|
واقعہ غدیر اور عید غدیر |
مولانا سیدرضی زیدی پھندیڑوی |
واقعہ غدیر شیعہ عقائد کے مطابق تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے جس میں پیغمبر اکرم ؐ نے ہجرت کے دسویں سال 24 یا 25 ذی القعدہ کو ہزاروں لوگوں کا قافلہ لے کر مناسک حج انجام دینے کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی طرف حرکت فرمائی ۔( طبرسی، ج ۱، ص۵۶ ؛ مفید، ص۹۱ ؛ حلبی، ج ۳، ص۳۰۸ ) ۔ چونکہ یہ حج پیغمبر اکرمؐ کا آخری حج تھا اس لئے یہ حجۃ الودع کے نام سے مشہور ہوا۔ حج کے اعمال سے فارغ ہو کر پیغمبر اکرمؐ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ واپسی میں مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی معیت میں غدیر خم نامی مقام پر پہنچا جہاں سے شام ، مصر اورعراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقرره راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا ۔ اس مقام پر جبرئیل آیت تبلیغ (۱ )لے کر پیغمبراکرمؐ پر نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کے اعلان کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ آیت نازل ہونے کے بعدرسول اکرمؐ نے قافلہ کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی غدیر خم کے میدان میں آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا۔ (سنن نسائی، ص25) جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نےنماز ظہر ادا کرنے کے بعد اونٹوں کے پالان کا منبر بنوایا اور منبر پر تشریف لے جاکر خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہوا اور اس کے ضمن میں فرمایا: )غدیر خم میں آپؐ کا خطبہ (حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس ا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و رہنما نہیں ہے اور جس نے بھی گمراہی کی طرف رہنمائی کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمہارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔ اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تمہارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے، محمد اس کا بندہ و رسول ہےاور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟ اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے سےجدا نہ ہوں گے ۔ ہاں اے لوگو! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتا ہی نہ کرنا ، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی علیہ السلام کو سب لوگوں سے متعارف کرایا ۔ اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف ر کھتا ہے ؟ “ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔ “ ہاں اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ و ادر ا لحق معہ حیث دار “ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ۔( ۲)اے اللہ! تو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں ( یہ پوری حدیث غدیر یا فقط اس کا پہلا حصہ یا فقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے ۔ (۳) آپ نے غدیر خم کے مقام پر خدا کے حکم سے امام علی کو خلافت اور امامت کے منصب پر منصوب فرمایا۔ جس کے بعد تمام حاضرین اور تمام بزرگ صحابہ کرام نے حضرت علی ؑکے ولی ہونے پر بیعت کی اور مبارک باد دی ۔ مسلمان اس روز عید مناتے ہیں اور یہ عید ، عید غدیر کے نام سے معروف ہے۔اس عید کو اسلامی مآخذ میں ،سب سے بڑی عیدبتایا گیاہے(۴) جو شخص اس دن عید منائے، خداوند عالم اس کے مال میں برکت عطاکرتا ہے(۵) یہ عید اہل بیت محمدؐ کی عید ہے(۶) اس عید کو سب سے افضل ترین عیدسےتعبیر کیا گیاہے۔(۷) اسی دن اللہ کی طرف سے دین کے مکمل ہونے کا اعلان آیۃ اکمال نازل ہونے کی صورت میں ہوگیا۔ روز غدیر، عید قراردے دیا گیا اور اس کے شب و روز میں عبادت خضوع اور خشوع کرنے کی تاکید کی گئی ۔ درحقیقت غدیر کا دن آل محمد علیہم السلام کےلئے عید اور جشن منانے کا دن ہے اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام کی جانب سے خاص طور پر اس دن جشن و سرور کا اظہار اور عید منانے پر زور دیا گیا ہے۔ میں تمام مؤمنین کی خدمت میں اس روز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ پالنے والے! اس روز کے صدقہ میں تمام مؤمنین کی مشکلات کو حل فرما۔ "آمین والحمد للہ رب العالمین"۔
حوالجات: ۱۔سورہ مائدہ 67 ۲۔مسند احمد ج ۱ ، ص/ ۸۴ ، ۸۸ ، ۱۱۸ ، ۱۱۹ ، ۱۵۲ ، ۳۳۲ ، ۲۸۱ ، ۳۳۱ ،اور ۳۷۰-سنن ابن ماجہ ج/ ۱ ،ص/ ۵۵ ، ۵۸ - المستدرک الصحیحین نیشاپوری ج/ ۳ ص/ ۱۱۸ ، ۶۱۳- سنن ترمزی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳- فتح الباری ج/ ۷۹ ص/ ۷۴ - تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۸ ص/ ۲۹۰ - تاریخ خلفاء،سیوطی/ ۱۱۴ ۳۔مسند احمد ابن حنبل ص/ ۲۵۶- تاریخ دمشق ج/ ۴۲ ص/ ۲۰۷ ، ۲۰۸ ، ۴۴۸ - خصائص نسائی ص/ ۱۸۱ - المجمل کبیر ج/ ۱۷ ص/ ۳۹ - سنن ترمذی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳- المستدرک الصحیحین ج/ ۱۳ ۲ ص/ ۱۳۵ - المعجم الاوسط ج/ ۶ ص/ ۹۵ - مسند ابی یعلی ج/ ۱ ص / ۲۸۰ ،المحاسن والمساوی ص/ ۴۱- مناقب خوارزمی ص/ ۱۰۴ ۴۔حر عاملی، وسائل الشیعہ،ج ۸، ص۸۲ ۵۔عوالم ج 15/3 22 ۶۔سید ابن طاووس، اقبال الاعمال، ص۴۶۴ ۷۔کلینی، کافی، ج ۱، ص۲۰۳
|
مقالات کی طرف جائیے |
|