|
ذکر غدیر آفاقیت |
علامہ سید ذیشان حیدر جوادی طاب ثراہ |
ماہ ذیقعدةالحرام کی پچیسویں تاریخ اورشنبہ کادن تھاجب سرورکائنات مدینہ منورہ سے آخری حج کے ارادے سے برآمدہوئے اورانصارومہاجرین کے علاوہ تمام اہل خانہ وخاندان اورازواج محرمات کوبھی ساتھ لیا۔ مورخین کے بیان کے مطابق اس سال مدینہ میں کوئی وباء(بیماری) پھیل گئی تھی جس کی بناء پربہت سے افرادساتھ نہ جاسکے لیکن اس کے باوجودباختلاف اقوال نوے ہزاریاایک لاکھ چودہ ہزاریاایک لاکھ بیس ہزاریاایک لاکھ چوبیس ہزاریااس سے کچھ زیادہ افرادآپ کے ہمراہ تھے حج کرنے والوں کی تعداداس سے بھی کہیں زیادہ تھی اس لئے کہ اس میں مکہ میں رہنے والے اوردیگرعلاقوں سے آنے والے مسلمان بھی شامل ہوگئے تھے۔ یکشنبہ کی صبح آپ یلملم واردہوئے دوسری منزل پرشام کے وقت نمازمغربین اداکی چھٹی منزل پرنمازصبح پڑھی ، پنجشنبہ کے دن مقام ابواء پرقیام فرمایااورجمعہ کے دن جحفہ پہنچ گئے شنبہ کادن قدیدمیں گذارا اوریکشنبہ کوعسفان پہونچے اوراس کے بعدتیزرفتاری سے فاصلہ طے کرتے ہوئے دوشنبہ کے دن شام کے وقت مکہ مکرمہ پہونچ گے ۔ حج کے تمام مناسک اداکرنے کے بعدآپ نے پھرمدینہ کارخ کیااورمنزلیں طے کرتے ہوئے مقام جحفہ کی منزل غدیرخم تک پہونچے جہاںجبرئیل امین حکم الہی لے کرنازل ہوئے کہ اس امرکی تبلیغ کردیں جس کانزول ہوچکاہے آپ نے نمازظہرکااعلان فرمایااورنمازباجماعت اداکرنے کے بعدپالان شترکامنبربنواکرایک فصیح وبلیغ اورطویل خطبہ ارشافرمایاجس کے آخرمیں اپنی ولایت کااقرارلینے کے بعدتین مرتبہ اوربروایت امام احمدحنبل چارمرتبہ فرمایا: ''من کنت مولاہ، فھذاعلی مولاہ'' اورپھراصحاب کواس امرکی تبلیغ کاحکم فرمایا:کہ جولوگ یہاں موجودنہیں ان تک اس مولائیت کی خبرپہونچادی جائے جس کے بعدجبرئیل امین (الیوم اکملت لکم دینکم) کی آیت لیکرنازل ہوئے اورآپ نے اکمال دین اوراتمام نعمت پرشکرخدا اداکیااورمسلمانوں نے حضرت علی کواس مولائیت پرمبارکبادپیش کی جن میں سرفہرست حضرت ابوبکراورحضرت عمرکے نام تھے اورانکی مبارکبادکے بعدحسان بن ثابت نے اشعارپڑھنے کی اجازت طلب کی اورسرکارنے اجازت دیدی توبرجستہ واقعہ سے متعلق قصیدہ نظم کرکے پیش کردیاجس کے بعدادبی دنیامیں غدیرکے تذکرہ کاسلسلہ شروع ہوگیا۔(۱) ظاہرہے کہ جس واقعہ کے سوالاکھ چشم دیدگواہ ہوں اورسب عالم مسافرت میں ہوں اورانھیں تبلیغ کاحکم بھی دیدیاگیاہوجس کی شہرت کے لئے کسی دلیل اورقرینہ کی ضرورت نہیں ہے مسافروں نے وطن واپس آکرتذکرہ کیاہوگاذمہ دارمسلمانوں نے سرکارکے حکم کی تعمیل کی بناء پرچرچاکیاہوگا راویوں نے اپنی زندگی کی اہم ترین روایت سمجھ کرنقل کیاہوگامورخین نے سرکارکی حیات طیبہ کاسب سے زیادہ عجیب وغریب منظردیکھردرج کیاہوگا، اس طرح چنددنوں کے اندرواقعہ کاعالم آشکارہوجاناکوئی حیرت انگیزبات نہیں ہے۔ اسلام کے اس واقعہ یاسرکاردوعالم کی زندگی کے کسی حصے کواس قدرراوی اورناقل فراہم نہیں ہوئے ہیں جس قدرراوی اورناقل حدیث غدیراورواقعہ خم کے فراہم ہوگئے ہیں۔ پھراس کے بعدحسان بن ثابت کے قصیدہ نظم کردینے اورسرکاردوعالم کی طرف سے ان کے حق میں تائیدالہی کی دعانے شعراء کے بھی حوصلے بلندکردیئے ۔ اورانھوں نے بھی واقعہ کونظم کرناشروع کردیاظاہرہے کہ عرب صدراسلام میں تاریخ نویسی اورروایت حدیث کے فن سے باخبرہوں یانہ ہوںشاعری انکی فطرت میں داخل تھی لہذا اس کے ذریعہ سرکاردوعالم کی دعائوں کااستحقاق پیداکرلیناایک آسان ترین امرتھاجسے کوئی بھی صاحب ہوش اورانصاف پسندانسان نظراندازنہیں کرسکتاتھاچنانچہ عربی ادب کی تاریخ کامطالعہ کیاجائے تواندازہ ہوگاکہ پچھلی چودہ صدیوں میں جس طرح شعرائے کرام نے اس واقعہ کواہمیت دی ہے اوراس کے خصوصیات کاتذکرہ کیاہے کسی دوسرے واقعہ کاتذکرہ نہیں کیاگیاہے اورنہ اس قدراہمیت حاصل ہوسکی ہے۔ مورخ اعظم علامہ کبیرامینی نے اپنی مفصل کتاب الغدیرمیں غدیریات کا اس میں سلسلہ قائم کردیاہے جس میں صدیوں کے تسلسل کے اعتبارسے ہرواقعہ کے نظم کرنے والے شیعہ اورسنی شعرائے کرام کاتذکرہ کیاہے اوراس طرح راقم کے مہمل اعتراضات کاسدباب کردیاہے۔ ایک اعتراض یہ تھاکہ واقعہ غدیرتاریخ اسلام کاکوئی اہم اورمعروف واقعہ نہیں ہے اسے صرف شیعہ حضرات جانتے ہیں اوروہی اپنے مخصوص عقائدکی بنیادپراسے زندہ رکھناچاہتے ہیں یاشہرت دیناچاہتے ہیں ورنہ قدیم زمانے میں اس واقعہ کاکوئی خاص تذکرہ نہیں تھا۔ علامہ امینی مرحوم نے اپنی بے پناہ زحمت ومشقت کے نتیجہ میں اس حقیقت کاعالم آشکارکردیاہے کہ غدیرکی معرفت ہردورکے مورخین ، محدثین اوراہل ادب وکلام کورہی ہے اوراگرکسی بے ادب کواس حقیقت کوعلم نہیں ہے تووہ اس کی جہالت کانتیجہ ہے اس سے واقعہ شہرت اورعظمت پرکوئی اثرنہیں پڑسکتاہے۔ دوسرااعتراض یہ تھاکہ پیغمبراسلام نے جس مولائیت کااعلان فرمایاتھااس کے معنی آقائیت اورحکومت کے نہیں تھے۔وہ ایک طرح کی محبت اورنصرت کااعلان تھاجس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ علامہ مرحوم طاب ثرانے اس مسلسل ادبی تذکرہ سے یہ بھی ثابت کردیاہے کہ یہ ہردورکے اہل زبان نے حضرت علی کی مدح کرتے ہوئے انکی اولویت اورحاکمیت ہی کاتذکرہ کیاہے اوراس سے ادبیات میں محبت اورنصرت کاکوئی تذکرہ نہیں ہے جواس بات کی علامت ہے کہ اہل شعروعرب اوراہل فصاحت وبلاغت لفظ مولیٰ سے حاکمیت اوراولویت ہی کامفہوم سمجھتے ہیں اب اگرکوئی واقف رموزکلام کوئی اورمعنی مرادلیتاہے تویہ اس کی اپنی رائے یااسکی اپنی فکرکی کجی ہے اس سے مولائے کائنات کی ولایت اورحکومت پرکوئی اثرنہیں پڑسکتاہے۔ اس وقت یہاں علامہ موصوف کے بیانات سے استفادہ کرتے ہوئے ہزارسال سے زیادہ طویل تاریخ کے شعراء کرام کے کلام کے نمونے اورعربی ادبیات کے مختصرشواہدنقل کئے جارہے ہیں جن سے غدیرکی شہرت وآفاقیت کاہمیں اندازہ ہوگا۔اورمولیٰ کامفہوم ومعنی کاتعین بھی ہوسکتاہے۔
پہلی صدی ہجری کے شعرائے غدیر ١۔ امیرالمومنین علی بن ابی طالب آپ نے معاویہ کے ایک خط کے جواب میں میں چنداشعارتحریرفرمائے تھے جن کاایک شعریہ بھی تھا۔ ''فاوجب لی ولایت علیکم رسول اللہ یوم غدیرخم'' روزغدیرخم رسول اکرمۖ نے میری ولایت تمہارے لئے واجب قراردیدی ہے۔ حضرت کے ان اشعارکاتذکرہ حسب ذیل کتابوں میں پایاجاتاہے۔(۲) ٢۔ حسان بن ثابت انکی کنیت ابوالولیداورلقب حسام تھاولادت آٹھ سال قبل ولادت پیغمبراسلام ہوئی تھی اوروفات ٥٥ھ۔ میں ١٢٠سال کی عمرمیں ہوئی ہے۔ انھوں نے میدان غدیرہی میں اپناقصیدہ پڑھاتھاجس پررسول اکرمؐ نے یہ دعابھی دی تھی کہ جب تک ہمارے حق کی حمایت کرتے رہوروح المقدس تمہاری تائیدکرتارہے جواس امرکی طرف بھی اشارہ تھاکہ حسان کاانجام بخیرہونے والانہیں ہے جیساکہ تاریخ نے اس حقیقت کابھی تذکرہ کیاہے۔ ینادیھم یومالغدیربینھم نجم والسمع بالرسول منادیا نقال فمن مولاکم وبینکم فقالواولم یبدواھناکم التعاصیا فمن کنت مولاہ فھذاولیہ فکونوالہ اتباع صدق دوائیا۔ ان اشعارکاتذکرہ حسب ذیل کتابوں میں پایاجاتاہے۔(۳) ٣۔ قیس بن سعدبن عبادہ دورپیغمبراسلامؐ میں صاحب الشرطہ اورمتولی امورتھے میدان جہادمیں انصارکے علمبرداراورمیدان تبلیغ میں ضامن اسلام قوم اورنقیب کے عہدہ پرفائز تھے۔ امیرالمومنین نے آپ کومصرکاگورنربنایا،آپ ماہ ربیع الاول میں مصرگئے اورچارپانچ دن کے بعدواپس آئے جس کی بناء پرجنگ جمل میں نہیں رہ سکے کہ اس کازمانہ جمادی الثانیہ ٣٠ھ۔ کاہے۔ اس کے بعدصفین میں حضرت علی کے ساتھ شریک جہادرہے اورآپ کے اشعارکاایک نمونہ یہ ہے۔ وعلی امامناوامام لوان اتیٰ بہ التنزیل یوم قال النبی من کنت مولا فھذامولاہ خطیب جلیل ان اشعارکے راویوں میں حسب ذیل افرادکانام آتاہے۔(۴) ٤۔عمروبن العاص اس کی ماں کانالیلیٰ جلانیہ تھاجوشہرکی مشہورترین طوائف تھی اورعمروکی ولادت کے بعدابوالہب امیہ بن خلف، ہشام بن مغیرہ، اوسفیان اورعاص جیسے پانچ افراد نے اس کی ولدیت کادعویٰ کیاتھا، لیکن لیلیٰ نے اسے عاص کابیٹاقراردیدیا،لہذاعمروبن عاص کے نام سے مشہورہوگیا، قرآن مجیدمیں باختلاف مفسرین اس عاص یااس کے بیٹے عمروکولفظ ابترسے تعبیرکیاگیاہے جواس کے نسب کی وضاحت کے لئے بہترین دلیل ہے۔ ٤٣ھ۔ میں شب عید٩٠ سال کی عمرمیں انتقال کیامعاویہ نے اسے مصرکاعامل بنادیاتھالیکن جب خراج کامطالبہ کیاتواس کی ضدمیں حضرت علی کی مدح میں یہ اشعارنظم کردئیے اوراس طرح حق برزبان آیدکاایک اورمصداق سامنے آگیااس قصیدہ کوجلجلیہ کے نام سے یادکیاجاتاہے۔ وقال فمن کنت مولیٰ لہ فھذالہ الیوم نعم الولی فوالی موالیہ یاذوالجلال وعادمعادی اخ الرسل۔(۶) ٥۔ محمدحمیری محمدبن عبداللہ حمیری، عمرعاص کے خاص دوستوں میں تھا اسے معاویہ نے دیوان خاتم کامتولی اورقاضی بنادیاتھا۔ اس کے قصیدہ کامشہورشعریہ ہے۔ تناسوانصبہ فی یوم خم من الباری ومن خیرالانا۔(۷)
دوسری صدی ہجری کے شعراء غدیر ١۔ ابوالمستہل الکمیت بن زیدبن خنیس بن نحالہ ٦٠ھ۔ میں پیداہوئے اورمروان بن محمدکے زمانے میں ١٣٦ھ۔ میں قتل کردئیے گئے، ہاشمیات کے بارے میں ان کے مختلف عقائدعینیہ، بائیہ، میمیہ اورلامیہ کی ایک مخصوص شہرت کے حامل ہیں جن کے اشعارکی تعداد٥٣٦ یا٥٦٠یا٥٧٨ تک پہنچ جاتی ہے۔ معاذالہراء سے سوال کیاگیاتھاکہ تمہاری نظرمیں سب سے بڑاشاعرکون ہے تواس نے کہاتھاکہ جاہلیت میں امرء القیس، زبیراورعبیدبن الابرص ہیں اوراسلامیین میں فرزدق، جریر،اخطل اورامراعی ہیں توسوال کیاگیاکہ پھرکمیت کاکیامرتبہ ہے تواس نے کہاکہ وہ شعرالاولین والآخرین تھے۔ اغانی ،ج١٥،ص١١٥ کمیت کے مشہوراشعاریہ ہیں۔ نفی عن عینک الارق الھجوم عاوھم یمنزی منھالدوموعا ویوم الروح دوح غدیرخم ابان لہ الولایة لواطیعا ٢۔ السیدالحمیری اسماعیل بن محمدبن یزیدبن وداع نام اورہاشم باایوعامرکنیت تھی ماں نے سیدکالقب دیدیاتھاتواس کے نتیجہ میں آخرمیں سیدالشعراء قرارپاگئے، عمان میں ١٠٥ھ۔ میں پیداہوئے ماں باپ خارجی تھے بصرہ میں پرورش پائی وہاں سے کوفہ آئے اورآخربغدادمیں ١٧٣ھ یا ١٧٨ھ۔ میں رشیدکے زمانے میں انتقال کیااپنی ذاتی تحقیق سے محبت اہل بیت کاراستہ اختیارکیاتھا۔ اورانکی غدیریات کی تعداد٢٣٥قصائدتک بتائی جاتی ہے جس کے بعدایک شخص نے تین قصائدکااورپتہ دیاتھا۔(۸) ٣۔ عبدی کوفی ، ابومحمدسفیان بن مصعب العبدی الکوفی، سیدحمیری کے ہم عصرتھے اپنے قصائدمیں حضرت علی کے مختلف فضائل وکمالات رجعت شمس، تبلیغ برأت، شب ہجرت، زواج فاطمہ زہراۖ اورحدیث کوثروغیرہ کاذکرکیاگیاہے۔ آپ کے مشہوراشعاریہ ہیں ۔ وکان عنھالھم فی خم مزدجر لمارتی احمدالھادی علی قتب انی نصبت علیھادیاعلماء بعدی وان علیاخیرمنتصب
تیسری صدی کے شعراء غدیر ١۔ابوتمام حبیب بن اوس بن الحارث بن قیس الطائی الشامی اپنے دورکے سب سے عظیم ترین شاعر تھے حافظہ کایہ عالم تھاکہ چارہزاردیوان اورچودہ ہزارارجوزہ حفظ کئے ہوئے تھے غدیرکے بارے میں آپ کے قصیدہ کے یہ اشعارشہرۂ آفاق حیثیت رکھتے ہیں۔ ویوم الغدیراستوضح الحق اھلہ بضحیاء لافیھاحجاب ولاستر یمدبضبعیہ ویعلم آنہ وفیٔ ھوالاکم فھل لکم خیر ٢۔ ابوجعفردعبل بن علی بن زرالخزاعی ١٤٨ھ۔ میں ولادت اور ٢٤٦ھ۔ میں شہادت ہوئی ٩٧سال عمرپائی اورکمال علم وادب میں شہرۂ آفاق بن گئے۔ اصلاکوفہ کے رہنے والے تھے قیام بغدادمیں رہاہجولکھنے کے ماہرتھے معتصم کے خلاف نظم لکھیں توشہربدرکردئیے گئے اورآخرمیں وہ پھرواپس بغدادآئے ان کامشہورقصیدہ مدارس آیات خدت عن تلاوة ومنزل وحی مقضرالوصات ١٢٠اشعارپرمشتمل ہے اوربارگاہ آل محمدمیں مقبول رہاہے۔ ٣۔ ابواسماعیل محمدبن علی بن عبداللہ بن العباس بن الحسن بن عبیداللہ بن العباس بن امیرالمومنین ۔ انکے قصیدہ کامشہورشعریہ ہے۔ وصاحب یوم الروح ازتام احمد فنادیٰ یرفع الصوت لایھتھم۔(۹) ٤۔ بقراط بن اشوط الموامق النصرانی الازمنی۔ مذہبی اعتبارسے عیسائی تھالیکن غدیرکے بارے میں بہترین اشعارلکھے ہیں جس کے ایک قصیدہ کاایک شعریہ ہے۔ الیس نجم قداقام محمد علیاباحضارالسلانی المواسم۔ عیسائیوں کے بارے میں یہ بات حیرت انگیزنہیں ہے یہ سلسلہ دورحاضرتک جاری ہے اورعبدالمسیح انطاکی مصری نے علویات کے بارے میں ٥٥٩٥ شعرلکھے ہیں اوربویس علامہ نے الغدیرکامطالعہ کرکے غدیریہ لکھاہے جس کے اشعارکی تعداد٣٠٨٥ ہے۔ ٥۔ ابن الرومی ابوالحسن بن عباس بن الجریح المتوفی ٦٨٣ ھ۔ ابن صباغ نے فصول مہمہ ص٣٠٢ میں اورشبلنجی نے نورالابصار ص١٦٦ میں اس کاشمارامام حسن عسکری کے شعراء میں کیاہے اوراس کامشہورشعریہ ہے۔ قال النبی لہ مقالالم یکن یوم الغدیرلسامعیہ محمجا من کنت مولاہ فھذامولیٰ لہ مثلی واصبح بانفجارمتوجا عمیدی نے ابانہ میں اورابن شیق نے عمدہ میں تحریرکیاہے کہ شعرا میں ندرت خیال کے اعتبارسے ابوتمام اورابن الرومی کاکوئی جواب نہیں ہے اوراس کاقصیدہ جسمییہ ان کے تشیع کی بہترین دلیل ہے ۔ ٦۔ الحمانی الافواہ ابوالحسن علی بن محمدبن جعفر بن محمدبن محمدبن زیدبن علی بن الحسین کوفہ کے رہنے والے،اوروہاں کے فقہاء میں شمارہوتے تھے۔ ان کے قصیدہ کے بعض اشعاریہ ہیں : نسیتم خطبة خم وھل یشبل العبدمولاہ ان علیاکان مولاہ لمن کان رسول اللہ مولاہ() ()الصراط المستقیم بیاض۔
چوتھی صدی کے شعراء غدیر مضمون کی طوالت کے خوف سے صرف شعراء کرام کے اسماء گرامی اوران کے قصائدکے ایک ایک دودواشعارنقل کئے جارہے ہیں ورنہ مکمل قصائداورتفصیلی حالات کے لئے کتاب الغدیرکامطالعہ کرناہوگاجواس موضوع کی سب سے جامع اورمفصل کتاب ہے۔ ١۔ ابوالحسن بن طباطبائی الاصفہانی،المتوفی ٰ ٣٢٢ھ۔ اناواثق بدعاء جدی الصطفیٰ لابی غداة غدیرخم ناحذیر ٢۔ ابوجعفراحمدبن علویہ الاصفہانی، المتوفیٰ ٣٢٠ھ۔ نادیٰ الست ولیکم قالوابلی حقافقال نذالولی الثانی ٣۔ ابوعبداللہ محمدالمصبحع البصری ، المتوفیٰ ٣٢٧ھ۔ لم یکن المرء بدوجات خم شکلاعن سبیلہ ملویا ٤۔ ابوالقاسم احمدبن محمدالصنوبری ، المتوفیٰ ٣٣٤ھ۔ آخاہ فی خم ونوہ باسمہ لم یال فی خیربہ تنویھا ٥۔ ابوالقاسم علی بن محمدالتنوخی ، المتوفیٰ ٣٤٢ھ۔ فقال لھم من کنت مولاہ فکم فھذااخی مولاہ بصری وصاحبی ٦۔ابوالقاسم علی بن اسحاق الزاہی ، المتوفیٰ ٣٥٢ھ۔ من قال احمدفی یوم الغدیرلھم بالنقل فی خیربالصدق ماثور ٧۔ ابوفراس امیرالشعراء حمدانی، المتوفیٰ ٣٥٧ھ۔ قال النبی بھایوم الغدیرلھم واللہ یشھدوالاملاک والا ھم ٨۔ ابوالفتح امحمودبن محمدکشاج، المتوفیٰ ٣٦٠ھ۔ وقدعلمواان یوم الغدیر بغدرھم جریوم الجمل ٩۔ ابوالحسن علی بن محمدبن عبداللہ الناشی ، المتوفیٰ ٣٦٥ھ۔ ذاک علی الذی تفردة فی یوم خم بفضلہ التصخائ ١٠۔ ابوعبداللہ الحسین الشبنوی ، المتوفیٰ ٣٨٠ھ۔ وقدشھدواعیدالغدیرواسمعوا فقال رسول اللہ من غیرکسمان ١١۔ ابوالقاسم الوزیرالصاحب بن عباد، المتوفیٰ ٣٨٥ھ۔ قالت ضمن سادفی یوم الغدیرابن فضلت من کان للاسلام خیرولی ١٢۔ابوعبداللہ الحجاج البغدادی، المتوفیٰ ٣٩١ھ۔ وبایعوک نجم ثم اکدھا محمدیمقال منہ خیرخفی ١٣۔ ابوالعباس الوزیراحمدالضبی ،المتوفیٰ ٣٩٨ھ۔ ضیوالنبی محمد ووصیہ یوم الغدیر ١٤۔ ابوحامداحمدبن محمدالافسطاکی، المتوفیٰ ٣٩٩ھ۔ لاوالذی نطق النبی بفضلہ یوم الغدیر ١٥۔ ابومحمدطلحہ غسانی عونی امامی لویوم الغدیراقامہ نبی الھدیٰ مابین من افکرالاھٰرئ ١٦۔ابوالعلاء محمدبن ابراہیم السروری الاان من کنت مولاہ لہ فمولاہ من غیرشک علی ١٧۔ابوالحسن علی الجوہری الجرجانی وغدیرخم لیس ینکرفضلہ الازنیم فاجرکفار ١٨۔ابوالحسن علی بن حمادالعبدی اماقال فیہ احمدوھوقائم علیٰ منبرالاکواروالناس مُنَزَّل ١٩۔ ابوالفرج ابن ہندالرازی وقال الامن کنت مولیٰ لنفسہ فھذالہ مولیٰ فیہ لکم منقبہ
پانچویں صدی کے شعراء غدیر ١۔ ابوالنجیب شدادبن ابراہیم الطاہرالجزری، المتوفیٰ ٤٠١ھ۔ عیدفی یوم الغدیرالسلم وانکرالعیدعلیہ المجرم ٢۔ الشریف الرضی ابوالحسن محمدبن ابی احمدالحسین بن موسیٰ بن ابراہیم ابن الام موسیٰ الکاظم، المتوفیٰ ٤٠٦ھ۔ عذرالسروربناوکان وقائدیوم الغدیر ٣۔ابومحمدعبدالحسن بن محمدالصوری، المتوفیٰ ٤١٩ھ۔ طویٰ یوم الغدیرلھم انابنشرھایوم الغدیر ٤۔ابوالحسن مہیاربن مرزویہ الدیلمی البغدادی، المتوفیٰ ٤٢٨ھ۔ تضاع بیعة یوم الغدیرلھم بعدالرضاوتحاط الروم والبیع ٥۔ السیدالمرتضیٰ ابوالقاسم علی بن الحسین موسیٰ ، الموفیٰ ٤٣٦ھ۔ ولقدشفی یوم الغدیرمعاشرا ثلجت نفسوسھم واوریٰ معشرا ٦۔ابوعلی الحسن بن المظفرالنیشابوری، المتوفیٰ ٤٤٢ھ۔ اختیاریوم الغدیرجدرة اخالہ فی الوریٰ واخاہ ٧۔ابوالعلاء المعری ، المتوفیٰ ٤٤٩ھ۔ لعمرک مااسربیوم فطر ولااضحیٰ ولابغدیرخم ٨۔ الویدفی الدین ہبة اللہ بن موسیٰ الشیرازی، المتوفیٰ ٤٧٠ھ۔ واتت فیہ آیة النص بلغ یوم خم لھااتیٰ جبرئیل ٩۔ابن جبرالمصری ، المتوفیٰ ٤٨٧ھ۔ وغدرت بالعھدالمعرکعرعقدہ یوم الغدیرلہ فماعذراک
چھٹی صدی کے شعراء غدیر ١۔ ابوالحسن فنجکری، المتوفیٰ ٥١٣ھ۔ لاتنکرن غدیرخم انہ کالشمس فی اشراقھابل الظھر ٢۔ابن منیرطرابلسی، المتوفیٰ ٥٤٧ھ۔ واذاروواخبرالغدیر اقول، صح الخبر ٣۔ قاضی ابن قادوس المتوفیٰ ٥٥١ھ۔ والحائزالقصبات فی یوم الغدیرالازھر ٤۔فارس المسلمین طلائع بن زریک ، المتوفیٰ ٥٥٦ھ۔ ویوم خم وقدقال النبی لہ بین الحضوروشالن عضروہ دیدہ من کزت مولیٰ لہ ھذایکون لہ مولیٰ امانی بہ امریوکدہ ٥۔ ابن العودی السیلی، المتوفیٰ ٥٥٨ھ۔ وقدنصھایوم الغدیرمحمدوقال الایاایھاالناس فاعلموا علی وصیی فاتبعوہ فانہ امامکم بعدی اذاغبت عنکم ٦۔القاضی الجلیس، المتوفیٰ ٥٦١ھ۔ لویٰ عذرہ یوم الغدیربحقہ واعتقبہ یوم البعیرواتبعا ٧۔ابن کمی انسیلی، التوفیٰ ٥٦٥ھ۔ وقال لھم والقوم فی خم حضہ وبتلوالذی فیہ وقدھمواھمسا ٨۔ الخطیب الخوارزمی، المتوفیٰ ٥٦٨۔ حدیث برأیتہ وغدیرخم ورایتہ خیبرفصل الخطاب ٩۔الفقیہ نجم الدین عماربن ابی الحسین علی المینی، المتوفیٰ ٥٦٩ھ۔ کذالک مرص المصطفیٰ وابن عمیہ ال مجندیوم الغدیرومتھم ١٠۔ قطب الدین الرازی، المتوفیٰ ٥٧٣۔ الم یجعل الرسول اللہ یوم الغدیرعلیاالااماما ١١۔ السیدمحمداقاسی،المتوفیٰ ٥٧٥ھ۔ ومن تام فی یوم الغدیربعضدہ بنی الھدیٰ حقاقسائل بہ عمر ١٢۔ابوالفتح محمدبن عبداللہ البغدادی سبط ابن التعادیذی، المتوفیٰ ٥٨٤ھ۔ وطویت الاخران فیہ ولم ابد سرورافی یوم عیدالغدیر
ساتویں صدی کے شعراء غدیر ١۔ابوالحسن المنصورباللہ ، المتوفیٰ ٦١٤ھ۔ بنی عمنان ان یوما لغدیر یشھدللفارس المعلم ٢۔ مجدالدین جمیل، المتوفیٰ ٦١٦ھ۔ ومن اعطاہ یوم غدیرخم صریح المجدوالشرف القدامیٰ ٣۔ الشعراء الکوفی الحلی، المتوفیٰ ٦٣٥ھ۔ اخرالنص الجلی بیدم خم وذوالفضل المرتل فی الکتاب ٤۔کمال الدین الشافعی، المتوفیٰ ٦٥٢ھ۔ وشرفہ یوم الغدیرفخصہ بانک مولیٰ کل من کنت مولاہ ٥۔ ابومحمدالمنصورباللہ، المتوفیٰ ٦٧٠ھ۔ وھل سمعت بحدیث مولیٰ یوم الغدیروالصحیح اولیٰ ٦۔ ابوالحسن الجزار، المتوفیٰ ٦٧٢ھ۔ صبت الغدیرعلیٰ الاولیٰ مجدوانطیٰ یوعیٰ لھاقبل القیام ازید ٧۔ قاضی نظام الدین، المتوفیٰ ٦٧٨ھ۔ یوم الغدیریرجریٰ الوریٰ فطم علی توی قوم ھم کانواالمعادنیا ٨۔ شمس الدین محفوظ ، المتوفیٰ ٦٨٠ھ۔ ذاک الامیردری الغدیراخو البشیرالمستیزوھن لہ الانبیاء ٩۔ بہاء الدین الاربلی، المتوفیٰ ٦٩٢ھ۔ واسئل بخم عن علاہ فانھا تقضی بمجدواعلاء منار
آٹھویں صدی کے شعراء غدیر ١۔ ابومحمدابن دائودالحلی، المتوفیٰ ٧٤١ھ۔ تقریباً من کنت مولاہ فھذاحیدر مولاہ لایرتاب فیہ محمصل ٢۔ جمال الدین الخلعی، المتوفیٰ ٧٥٠ھ۔ یوردماجاء فی الغدیروما حدث فیہ عن خاتم المنذر ٣۔ السریجی الاوالی ، المتوفیٰ ٧٥٠ھ۔ تقریباً وفی الغدیروقدابری النبی لہ مناقباارغمت ذاالبغضة الشانی ٤۔ صفی الدین المحلی، المتوفیٰ ٧٥٢ھ۔ واخیک فی یوم الغدیروقدربریٰ نورالھدیٰ وتاخت الاقرآن ٥۔الامام الشیبانی الشافع، المتوفیٰ ٧٧٢ھ۔ ومن کان مولاہ النبی فقدغدا علی لہ بالحق مولاومنجمدا ٦۔شمس الدین المالکی، المتوفیٰ ٧٨٠ھ۔ ومن کنت مولاہ علی ولیہ ومولاک ناقصدحب مولاک ترشد ٧۔علاء الدین الحلی، الشہفی من کنت مولاہ فھذاحیدر مولاہ من دون الانام وسید
نویں صدری ہجری کے شعراء غدیر ١۔ابن العرندس الحلی ثم السلام من السلام علی الذی نصبت لہ فی خم لرایات الولا ٢۔ ابن واغرالحلی وحباہ فی یوم الغدیرمفضلا عام الوداع وکلھم اشھادھا ٣۔الحافظ البرسی المحلی رالنص فی یوم الغدیرومدحہ من اللہ فی الذکرالمبین صریح ٤۔ ضیاء الدین الہادی، المتوفیٰ ٨٢٢ھ۔ من کنت مولاہ ای اولیٰ بہ فعلی اولیٰ بہ رھرمولاکم بکلھم ٥۔الحسن آل ابی عبدالکریم المخزومی ربیعتہ خم والنبی خطیبھا لہ فی قلوب المشرکین نصول
دسویں صدی کے شعراء غدیر ١۔ الشیخ الکفعمی، المتوفیٰ ٩٠٥ھ۔ ھنیئاًھنیئاً لیوم الغدیر ویوم الحبورویوم السرور ٢۔ عزالدین العاملی، المتوفیٰ ٩٨٤ھ۔ ونورالظلام وکانی العظام ومولیٰ الانام بنص الغدیر گیارہویں صدی ہجری کے شعراء غدیر ١۔ابن ابی شافین البحرانی ، المتوفیٰ ١٠٠١ھ۔ ولمااتیٰ نحوالغدیربرحلہ تلقاہ جبرئیل الامین بشیر ٢۔زین الدین الحمیدی ،المتوفیٰ ١٠٠٥ھ۔ وکفاہ حدیث من کنت مولاہ فخاراناملیک ذامن ثنائ ٣۔ بہاء الملتہ والدین محمدبن الحسین بن عبدالصمدالعاملی، المتوفیٰ ١٠٣١ھ۔ وکان لاحمدنعم النصیر واخاہ امراغداة الغدیرمن الشہ نصابة واختیار ٤۔ الخرموشی العاملی، المتوفیٰ ١٠٥٩ھ۔ واسئل نجم کم لہ المختارمن فضل ابانہ ٥۔ابن ابی الحسن العاملی ، المتوفیٰ ١٠٨٦ھ۔ ونص علیہ فی الغدیربانہ امام الوریٰ بالمنطق الصادع الفصل ٦۔ الشیخ حسین الکرکی ،المتوفیٰ ١٠٧٦ھ۔ وصی رسول اللہ وارث علمہ ومن کان فی خم لہ الحل والعقار ٧۔ قاضی شرف الدین ،المتوفیٰ ١٠٧٩ھ۔ ولاہ احمدفی الغدیرولایة اضحت مطوقة بھاالاعناق ٨۔ السیدابؤلی اندلسی، المتوفیٰ ١٠٧٩ھ۔ وحدیث الغدیریکفیہ مھما قال فیہ محمدواستقالا ٩۔ السیدشہاب الموسوی، المتوفیٰ ١٠٨٧ھ۔ وغدیرخم بعدمابعت بہ ریح الشکوک وآمن لجلاجہ ١٠۔ السیدعلی خاں المشعشعی،المتوفیٰ ١٠٨٨ھ۔ ویذادمنھاحیدرمع ان خیبر الخلق صرح فی الغدیریرونادا ١١۔ السیدضیاء الدین الیمنی، المتوفیٰ ١٠٩٦ھ۔ یھنک ذاالعیدالذی انت عیدہ وعیدی ومن تحنوعلیہ الاقارب ١٢۔ محمدطاہرالقمی، المتوفیٰ ١٠٩٨ھ۔ ولایة المرتضیٰ فی خم قدثبتت بنص افضل خلق اللہ والرسل
بارہویں صدی کے شعراء غدیر ١۔قاضی جمال الدین الملکی، المتوفیٰ ١١١٢ھ۔ لمقال النبی فی ماء خم انت مولاللمومن المنقاد ٢۔ ابومحمدبن الشیخ منعان ربہ امام اللہ دین نبیہ واتم نعمتہ علی الاخیار ٣۔ شیخ حرالعاملی، المتوفیٰ ١١٠٤ھ۔ ثم یوم الغدیرھل کان الا لک دون الانام ذاک الولاء ٤۔شیخ احمدبلادی یاللرجال لامة لمعونة لم یکفھاماکان یوم غدیرھا ٥۔شمس الادب الیمنی،المتوفیٰ ١١١٩ھ۔ غدیرقدقضیٰ المختارفیہ ولایتہ والبسھاعلیا ٦۔ السیدعلی خاں المدنی، المتوفیٰ ١١٢٠ھ۔ غدیرخم وھوعظھا من قال فیہ ولایت الامر ٧۔ شیخ عبدالرضاالمقری الکاظمی ،المتوفیٰ ١١٢٠ھ۔ فاضاعواوصیة یوم خم بعلی وصی دھم شھداء ٨۔ علم الہدی محمدبن محسن بن المرتضیٰ الکاشانی ولیٔ الانام بنص الغدیر امیرالکرام ونعم الامیر ٩۔ الشیخ علی العاملی من کنت مولاہ حقافالوصی لہ مولیٰ علی شاھدمنھم ومشھور ١٠۔ المسیحاالفوی من کان نص رسول اللہ علیہ لامرة الشرع تبیغاباعلان ١١۔ ابن بشارة الغروی بغدیرخم للولایة حازھا حقاولیس یمکن انکارھا ١٢۔ الشیخ ابراہیم البلادی وصیرہ الخلیفة یوم خم بامراللہ عھداوالتزاما ١٣۔ الشیخ ابومحمدالشعرمکی حجة اللہ بنص ثابت یوم خم فھومن ولاہ وال ١٤۔ السیدحسین الرضوی وفیہ جاء عن المختارمنقبہ ومن کنت مولاہ فھوالحق فاعتصم ١٥۔السیدبدرالدین فیہ الذی فی الغدیرعینیہ ونجبخ القوم فیہ واعترفوا اس کے بعدتیرہویں اورچودہویں کے ادب میں یہ واقعہ اس قدرشہرت رکھتاہے کہ کوئی بھی باعظمت اورانصاف پسندشاعرایسانہیں ہے جس نے اس واقعہ کونظم نہ کیاہواوراسی معنی میں نہ استعمال کیاہوجس معنی میں سرکاردوعالم نے میدان غدیرمیں استعمال کیاتھااورتیرہویں اورچودہویں صدی میں ایسانہ بھی ہوتاتوصدراسلام سے ہزارسال تک مسلسل واقعہ غدیرکاتذکرہ ہونااورلفظ مولیٰ کاحاکم اوراولیٰ بالتصرف کے معنی میں استعمال ہونااس کے استناداوراعتمادکے لئے بہت کافی ہیں دورآخرکے تائیدکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب کہ دورآخرمیں یہ تذکرہ دوراول سے بھی زیادہ پایاجاتاہے اس لئے کہ دوراول کابیشترادب ضائع اوربربادہوچکا ہے ہردورمیں حفاظت کے وسائل کافقدان اوراشاعت کے ذرائع کی قلت تھی اورپھراکثرحکومتیں بھی اس تذکرہ کوباقی نہیں رہنے دیناچاہتی تھیں۔ لیکن۔ وہ شمع کیابجھے جس روشن خداکرے(یریدون لیفطئونوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون)(صف٨)
چنددوسرے قرائن اہل زبان وادب کے ہزارسالہ شواہدکے بعداب اس کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اس امرکااثبات کیاجائے کہ لفظ مولیٰ معنی اولیٰ بالتصرف اورحاکم کے علاوہ سرکاردوعالم کے ا س مہتم بالشان اعلان سے سازگارنہیں ہے۔ لیکن تاہم چندقرائن کاتذکرہ ضروری ہے جن سے یہ بات مزیدواضح ہوجائے گی کہ سرکاردوعالم نے خودبھی اس اشتراک لفظی سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف اتنے قرائن فراہم کردئے تھے جن کے بعدبدسرشت اورمفادپرست انسان کے علاوہ کوئی شخص حاکم کے علاوہ کوئی۔دوسرے معنی مرادنہیں لے سکتاہے ان قرائن کی اجمالی فہرست یہ ہے۔ ١۔من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہسے پہلے سرکاردوعالم نے خوداپنی اولویت کااقرارلیاتھااوراسے بعدکے اعلان کی تمہیدقراردیاتھاجس کے بعداس کے معنی طے کرنے میں کوئی زحمت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔الست اولیٰ بکم من انفسکم جیسی تمہیدکاتذکرہ امام احمدبن حنبل ،ابن ماجہ، نسائی، شیبانی، ابویعلیٰ، طبری، ترمذی، طحاوی، ابوحاکم، طبرانی، دارقطنی، ذہبی، حاکم، ثعلبی، ابونعیم، ابن السمان، بیہقی، خطیب، سجستانی جسکانی، ابن عساکر، ابوالذج،ابن اثیر، تفتازانی، محب الدین، ابن کثیر، ابن الصباغ، جزری، ابن حجر ،سمہودی، کمال الدین حلبی، ابن حجرمکی،حموینی، اوربیضاوی، جیسے عظیم محدثین اورائمہ فن نے کیاہے جس کے بعدکسی طرح کی تشکیک کاامکان نہیں رہ جاتاہے۔ ٢۔اعلان ولایت کے بعدآپ نے دعافرمائی ہے کہ خدایاجوعلی کودوست رکھے اسے دوست رکھنا۔ جوعلی سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی رکھنا، جوعلی کی مددکرے اس کی مددکرنا۔اورجوعلی کوچھوڑدے اسے چھوڑدینا۔ جوہربات کی واضح علامت ہے کہ آپ امت کوعلی کاحلقہ بگوش رکھناچاہتے ہیں اوران سے کسی طرح کے انحراف کونہیں فرماتے ہیں لیکن ایسے افرادکے حق میں بددعافرماتے ہیں جوان کی الویت اورمولائیت کی بہترین دلیل ہے۔ ٣۔ آپ نے اعلان ولایت کے ساتھ یہ سوال بھی فرمایا:تھاکہ تم لوگ کن کن باتوں کی شہادت دیتے ہوتوان لوگوں نے کہاکہ خداکی وحدانیت اورآپ کی رسالت وعبدیت فرمایاپھرتمہارے مولاکون ہیں ؟ لوگوں نے کہاخدا اور رسول !فرمایاجس کاخدااوررسول مولاہے اس کے یہ علی مولاہیں جوہرامرکی حکومت ہے کہ علی کی مولائیت اورخدااوررسول کی وحدانیت ورسالت کی شہادت کاایک جزء ہے اورجس کے بغیراسلام مکمل نہیں ہوتاہے۔ ٤۔ آیت( اکملت لکم دینکم )کے نزول کے بعدحضورنے فرمایاتھاکہ خداکاشکرہے کہ دین کامل ہوگیانعمت تمام ہوگئی خدامیری رسالت اورعلی کی ولایت سے راضی ہوگیا۔ یابقول شیخ الاسلام حموینی ''اللہ اکبرکہ میری نبوت اورولایت علی بن ابی طالب سے دین خدامکمل ہوگیا''۔ ٥۔ سرکاردوعالم نے اعلان ولایت سے پہلے اپنے انتقال کی خبردی تھی جواس بات کی علامت ہے کہ اپنے بعدامت کی زعامت وامامت اورسیادت کاانتظام فرمارہے ہیں نہ یہ کہ علی کی محبت اورنصرت کااعلان فرمارہے ہیں۔ ٦۔رسول اکرم نے اعلان ولایت کے بعدفرمایاتھاکہ مجھے اس امرکی مبارکباددوکہ خدانے مجھے نبوت اورمیرے اہل بیت کوامامت کے لئے مخصوص کیاہے جس کاتذکرہ حافظ ابوسعیدخرگوش نے شرف المصطفیٰ میں کیاہے اوراحمدبن حنبل اورابوسعیدخدری اوربراء عازب جیسے افرادکاحوالہ دیاہے۔ ٧۔ سرکارنے اس امرکی تبلیغ اورغائب افرادتک اس اعلان کے پہنچانے کاحکم دیاتھاجوولایت وقیادت کی بہترین دلیل ہے ورنہ محبت کااعلان پہنچانے کی کیاضرورت ہے۔ ٨۔ ابوسعیداورجابرکے الفاظ میں مولائیت کے اعلان کے بعدآپ نے اکمال دین، اتمام نعمت رضائے الہی اورولایت علی کی پسندیدگی کااعلان فرمایاتھا۔ ٩۔ آپ نے خداکوتبلیغ مکمل کردینے پرگواہ قراردیاتھاجومسئلہ کی عظمت واہمیت اورذمہ داری کی سنگینی کی بہترین علامت ہے۔ ١٠۔ آپ نے اس امرکابھی تذکرہ کیاتھا، کہ ہرحکم الٰہی پرعمل بہت مشکل ہے اورمجھے لوگوں کی مخالفت اورتکذیب کاخطرہ ہے جواس امرکی علامت ہے کہ اعلان کاتعلق ایک ایسے امرسے ہے جس میں تکذیب اورمخالفت کابھی امکان پایاجاتاہے۔
حوالجات : ۱۔یہ واقعہ ١٨ذی الحجہ ١٠ ھ۔ پنچشنبہ کے دن کاہے اورہردودرمیں شعراء اس تاریخی حقیقت کااعلان کرتے ہیں۔ ۲۔بیہقی ، کتاب الغرباء ابواسحاق یوسف،ج١ ، ص٢٣٩مجتبیٰ ابن درید،ص٣٩مطالب السئول محمدبن طلحہ الشافعی ،ص١١ تذکرہ خواص الامہ، ص٢٦مناقب محمدبن یوسف گنجی، ص٤١ شرح تائیدابن الفارض سعیدالدین فرغانی فرائدالسبطین ابواسحاق حمدی تاریخ ابوافدائ، ص١١٨ نظردرالسمطین جمال الدین زرندی البدایة والنہایة ابن کثیر،ج٨، ص٨ فصل الخطاب خواجہ پارسا فصول مہمہ ابن صباغ مالکی، ص١٦حبیب السیرخواندمیر، ج٢،ص٥ صواعق ابن حجر، ص٧٩ کنزالعمال متقی ہندی، ج٦، ص٣٩٢لطائف اخبارالدول اسحاق، ص٣٣ السیرة النبویہ حلبی،ج١، ص٢٨ الاتحاف بحب الاشراف اولی ،ص٨٧ شرح عینیہ عبدالباقی عمر السیدمحمد الدورسی البغدادی،ص٧٨ینابیع المودة،ص٢٩١ السیرہ النبویہ اعلان، ج١،ص١٩٠ کفایت الطالب محمدحبیب اللہ مالکی، ص٣٦۔ ۳۔ مرقاة الشعر، ابوعبداللہ مرزبانی شرف المصطفیٰ حافظ خرگوشی ابن مردویہ اصفہانی، ج١،ص٢٣١ کتاب مانزل من القرآن فی علی ، ابونعیم اصفہانی، ج١،ص٢٣٣ مناقب خوارزمی،ص٨٠ الخصائص العلویہ، حافظ ابوالفتح النطنزی تذکرہ الخواص ،ص٢٠ کفایت الطالب گنجی، ص١٧ فرائدالسمطین حموی نظم درالسمطین ، محمدبن یوسف زیدی الازدہارجلال الدین سیوطی۔ ۴۔ الفصول المختارہ، ج٢،ص٨٧ الشیخ المفیدخصائص الائمہ السیدالشریف الرضی کنزالفوائدکراچکی،ص٢٣٤ تذکرة الخواص، ص٢٠ تفسیرابوالفتوح رازی،ج٢،ص١٩٣ روضة الواعظین،ص٩٠ مجالس المومنین شوستری،ص١٠١ بحار،ج٩،ص٢٤٥ کشکول صاحب حدائق،ج٢،ص١٨۔ ۶۔ اس قصیدہ کے رواة میںابن ابی الحدید،ج٢،ص٥٢٢ لطائف اخبارالدول،ص٢١ شرح مغنی اللبیب محمدازہری، ج١،ص١٨٢مناقب ابن شہرآشوب،ج٣،ص١٠٦ کانام آتاہے۔ ۷۔ اس کاتذکرہ فرائدالسمطین ،باب٦٨ا بشارة المصطفیٰ بشیعتہ المرتضیٰ عمادالدین ابی القاسم طبری الآملی میں پایاجاتاہے۔ ۸۔ اغانی، ص٢٣٦۔ ۹۔معجم الشعراء رزبانی،ص٤٣٥۔ ماخوذ از کتاب غدیر ، مطبوعہ تنظیم المکاتب ۱۴۱۰ ہجری
|
مقالات کی طرف جائیے |
|