|
فارسی شاعری میں منقبت مولا علیؑ کی روایت |
پروفیسر سید عراق رضا زیدی (جامعہ ملیہ دہلی) |
خدا سے قربت کا احساس جن زبانوں کا سرمایہ ہے ان میں فارسی زبان کا ادب سر فہرست ہے ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ٢٦٠ھ کے بعد کا فارسی ادب کا سرمایہ عربی ادب کے اسی دور کے بعد کے سرمایے پر سبقت حاصل کر چکا ہے۔خصوصاً عربی دنیا کے علاوہ تمام جہان میں اسلامی اشاعت و تبلیغ کا کارنامہ اسی فارسی زبان کا مرہون منت ہے۔ جس کی ایک وجہ تصوف و عرفان کے ذریعے عوام الناس تک خداو رسول ؐکے پیغام کو با آسانی پہنچایا ہے۔''تصوف و عرفان'' جس کا سرچشمہ مولاے کائنات حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ معرفت مولا علی کتنی مشکل ہے وہ رسول ؐ خدا کے قول سے واضح ہے:''یا علی یا یعرف اللہ الا انا و انت ولا یعرفنی الا اللہ و انت ولا یعرفک الا اللہ و انا''اے علی نہیں پہچانا کسی نے خدا کو سواے میرے اور تیرے، نہیں پہچانا کسی نے مجھے سواے خدا کے اور تیرے، نہیں پہچانا کسی نے تجھے سواے خدا کے اور میرے۔ اور خود مولا علی کا فرمان اپنی معرفت کے بارے میں ہے:''تھلک فی رجلان محب غال و مبغض قال''دو گروہ ہلاکت میں پڑیں گے وہ دوست جو میرے بارے میں غلو سے کام لیں گے اور میرے دشمن جن کے دل میں کینہ ہوگا۔ یہاں دشمنوں سے تو کوئی لینا دینا نہیں ہے البتہ دوستی کا دعویٰ کرنے والوں سے اصل چاہنے والے بھی دھوکہ کھاتے رہتے ہیں۔ مثلا خود مولا کے زمانے میں '' خدا کہہ کے کافر ہوا ہے نصیری''دور حاضر میں دوستوں کو چار گروہوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔١ ملنگ ٢ اخباری ٣جذباتی ٤ جیسے مولا چاہتے ہیں۔ پہلے دو گروہ اصل چاہنے والوں کے لئے بھی آزمائش کا باعث ہیں۔ ان میں کوئی کسی کا بھائی ہے کوئی بیٹا اور بھتیجا… ایسے رشتوں کے درمیان خود کا دین سنبھالنا بھی مشکل ہو گیا ۔ اگر کسی کا بیٹا، بھانجا، بھتیجا یا بھائی مولا کو خدا ماننے لگے یا رسول خداؐ پر فضیلت دینے لگے تو کافر یا مشرک ہوگا۔ اس منزل میں دور رسولؐ کی طرح عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ ایمان کی کمزوری ہے یا مصلحت اندیشی کہ ان سے دامن چھڑانے کے لیے کوئی آمادہ نہیں ہے ایسے میں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ فارسی زبان میں جو مولا کی مدح سرائی کی گئی ہے اس میں اکثر وہی مضامین و اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو ممندرجہ بالا قول کے مترادف نہیںہیںبلکہ جیسی تعریف ہونا چاہیے یعنی خدا و رسولؐ کی عظمت کے سائے میں ان سے زیادہ نہیں۔ یوں تو فارسی ادب کا سرمایہ مامون رشید کی زندگی میں سامنے آنے لگا تھا کیوں کہ اس کی ماں ایرانی تھی۔ اسی زمانے میں ایرانیوں کو دوبارہ حکومت کرنے کا موقع ملا جو تا ہنوز جاری ہے۔ اسی کے ساتھ مدح محمدؐو آل محمد کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ فارسی ادب میں بزرگترین کارنامہ 'شاہنامہ فردوسی' ہے۔ اس فارسی شاہکار کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی بھی کئی زبانوں میں شاہنامے کے ترجمے دستیاب ہیں۔ فردوسیؔ مدح مولا میں رقمطراز ہے: پیمبرۖ بدو اندرون یاعلی - ھمہ اہل بیت نبیۖ و وصی چہ گفت آن خداوند تنزیل و وحی - خداوند امر و خداوند نھی کہ من شھر علمم علیم در است - درست این سخں گفت پیغمبر است اگر خلد خواھی بدیگر سرای - بنزد علی و وصی گیر جای برین زادم و ھم برین بگدرم - یقین دان کہ خاک پی حیدرم فردوسیؔ کا انتقال ٤١١ھ میں ہوگیا لیکن ٣٥٧ھ میں پیدا ہونے والے مشہور صوفی ابو سعید ابو الخیر جن کی رباعیاں عرفانیت کی روح کہلاتی ہیں۔ ناقدین ان کے اس طرح بیان کرتے ہیں: ''واقعا عقاید صوفیانہ در اخلاق و گفتار و ککردار ابو سعید جلوہ کردہ بود خوش زبان و شیرین بیان، شکستہ نفس و مھربان بود۔ مال از تونگر گرفتہ بدرویشان می داد، کینہ جوئی دوست نداشت با ھمہ یار بود حتی کہ با دشمنان خود مدارا می کرد''۔ یہ ان صفات میں سے چند صفات ہیں جنہیں مولا علیؑ پسندفرماتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں سے ان پر چلنے کی امید رکھتے ہیں۔ یہ علی کا غلام اس طرح طالب امداد مولا ہے: ای خواندہ ترا خدا ولی ادرکنی - پرتو ز نبی نص جلی ادرکنی دستم تھی و لطف تو پایانست - یا حضرت مرتضٰی علی ادرکنی ای حیدر شھسوار وقت مددست - ای زبدہ ھشت و چار وقت مددست من عاجزم از جھان و دشمن بسیار - ای صاحب ذوالفقار وقت مددست ٤٤٠ھ میں ابو سعید ابو الخیر عالم جاودانی میں گم ہو گئے۔ فارسی شاعری میں مدح علیؑ کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ سو سال سے زیادہ زندگی کے مزے لوٹنے کے بعد ٤٩١ھ میں وفات پانے والے فارسی نظم و نثر کے جادوگر گلستان و بوستان کے خالق مصلح الدین شیخ سعدی شیرازی جن کا نام فارسی ادب میں لازم و ملزوم ہے۔یو۔این۔او۔ کے دروازے پر انہیں کے اشعار کندہ ہیں۔مدح علی میں فرماتے ہیں کہ کس میں اتنی طاقت ہے اور کس کا کلیجہ ہے جو حضرت علیؑ کے صفات بیان کر سکے خدا نے ان کے مناقب میں آیت "ھل اتیٰ" نازل کی ہے: کس را زور و زہرہ کہ وصف علی کند - جبار در مناقب او گفتہ ھل اتی زور آزمای قلعہ خیبر کہ بند او - جان بخش در نماز و جھانسوز در دعا دیباچہ مرمت و دیوان معرفت - لشکر کش فتوت و سردار اتقیا فردا کہ ھر کسی بہ شفیعی زنند دست - مائیم و دست و دامن معصوم مرتضٰی ایران میں فارسی غزل کا سب سے بڑا الہامی شاعر کہ جس کے دیوان سے عام انسان ہی نہیں مغل بادشاہ بھی فال نکال کر اس پر عمل پیرا ہوتے تھے یہ دستور آج بھی قائم و دائم ہے۔ حافظ کی غزلوں میں بھی غالب کی طرح جا بہ جا مدح علیؑ کے اشعار مل جاتے ہیں۔ یہاں ایک قصیدہ یا منقبت سے چند اشعار نذر قارئین کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے حافظ کی وفات سعدی کی وفات کے ٹھیک سو سال بعد ٧٩١ھ میں ہوئی۔ فرماتے ہیں: علی امام و علی ایمن و علی ایمان - علی امین و علی سرور و علی سردار علی علیم و علی عالم و علی اعلم - علی حکیم و علی حاکم و علی مختار علی نصیر و علی ناصر و علی منصور - علی مظفر و غالب علی سپہ سالار علی سلیم و علی سالم و علی مسلم - علی قسیم و قصور وعلی ست قاسم نار علی عزیز وعلی عزت وعلی افضل - علی لطیف و علی انور و علی انوار علی صفی و علی صافی و علی صوفی - علی وفی و علی وافی و علی کرار علی نعیم و علی نعمت و علی منعم - علی بود اسد اللہ قاتل کفار علی ز بعد محمدۖ زھر کہ ھست بہ است - اگر تو مومن پاکی بکن بدین اقرار متعدد صنعتوں سے مرصع اس قصیدے میں حافظ دعوی کرتے ہیں کہ محمدؐ رسول خدا کے بعد چاہے کوئی بھی ہو علی سب سے افضل و برتر ہیں۔وہ پر تقوی مومنین سے اس بات کا اقرار کروانا چاہتے ہیں کہ اگر تو پاک مومن ہے تو علی کو نبیؐ کے بعد سب سے افضل مان۔ ان مشہور ترین شعرا کے علاوہ مولنا روم اور عبد الرحمن جامی جیسے ہزاروں شاعر مدح مولا علی میں رطب اللسان رہے ہیں۔ ہندوستان میں فارسی شاعری کا ورود فردوسی کے دور غزنوی میں ہو چکا تھا اور ہندوستان میں پیدا ہونے والا پہلابڑا شاعر مسعود سعد سلمان متوفی ٥١٥ھ اولاد علؑی ہونے پر فخریہ بیان کرتا ہے۔ حالانکہ اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قیدخانے کی نذر ہو چکا ہے: ھر چہ گنھگار است آخر علوی است - فرزند پیمبر است و از آل علی است زنھار زھا کہ بیش از این ما زارش - زیرا کہ بہ روز حشر خصمانش قوی است چھٹی صدی ہجری میں ہندوستان چشتیہ سلسلے کے اسلمای افکار سے آشنا ہوا جن عثمان ہارونی کے خیفہ خواجہ معین الدین چشتی نے تبلیغ دین کے کارنامے انجام دیے۔ ظاہر تبلیغ دین کا کام افکار نہج البلاغہ اور کربلا کے سائے میں ممکن تھا ملوکیت کے سائے میں نہیں۔ خواجہ کا زمانہ ٥٣٦ھ سے ٦٣٤ھ پر محیط ہے۔ امام حسین سے متعلق موصوف کی رباعی زباں زد خاص و عام ہے۔ اسی رباعی کی بنا پر دشمن اہل بیت نے ان کے شاعر ہونے سے ہی انکار کردیا۔ خدا کا شکر ہے کہ خاسار عراق رضا زیدی نے بھی اپنے ایک مقالے میں ان کے دیوان کو خواجہ صاحب کا دیوان ثابت کیا ہے جس کا جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ ورنہ یہ بحث طویل ہوتی رہی ہے۔ ١٨ شعروں پر مبنی ان کی ایک منقبت کے چند اشعار نذر قارئین کیے جارہے ہیں: بی حاصلیم گرچہ از دھر و ملک و مالش - مارا بس است حاصل مھر علی و آلش آن را کہ غیر حیدر باشد امام و رہبر - دارد خیال باطل، باطل بود خیالش بر دشمنان حیدر لعنت بکن میندیش - ای مومن موالی زنھار از وبالش چون شد علی بہ معراج دید آن زمان علی را - شیری کہ بود سرھا بر عرش پائیمالش مدح علی نگنجد در شرح گر شب و روز - صد چون کمال گوید صد سال از کمالش اسی زمانے میں لال شہباز قلندر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جن کا دور ٥٧٨ھ تا ٦٧٣ھ تقریبا ٩٥ سال پر محیط ہے۔ ان کی مشہور زمانہ ١٦ بند کی منقبت سے صرف چار بند درج ہیں۔ جس سے ان کا عقیدہ اور عقیدت واضح ہو سکے۔ یاد رہے ''دمادم مست قلندر'' میں انہیں ''لال شہباز قلندر''کا ذکر نہایت خلوص و عقیدت سے کیا گیا ہے۔ فرماتے ہیں: در رہ مدح شاہ می پویم - جز علی دیگری نمی جویم من علی دانم و علی گویم - چون نصیری کہ بندہ اویم حیدری از قلندرم مستم - بندہ مرتضٰی علی ھستم رویتش رویت خدا دانم - نور خود چون ز کبریا دانم ذات پاکش نہ خود جدا دانم - شامل ذات مصطفیٰۖ دانم حیدری ام قلندرم مستم - بندہ مرتضیٰ علی ھستم شاہ اقلیم 'ھل اتی' خوانم - مالک تخت 'قل کفیٰ' خوانم صاحب سیف 'لا فتیٰ' خوانم - والی تاج 'انما' خوانم حیدری ام قلندرم مستم - بندہ مرتضیٰ علی ھستم غیر حیدر اگر ھمی دانی - کافر است و یھود و نصرانی ھست ایمان علی نمی دانی - می پزیر این کہ تو مسلمانی حیدری ام قلندرم مستم - بندہ مرتضیٰ علی ھستم اسی دور کو آگے بڑھاتے ہوئے بابا فرید کے دو جانشینوں میں سے ایک علی احمد صابر کلیری (٥٩٢ھ تا ٦٩٠ھ جن کا سلسیہ صبریہ کے نام سے چشتیہ سلسلے کی ایک اہم شاخ کی صورت میں پہچانی جاتی ہے۔ مدح مولا علی میں ہمیشہ سرگرداں رہتے ایک ١٨ بند کی منقبت کے چار بند نذر قارئین کیے جاتے ہیں: ای آفتاب چرخ دین - مستان سلامت می کنند ای قبلہ اصحاب دین - مستان سلامت می کنند ای محرم راز خدا - ای نور چشم مصطفی ای صاحب ھر دو سرا - مستان سلامت می کنند ای صاحب عالی نسب - داری اسد اللہ لقب عالم ز تو اندر طرب - مستان سلامت می کنند صابر غلام خاص تو - ھست از ازل بی گفت وگو رحمی بکن بر حال او - مستان سلامت می کنند بابا فرید کے دوسرے جانشین حضرت نظام الدین اولیاء ٦٣٢ھ تا ٧٢٥ھ نے شہرت اور معرفت میں اپنے تمام بزرگوں اور ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے مریدوں نے چشتیہ کے ساتھ نظامی بھی اپنے نام یا معرفت کا حصہ بنا لیا۔ مولا علی سے ان کا عشق بھی آشکار ہے۔ ١٩ شعروں پر مشتمل ایک قصیدے کے دو شعر ''امام دین کسی باشد'' سے شروع ہوتے ہیں تو سولہ اشعار ''امام حق کسی باشد'' کے سوال اور اس کے جواب میں شعر مکمل ہوتے چلے گئے ہیں سبھی دلیلیں احادیث یا قرآن سے دی گئی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے: امامت را کسی شاید کہ شاہ اولیا باشد - بہ زھد و عصمت و دانش مثال انبیا باشد امام دین کسی باشد کہ در وقت ولادت او - بود در کعبہ و کعبہ ز کعبش در صفا باشد امام حق کسی باشد کہ اندر جملہ قرآن - بہ ھر آیت کہ بر خوانی در آن مدح و ثنا باشد امام حق کسی باشد کہ از رای منیر او - ز مغرب شمس برگردد کہ تا فرضش ادا باشد یہی دور ہندوستان کے سب سے بڑے فارسی کے شاعر اردو شاعری کے موجد امیر خسرو دہلوی کا ہے۔ کہتے ہیں کہ قوالی کی ابتدا انہیں خصرو نے رسول خداۖ کے قول ''من کنت مولاہ فعلی علی مولا'' سے کی ہے جو ہنوز جاری ہے۔ کتنی ہی قصائد مولا کی شان میں موزوں کیے ہیں۔ یہاں چند اشعار ایک منقبت سے ماخوذ ہیں: بیا ای بندہ مومن! بہ مھر خواجہ قنبر - امام حاضر و غایب امیر المومنین حیدر امیر المومنین است آن ز دنیا وھم از عقبی - ولی ظاھر و باطن وصی مصطفیٰ سرور سریر سلطنت بعد از نبیۖ آن راست کو دارد - قبای 'لافتیٰ' بر دوش و تاج 'ھل اتیٰ'بر سر خدا تیغ دو سر زان داد سلطان دو عالم را - کہ تا ھر دوسرا گیرد بہ ضرب تیغ دوپیکر امیر خسرو کے عزیز دوست جنہیں سعدی ہند کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ان کی عظمت کے لیے اس سے بڑا شاعرانہ خطاب ممکن نہ تھا۔ ایک رباعی میں مد ح مولاکے جلوے اس طرح بکھیرے ہیں: شاھی کہ بدو بقای دین و دنیاست - چہ شاہ کہ بادشاھی دین و دنیاست بر دنیا و دین مقرر است این کامروز - سلطان جھان علی دین و دنیاست اس دور میں مداح مولا علی کی تعدادسینکڑے کو پار کر جاتی ہے۔ جس کے نمونہ کلام کے لیے مقالہ نہیں بلکہ کتابیں درکار ہیں۔ لہذا یہاں صاحب مودة القربی کبرہ سلسلے کیعرفانی شاعر سید علی ہمدانی ٧١٤ھ تا ٧٨٦ھ کے اٹھاون اشعارپر مشتمل ایک قصیدے کے صرف پانچ اشعار بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں۔ جس سے معلوم ہو کہ شاہ ہمدان نے تاریخ اسلام کا مطالعہ کس باریک بینی سے کیا ہے اور اس سے ماخوذ نتائج اپنے اس قصیدے میں پیش کیے ہیں: نور پاکش آفرید اول بہ چندین الف عام - بعد ازان ایجاد عرش و فرش اغبر کردہ اند ای عجب زان قوم کو را تھنیت کردہ غدیر - بعد ازان ثقیفہ رای دیگر کردہ اند خود نبود آن یارور باشد کجا چون آن کسی است- کس وصی و ھم خلیفہ ھم برادر کردہ اند کی تواند بود کس را علم و فضل و قدر او - کز برای شھر علم مصطفیٰ در کردہ اند یازدہ معصوم را دانم امام از بعد شاہ - کین امامان را بہ نص حق مقرر کردہ اند فارسی شعرا میں اکثریت شیعہ شاعروں کی ہے۔ جن کا عقیدہ، جوش و ولولہ مدح اہل بیتؑ کا متقاضی ہے۔ ہمایوں بادشاہ کا دوبارہ شاہ طہماسپ کی مدد سے بادشاہ ہند بننا ایرانی شاعروں کی آمد کا دروازہ بنا، اکبر بادشاہ کے درباری سینکڑوں شعرا اور دربار کے باہر کے شعرا سب کے سب اثنا عشری عقیدے کے حامل ہیں۔ جنہوں نے جم کر فارسی ادب میں مدح مولا علی کے ادب کا اضافہ کیا ہے۔ اس مضمون میں فرودسی کے علاوہ سبھی غیر شیعہ شعرا کے کلا م کو پرکھاگیا ہے۔ اب دو مغل حکمرانوں کی مدح مولا میںموزوں کی گئی رباعیات درج کی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ شہنشاہوں کے شہنشاہ کی مدح سرائی دنیوی بادشاہ کس انداز سے کرتے ہیں۔ نصیر الدین ہمایوں بادشاہ بارگاہ مولا میںعقیدت کے پھول اس طرح پیش کرتا ہے: ؎ رباعی ھستیم ز جان بندہ اولاد علی - ھستیم ہمیشہ شاد با یاد علی چون سرّ ولایت ز علی ظاھر شد - کردیم ہمیشہ ورد خود ناد علی بعدہ' فرزند اورنگ زیب ، محمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ اول کی دو رباعیاں نذر قارئین ہیں۔ دوسری رباعی میں عجیب ابجدی رمز پوشیدہ ہے جس کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر قارئین چاہیں تو ڈاکٹر تقی علی عابدی یا خاکسار سے رجوع کر سکتے ہیں:رباعی اعلی تر از آنی کہ علی خوانندت - والا تر از آنی کہ ولی دانندت بر ھستی خود گواہ می خواست خدا - بی مثل بیافرید ولی مانندت احکام خلافت بہ سند می یابد - وز علم احادیث مدد می یابد این جای نفاق و منکر و خاین نیست - این مسند شیر است اسد می یابد اس مقالے کو بریلوی اہل سنت مسلک کے قائد اعلی حضرت احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے مدح مولا میں موزوں کیے گئے ایک قصیدے پر تمام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ علامہ اقبال کی شاعری کا محورہی مدح اہل بیت ہے جو بہ آواز دہل اعلان کرتے ہیں۔''رمز قرآن از حسین آموختیم'' ساتھ ہی یہ تاریخی دعوی بھی کیا ہے: مسلم اول شہ مردان علی - عشق را سرمایہ ایمان علی مولانا احمد رضا کان سائل بن کر مدد کی گہار کگاتے ہوئے مولا کی صفات بیان کرتے جاتے ہیںاز حدائق بخشش، قادری کتاب گھر، اسلامیہ مارکیٹ بریلی، اکتوبر ٢٠٠٢ء ٢٠٩: مرتضیٰ، شیر خدا، مرحب کشا، خیبر کشا - سرور لشکر کشا مشکل کشا امداد کن حیدرا، اژدر درا ضرغام حائل منظرا - شھر عرفان را درا روشن درا امداد کن ای خدا را تیغ و ای اندام احمد را سپر - یا علی یا بوالحسن یا بو العلی امداد کن ای نگار رازدار قصر اللہ انتجی - ای بہار لالہ زار انما امداد کن ای تنت در راہ مولا خاک و جاہت عرش پاک - بوتراب ای خاکیان را پیشوا امداد کن ای شب ہجرت بجای مصطفیٰ بر رخت خواب - ای دم شدت فدای مصطفیٰ امداد کن بریلی میں ہی خانقاہ نیازیہ کے بانی شاہ نیاز بی نیاز کے دیوان میں مدح مولا علی کا ایک خزانہ موجود ہے لیکن اس چودہ سو سالہ سال شہادت پر ایک مقالہ نہیں بلکہ کئی کتابیں درکار ہیں پھر بھی فارسی شاعری مدح مولا کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے لہذا اس مقالے کو یہیں تمام کیا جاتا ہے۔آخر میں یہ حقیر اپنا منظوم نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہے: ؎ رباعی در بزم نبیۖ یار علی می باید - در باغ گل و خار علی می باید از جنگ چو برگشتہ اصحاب وفا - در خیبر سرکار علی می باید قصیدہ بکن جشن بھاران ساقیا شیر خدا آید - امام الاولیا آید وصی مصطفیۖ آید درِ نو ساختہ بنت اسد سوی حرم رفتند - ببین مریم بخشم مادرحیدر کجا آید نبیۖ بوی برادر یافت در کعبہ علی را دید - برد بر دست چون قرآن روی رحل وا آید بکوان قرآن توریت و زبور انجیل گفت احمد - شنیدہ! گفت! من خوشحال ہستم مثل ما آید مہم ھر سر شود خندق، احد، خیبر کہ مکہ شد - برای فتح و نصرت ذوالفقار مرتضی آید چنین شد دشمنان دین حق حیران و لرزان شد - علی آید کہ زور بازوی خیر الوری آید باین امید زیدی زندہ مانم در جھان دون - خواھم دید مولا را اثر گر این دعا آید (تمام شد)
|
مقالات کی طرف جائیے |
|