مقالات

 

غدیر کی خانہ نشینی ...امت مسلمہ کا انحطاط

مولانا سید مشاہد عالم

وہ سنگم جہاں نبوت و امامت کا حسین امتزاج نظر آیا ،وہ نقطہ پرکار جہاں سے رسالت کا اختتام اور امامت کا آغاز ہوا، وہ افق جہاں سے خلافت الٰہیہ کا آفتاب طلوع ہوتا دکھائی دیا اور خلافت حزب شیطان کا سورج غروب ہوا، وہ مطلع جہاں سے راہ مستقیم اور راہ ضلالت جدا ہوئی، اسے ہم سادہ لفظوں میں "غدیر" کہتے ہیں، وہی میدان جہاں سے سارے مسلمانوں کو پیغام اخوت و محبت، برادری و برابری ،عدل وانصاف اور "انتم الاعلون"بشرط"ان کنتم مومنین" سنایا گیا مگر جیسے لگتا ہے تاریخ میں نہ کوئی غدیر ہے نہ ہی پیغمبر کا کوئی خطبہ ۔نہ وحی کا نزول نہ امت کی سرپرستی کا مسئلہ ؛ اس لئے کہ بعد والوں نے عملاً غدیر کو صفحہ حیات سے نکال دیا اور پیمان "الست اولٰی بکم من انفسکم"پر خط بطلان کھینچ دیا۔ اس طرح پیغمبرؐ کی رسالت وحی و نبوت سب کو یکسر جھٹلانے کا ناقابل معافی جرم انجام دیا جس کے قہری نتائج اسی وقت سے ظاہر ہوناشروع ہوگئے سربلند ملت بیضاء نے معصوم پیغمبرؐ کی سرپرستی میں ایک درخشان دور گذارنے کے بعد اپنی نافرمانی و عصیان کی بنا پر ضلالت و گمراہی سے بھری تنگ و غیر الٰہی خلافتوں کے سایہ قعر و ذلت و حقارت میں خود کو گرادیا۔جبکہ لطف خدا، رحمت باری تعالیٰ ان تمام نافرمانیوں کے باوجود علیؑ کی صورت ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے جھوم جھوم کر برسناچاہتی تھی ،مگر بنی اسرائیل کی"انا" وخودی کے نمائندے گویا" من وسلویٰ" الٰہی کو چند بے قیمت غذاؤں سے بدلنے پر بصد رہے۔غدیر کو خانہ نشین ہونا پڑا ،رحمت الٰہی کو عقب نشینی کرنا پڑی، امتحان و ابتلا کا میدان آمادہ ہوگیا سقیفہ کے سرچشمہ مکدر نے آل ابو سفیان کو خلافت الٰہیہ کا مذاق اڑانے ،شریعت محمدی سے کھیلنے ، اسلام کا درخشاں و تابندہ چہرہ مسخ کرنے کا موقع فراہم کردیا ۔لیکن سواد اعظم نے اسلامی منطق بالائے طاق رکھ کر ابھی تک نہیں سوچا ! بلندی سے پستی ،عظمت سے ذلت، جذبہ شہادت و ایثار سے راحت طلبی و دنیا خواہی کے دلدل میں کیسے پھنستے چلے گئے!نافرمانی رسول تو کہیں باعث نہیں بنی؟! معاویہ ویزید کی بے رحمانہ حکومتوں سے لیکر حجاج و چنگیز جیسے سفاکانہ حملے اور افغانستان کی خانما بربادی ،فلسطین کی ویرانی و تاراجی غیر اسلامی ملکوں میں مسلمانوں کی ذلت اور مسلم ملکوں میں استعماری و شیطانی قوتوں کا نفوذ ،ملت مسلمہ کا بے رحمانہ و بہیمانہ قتل عام سب کچھ غدیر سے انحراف اور سچے سرپرست و حقیقی وارث امت سے بغاوت کا بلا شک و تردید نتیجہ ہے۔
جس ملک میں غدیر کی ہلکی سی جھلک بھی پائی گئی ، اس کی قوت ، استحکام، امن و امان، آرام وآسائش،عدالت و مساوات کا چرچا زبان زد عام وخاص ہے حقیقتاً غدیر ساری امت کو اپنے دامن میں لیکر پروان چڑھانا چاہتی تھی ،مسلمانوں کی ایک ایک فرد کودنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ مند کرنے کا عزم مصمم رکھتی تھی مگر اسے اس کے پاک و مقدس ارادہ میں ناکام بنادینے کی کوشش کی گئی اور وفات پیغمبرؐ کے بعد سے اس وقت کی حالت زار ،مسلمانوں کامعاشی ،اجتماعی ، فکری انحطاط سقیفہ و آل ابی سفیان کے انہیں نامقدس عزائم کا نتیجہ ہے۔
شام کی عشوہ گری تا بہ سحر جاتی ہے
کربلا ہو کے سقیفہ پہ نظر جاتی ہے
لہٰذا اب ہم سنجیدگی ، فراخ دلی اور گشادہ روی سے ان اصلاح پسند مسلمانان عالم کو جو دنیائے اسلام کی رقت بار حالات سے پریشان ہو کر نالہ و شیون میں مصرف چارہ جوئی کی تلاش میں ہیں ۔دعوت فکر دیتے ہیں کہ اب موقع اس کا ہے کہ وہ اپنے عقائد میں تجدید نظر کریں اور اسلام کے حقیقی وارث کو تلاش کریں تاکہ قانون الٰہی کا زمین کے چپہ چپہ پر نفاذ ہو سکے اور مسلمان اپنے آنسو کو پونچھ سکیں اور اس کا سیدھا راستہ وہی غدیر کا اعلان عام ہے جس سے انحراف براہ راست پیغمبرؐ سے اعلان جنگ اور خذلان کا سبب ہے کیونکہ پیغمبرؐ ہی نے علیؑ کے حق میں خطبہ غدیر میں فرمایا تھا "اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ" خدایا جوان(علیؑ) سے محبت رکھے تو بھی اسے محبت رکھ اور جوان سے دشمنی رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ اور جو ان کی نصرت کرے تو بھی اس کی مدد فرما اور جو انہیں چھوڑ دے تو بھی اس کے حال پر چھوڑ دے"۔
مقالات کی طرف جائیے