|
عید غدیر، اکمال دین اور اتمام نعمت کے تناظر میں |
سید غافر حسن رضوی چھولسی(مدیر ساغر علم فاؤنڈیشن) |
حجة الوداع کا موقع تھا، حضوراکرمؐ اپنے اصحاب وانصار کی ہمراہی میں مکہ مکرمہ کی زیارت سے مشرف ہوکر مدینہ کی جانب روانہ تھے، ١٨/ذی الحجہ١٠/ہجری کا وہ سنہرا وقت آیا کہ جبرئیل امین نازل ہوئے اور فرمایا: ''اے رسول! اس پیغام کو پہنچادیجئے جو آپ پر نازل کیا جاچکا ہے، اگر آپ نے یہ کام انجام نہیں دیا تو گویا کوئی کار رسالت انجام نہیں دیا اور خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا''۔ حکم الٰہی کی تعمیل میں حضوراکرمؐ نے اصحاب کو حکم دیاکہ اونٹوں کے کجاووں کا منبر آمادہ کیا جائے، منبر آمادہ کیاگیا اور آپؐ سوالاکھ یا ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں کے مجمع میں منبر پر تشریف لے گئے اور حکم خداوندعالم سناتے ہوئے حضرت علیؑ کو اپنا خلیفہ و جانشین منتخب کیا۔ جب حضوراکرمؐ نے تمام امت مسلمہ سے اپنے حق مسلم کا اقرار لیتے ہوئے مولائے کائنات علی ابن ابیطالب علیہماالسلام کے ہاتھوں پر بیعت لے لی تو جبرئیل امین ایک اور آیت لیکر نازل ہوئے: ''آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا، اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور اسلام کو دین کے عنوان سے منتخب کیا''۔(سورۂ مائدہ٣)؛ پیغمبراکرمؐ نے اسی تناظر میں فرمایا: ''...وھوالیوم الذی اکمل اللہ فیہ الدین، و اتمّ علیٰ امتی فیہ النعمة و رضی لھم الاسلام دینا...'' اور وہ روز(روز غدیر)وہ روزہے کہ جس دن خدا نے دین اسلام کو اکمال کی سند سے نوازا، میری امت پر اپنی نعمتیں تمام کیں اور ان کے لئے دین اسلام کو منتخب فرمایا۔(آمالی: شیخ صدوق،ص١٢٥)؛ رسول اسلامؐ کے دہن مبارک سے نکلے ہوئے اس جملہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام علیؑ کی ولایت و امامت تمام مسلمانوں پر واجب قرار دی گئی، یہی سبب ہے کہ اس کے ذریعہ خدا نے بندوں پر اتمام نعمت کیا۔ اس تناظر میں اس واقعہ کو مندرجہ ذیل صورتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ١۔آخری واجب: ولایت امیر المومنین علی خداوندعالم کی جانب سے نازل ہونے والے واجبات میں سے آخری واجب امر ہے، اس کے متعلق امام باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ''آخر فریضة انزلھا اللہ الولایةفلم ینزل من الفرائض بعدھا حتی قبض اللہ رسولہ'' وہ آخری حکم واجب جو خداوندعالم کی جانب سے نازل ہوا وہ ''ولایت ''ہے کیونکہ آخری آیت میں اکمال دین اور اتمام نعمت کا تذکرہ کیاگیا ہے، اور ولایت کے بعد کوئی واجب چیز نازل نہیں ہوئی یہاں تک کہ رسول اسلامؐ رحلت فرماگئے اور حضرتؐ کی روح عالم ملکوت کی جانب پرواز کرگئی۔(تفسیرعیاشی: ج١، ص٢٩٢، آیۂ اکمال دین کے ذیل میں)؛نیز امام باقر علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں: ''وکانت الفرائض ینزل منہا شئی بعد شئی، تنزل الفریضہ ثم تنزل الفریضة الاخریٰ، و کانت الولایة آخر الفرائض فأنزل اللہ(الیوم اکملت) یقول اللہ: لا انزل علیکم بعد ھذہ الفریضة، قد اکملتُ لکم ھذہ الرائض'' فرائض کو یکے بعد دیگرے نازل کیاگیا، خدانے ایک فریضہ نازل کیا اس کے بعد دوسرا فریضہ نازل فرمایا، اور ولایت کو آخری فریضہ قرار دیتے ہوئے سب سے آخر میں نازل فرمایا، اسی کے پیش نظر خدا نے اکمال دین کی سند نازل فرمائی اور رسول اسلامؐ سے خطاب کیا کہ ولایت سب سے آخری فریضہ ہے اور میں اس کے بعد تمہارے لئے کوئی اور فریضہ نازل نہیں کرونگا، بالتحقیق میں نے اس فریضہ پر تمام فرائض کا خاتمہ کردیا۔(دعائم الاسلام: قاضی نعمان مغربی، ج١، ص١٥)؛ درحقیقت آیۂ اکمال دین کے نزول کے بعد ہی آیۂ اطاعت ''اے صاحبان ایمان! خدا کی اطاعت کرو، اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو...''(سورۂ نساء/٥٩) نے عملی جامہ پہنا۔ جب لوگوں نے حکم خداوندی کے تحت اعلان رسالت کو اپنے کانوں سے سن لیا اور وصی رسول کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو بہانہ تراشی کا ہر دروازہ بند ہوگیا اور ہر مسلمان کی گردن پر ولایت علیؑ واجب قرار پائی، تمام لوگ بحسن و خوبی جان گئے تھے کہ حضوراکرمؐ کی وفات کے بعد آنحضرتؐ کے خلیفہ و جانشین علیؑ ہی ہوں گے چونکہ یہی خداوندعالم کی جانب سے نازل ہونے والا آخری حکم تھااور حضوراکرمؐ نے بھی اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی لہٰذا ایسی صورت میں اگر جان کر انجان بننے کی کوشش کی جائے تو یہ دیدہ و دانستہ حکم خدا و رسول کی نافرمانی شمار ہوگی اور حکم خداورسول سے سرپیچی کفر کے زمرہ میں پہنچادیتی ہے۔ ٢۔اتمام نعمت: اکمال دین کے مقام پر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ خداوندعالم کی جانب سے اتمام نعمت کا ولایت سے بہت ہی عمیق اور گہرا رابطہ ہے یایوں تعبیر کیا جائے کہ اگر امت مسلمہ کو کمال کی منزلیں طے کرنا ہیں تو محمد و آل محمد علیہم السلام کی ولایت پر عمل پیرا ہونا پڑے گا اسی صورت میں اتمام نعمت کا مفہوم کامل ہوگا۔ البتہ مذکورہ آیت میں نعمت کا تذکرہ نعمت کے تمام ظاہری اور باطنی اطراف و جوانب کو شامل ہے مثلاً: عدالت، برادری، اخلاق...وغیرہ۔ لہٰذا جو لوگ اس آیت میں ذکر ہونے والے لفظ''نعمت '' سے صرف نعمت معنوی مراد لیتے ہیں ان کا نظریہ قابل غور اور لائق تفکر ہے۔ اس آیت میں اصل نعمت کا نام نہیں لیاگیا ہے بلکہ صراحتاً اتمام نعمت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس لفظ سے نعمت کے تمام گوشے مراد ہیں نہ کہ صرف معنوی نعمت، کیونکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں لفظ ''نعمت '' کا تذکرہ ہوا ہے وہاں وہاں تمام نعمتیں مراد ہیں نہ کہ نعمت کے بعض گوشے۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ١٥٠، سورۂ مائدہ٦، سورۂ یوسف٦، سورۂ نحل٨١ اور سورۂ فتح٢، کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔یہ تفصیل اس رابطہ کو بخوبی واضح کرتی ہے جو براہ راست ولایت علی اور نعمتوں کے درمیان پایا جاتا ہے کیونکہ ولایت علوی کوئی معمولی شئے نہیں بلکہ ایسی اہم شئے ہے جس پر تمام نعمتوں کا دارومدار ہے، عدالت و آزادی اور فضائل اخلاقی کا حصول صرف و صرف ولایت علوی کی ہمراہی میں ہی ممکن ہے لہٰذا امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ امت کے تمام افراد پیغمبراکرمؐ کی آخری رسالت کو قبول کریں اور ولایت علیؑ پر گامزن رہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے کہ امت مسلمہ پر ولایت امیر المومنینؑ کو اس کے ان تمام اطرا ف و جوانب کے ساتھ قبول کرناواجب ہے جو خداوندعالم نے غدیر خم کے مقام پر رسول کی زبانی بیان کرائے تھے اور اس کی خیروبرکت تکوینی ہے اور اس کو قبول نہ کرنے کی صورت میں جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں وہ بھی قابل انکار ہیں کیونکہ یہ ہمارا حکم نہیں بلکہ خدا و رسول کا حکم ہے اور حکم خداورسول کی نافرمانی مسلمانوں کے شایان شان نہیں، خداوند عالم اپنے رسول سے خطاب فرماتا ہے: ''اے رسول! اگر وہ لوگ توریت و انجیل اور رب کے نازل کردہ پیغام پر عمل کرتے تو کبھی بھی ان کے درمیان سے آسمانی اور زمینی برکتوں کا سایہ نہ اٹھتا''۔(سورۂ مائدہ٦٦)؛ اس آیت سے اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ حکم قرآنی کی مخالفت اور حکم رسول سے سرپیچی برکتوں کے خاتمہ کا پیش خیمہ ہے، چونکہ قرآن کریم نے ولایت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے لہٰذا اس حکم سے روگردانی بھی نعمتوں اور برکتوں کے خاتمہ کا باعث قرار پائے گا۔ ٣۔خدا تک پہنچنے کا واحد راستہ: اگر کوئی غدیر کو ایک جملہ میں بیان کرنا چاہے تو اس جملہ کے ذریعہ بیان کرسکتاہے: ''غدیر ایک ایسا پیمانہ ہے جس میں حضوراکرمؐ کی مکمل رسالت نظر آجائے، غدیر ایک ایسا خزانہ ہے جس میں پیغمبرؐ پر نازل شدہ تمام احکام الٰہی پنہاں ہیں'' اس حقیقت کی گواہی آیۂ بلغ صراحت کے ساتھ دیتی نظر آتی ہے کہ اگر حضورؐ نے یہ پیغام نہیں پہنچایا تو رسالت کی ادائیگی بنحو احسن انجام نہیں دے پائے!۔ اگر دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ غدیر تمام فضائل، اخلاق، نیکی، خوبی، ثقافت اور تمدن کا گلستاں ہے اور منکر غدیر گویا ان تمام فضائل سے انکار کررہا ہے یعنی تمام اسلامی اقدار کا منکر ہے کیونکہ اسلامی اقدار کی روح وجان غدیر ہے، غدیر ہی ایسا مدرسہ ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ دینی کلچر کو بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے، اسی کے ذریعہ انسان راہ تکامل تک پہنچ سکتا ہے۔ اس مدرسہ کا مالک یعنی علی ابن ابیطالب کی عظمت و اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آپ حضوراکرمؐ کے بلافصل خلیفہ و جانشین ہیں اور ان کے بعد آپ کا پہلا مرتبہ ہے، آپ کا مقام اتنا بلندوبالا اور ارفع و اعلیٰ ہے کہ کسی معمولی انسان کا طائر فکر پرواز سے قاصر ہوجائے، اسی تناظر میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے حکم بن عتبہ کے متعلق فرمایا کہ وہ راہ علی کو چھوڑ کر خدا تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے! ''...فلیشرق ولیغرب أما واللہ لا یصیب العلم الا من اہل بیت نزل علیھم جبرئیل''وہ چاہے مشرق سے مغرب تک کی خاک چھان ڈالے، خدا کی قسم! اسے اس وقت تک علم حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اہل بیت کے دروازہ تک نہ آجائے جہاں پر فرشتۂ وحی جبرئیل نازل ہوتے تھے۔(اصول کافی: ج١، ص٣٩٩)؛ حق یہی ہے کہ محمد وآل محمدعلیہم السلام کی درسگاہ سے روگردانی، بدنصیبی کا واضح نمونہ ہے ، اس در سے ہٹ کر ہرقسم کا علم بے مفہوم ہے۔ یہی مبارک دہلیز ایسی ہے جہاں سے راہ ہدایت نصیب ہوتی ہے، علم وعرفان، اخلاق و کردار، رفتار وگفتار غرض جس قسم کا مریض ہو اسی دارالشفاء پر آکر صحت یاب ہوتا ہے۔ جو راستہ غدیری نہ ہو وہ خدا تک نہیں پہنچاسکتا کیونکہ مخالف غدیر راستہ مخالف دین ہوتا ہے اور جو مخالف دین ہو وہ مخالف خدا ورسول ہوتا ہے اور خداورسول کی مخالفت کرنے والے کے نصیب میں ہدایت نہیں بلکہ ہلاکت ہے۔ غدیر تمام اخلاق حسنہ کا سرچشمہ ہے ۔ اقدار کا پیمانہ: غدیر کی فضیلت بیان کرنے سے طائرفکرعاجز،نوک قلم قاصر اور زبان گنگ ہے، اس کی عظمت کو صرف معصومین علیہم السلام ہی بحسن وخوبی درک کرسکتے ہیں، ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ ائمۂ معصومین سے ہی حاصل کیا ہے۔ غدیر کی یاد تازہ رکھنا گویا عدالت، ثقافت،شرافت، سخاوت، کرامت جیسی ہزاروں صفات کو زندہ رکھنا ہے چونکہ معاشرہ کے لئے یہ تمام چیزیں نہایت اہم ہیں لہٰذا ان کے حصول میں کوشاں رہنا ہر انسان کا فریضۂ عینی ہے اور ان کے حصول کی خاطر غدیر کا تسلیم کرنا لازم ہے۔ غدیر کی فضیلت میں یہی جملہ کافی ہے کہ غدیر اکمال دین اور اتمام نعمت کی سند ہے اور تمام اخلاق حسنہ کا محور ومرکز غدیرہی کو قرار دیا گیا ہے۔ جب دنیا کا حاکم مولائے غدیر ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کا بول بالا اور شرک و نفاق کا منھ کالا ہونا صادق آئے گا، مولائے غدیر کی حکومت میں نہ تو کوئی شخص بھوکا سوئے گا نہ ہی کسی فقیر ومحتاج کی فریادرسی میں تاخیر کی جائے گی، ان کی حکومت میں عدالت کے ساتھ یکسانیت حاکم ہوگی، بیت المال سے جتنا حق ایک فقیر کو دیا جائے گا اتنا ہی سرمایہ دار کو دیا جائے گا، اس حکومت میں کسی قسم کی رواداری کام نہیں آئے گی، اگر ذاتی گفتگو کرنا مقصود ہوگا تو بیت المال کا چراغ گل کرکے اپنا ذاتی چراغ جلایا جائے گا۔ اس حکومت میں اپنی رشتہ داریاں نہیں نبھائی جائیں گی کہ میں تمہارا بھائی ہوں کثیر العیال بھی ہوں لہٰذا کچھ زیادہ مال عطاکیاجائے!کیونکہ ان کی حکومت ہی خدائی حکومت ہے، ان کی نظروں میں ہمیشہ خداوندعالم حاضر و ناظر رہتا ہے۔ اگر مولائے غدیر اور غدیری میدان کو ایک جملہ میں سمیٹنا چاہیں تو اس انداز سے کہیں: ''میدان غدیر اسلامی اقدار کا پیمانہ ہے اور مولائے غدیراس پیمانہ کا مالک ہے، اس کی ذات مجسمۂ عدالت ہے''۔ آخر کلام میں مولائے غدیر کے تصدق سے رب الارباب کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار عالم وارث غدیر کے ظہور میں تعجیل فرما تاکہ ہماری گنہگار آنکھیں حکومت علوی کا دیدار کرسکیں۔ ''آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ''۔
منابع وماخذ: (١)قرآن کریم۔ (٢)الغدیر۔ (٣)تفسیر در منثور۔ (٤)تفسیر کبیر۔ (٥)تفسیر نمونہ۔ (٦)المقنعہ۔ (٧)تفسیر المیزان۔ (٨)عبقات الانوار۔ (٩)تفسیرقرطبی۔ (١٠)تفسیر عیاشی۔
|
مقالات کی طرف جائیے |
|