|
آخری پیغام |
مولانا سید سرکار حسین رضوی الہٰ بادی |
چلچلاتی دھوپ تھی، تپتا ہوا صحر اتھا، جلتی ہوے زمین تھی ،گرمی کی شدت تھی ، حاجیوں کا کارواں تھا، مبلغ شریعت اسلام ہمراہ کارواں تھا،محافظ رسول و محافظ شریعت اسلام ہمراہ نبوت تھا،حجۃ الوداع کا موقع تھا ۔غدیر خم کا میدان تھا، عراق ویمن و مصر کا سہ راہا تھا ،ہر ایک اپنی اپنی راہ کے لئے عازم تھا ... یک بیک امین وحی جبرئیل کا نزول ہوا خدمت رسالتمآب میں حاضر ہوکے عرض کیا: سلام ودرود ہو آپ پر اے پیغمبرؐ اور فرمان خداوندی کو سنایا :’’اے پیغمبرؐ آپ پہچنا دیجئے اس حکم کو جو آپ پر نازل کیا جاچکا ہے آپ کے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو کار رسالت ہی انجام تک نہ پہنچایا‘‘۔ پس اس حکم کو سنتے ہی پیغمبرؐ نے تمام حاجیوں کو روکا جو آگے بڑھ گئے تھے ان کو واپس بلایا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا ۔جب ایک لاکھ بیس ہزار کا مجمع اور ایسا مجمع جس میں حاجی اور صحابی ہی تھے ۔جب سب کے سب جمع ہوگئے تو پیغمبرؐ نے حکم دیا کہ منبر بنایا جائے ، اب لوگ منبر بنانا چاہتے ہیں تو وہاں لکڑی نہیں کس چیز کا منبر بنے ،مضطرب و پریشان لوگ نظر آرہے تھے ایک ہلچل سی ہے ،منبر کی تلاش ہے ،لیکن افسوس منبر بنانے سے قاصر ہیں اور مقابل میں اس کے آنا چاہتے تھے جو خطیب منبر سلونی تھا ۔ غرضیکہ پیغمبر ؐ نے حکم دیا کہ اونٹوں کے کجاوؤں کا منبر بنایا جائے ،منبر تیار ہوا ،اب سب کو انتظار ہے آخر کون سا ایسا پیغام ہے جس کے متعلق خالق کائنات نے اس انداز کے ساتھ حکم دیا ہے ۔جب پیغمبر منبر پر تشریف لے گئے اور حمد وثنائے خدا کرنا شروع کی تو اس انداز سے کہ جس میں اہل بیتؑ کا تذکرہ موجود تھا ، فرماتے ہیں کہ میں حمد اس کی نعمتوں کی بناء پر کرتا ہوں جو مجھ کو عطا ہوئی ہیں اور اس امتحان و بلا کی وجہ سے جو میری عترت اہلبیت پر ہونیوالی ہیں اور دنیا کے ناگوار مصائب اور آخرت کے مہالک پر میں اس کی مدد چاہتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ہے اور وہی واحد و احد وصمد ہے اور اپنے لئے اس نے کوئی زوجہ یا فرزند یا شریک قرار نہیں دیا ۔ غرضکہ جب خطبہ دیتے دیتے ایک مرتبہ درمیان خطبہ ایک شخص کھڑا ہوا جس کا نام عبادہ بن صامت تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ یہ سب کب ہوگا کہ جو آپ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہو کہ خدا ان تمام چیزوں پر اھاطہ کئے ہوئے ہے اور قریب ہے کہ ہمارے بعد کچھ قومیں ہوں گی جو جھوٹیباتیں میری طرف منسوب کر یں گی اور لوگ ان کے جھوٹ کو قبول کر لیں گے ۔حالانکہ معاذ اللہ جو میں خدا کی طرف سے سوائے امر حق کے کچھ اور زبان سے نکالوں اور سوائے امر راست کے اس حکم کے خلاف کچھ اورکہوں او ر سوائے اس حکم کے جو خدا نے مجھے دیا ہے میں تمہیں کوئی اور حکم دوں اور بجز خدا کی طرف کے اور کسی چیز کی طرف میں تم کو بلاتا نہیں اور جو لوگ ظالم ہیں وہ بہت جلد جان لیں گے کہ ان کی جائے بازگشت کہاں ہے یا رسول اللہ آپ ان اقوال کے بارے میں مجھے خبر دیں اور ان لوگوں کو بتائیں کہ وہ کون لوگ ہیں ان کو ہمیں پہچنوائیے تاکہ ہم ان سے عہد کریں ۔ جب عبادہ بن صامت نے یہ پوچھا تو رسالتمآب نے فرمایا کہ کچھ لوگ ہیں جو ابتداء ہی سے میرے دشمن ہیں اور جب میری جان(حلق تک) یہاں تک پہنچے گی اس وقت ظاہر ہوں گے ،عبادہ نے کہا جب ایسا وقت آجائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں ،پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا کہ تم ان کی پیروی کرنا جو میری عترت میں سب سے سبقت کرنے والے ہیں اور میری پیغمبری کا علم لینے والے ہیں اور وہی یقیناً تم کو گمراہی سے باز رکھیں گے اور نیکی کی طرف دعوت دیں اور یہی اہل حق اور معدن صدق ہیں ،کتاب و سنت کو تم لوگوں میں زندہ رکھیں گے اور الحاد و بدعت سے تم کو بچائیں گے اور حق کے ذریعہ سے باطل کو پست کریں گے اور کسی جاہل کی طرف میلان نہ کریں گے ۔۔۔۔۔پھر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا یہ لوگ (میرے اہل بیتؑ) بہترین امت ہیں اور علم کے حامل اور میرے اسرار کے خاز ن ہیں اور تمامی اہل ارض کے سردار ہیں الخ خطبہ دیتے دیتے ایک مرتبہ سوال کیا :کیا میں مومنوں کے نفسوں پر اولیٰ اور صاحب اختیار نہیں ہوں؟سب نے کہا: بیشک حضور اولیٰ بالتصرف ہمارے نفسوں پر ہیں ۔یہ اقرار لینے کے بعد پیغمبر ؐ نے فرمایا: پس جس کا میں مولا یعنی اولیٰ بتصرف ہوں اس کے علی علیہ السلام مولا اور اولیٰ بالتصرف ہیں۔ اللھم وال من والا ہ وعاد من عاداہ خداوند تو دوست رکھ اس کو جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے فلقیہ عمر فقال ھنیئاً لک یا علی بن ابی طالب اصبحت مولای ومولیٰ کل مومن و مومنۃ پس حضرت عمر بن خطاب ملےا ور کہا اے علیؑ مبارک ہو کہ تم میرے مولیٰ اور سب مومنین و مومنات کے مولیٰ ہوگئے ۔رسالہ مودۃ القربیٰ ہمدانی ص 33 براء بن عازب کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں پیغمبر اسلام کے ساتھ تھا جب غدیر خم میں پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا تھا ۔ آیہ بلغ ولایت علی سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت و ولایت علی ابن بی طالب علیہ الصلاۃ والسلام کے لئے نص قرآنی بھی ہے اور حدیث من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نص فرمان نبوی بھی ہے اور خدا اور یہ پیغمبر کی طرف سے خاص ولایت علی ہے اور ان کے علاوہ کسی اور صحابی کو یہ نصیب نہیں ہوا۔ صرف غدیر خم کے سلسلہ میں سیکڑوں حدیثیں ہیں ۔ جیسا کہ مودۃ القربیٰ ص 33 میں سنیوں کے قطب ربانی امام ہمدانی حضرت عمر سے یوں روایت کرتے ہیں کہ عن عمر بن خطاب قال نصب رسول اللہ صلعم علیا علماً فقال من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و اخذل من خذلہ وانصر من نصرہ اللھم انت شھیدی علیھم قال و کان فی جنبی شاب حسن الوجہ و طیب الریح فقال یا عمر لقد عقد الیوم رسول اللہ صلعلم عقدا لا یحلہ الا منافق فاحذر ان تحلہ قال عمر یا رسول اللہ انک و حیث قلت فی علی کان فی جنبی شاب حسن الوجہ طیب الریح قال کذا و کذا قال صلعم یاعمر انہ لیس من ولد آدم ولکنہ جبرئیل اراد ان یوکد علیکم ما قلت فی علی علیہ السلام ’’حضرت عمر خود راوی ہیں انھوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام ؐ نے حضرت علی ؑ کو خلیفہ اسلام مقرر کیا اور فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی ؑ مولا ہیں خدایا تو دوست رکھ اس کو جو علی ؑ کو دوست رکھےا ور دشمن رکھ اس کو جو علیؑ کو دشمن رکھے اور مخذول کر اس کو جو علی ؑ کو مخذول کرے اور مدد و نصرت کر اس کی جو علیؑ کی نصرت کرے خداوند ا تو شاہد رہنا ان پر ،عمر بن خطاب نے کہا اس وقت میرے پہلو میں ایک نوجوان خوبصورت اور خوش سیرت کھرا مجھ سے کہہ رہا کہ اے عمر آج (18 ذی الحجہ) پیغمبر اسلام ؐ نے(علی کی خلافت میں )ایک ایسی گرہ لگا دی ہے کہ سوائے منافق کے اسے کوئی نہیں کھول سکتا پس اس کے کھولنے سے تم ڈرتے رہنا، حضرت عمر کہتے ہیں میں نے رسول خدا سے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ جب حضور علی کی ولایت کی تبلیغ کررہے تھے تو ایک نوجوان خوبصورت و خوش سیرت میرے پہلو میں کھڑا تھا مجھے ایسی ایسی باتیں کہہ رہا تھا پیغمبر نے فرمایا اے عمر یہ شخص اولاد آدم میں سے نہ تھا بلکہ جبرئیل تھے جو تمہیں تاکید کر رہے تھے اسی امر کیو جو میں نے علیؑ کی ولایت اور خلافت کے متعلق تم سے کہا ‘‘۔ اس حدیث کے علاوہ بھی متعدد حدیثیں ہیں جو کہ صحابہ کرام سے روایت کی گئی ہیں ، کہیں کہیں کچھ الفاظ اور جملوں کافرق ہے لیکن حدیث غدیر کے سلسلہ میں یہ ضرور اتفاق ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے جس پر علماء کا اجماع ہے اور صحابہ کا اتفاق ہے ۔ مسند احمدبن حنبل ،خصائص ،نسائی سرالعالمین ، خواص الامہ اورمودت القربیٰ ان تمام کتابوں میں حدیث غدیر لکھی گئی ہے اور تمام ائمہ نے بھی لکھی ہے ۔ حد ہوگئی کہ غزالی نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ وصیت امر خلافت کے متعلق تھی جب پیغمبر صلعم کا انتقال ہوا تو مرنے سے پہلے آپنے فرمایا کہ دوات و کاغذ لاؤ کہ تمہارے لئے مشکلات امارت و خلافت کو دور کردوں اور بتادوں کہ میرے بعد امارت وخلافت کا حقدار کون ہے مگر حضرت عمر نے پیغمبر اکے اس فرمان کو ہذیان کہہ کر ٹال دیا ۔(سر العالمین مطبوعہ بمبئی ص9) اب انصاف پسند مسلمان ملاحظہ فرمائیں کہ آخر خلافت میں جو اختلاف ہوا جس کی بنا پر مسلمانوں میں فرقے ہوئے اور مفسدہ کا خطرہ ہوا اور فساد و آپس میں ہوا اس کا ذمہ دار کون؟ خدا تمام مومنین کو انصاف پسندی مرحمت فرمائے تاکہ آپس کے فساد سے قوم محفوظ رہے (آمین )
|
مقالات کی طرف جائیے |
|