مقالات

 

غدیر اتحاد اسلامی کا سرچشمہ اور عقیدتوں کا مرکز

مولانا سید محمد جابر جوراسی

برادران اسلامی!
اتحاد نعمت ہے،اختلاف لعنت ہے۔ اتحاد ایک ایسا سرمایہ ہے جس کی طرف اسلام نے بالاصر ار دعوت دی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دامن اتحاد چھوڑدینے کے سبب ملت اسلامیہ نت نئے فتنوں اور طرح طرح کے اندیشوں میں گھر کر رہ گئی۔ مسلمانوں کے اختلاف نے کیا کیا گل کھلائے ہیں اس کا اندازہ بسیط صفحۂ تاریخ پر پھیلے ہوئے ان کرب انگیز واقعات سے ہوتا ہے جن کی اذیت ناک یادیں آج بھی دل مومن کو تڑپادینے اور قلب مسلم کو پارہ پارہ کردینے کے لئے کافی ہیں۔ درد مندان اسلام کی رخ کی گہرائیوں سے اٹھنے والی یہ صدا گوش احساس سے بخوبی سنی جاسکتی ہے ؎
یاد ماضی عذاب ہے یار ب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ساری دنیا میں پھیلے ہوئے کلمہ گویان اسلام کی مغلوبیت کا راز بھی یہی اختلاف و انتشار ہے، جس نے ان کے ہاتھ سے قبلۂ اول تک چھین لیا ہے او روہ اپنی مادی وروحانی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں ان کے املاک پر غیروں کا قبضہ ہے ان کے مفادات کو سامرا جیت و صہیونیت نے یرغمال بنا رکھاہے ان کی دولت دوسروں کی جھولیوں میں ہے اور وہ بے دست و پا بن کر کسی غیبی امداد کے انتظار میں ماہ و سال گزار رہے ہیں حالانکہ اپنے ہاتھوں پیدا کردہ سارے مسائل کا ایک بنیادی حل خود ان کی مٹھی میں ہے یعنی اہل اسلام میں ایک مضبوط او رپائیدار اتحاد اسی ضرورت کی دنیائے اسلام کے نڈرو بے باک رہنما آیت اللہ العظمی سید روح اللہ الخمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے شدت سے محسوس فرمایا اور مسلمانوں کو وسیع پیمانہ پر دعوت اتحاد دی تھی۔ ارض مقدس مکہ پر ان کی جانب سے مسلسل پانچ سال تک یا ایھا المسلمون اتحدوا اتحدو۔ کے بلند کئے جانے والے نعروں کا گلا مغربی سیاست نے نام نہاد مقدس اسلامی ہاتھوں سے گھونٹ دینے کی کوشش کی۔
قلعۂ اتحاد اسلامی کے بکھرے ہوئے کھنڈرات پر مغربی سیاست کے زاغ و بوم اپنے بے ہنگم نغمے الاپ رہے ہیں اور کالے و گورے عرب و عجم کا فرق مٹادینے والی صدائے بلالؒ جیسے مدینہ کے پس منظر میں کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ اتحاد اسلامی کا نعرہ بلند کرنے والا ہم مزاج ابوذرؒ اپنا فرض پورا کرکے بہشت زہرا میں سکون کی نیند سور ہاہے اور یہاں طاغوت کی ہوس خون آشامی کے خطرات نے مسلمانوں کی پلکوں سے لذت خواب چھین لی ہے۔
یہ نعرۂ اتحاد کوئی بدعت نہیں تھا۔ یہ نعرہ۔ قرآنی فیصلہ " انما المومنون اخوۃ " مومنین باہم بھائی بھائی ہیں کی تشریح تھی تعلیمات پیغمبرؐ کا نچوڑ تھا اور سیرت ائمہ اطہار علیہم السلام کا آئینہ تھا۔ فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کی روشنی میں جائزہ لیجئے کہ مسلمانوں کو متحد رکھنے کے لئے پیغمبرؐ اسلام نے کیا کیا برداشت کیا ہے اور کتنے کڑوے کیلے طنزبھرے جملوں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دی ہے یہ بات جذباتی مزاج عقیدت پر بار ہوتی ہے۔ اور مخالفوں کو بھی من مانی توجیہات کا موقع ہاتھ آتاہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں شدید نقصانات اٹھانے پڑے ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام بعض مواقع پر ان کے معین ومددگار نظر آتے ہیں۔
عزیزان محترم! یہ صرف ایک اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہی نہیں تھا بلکہ دل و جگر کو خون کردینے والے حالات کے باوجود یہ طرز مصالحت صرف دینی مصلحتوں کے لئے تھا کہ مبادا اختلافات بڑھنے سے مفادات اسلامی پر ضرب کاری نہ لگ جائے معصوم ائمہ علیہم السلام نے اپنا خون جگر پیا لیکن اسلام کا خون نہ ہونے دیا اگر ملت کو یہ حقیقی احساس ہوجائے کہ شیرازۂ ملت کو منتشر ہونے سے بچانے کے لئے ان ذوات قدسیہ نے کیسے کیسے حالات میں صبر کیاہے تو وہ اپنی جبین عقیدت کو کبھی ان کے آستانے سے جدا کرنے پر راضی نہ ہوں۔
حیات نبوی کے مختلف ادوار میں عرب کے بدوی مزاج نے بارہا پیغمبر اسلامؐ کی مسلمانوں کو متحد رکھنے کی کوششوں کو سیوتاز کرنے کی کوشش کی پیغمبر ؐدل برداشتہ ہیں کہ اب دنیا سے رخصت ہوجانے کا وقت قریب ہے لیکن قدرت کو اتمام حجت منظور تھا لہذا آخری حج کے موقع پر حکم الہی " یا ایھا الرسول بلغ۔۔۔ " کے جلالی تیور دیکھ کر بنی کریمؐ نے میدان غدیر میں تمام حاجیوں کو جمع کیا اور ان کے ہاتھ میں اسلامی اتحاد کا وہ نسخہ دے دیا کہ جس کی اگر حفاظت کی جاتی اور اس میں خس و خاشاک کی ا ٓمیزش نہ کردی گئی ہوتی تو آج شیرازہ ملت ایک صحت مندو توانا جسم کا مالک ہوتا۔
"من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" (تفسیر غرائب القرآن نیشاپوری) کے ذریعہ آپ نے مسلمانوں کے اوپر اپنے ہی جیسا ایک ایسا حاکم مقررکردیا تھا جس کی اطاعت کے بعد نہ نسلی اختلافات ابھر تے نہ گروہی تعصبات کے در آنے کی گنجائش رہ جاتی پیغمبر اسلامؐ نے طویل خطبۂ غدیر میں وضاحت فرمادی تھی کہ:
(ترجمہ) بیشک اللہ نے تمہارے لئے ان (علیؑ) کو ولی و امام مقرر کی اہے اور ان کی اطاعت کو مہاجرین و انصار وتابعین پر ہربدوی و شہری پر، ہر عربی وعجمی پر، ہر آزاد و غلام پر، ہر چھوٹے اور بڑے پر ہرگورے اور کالے پر بلکہ تمام موحدین پر اپنے احسان سے واجب کیا ہے۔ ان کا حکم جاری ہے ان کی بات حسب شریعت ہے جس نے ان کی مخالفت کی وہ ملعون ہے اور جس نے ان کا اتباع تصدیق کی ان کی بات پر کاندھرا وہ داخل رحمت ہے۔ (ناسخ التواریخ، ج۱)
امت نے اس سلسلہ میں حکم پیمبرؐ سے انحراف ہی نہیں کیا بلکہ خو د کو رحمت سے کوسوں دور کرلیا۔ پیغمبر اسلام ؐ نے صرف حضرت علی ؑ کی حکومت کا اعلان نہیں کی اساتھ میں اپنے ان تمام اوصیا کی حکومت کابھی اعلان فرمادیا جن پر عقیدہ رکھ کر قیامت تک کے لئے امت اختلافات سے محفوظ ہوجاتی ۔
علامہ اہل سنت شیخ سلیمان قندوزی نے حضرت علی ؑ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں احوال غدیرہے اور نزول آیہ اکملت کا بھی ذکر ہے ۔ لوگوں نے پیغمبر ؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا یہ آیتیں صرف علی ؑ کے حق میں اتری ہیں تو آپ نے فرمایا:
(ترجمہ) قیامت تک جو میرے اوصیا ہیں ان کے حق میں بھی اتری ہیں ۔لوگوں نے عرض کی :حضور! ان اوصیا کو ظاہر فرمائیں۔ فرمایا: وہ علیؑ ہیں جو میرے بھائی و وراث ہیں اور میرے بعد ہر مومن کے متولی و مولا ہیں، ان کے بعدمیرا بیٹا حسنؑ ہے پھر اس کے بعد میرا بیٹا حسینؑ ہے اس کے بعد اولاد حسینؑ سے نو فرزند ہیں جن کے ہمراہ قرآن ہے اور وہ قرآن کے ہمراہ ہیں جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ (ینابیع المودۃ، ص۱۵)
قرآن و اہل بیت ؑ سے تمسک ہی عدم افتراق امت کا ذریعہ ہے اس کی وضاحت پیغمبر اسلامؐ نے غدیر کے میدان میں فرمادی۔ متعدد مورخین و محدثین نے با اختلاف الفاظ حدیث ثقلین کا ذکر پیغمبراسلام ؐ کے آخری حج کے سلسلہ میں عرفات و غدیر کے خطبوں کے ذیل میں کیا ہے۔ بلکہ بعض روایتوں میں تویہ بھی ہے کہ پیغمبر ؐ نے یہ یاد دہانی اپنی وفات کے وقت تک جاری رکھی۔ منجملہ دیگر مورخین کے ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ وفات سے قبل پیغمبرؐ نے فرمایا:
(ترجمہ) قریب ہے کہ میرا بلاواآجائے میں اس دعوت پر لبیک کہوں گا اور میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑرہاہوں ایک کتا ب خدا دوسرے میری عترت کتاب خدا حب ممدودی علی آسمان تا زمین کھینچی ہوئی رسی ہے اورمیری عترت اہل بیتؑ ہیں مجھے خدائے لطیف و خبیر نے با خبر کیا ہے کہ اللہ کی کتا ب اور میری عترت ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچیں پس دیکھو تم لوگ میرے بعد ان سے کیسا سلوک کرتے ہو۔ (طبقات ابن سعد)
یوم عرفہ جن مورخین و محدثین نے حدیث ثقلین کا ذکر کیا ہے ان میں امام ترمذی بھی ہیں جنہوں نے جابر ابن عبداللہ انصاری کی روایت نقل کی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ پیغمبر اسلامؐ از روئے حکمت اعلان غدیر کے لئے پہلے ہی سے ماحول تیا رکررہے تھے جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ:
(ترجمہ) میں نے حج میں بروز عرفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ناقۂ قصوریٰ پر خطبہ پڑھتے ہوئے دیکھا میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا " میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اس سے وابستہ رہے تو گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ دوسر یمیری عترت یعنی اہل بیتؑ۔ (ترمذی، ج۲)
خطبۂ غدیر میں حدیث ثقلین کا ذکر ت وبیشتر علمائے عامہ نے کیا ہے ۔ البتہ الفاظ کا کچھفرق موجود ہے جو توضیحی ہے مثلا "انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و سنتی" ظاہر ہے احیائے سنت کا ذریعہ اہل بیتؑ ہی ہیں یہ اختلاف الفاظ راویوں کی حقائق پوشی کی وجہ سے بھی ہوسکتاہے۔
بہر حال اس کے سبب مزید وضاحت ہی ہوئی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں زیدا بن ثابت کی روایت میں اس طرح یہ حدیث نقل کی ہے کہ " انی تارک فیکم خلیفین" میں تم میں دو قائم مقام چھوڑرہاہوں (مسند حنبل، ج۵)
علامہ ثعلبی نے ابو سعید خدری سے جو روایت نقل کی ہے اس میں " انی ترکت فیکم الثقلین خلیفیتین" ہے یعنی میں تم میں دو گراں بہا چیزوں کو خلیفہ بناکر چھوڑرہاہوں۔ امام مسلم جنہوں نے واقعہ ٔ غدیر ایسے مہتمم بالشان واقعہ سے صرف نظر کرنا چاہا ہے انھوں نے بھی خطبہ ٔ غدیر میں حدیث ثقلین کا ذکر کیا ہے انہوں نے زیدا بن ارقم کی روایت نقل کی ہے جس میں خم کے چشمہ پر رسول ؐ کے خطبہ کا ذکر کرتے ہوئے حدیث ثقلین کو بھی نقل کیا ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا:
(ترجمہ) "انا تارک فیکم الثقلین۔۔۔۔" میں تم میں دو وزنی چیزیں چھوڑے جاتاہوں ان میں سے ایک تو کتاب خدا ہے اس کے اندر نور وحکمت ہے تم اسے مضبوطی سے تھامے رہنا اس کے بعد حضور ؐ نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی رغبت دلائی اور اس پر قائم رہنے پر آمادہ کیا پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ؑ ہیں " اُذکرّ کم اللہ فی اھلبیتی ، ازکرّکم اللہ فی اھلبیتی، اُذکرّکم اللہ فی اھلبیتی" میں اپنے اہل بیتؑ کے سلسلہ میں تمہیں خدا کو یاد دلاتاہوں، میں اپنے اہل بیت ؑ کے سلسلہ میں تمہیں خدا کو یاد دلاتاہوں، میں اپنے اہل بیت ؑ کے سلسلہ میں تمہیں خدا کو یاد دلاتاہوں۔ (صحیح مسلم ج۲)
اہل بیت ؑ کے بارے میں تین مرتبہ پیغمبرؐ کی زبان سے اس تاکیدی جملہ کا ادا ہونا بلاسبب نہیں تھا بلکہ امت کو مجتمع رکھنے کا ایک ایسا جامع فارمولا پیغمبرؐ نے پیش فرمایا تھا جس کی تاکید ضروری تھی اہل خطاو نسیانکی بالادستی ہی ہمیشہ دنیا میں انتشار واختلاف کو بڑھا وا دینے کا سبب بنی ہے اس کے مقابلہ میں صاحبان عصمت اپنے منصب عصمت کے سبب خواہشات نفس سے دور رہتے ہیں ا ن کے یہاں خواہش نفس سے دور رہتے ہیں ان کے یہاں خواہش نفس نہیں بلکہ رضائے رب کی اہمت ہوتی ہے لہذا ان کی اطاعت میں جتنا زیادہ انسان آگے بڑھے گا اختلافات سے دور ہوتا جائے گا اور اہل بیت اطہارؑ بیشک معصوم تھے ۔
علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ:
(ترجمہ) ان سب یعنی علیؑ و فاطمہ ؐ اور ان کے دونوں فرزندوں میں عصمت ہے جس کی دلیل قول رسول ہے کہ میں تم میں وہ چیزیں چھوڑے جارہاہوں کہ جن سے تم نے اگر تمسک کی اتو وہ ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوں گے اور وہ کتاب خدا اورمیری عترت یعنی میرے اہل بیتؑ ہیں ( فضل آل البیت، ص۳۷)
غایت المرام جزء ثانی میں " واعتصموا بحبل اللہ جمیعا" کے ذیل میں حدیث ثقلین درج ہے ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ میدان غدیر میں ہونے والا اعلان ہی در اصل امت کو متحد و متفق رکھ سکتا ہے اور اس سے انحراف کے سبب تفرقہ کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔
حبل اللہ سے مراد کی اہے اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اور ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں امام جعفر صادق ؑ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں حبل اللہ سے اہل بیتؑ کے مراد ہونے کا ذکر ہے اور معنای اخبار میں ہے کہ امام زین العابدین ؑ نے قرآن کو بھی حبل اللہ ارشاد فرمایاہے علامہ طبرسی ؒ نے اپنی تفسیر مجمع البیان میں تحریر کی اہے کہ اولیٰ و انسب یہ ہے کہ حبل اللہ سےقرآن و اہل بیتؑ دونوں کو مراد لیا جائے جیسا کہ ابو سعید خدری کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ رسولؐ نے ارشا د فرمیا: " میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہاہ ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھامے رہے گے گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک قرآن ہے دوسری میری عترت ہے" اس روایت کو امام فخر الدین رازی نے اپنی ضخیم تفسیر، تفسیر کبیر جلد تین میں بھی درج کیاہے۔
آیہ کریمہ " واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا" یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ کا شکا رنہ ہو اور احدیث ثقلین میں ربط ظاہر ہہے کہ اور یہ حدیث ثقلین خطبۂ غدیر کا مرکزی اعلان تھا گویا غدیر اتحاد اسلامی کا سرچشمہ و منبع تھا میدان غدیر میں حدیث ثقلین پیش فرمانے سے اشتباہ کو بھی دور کردیا کہ حدیث غدیر یا اس اجتماع کا تعلق واقعہ یمن سے تھ اگر حضرت علیؑ سے کسی کو کوئی اختلاف پیدا ہواتھا تو دیگر افراد اہل بیتؑ کے ذکر کا کون ساموقع تھ احقیقت یہ ہے کہ حدیث ثقلین اور حدیث غدیر کے واقعہ کایمن سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
وہ " یعصمک من الناس" کا قرآنی اعجاز تھا کہ رسالت و امامت کے بے پناہ ہیبت کہ نوے ہزار سے لے کر ایک لاکھ چوبیس ہزار تک کے مجمع میں سے کسی ایک نے بھی تو کسی اعلان پیغمبرؐ سے انکار نہیں کیا مولا کے معنی کے سلسلہ سے بعد میں قوم معرض اختلاف میں آئی لیکن اتنے بڑے مجمع میں کسی ایک نے بھی اس لفظ کے سلسلہ میں اختلاف نہ کیا بلکہ جو پیغمبرؐ نے کہا وہ سارامجمع سمجھا اور پیغمبرؐ کے کسی بھی قول سے یہ ثابت نہیں کہ آپ سے اس اعلان کا تعلق کسی پہلے کے واقعہ سے ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ حیات پیغمبرؐ ختم ہونے کو آئی تھی لیکن اس واقعہ غدیر سے پہلے یا بعد میں اتنا بڑا اتحاد اسلامی کا مظاہرہ کسی دوسرے موقع پر دیکھنے میں نہ آیا ۔ واقعہ غدیر کے سلسلہ میں سب سے پہلے جس شخص نے اختلاف کیا و حارث ابن نعمان فہری تھا اور اس نے بھی اس وقت اعتراض کیاجب آنحضرتؐ مدینہ واپس تشریف لاچکے تھے گویا میدان غدیر اختلاف و انتشار کی آلائشوں سے پاک رہا تھا در حقیقت اگر معنویت غدیر کو بعد میں مشتبہ نہ بنایا گیا ہوتا اور لفظ مولا کو تحتۂ مشتق بنانے کی کوشش نہ کی گئی ہوتی تو یہ امت امت واحدہ کی شکل میں مطلع عالم پر جگمگارہی ہوتی آج بھی اگرحقیقت غدیر کو بے کم وکاست تسلیم کرلیا جائے تواتحاداسلامی کا قابل رشک مظاہرہ ہوسکتا ہے عقیدوں پر اجارہ داری کے سبب منظر دھندلے پڑگئے ہیں ورنہ ہرزمانہ میں غدیرعقیدتوں کا مرکز بھی رہاہے آج بھی خانقاہوں میں ہونے والے عرس اس وقت تک نامکمل سمجھے جاتے ہیں جب تک محفل سماع میں " من کنت مولاہ" کی نغمگی رچ بس نہ جائے۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ وہ لفظ مولا جس کے معنی میں اختلاف رہا اس کی اگر مناسب ترین تشریح ہوئی ہے تو ایک خانقاہ ہی سے ،شاہ علی حسن صاحب جائسی مرحوم سجادہ نشین جو اپنے عقیدہ کا اظہار اس طرح کرتے ہیں: ؎
منم سنی و لیکن از تعصب الامان گویم مینہ طبعم انصاف است از دنیا و مافیھا
وہی لفظ مولاکے بارے میں رد و قدح کے ختم ہونے کا بہترین فارمولا پیش کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کا یہ شعر ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جو اہل عقل و خرد کے لئے دعوت غور و فکر بھی ہےکہ: ؎
عبث در معنی من کنت مولا میروی ھرسو علیؑ مولا باین معنی کہ پیغمبرؐ بود مولا
اس ابہام میں بھی جو شرح و سبط ہے وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں غدیر دشمنی کے بجائے غدیر فہمی بہت سے کلیدی مسائل کو حل کرسکتی ہے اورد یہ کام تعصب و عناد کے زیر سایہ نہیں بلکہ عقیدت ادراک کی چھاؤں میں ہوسکتا ہے۔ اس لئے اس جذبہ کو مہمیز کرنے کی ضرورت ہے جو جوش عقیدت میں نامور سنی شاعر نذیر بنارسی کے لبوں پر یہ شعر بن کر ابھرے۔ ؎
ملادوں جسے چاہوں میں آسماں سے مگر لفظ مولا کا لاؤں کہاں سے
مقالات کی طرف جائیے