہیں کہا ہے کہ جن روایتوں کو انھوں نے نقل نہیں کیا ہے وہ صحیح نہیں ہیں۔ میں خداوندعالم کی مددسے ایسی احادیث نقل کروں گا کہ جن کے راوی ثقہ ہیں اور ان احادیث کے ذریعہ شیخین(مسلم وبخاری)یا ان میں سے ایک نے استدلال کیا ہے ''۔(٢٥)
٣۔ بخاری کا بیان ہے: ''میں نے اپنی کتاب''صحیح بخاری'' میں جتنی روایات نقل کی ہیں وہ سب صحیح ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سی روایات تھیں جن کو طولانی بحث کے پیش نظرچھوڑدیا''۔(٢٦)
٤۔ مسلم کا بیان ہے: ''میں اپنی صحیح میں تمام صحیح احادیث کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ صرف ان احادیث کو نقل کیا ہے جو اجماعی ہیں(اختلافی نہیں ہیں)''۔(٢٧)
حدیث غدیر کے مضمون کا تحقیقی جائزہ
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حدیث غدیر، علی کے بلا فصل خلیفۂ رسولۖ ہونے پر دلالت کرتی ہے لیکن اہل سنت فرقے اس بات کو قبول نہیں کرتے اور اپنے دعوے کی دلیلیں بھی دیتے ہیں جن میں سے اہم دلائل کا ذکر کرتے ہوئے( بغیرمذہبی تعصب کے) ان کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا ۔
اعتراضات کا بیان
پہلا اعتراض
حدیث غدیر''مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیّ مَوْلَاہُ''میں موجود لفظ ''مولا''کے بارے میں اعتراض ہے، اعتراض کرنے والوں میں قاضی عضد الدین ایجی(٢٨)؛ ابن حجر(٢٩)؛ اور فضل بن روزبہان کے اسماء قابل ذکر ہیں۔(٣٠)
اس اعتراض کے الفاظ یہ ہیں: ''لفظ''مولا'' مشترک لفظی ہے جس کے کئی معانی ہیں اور یہاں اس سے مراد ''ناصرومددگار''ہے نہ کہ دوسرے معانی(مثلاً: اولیٰ،سرپرست،ولی اورامام وغیرہ) کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ شریعت میں ثابت نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی صاحب لغت و قاموس نے یہ نہیں کہاکہ'' َمَفْعَلْ،اَفَعَلْ'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے''۔
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
پہلا جواب: اگربالفرض اس اعتراض کو لفظ بلفظ قبول بھی کرلیاجائے تب بھی اس واضح امر سے انکار کرنا سورج کو دِیا دکھانے کی مانند ہوگا کہ جب رسول اسلامؐ کے دہن مبارک سے یہ حدیث صادر ہوئی اس وقت تمام لوگوں نے لفظ''مولا'' سے ''اولیٰ'' ہی مراد لیا تھا، جس پر اس زمانہ کے مشہور شعراء کرام حسان بن ثابت(٣١)؛ قیس بن سعد بن عبادہ(٣٢)؛ اور عمروعاص(٣٣)وغیرہ کے اشعارگواہ ہیں۔ علامہ امینی نے ان اشعار کومعتبر شیعہ اور سنی کتب سے نقل کیا ہے۔ خود حضرت کا وہ نامہ جو آپ نے معاویہ کو اشعار کی صورت میں روانہ کیا ،وہ بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے۔(٣٤)
دوسرا جواب: اس بات پر بہترین دلیل کہ اس حدیث میں مولا سے مراد اولیٰ وسرپرست ہے، یہ ہے کہ خطبۂ پیغمبرؐ کے بعد عمر و ابوبکر نے سب سے پہلے علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر مبارکباد پیش کی، یہی سبب ہے کہ علامہ امینی نے اہل سنت کی بہت سی کتابوں سے اس منظر کو نقل کیا ہے۔(٣٥)
کتنی عجیب بات ہے کہ ابن حجرجوکہ خود اس بات کے منکر ہیں کہ مولا کو اولیٰ کے معنی میں لیا جائے، وہ خود بیان کررہے ہیں کہ چونکہ عمروابوبکرنے حضرت علی کی خدمت میں مبارکبادی پیش کی لہٰذا اس سے اولیٰ بہ اطاعت کو سمجھا جاتا ہے نہ کہ اولیٰ بالتصرف کو۔(٣٦)
اسی طرح شہاب الدین احمدبن عبد القادرشافعی نے کتاب ''ذخیرة الآمال'' میںبھی یہی بات کہی ہے۔(٣٧)
میرے خیال سے ابن حجراورشافعی کے اقوال پہلے اور دوسرے نکتہ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں البتہ دوسرے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ان دونوں اقوال کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا۔
تیسرا جواب:اگر رسول اسلامؐ کا مقصد صرف علی کی دوستی کو بیان کرناہوتا تو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ لوگ اس سے بے خبرہوںاورپیغمبراسلامؐ لوگوں کو چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہونے پر مجبور کریں اور ایسے عالم میں طویل وعریض خطبہ ارشاد فرمائیں! اور قرآن کے مطابق اگر یہ کام انجام نہ دیں تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا!۔
چوتھا جواب: خود فخر رازی نے آیۂ(وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ھُوَ مَوْلَاکُمْ)(سورۂ حج٧٨) میں مولا کے معنی ''سرپرست'' کئے ہیں (٣٨)؛ اسی طرح فخر رازی نے آیۂ (ھِیَ مَوْلَاکُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِیْر)(سورۂ حدید١٥) کی تفسیر میں کلبی،زجاج ،ابن عبیدہ اور فراء سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس آیت میں ''مَوْلَاکُمْ'' کے معنی ''اَوْلَیٰ بِکُمْ''ہے۔(٣٩)
پانچواں جواب: بہت سے عربی زبان ادیبوں نے مولا کو اولیٰ کے معنی میں ہی شمار کیا ہے(یعنی عربی ادب کے اعتبار سے یہاں مفعل، افعل کے معنی میں آیاہے) جن میں سے فرائ، سجستانی، جوہری، قرطبی، ابن اثیر وغیرہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔(٤٠)
چھٹا جواب: خطبہ کی ابتدا میں پیغمبراکرمؐ نے لوگوں سے سوال کیا: ''أَلَسْتُ اَوْلَیٰ بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ؟'' کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا؟ جب سب نے مثبت جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا: ''مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیّ مَوْلَاہُ''جس کا میں مولاہوں اس کے علی مولا ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کی ذات والا صفات سے یہ بعید ہے کہ آپؐ کے کلام کی ابتدا اور انتہا میں تضادپایا جائے! اور اگر بالفرض ابتداوانتہا میں مطابقت نہیں ہو تو اس کی تصریح نہ کریں! کیونکہ ایسی گفتگو فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے حالانکہ آنحضرتؐ ''افصح الفصحاء'' اور ''ابلغ من نطق بالضاد'' یعنی فصحاء میں سب سے زیادہ فصیح زبان اور سب سے بہترین انداز سے ضاد ادا کرنے والے تھے۔
ابن بطریق رقمطراز ہیں: اگر کوئی یہ کہے کہ کیا تم فلاں جگہ پر میرا گھر جانتے ہو؟ اور سامنے والے افراد یہ اقرار کریں کہ ہاں ہم جانتے ہیں، اس کے بعد وہ کہے: میں نے اپنا گھر وقف کردیا؛ اگر بالفرض اس کے کئی گھر ہوں تو اس جملہ سے سب لوگ یہ سمجھ جائیں گے کہ اس نے وہی گھر وقف کیا ہے جس کے بارے میں سوال کیا تھا اور ہم نے اقرار کیا تھا۔(٤١)
دوسرا اعتراض
بعض محققین مثلاً: ابن حجر(٤٢)؛ قاضی عضد الدین ایجی(٤٣)؛ شھاب الدین شافعی(٤٤) وغیرہ نے یہ تو قبول کیا کہ یہاںمولا،اولیٰ کے معنی میں ہے لیکن آگے حاشیہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں: ''لیکن یہاں اولویت سے مراد اطاعت میں اولویت ہے نہ کہ تصرف میں اولویت''۔
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
پہلے اعتراض کے تحقیقی جائزہ میں بیان کیاگیا کہ حضوراکرمؐ نے سب سے پہلے لوگوں سے اقرار لیا تھا کہ وہ سب پر اولیٰ ہیں اور جس اولویت کی نسبت امیر المومنین کی طرف دی اس کا لازمہ یہ ہے کہ اسی اولویت پر حضوراکرمؐ کو بھی فائز ہونا چاہئے تاکہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے آنحضرتؐ کی گفتار میں تناقض پیش نہ آئے! اور یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیغمبراکرمؐ کی اولویت سے مراد تصرف میں اولویت ہے یعنی ایسی اولویت جو اطاعت اور امامت دونوں کو شامل ہے۔
تیسرا اعتراض
قاضی عضدالدین ایجی، چلپسی، شیخ سلیم البشری(٤٥)؛ اور ابن حجر(٤٦) نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر بالفرض حدیث غدیر کو امامت علی اور خلافت علی پر دلیل مان بھی لیا جائے تو یہ خلافت آخر میں ہے (یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان) کے بعد آتی ہے نہ کہ بلافصل خلافت کے عنوان سے (خلافت بلا فصل کا عنوان ختم ہوجاتا ہے)۔
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
پہلا جواب: خلفائے ثلاثہ(ابوبکر،عمر اور عثمان) کی خلافت کے ثبوت پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ دونوں حدیثوں کو جمع کیا جائے!۔
دوسرا جواب: اگر حدیث غدیر سے مراد ولایت علیؑ تمام مسلمین پر خلفائے ثلاثہ کے بعد ہو تو پھر لازم نہیں کہ عمر وابوبکر، علی کی خدمت میں مبارکبادپیش کریں اور عمر، علی کو اپنا اور تمام مومنین ومومنات کا مولا کہتے ہوئے مبارکباد دیں(٤٧)؛ کیونکہ اس اعتراض کی بناپر عمراورابوبکر پر علیؑ کی ولایت نافذ نہیں ہوتی کہ وہ مبارکبادی دیں!۔ بعض کتابوں میں حدیث تہنیت کے راویوں کی تعداد٣٩ (٤٨)؛اور بعض میں ٦٠ افراد بتائی گئی ہے۔(٤٩)
تیسرا جواب: کوئی منطق اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ ایسا عظیم کام جس پر حضورؐ کی ساری رسالت موقوف ہو، اس کے بارے میں خلفائے ثلاثہ سے کچھ بھی نہ کہا ہو یعنی اپنی خلافت بلافصل کا تذکرہ نہ کیا ہو اور آیۂ اکمال دین نازل ہوگئی ہو!۔
چوتھا اعتراض
بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر حدیث غدیر کی دلالت ولایت اور اولیٰ بالتصرف پر ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں دواولیٰ بالتصرف اور مسلمانوں کے سرپرست ہوں، اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرت علی حضوراکرمؐ کی حیات طیبہ میں بھی امام اور خلیفہ کے عنوان سے پہچانے جائیں کیونکہ حدیث میں یہ نہیں آیا ہے کہ ''علیؑ میرے بعدتمہارا مولا ہے'' اور یہ امر غیرممکن ہے لہٰذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث غدیر سے ایسی چیز مراد ہے کہ حضرت علی رسولؐ کی زندگی میں بھی اس کے حامل ہوں اور وہ چیز محبت یا نصرت وغیرہ مراد ہے۔(٥٠)
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
پہلا جواب: ایک طرف سے ہم بھی یہ قبول کرتے ہیں کہ امام علی ، رسولؐ کی زندگی میں خلیفہ نہیں ہوسکتے لیکن دوسری طرف سے یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ حدیث غدیرسے مراد وہی ولایت وخلافت علی ہے، لہٰذا اس مقام پر نزدیک ترین چیز کی طرف رجوع کیا جائے گا اور وہ چیز ''خلافت''ہے جو بلا فاصلہ رحلت پیغمبرؐ کے بعد حضرت علی تک پہنچتی ہے۔(٥١)
دوسرا جواب: ہرجگہ اور ہرزمانے میں اگرکوئی بادشاہ اپنا جانشین،ولیعہد اور نائب منتخب کرتا تھاتو اس کا یہ عہدہ بادشاہ کے مرنے کے بعد ہی فعلیت کے مرحلہ میں آتا تھا؛ جیسا کہ فقہاء اسلام کا وصیت کے متعلق یہ مسئلہ ہے کہ میت اپنی زندگی میں وصیت کرتی ہے اور وصیت صحیح ہے لیکن جس شخص کے لئے وصیت کی ہے وہ اس مال کا حقدار اس وقت ہوگا جب وصیت کرنے والا دنیا سے رخت سفر باندھ لے گا۔(٥٢)
تیسرا جواب: دو اولیٰ بالتصرف کا خوف اس مقام پر ممکن ہے جب دونوں ایک دوسرے کی مخالفت پر تُلے ہوں حالانکہ رسول اسلامؐ اور حضرت علی کسی بھی مقام پر اختلاف کا شکار نہیں ہوئے۔(٥٣)
چوتھا جواب: حقیقی ولایت حضرت علیؑ اور اس کا مرحلۂ فعلیت میں آنا، وفات رسولؐ کے بعد ہی محقق ہوتا ہے، نہ کہ آنحضرتؐ کی حیات طیبہ میں۔(٥٤)
پانچواں اعتراض
ابن حجر وغیرہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر حدیث غدیر کا منظور نظر حضرت علی کی خلافت کا بیان ہوتا تو حضورؐ اپنے کلام میں لفظ خلیفہ کی قید ضرور لاتے حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ کا منظورنظر خلافت علی نہیں ہے۔(٥٥)
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
یہ اعتراض قابل قبول نہیں ہے کیونکہ متعدد مقامات پر حضوراکرمؐ نے حضرت علیؑ کو خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے؛ علامہ امینی نے اہلسنت کی معتبرکتابوں سے کئی احادیث نقل کی ہیں جن میں آنحضرتؐ نے لفظ ''خلیفتی '' استعمال کیا ہے۔(٥٦)
چھٹا اعتراض
ابن حجر ہیثمی نے اعتراض کیا ہے کہ اگر واقعاً حدیث غدیر خلافت علی پر دلالت کرتی ہے تو پھر اس حدیث سے رسولؐ و اصحاب رسولؐ نے استدلال کیوں نہیں کیا! اس کا مطلب یہ ہے کہ خود آنحضرتؐ بھی جانتے تھے کہ یہ حدیث خلافت علی پر نص نہیں بن سکتی۔(٥٧)
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
اس قسم کے اعتراضات لاعلمی کا نتیجہ ہیں کیونکہ خوداہلسنت کی کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت علی نے زمان خلافت سے پہلے اور خلافت کی باگ ڈورسنبھالنے کے بعد متعدد مقامات پر اس حدیث کے ذریعہ احتجاج کیا ہے۔(٥٨)
مسند احمد بن حنبل میں نقل ہوا ہے کہ حضرت علی نے لوگوں کو مقام رحبہ پر جمع کیا اور غدیر خم کے متعلق ان کو قسم دی جس کے نتیجہ میں تیس افراد(ابونعیم کے بقول: بہت سے افراد)نے جواب دیا: غدیر خم میں حضور اکرمؐ نے حضرت علیؑ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر بلندکیا اور ان کو ولی مومنین کے عنوان سے پہچنوایا۔(٥٩)
شمس الدین زجری شافعی نے اس حدیث کے ذریعہ جناب فاطمہ کا احتجاج بیان کیا ہے۔(٦٠)
علامہ امینی کی کاوش کتاب ''الغدیر'' میں بہت سے استدلال او راحتجاج مشاہدہ میں آتے ہیں۔(٦١)
ساتواں اعتراض
ابن حجر ہیثمی جیسے مورخین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آخر میں حضرت علی نے ابوبکر کی خلافت کو قبول کرلیا تھااور دوسرے خلفاء کی مدد بھی کرتے تھے، اگر حدیث غدیر واقعاً خلافت علی پر دلالت کرتی ہے تو حضرت علی نے خلفاء سے جنگ کیوں نہیں کی اور ان کے خلاف قیام سے گریز کیوں کیا؟۔(٦٢)
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
ٹھیک ہے ہم نے مان لیا کہ آخر میں حضرت علی نے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی! لیکن کیا اس بیعت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ (خلافت ابوبکر) خلافت برحق تھی؟۔ یہ بیعت ابوبکر کی حقانیت کو ثابت کرتی ہے یا نہیں؟۔ ایسے ماحول کے لئے رسول اسلامؐ نے حضرت علی کو صبر کی تلقین فرمائی تھی، اس کے متعلق بہت سی روایات ہیں جن میں ایک روایت کا تذکرہ لازم ہے:
حضوراکرمؐ نے حضرت علیؑ کو خطاب کرکے فرمایا: ''ستلقون بعدی اثرہ فاصبروا حتی تلقون علی الحوض'' میرے بعد تمہیں انحصار طلبی سے روبروہونا پڑے گا لہٰذا تم اس پر صبرکرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کرو۔(٦٣)
اسی روایت کی مانند دیگر روایات بھی ہیں جو صحیح مسلم، کنزالعمال وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں۔(٦٤)
انہی روایات کی بناپر حضرت علی ؑنے صبر مناسب جانا اور خود آپ ہی کے بقول: ''آنکھ میں کانٹا اور گلے میں ہڈّی ہونے کے باوجود میں نے صبر کیا''(٦٥)؛ اور اگر اس عالم میں حضرت علی بیعت نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ روم وایران کی مانند مدینہ میں بھی خونریزی عام ہوجاتی اور اس سے اسلام کو ضرر پہنچتا، لہٰذا آپ نے اسلام کی مصلحت کے پیش نظرصبر کو غنیمت شمار کیا۔
آٹھواں اعتراض
ابن حجر جیسے محققین نے اعتراض کا یہ انداز اپنایا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبراکرمۖ کی جانب سے کوئی حدیث صادر ہوئی ہو اوربعد میں آنے والے نیک لوگ(اصحاب رسولؐ) اس سے سرپیچی کریں اور اس کو علمی جامہ نہ پہنائیں؟ یہ تو محال نظرآتا ہے! لہٰذا ضروری ہے کہ یاتو ان جیسی روایات کی تاویل کریں یا ان کو چھوڑدیں، چاہے وہ روایات معتبر ہوں یا غیر معتبر(متواتر ہوں یا غیرمتواتر)(٦٦)؛ شیخ سلیم البشری نے کہا ہے: ''مجھے یقین ہے کہ تمہاری گفتار پر احادیث دلالت کرتی ہیں اور اگر احادیث نہ ہوں تو عمل اصحاب کو صحیح شمار کیا جائے گا، کوئی چارۂ کار باقی نہیں کہ ان روایات کو چھوڑدیا جائے اور ظاہر روایات پر عمل نہ کیا جائے تاکہ سلف صالح (خلفاء) کی سیرت پر عمل پیرا ہوسکیں''۔(٦٧)
اعتراض کا تحقیقی جائزہ
اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ابن ابی الحدید معتزلی اور ابوجعفرعلوی کے درمیان ہوئی گفتگو پر ایک نظر کرتے ہیں، اس کے بعد وضاحت کریں گے:
ابن ابی الحدید کا بیان ہے: جب میں نے امیر المومنین کے اس جملہ ''کانت اثرہ علیھا نفوس قوم و سخت عنھا نفوس آخرین'' کی قرأت کی تو ابوجعفرعلوی سے دریافت کیا: اس جملہ کا مطلب کیا ہے! اس سے کون سا دن مراد ہے؟ سقیفہ بنی ساعدہ(رحلت رسولۖ کے بعد) یا وہ شوریٰ کا روز جس روز عثمان کو خلیفہ کے عنوان سے منتخب کیا گیا؟ ابوجعفرعلوی نے جواب دیا: اس سے مراد سقیفہ کا روز ہے۔
میں نے کہا: میرے دل کو یہ گوارا نہیں کہ اصحاب رسولؐ کی جانب نافرمانی کی نسبت دوں! اور یہ کہہ دوں کہ انھوں نے حضورؐ کی جانب سے صادر ہوئی نص صریح سے سرپیچی کی!۔
انہوں نے جواب دیا: ہاں! میں بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ حضوراکرمؐ پر یہ تہمت لگائوں کہ انھوں نے اپنے بعد آنے والے زمانے کے لئے خلیفہ کا انتخاب نہیں کیا اور امت کو بغیر سرپرست کے چھوڑکر چلے گئے! حالانکہ حضورؐ کی سیرت یہ تھی کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو ایک امیر کا انتخاب کرتے تھے، باوجود اس کے کہ زندہ تھے اور مدینہ سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں جاتے تھے، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب اس مقام پر جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں تو امت کو بغیرامیر کے چھوڑجائیں؟ اگر امیر نہ ہو تو امت کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہوگی؟۔(٦٨)
جی ہاں! بعض ایسے افراد ہیں کہ اصحاب رسولؐ کی حرمت کا پاس ولحاظ کرتے ہیں لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کے اس احترام سے کہیں رسول اسلامؐ کا احترام تو مجروح نہیں ہورہا ہے؟ اس حدیث کے متعلق بھی مذکورہ نظریہ کچھ یہی ثابت کرتا ہے، پیغمبراکرمؐ کی جانب (نعوذباللہ) سستی اور لاپرواہی کی نسبت دینے کو تیار ہیں لیکن اصحاب رسولؐ کی ان سرپیچیوں کے باوجود جوکہ تاریخ میں موجود ہیں ان کی طرف نسبت دینے کو تیار نہیں ہیں۔
اب آئیے اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں: ''کیسے ممکن ہے کہ پیغمبرؐ حکم دیں اور اصحاب رسولؐ سرپیچی کریں؟'' جی ہاں! یہ عقل سے بعید ہے کہ اصحاب رسولؐ ایسی رکیک حرکت کریں لیکن کیا کریں روایات تو یہی ثابت کرتی ہیں، جن میں سے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ پیغمبراکرمؐ نے اپنی رحلت پرملال کے روز، اصحاب کی جانب رخ کیا اور فرمایا: میرے لئے قلم دوات لے آئو تاکہ میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو، عمر نے کہا: پیغمبرؐ پر ہذیان کی کیفیت طاری ہوگئی ہے یا دوسری روایت کے مطابق: پیغمبرؐ درد میں مبتلا ہیں اسی سبب ایسی گفتگو کررہے ہیں۔(٦٩)
٢۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضوراکرمؐ نے تین بار فرمایا: اٹھ جاؤ، احرام سے خارج ہوجاؤ اور اپنے سروں کو یہیں منڈوادو، لیکن پیغمبرؐکی بات پر کوئی بھی گوش برآواز نہیں ہوا اور پیغمبراکرمؐ ناراضگی کے عالم میں امّ سلمیٰ کے خیمہ کی جانب چلے گئے۔(٧٠)
٣۔ پیغمبراکرمؐ نے حکم دیا تھا کہ لشکر اسامہ کے ساتھ حرکت کرولیکن بعض صحابہ کی مخالفت کی بناپر لشکر اسامہ نے پیغمبرؐ کی رحلت کے وقت تک میدان جنگ کی جانب حرکت نہیں کی۔(٧١)
٤۔جنگ حنین سے فراغت کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں بعض صحابہ نے پیغمبراکرمؐ کی تقسیم پر انگشت اعتراض بلند کی۔(٧٢)
اہلسنت کے ایک دانشور نے عدالت صحابہ کے متعلق کہا ہے، اس کا قول آٹھویں اعتراض کا جواب ثابت ہوسکتاہے، وہ رقمطراز ہے: ''عدالت صحابہ، در حقیقت اموی سیاست تھی جس کو بنی امیہ نے اپنے مفاد کی خاطر ایجاد کیا تھا تاکہ اس نظریہ کے ذریعہ مختلف مقامات پر فائدہ اٹھایا جاسکے اور انھوں فائدہ بھی اٹھایا''۔(٧٣)
اور بھی بہت سے اعتراضات ہیں جو اہلسنت کی جانب سے وارد ہوئے ہیں، ان کے مطالعہ کے لئے تفصیلی کتب کی جانب رجوع کیا جائے، ہم نے صرف اہم اہم اعتراضات بیان کرکے ان کے جواب دیئے ہیں۔
نتیجہ: غدیر خم کا واقعہ ایسا عظیم واقعہ ہے جس پر تمام جہانِ اسلام کا اتفاق ہے، تمام شیعہ اور اکثر اہلسنت کا نظریہ ہے کہ غدیر خم کا واقعہ فریقین کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ حدیث غدیر کی صحت پر بہت سے بزرگانِ قوم وملت کی مہر تصدیق ثبت ہے ، اس کے متعلق اعتراضات کے جواب بھی دیئے گئے ہیں اور حضرت علی کی بلافصل خلافت کو ثابت بھی کیاگیا ہے۔
دور حاضرمیں مذاہب اسلامی کے درمیان نزدیکی کا شعار گونج رہا ہے تو اس صورت میں لازم ہے کہ تمام مذاہب حق وحقیقت سے آشنا ہوں، اس کے متعلق تحقیقی کام انجام دیں تاکہ وحدت اسلامی پائدار ہوسکے، مجھے قوی امید ہے کہ اس مقالہ سے حق وحقیقت کے متلاشی ضرور استفادہ کریں گے اور ان کے لئے مفیدثابت ہوگا۔(انشاء اللہ)

حوالہ جات:
(1)الغدیر: ج١، ص١٤١،١٤٤۔
(2)ایضاً: ص١٤٥،١٦٥۔
(3)ایضاً: ص١٦٧، ٣١١۔
(4)الصواعق المحرقة: ص٦٤۔
(5)داستان غدیر خم: ص٩٦۔
(6)ایضاً۔
(7)ایضاً۔
(8)نقد دیدگاہ ھای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر،ص١٢٦۔
(9)ایضاً۔
(10)ایضاً۔
(11)ایضاً۔
(12)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٢٤۔
(13)الصواعق المحرقة: ص٦٤۔
(14)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٢٥۔
(15)الغدیر: ج١، ص٢٩٤۔
(16)الصواعق المحرقة: ص٦٤۔
(17)ایضاً: ١٨٨۔
(18)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٢٩۔
(19)ایضاً: ص١٣٠۔
(20)ایضاً۔
(21)الصواعق المحرقة: ص٦٤۔
(22)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٣١۔
(23)الصواعق المحرقة: ص٦٤۔
(24)داستان غدیر خم: ص٩٩؛ برگزیدہ الغدیر: ص٨٧۔
(25)ایضاً: ص١٠٠؛ ایضاً: ص٨٨۔
(26)ایضاً؛ ایضاً:ص٨٨۔
(27)ایضاً؛ ایضاً۔
(28)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٣١۔
(29)الصواعق المحرقة: ص٦٥۔
(30)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٣١۔
(31)الغدیر: ج١، ص٦٥۔
(32)ایضاً: ص١١٣۔
(33)ایضاً: ص١٧٣۔
34)ایضاً: ص٥٣۔
(35)برگزیدہ الغدیر: ص٧٨۔
(36)الصواعق المحرقة: ص٦٧۔
(37)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٣٨۔
(38)غدیرشناسی و پاسخ بہ شبہات: ص١٥٠۔
(39)ایضاً: ص١٤٧۔
(140)الغدیر: ج١، ص٦٣٩۔
(41)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٤٠۔
(42)الصواعق المحرقة: ص٦٧۔
(43)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٣٩۔
(44)ایضاً: ص١٣٨۔
(45)ایضاً: ص١٤١۔
(46)الصواعق المحرقة: ص٦٧۔
(47)برگزیدہ الغدیر: ص٧٨۔
(48)غدیر شناسی و پاسخ بہ شبہات: ص١١٢۔
(49)داستان غدیر خم: ص٨١۔
(50)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٤٣۔
(51)ایضاً۔
(52)ایضاً۔
(53)غدیر شناسی و پاسخ بہ شبہات: ص١٥٨۔
(54)ایضاً۔
(55)الصواعق المحرقة: ص٦٩۔
(56)الغدیر: ج٢، ص٣٩٣۔
(57)الصواعق المحرقة: ص٦٩۔
(58)الغدیر: ج١، ص٣٢٧؛ نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٤٥۔
(59)مسند احمد بن حنبل: ج٤، ص٣٧٠۔
(60)غدیر شناسی و پاسخ بہ شبہات: ص١٤٢؛ نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٤٥۔
(61)الغدیر: ج١، ص٤٠٠،٤٢١۔
(62)الصواعق المحرقة: ص٧٦۔
(63)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٤٩۔
(64)ایضاً: ص١٤٨۔
(65)نہج البلاغہ: خطبۂ شقشقیہ۔
(66)الصواعق المحرقة: ص٦٨۔
(67)نقد دیدگاہ ہای اہلسنت دربارہ حدیث غدیر، ص١٤٩۔
(68)ایضاً: ص١٥٠۔
(69)ایضاً: ص١٥١۔
(70)ایضاً۔
(71)ایضاً: ص١٥٢۔
(72)ایضاً۔
(73)ایضاً۔
مقالات کی طرف جائیے